سورۃ المزمل التفسیر المُرقع

اللہ تعالیٰ نے سورۃ المزمل کے آغاز میں اپنے حبیبؐ کو چادر اوڑھنے والے کے خطاب ’’المزمل‘‘ سے نوازا۔

ساہیوال کے ادارہ شعاعِ نور کے سربراہ میاں مراد علی بودلہ نے اس کتاب کو تفسیر بالمناظر اور تفسیر بالالفاظ کا حسین امتزاج قرار دیا ہے۔ مشہور مصور و خطاط سعید احمد بودلہ نے نہ صرف سورہ مزمل کو مصورانہ خطاطی کے رنگ میں ڈھالا ہے بلکہ اس سورہ کی تفسیر بھی مستند حوالوں کے ساتھ تالیف کر دی ہے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسمائے مبارک کی جو تصویر کشی کی ہے۔ اس سے اس کتاب کو مزین کیا ہے۔ شعاعِ نور پبلی کیشنز نے اسے نہایت خوبصورت انداز میں شایع کر کے عام مطالعے کے لیے پیش کیا ہے۔

شیخ الحدیث، جامعہ ہجویرہ، محمد عرفان اللہ اشرفی لکھتے ہیں کہ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کاوش ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ حالات و واقعات اور احکام و مسائل پہلے الفاظ میں پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں، پھر ہر جملے اور آیت پر علیحدہ تصویری خاکے کا پس منظر قاری کی دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے اور وہ دوران مطالعہ ان تصاویر کی مدد سے اپنے آپ کو ان مناظر کے درمیان گھرا ہوا محسوس کرتا ہے اور حیران ہوتا ہے۔ یہ وہ خوبی اور کمال ہے جسے سعید احمد بودلہ صاحب کی ریاضت نے بڑی ہنرمندی سے پیش کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''ظہور اسلام سے آج تک اللہ جل جلالہ کے پاک کلام کی اشاعت اور تزئین و آرائش اہل ایمان کی اولین آرزو رہی ہے، تہذیب کے اس طویل سفر میں اس مقصد کے لیے طرح طرح کے اسالیب اختیار کیے گئے۔ مسلمانوں نے قرآنی خطاطی میں بالخصوص ایسے کارنامے انجام دیے جو آج بھی دنیا کے عجائب خانوں میں مسلمانوں کی علم خطاطی سے وابستگی کی داستان رقم کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ صدیوں سے مسلمانوں کی توجہ کا اہم مرکز چونکہ کلام باری تعالیٰ ہے اس لیے جہاں اس کی ترتیل و تجوید میں غیر معمولی ترقی ہوئی وہاں اس کی خطاطی میں بھی مہارت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ مسلمان اسلامی خطاطی جیسے پاکیزہ فن سے روشناس ہوئے بلکہ ثلث، ریحان اور محقق جیسے رسم الخطوط کو قرآنی آیات سے لافانی بنا دیا۔''


سورۃ المزمل کی مصور تفسیر سعید احمد بودلہ کا ایک شاہکار ہے۔ اس سے ان کے فن اور علم دونوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور حضورؐ سے محبت و عقیدت کا اظہار بھی۔

سورہ مزمل کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ المزمل کے آغاز میں اپنے حبیبؐ کو چادر اوڑھنے والے کے خطاب ''المزمل'' سے نوازا۔ نام کی بجائے مخاطب کی حالت کا ذکر کر کے گفتگو کرنا محبت کا انداز سمجھا جاتا ہے۔ اس انداز محبت کا ذکر احادیث نبویہ میں بھی ملتا ہے۔ امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ ایک مرتبہ گھر والوں سے کچھ رنجیدہ ہوئے تو مسجد میں جا کر لیٹ گئے۔ حضورؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ مسجد میں تشریف لے گئے، ملاحظہ فرمایا کہ جناب علیؓ لیٹے ہیں اور ایک پہلو سے چادر سرکنے کی وجہ سے جسم پر مٹی لگ گئی ہے۔

رسول اللہؐ نے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمایا ''قم یا ابا تُراب! قُم یا ابا تُراب! (اے مٹی کے باپ اٹھ جاؤ)۔ (اے مٹی کے باپ اٹھ جاؤ)۔'' حضرت حذیفہؓ کو حالت نیند سے بیدار کیا تو فرمایا ''قم یا نومان! (اے بہت سونے والے اٹھ جاؤ)۔'' حضرت عبدالرحمن بن صخرؓ اپنی بغل میں ایک بلی لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا ''یا ابا ہریرہؓ! (اے بلی کے باپ)۔'' آج بھی اس صحابی کا یہی نام مشہور ہے۔ اصل نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ان تینوں روایات میں ابا تراب، نومان اور ابا ہریرہ کے خطابات، محبت اور ملاطفت کی غمازی کر رہے ہیں۔

قرآن مجید میں رسول اللہؐ سے خطاب کے لیے جو اسلوب ملاطفت اپنایا گیا وہ آپ کا ہی امتیاز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرامؑ کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں ان کے اصلی ناموں سے پکارا ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے نام ہی خطاب فرمایا ہے۔ رسول اللہؐ کی عظیم الشان صفات کا ذکر فرماتے ہوئے بھی سورہ احزاب میں اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ ''اے نبیؐ! ہم نے آپ کو ''شاہد'' گواہی دینے والا، ''مبشر'' خوشخبری سنانے والا اور ''نذیر'' عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔'' اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہؐ کو اعلیٰ ناموں سے پکارا اور اپنے بندوں کو تلقین فرمائی کہ آپؐ کو بلانا ہو تو اپنے الفاظ و انداز کو مہذب بنا لیا کرو۔ سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ کو بلانے کے لیے وہ انداز اختیار نہ کرو جو تم آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کے لیے اختیار کرتے ہو۔
Load Next Story