حکومت پر منڈلاتے خطرات

وزیراعظم نواز شریف کی دلی خواہش اور پوری کوشش ہے کہ وہ اِ س بار اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سال مکمل کریں۔

mnoorani08@gmail.com

میاں نواز شریف کی دلی خواہش اور پوری کوشش تو یہی ہے کہ وہ اِ س بار اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سال مکمل کریں تا کہ وہ اپنی طے شدہ حکمتِ عملی اور کارکردگی سے پاکستان کے عوام کو مطمئن کر سکیں اور اُس غلط تاثر کو رد کر سکیں جو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اُن کی جماعت کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے کہ اِن دونوں پارٹیوں کو تین تین بار اقتدار نصیب ہوا لیکن وطنِ عزیز اور اُس کے عوام کی حالت زار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔ اِس سے پہلے میاں صاحب کو قوم کی جانب سے دو بار حکومت کرنے کا مینڈیٹ ملا لیکن دونوں بار وہ اپنی مہلت اقتدار پوری نہ کر سکے۔

اِس بار وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح آصف علی زرداری اور اُن کی پارٹی کو اُن کے سابقہ دور میں پانچ سال مکمل کرنے کا بھر پور موقعہ ملا اب اُنہیں بھی یہ موقعہ ضرور ملنا چاہیے۔ اِس کے بعد ہی اُن کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ گرچہ ابھی اُن کے دو سال ہی پورے ہوئے ہیں لیکن اگر کارکردگی کو تعصب اور مخالفت کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو یقینا اُن کی یہ دو سالہ کارکردگی کو پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی سے کئی درجہ بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔

غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور وہ ملکی تاریخ میں پہلی بار 18 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال گزشتہ دس سالوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ضربِ عضب کامیابی سے ہمکنار ہے۔ کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ بھتہ خوری، چوری اور ڈکیتی میں ملوث افراد کے خلاف بھر پور آپریشن جاری ہے۔

ریلوے کا نظام جو گزشتہ دورِ حکومت میں مکمل مخدوش اور ناکارہ ہو کر رہ گیا تھا، اُسے دوبارہ نئی زندگی ملی ہے۔ جو مسافر ٹرینیں کبھی وقت پر نہیں چلا کرتی تھیں وہ اب ٹھیک وقت پر اِسٹیشنوں سے روانہ ہوتی ہیں اور وقت پر منزل پر پہنچتی ہیں۔ ہمیں غلام احمد بلور کی وزارت میں ریلوے کی تباہی بھی اچھی طرح یاد ہے، جب ٹرینوں کو چلانے کے لیے ریلوے کے پاس مطلوبہ مقدار میں ڈیزل ہی نہیں ہو ا کرتا تھا۔ انجنوں کے حالت غیر ہو چکی تھی۔ کوئی ٹرین صحیح حالت میں باقی نہیں بچی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ مسافر جنہوں نے ریل میں سفر کرنا چھوڑ دیا تھا اب واپس ریل کے سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

میاں صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے دیرینہ منصوبے یعنی موٹروے منصوبے پر پھر سے عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ لاہور سے پشاور تک تو یہ منصوبہ مکمل ہو چکا تھا لیکن اِسے اب کراچی اور گوادر تک پہنچانے کے منصوبے کی ابتدا بھی ہو چکی ہے۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں میٹرو بس کی کامیاب سروس کے بعد اب ملتان میں بھی اِس کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔

چائنا کے ساتھ اکنامک کوریڈور کا معاہدہ وہ تاریخی معاہدہ ہے جو اگر مکمل ہو گیا تو ہمارے ملک کی تقدیر بدل ڈالے گا۔ ابھی اُس کی راہ میں بہت سی مشکلیں اور خطرات حائل ہیں۔ بھارت اور ہمارے کئی دشمن یہ نہیں چاہتے کہ یہ معاہدہ تکمیل کے مراحل مکمل کر پائے۔ کیونکہ ایسا اگر ہو گیا تو بھارت کے لیے اِس خطے میں عالمی قوت بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ ہمارے دشمن اِسے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کے لیے وہ بدامنی اور افراتفری پیدا کر کے اِسے ابتدا ہی میں ناکام اور ناقابلِ عمل بنا دینا چاہتے ہیں۔

میاں صاحب کو اپنے ارادوں اور عزائم میں آگے بڑھتا دیکھ کر خود ہمارے یہاں کچھ لوگ اُنہیں اقتدار سے محروم کرنے کے درپے بنے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک ترقی کرے اور یہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ گزشتہ سال الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا طوفان کھڑا کر کے جو غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی گئی تھی وہ بھی کسی ایسی ہی سازش کا شاخسانہ تھی۔


ایک ایسا شخص جس نے 2013ء کے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا وہ بھی اِس فرضی ایشو پر کفن باندھ کر کینیڈا سے چل پڑا تھا اور مارو مر جاؤ کے نعروں سے حکومت کا دھڑن تختہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ دھرنے سے ناکام واپس نہ آنے کا تہیہ کرنے والا پھر اچانک بیماری کا بہانہ کر کے بیرونِ ملک روانہ جاتا ہے۔ وہ جو بقول خود اُس کے اپنے کہ وہ اپنا ہر سامان کینیڈا سے لے آیا ہے پھر سات مہینے کے لیے امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کی یاترا پر نکل جاتا ہے۔ اب وہ ایک بار پھر دما دم مست قلندر اور ہلّا گلّا مچانے پاکستان پہنچ گیا ہے۔

ادھر خان صاحب بھی 2015ء کو الیکشن کا سال قرار دے چکے ہیں اور اپنے اِس دعوے کوسچ ثابت کرنے کے لیے وہ کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پیر ماریں گے ہی۔ ویسے بھی اُنہیں یہ ڈر اور خوف لاحق ہے کہ چونکہ جوڈیشل کمیشن میں وہ منظم دھاندلی کے اپنے الزامات کو ثابت نہیں کر پائے ہیں اور نتیجہ اُن کے حق میں آتا نہیں دکھائی دے رہا اِس لیے وہ ایک نئی سازش کے تانے بانے بن کر اپنے ساتھ اِس بار مولانا طاہرالقادری کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی شامل کرنے کی کوشش ضرور کرینگے۔

ویسے بھی آصف علی زرداری اور میاں صاحب کے بیچ سیاسی مفاہمت، دوستی اور محبت میں اب وہ تاثیر اور شدت باقی نہیں رہی ہے جو گزشتہ برس دیکھی گئی تھی۔ زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی حالیہ شعلہ بیانی کے بعد میاں صاحب کی جانب سے ملاقات سے انکار کو بظاہر خاموشی سے ہضم تو کر گئے ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے جوابی وار کو کسی مناسب وقت پر یقینا چھوڑ رکھا ہے۔ لہذا آیندہ اگر میاں صاحب کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق ہو ا تو زرداری صاحب اُن کو بچانے والوں میں نہیں بلکہ اُن کے مخالفوں کی صفوں میں دکھائی دیں گے۔

ادھر کراچی میں ایم کیو ایم بھی اپنے خلاف ہونے والے آپریشن پر انتہائی برہم اور نالاں ہے جس کا اظہار وہ آئے دن کرتی رہتی ہے۔ وہ رینجرز اور اسٹیبلشمنٹ کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتی لیکن میاں صاحب کو موردِ الزام تو ضرور دے سکتی ہے۔ اِن کے علاوہ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی سمیت شاید ہی کوئی ایسی پارٹی ہو جو جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کی حکومت کو بچانے کے لیے مشکل وقت میں اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا میاں صاحب کی حکومت کو لاحق خطرات بڑھتے جائیں گے۔

اِس لیے اب میاں صاحب کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اُنہیں عوام کی بہتری کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ عوام ہی ہیں جو اُنہیں سازشوں سے بچا سکتے ہیں۔ عوام الناس کے سکھ چین کے لیے اُنہیں تدابیر اختیارکرنی ہوں گی۔ یہ بجلی کا معاملہ کوئی آسان اور معمولی نہیں ہے۔ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام سڑکوں پر اگر آ گئے تو پھر اپوزیشن کا کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔ یہ دسمبر2017ء کی باتیں صرف اپنا وقت پورا کرنے کے لیے تو کہی جا سکتی ہیں عوام کو مصائب سے نجات دلانے کے لیے نہیں۔ ہم اِس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی ایسے وعدے کرتا دیکھ چکے ہیں۔

اُس نے اپنے پانچ سال پورے کر لیے لیکن بجلی کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔ موجودہ حکومت نے گرچہ ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ عوامی بھلائی کے منصوبوں کی بھی ابتدا کی ہے لیکن اصل مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہی کا ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا حکومت کے سر پر خطرات ہر وقت منڈلاتے رہیں گے۔ اُسے اگر عوام کے سامنے سرخرو ہونا ہے، تو سب سے پہلے اِسی مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔ اِسی کو بنیاد بنا کر اُس نے 2013ء کا الیکشن جیتا تھا۔ اگر وہ یہ مسئلہ حل نہ کر پائی تو اُس کا حال بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیسا ہو سکتا ہے۔ اِس لیے سمجھداری اور عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ سارے کاموں کو چھوڑ کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر توجہ مرکوز کی جائے اور اِسے 2017ء تک طول نہ دیا جائے۔
Load Next Story