بس روزے پورے ہونے دیں
پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ماضی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی۔
کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں لیکن کھیل ہمیشہ پرانا ہی رہتا ہے۔ تمام کھلاڑیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا کتنا چلے گا اور مہرے میں کتنے قدم چلنے کی ہمت ہے۔ کوئی بھی چال نئی نہیں ہوتی۔ جب سے یہ کھیل بنا ہے ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی کھلاڑی یہ دعوی کر سکے کہ اُس نے یہ نئی چال کھیلی ہے۔ مگر جذباتی کھلاڑی اپنی ہر چال کو اپنا شاہکار قرار دیتا ہے۔ اور تما م مہرے ہنس رہے ہوتے ہیں کہ یہ نیا کھلاڑی سمجھتا ہے کہ اُس نے بہت بڑا کام انجام دیا ۔ جو لوگ تمام کھلاڑیوں کا گیم دیکھ چکے ہوتے ہیں انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگلی چال کیا ہو سکتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں بھی کچھ عرصے کے بعد نیا کھلاڑی میدان میں کود کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو چال چل رہا ہے وہ اُس کے علاوہ آج تک کسی نے نہیں چلی ہے۔لیکن جو دل کا حال جانتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ایک بار پھر پرانی بساط پر نئے کھلاڑیوں کے ساتھ وہ ہی سب کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہو چکا ہے ۔ہمارے میڈیا میں کچھ دنوں سے پھر ایک شور مچا ہوا ہے ۔ اور کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید ہمارے ملک کے میڈیا پر تو کسی کو اعتبار نہیں ہے جو کسی کے دباؤ میں آسکتا ہے لیکن باہر کا میڈیا تو جنت سے آیا ہوا ہے ۔
وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ کبھی کسی کے مفاد کے لیے کام نہیں کرتا جو کبھی ایجنڈا سیٹ نہیں کرتا ۔لیکن دوسری طرف یہ دیکھیں کہ پاکستان کے تجربہ کار سیاسی لوگ اُسے ایک اور سازش کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اسی لیے اس رپورٹ پر پاکستان کی سیاست کے بڑے لیڈروں کے بیانات نہیں آئے ۔
آئیے آپ کو ماضی میں لے جاتا ہوں تو آپ کو سمجھ آجائیگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، نواز شریف صاحب اور متحدہ اس سارے معاملے کو کس طرح سے دیکھ رہی ہے۔ باہر کے میڈیا میں اس طرح کی خبریں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان تینوں جماعتوں کے متعلق وہاں خبریں لگی ہیں اور عین اُس وقت لگی ہیں جب یہ جماعتیں کسی اہم موڑ پر ہوتی ہیں۔ نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بار حکومت میں آئی تھی۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی۔
اس صورت میں یہ لوگ کئی جگہوں پر دوسروں کے ہاتھوں میں استعمال بھی ہوئے۔ اس لیے اب ہر خبر سے پہلے یہ اس بات کی جانچ کرتے ہیں کہ یہ کہی سازش تو نہیں ہے اور وہ کسی کے ہاتھ پر استعمال نہ ہو جائیں ۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں اسحاق خان کے جانے کے بعد فاروق لغاری صدر بن چکے تھے۔ ایک سال گزرنے کے بعد اب پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ایک بار پھر خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔ اور نواز شریف کا راستہ ایک بار پھر اُن کی گلی کی طرف جا رہا تھا۔
پیپلز پارٹی کے خلاف نواز شریف صاحب ، JUP، ANP اور جمعیت اہلحدیث کو اپنے ساتھ ملا چکے تھے۔ کراچی میں اسی طرح کا آپریشن چل رہا تھا جیسے کہ آج کل چل رہا ہے۔ اور پیپلز پارٹی کراچی میں ایک سخت آپریشن کو جاری رکھنے کا اصرار کر رہی تھی ۔ 1994 ء میں اگست کا مہینہ تھا الطاف حسین نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کو ایک کھلا خط لکھا جس میں وہ ہی بات تھی جو آج کل آپ اخبار میں پڑھ رہے ہیں، انھی دنوں نواز شریف لندن گئے اور الطاف حسین سے ملاقات کی اور انھیں یقین دلایا کہ اگر وہ اُن کا تحریک نجات میں ساتھ دے تو اُن کی ساری شرائط مان لی جائے گی۔ MQM کا کہنا یہ تھا کہ ایک بار آپ کی بات مانی تھی لیکن اُس کے بعد آپریشن ہو گیا ۔ خیر یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ۔ لیکن نواز شریف نے اعلان کر دیا کہ بھرپور طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف ستمبر سے تحریک نجات شروع کی جائے گی ۔
نواز شریف نے تحریک نجات کا پہلا مرحلہ 11 ستمبر کو کراچی میں مزار قائد سے شروع کیا ۔جہاں سے وہ حیدرآباد میں روکتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ جہاں اُن کا شاندار استقبال ہوا۔ ایک دن کا بریک لے کر وہ 13 ستمبر کو پشاور کے لیے روانہ ہوئے ۔ ادھر امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' نے ایک خبر چھاپ دی ۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے متنازعہ انٹرویو دیا تھا۔ یہ خبر کیوں کہ ایک امریکی میڈیا نے دی تھی اس لیے پاکستانی یہ ہی سمجھے کہ وہ تو کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکتے ۔ جیسے کہ آج کل بی بی سی کے لیے کہا جارہا ہے ۔ اس خبر کو اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے بار بار PTV پر دیکھانا شروع کر دیا۔ اس کا پہلا نقصان نواز شریف کو یہ ہوا کہ اُن کو اب وضاحتیں دینا پڑ گئی ۔ تحریک تجات پر اس کا فوری اثر پڑا ۔ نواز شریف سمجھ گئے کہ یہ گیم کچھ اور ہے ۔
لیکن شاید نواز شریف اُس وقت سب سمجھتے ہوئے بھی سمجھ نہیں پائے تھے انھوں نے 13 ستمبر کو اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ من گھڑت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے کوئی انٹرویو دیا ہی نہیں ہے۔ اور جس صحافی نے یہ رپورٹ شایع کی ہے اُن سے ایک رسمی سی ملاقات ہوئی ہے۔
سوال یہ تھا کہ یہ انٹرویو مارچ یا مئی میں اگر ہوا تھا تو اسے ستمبر میں عین اُس وقت کیوں چھاپا گیا جب نواز شریف نے تحریک کا آغاز کیا تھا۔ پہلا شک یہ تھا کہ یہ رپورٹ جان بوجھ کر پیپلز پارٹی نے چھپوائی ہے تا کہ اس کے ذریعہ نواز شریف کو بدنام کیا جا سکے۔ دوسرا خیال یہ تھا کہ یہ امریکا کی مرضی و منشا سے چھاپی گئی ہے تا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اُس وقت امریکا نے اس کی تردید کر دی تھی۔ جس طرح اس وقت چوہدری نثار نے بی بی سی کی رپورٹ پر بیان دیا ہے اُسی طرح اُس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے کہا تھا کہ ہم انٹرویو کا ثبوت ملنے کے بعد ہی کوئی کارروائی کرینگے ۔ جنرل اسلم بیگ نے کہا کہ یہ بدنام کرنے کے لیے امریکا کی سازش ہے ۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے سیاست دان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کھلاڑیوں نے اپنی بوریوں میں بہت سی فائیلں دبا کر رکھی ہوئی ہے۔ اور انھیں معلوم ہے کہ کب کس کی فائل منظر پر لانی ہے۔ اسی لیے پرانے کھلاڑی اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ بی بی سی کی اسٹوری کہاں سے اور کیوں آئی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جو لوگ سارا کھیل بنا رہے ہیں وہ چاہتے کیا ہیں؟ اس ملک میںہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہر سطح پر اقتدار اور اختیار کا کھیل جاری ہے۔ کسی کو اختیار چاہیے اور کسی کو اقتدار تو کسی کو دونوں چیزیں چاہیے۔ اس اختیار کو مزید بڑھانے کے لیے ایک نفسیاتی جنگ جاری ہے جس کا ایک چھوٹا سا حصہ بی بی سی کی رپورٹ کی ٹائمنگ ہے۔ اگلا ٹائم کس کا آ رہا ہے یہ دیکھنا ہے۔ بس روزے پورے ہونے دیں۔