شاباش پاکستان کرکٹ ٹیم
ہاکی سے دکھی قوم کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے
پیرکے دن کی ہی بات ہے، پالی کیلی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پاکستان نے 13 رنز پر 2 وکٹیں گنوا دیں تو سب کا یہ خیال تھا کہ اب سیریز ہاتھ سے گئی، بورڈ آفیشلزکی ہوائیاں اڑ گئیں۔
شائقین بھی ٹیم کو برا بھلا کہنے لگے، ناقدین نے چھریاں تیز کر لیں، سب اپنے اپنے ٹارگٹ تلاش کرنے لگے، کسی نے یونس تو کوئی مصباح کو آڑے ہاتھوں لینے کیلیے تیار بیٹھا ہوگا، ایسے میں وہ ہوا جس کی کسی کو توقع نہ تھی، جب شان مسعود نے یونس خان کے ساتھ شراکت بنائی اس وقت بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے چراغ بجھنے سے پہلے تیز ہوا ہے۔
مگر پھر جب دونوں نے آؤٹ ہونے کا نام ہی نہ لیا اور شاندار سنچریاں بنا دیں تو اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دینے لگی، وہ لوگ جو مایوس ہو کر ٹی وی سیٹ آف کر چکے تھے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، چوتھے روز ریکارڈ 217رنز کی شراکت کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا،اپنی بیٹنگ کا پتا تھا کبھی بھی اس پر خزاں کا موسم چھا سکتا ہے جب سوکھے پتوں کی طرح وکٹیں گرنے لگتی ہیں، آخری دن جب شان مسعود ابتدا میں ہی وکٹ گنوا بیٹھے تو خدشات مزید بڑھ گئے، مگر یونس کے انہماک میں کوئی فرق نہ آیا، وہ تہیہ کر کے آئے تھے کہ ٹیم کو جتوائے بغیر واپس نہ جائیں گے۔
مصباح پوری سیریزمیں ناکام رہے، ان کے لیے بھی کچھ کر دکھانے کا آخری موقع تھا، وہ 41برس کے ہونے والے اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کم رنز بنائے تو ٹی وی پر تبصروں کا عارضی معاہدہ مستقل بھی کرنا پڑ سکتا ہے، انھوں نے بھی اپنی پوری صلاحیتیں جھونک دیں اور پھر انہونی ہونی میں بدل گئی، پاکستان نے 377 کا ہدف عبور کر کے تاریخ رقم کر دی، اس کا زیادہ کریڈٹ یونس خان کو جاتا ہے، وہ ٹیم مین اور ان کیلیے ہر وقت پاکستان کی عظمت اہم ہوتی ہے، سخت گرمی کے باوجود یونس روزے رکھ کر ٹیسٹ میچز کھیلتے ہیں۔
گوکہ انھوں نے کیریئر میں کئی زبردست اننگز کھیلیں لیکن یہ ناقابل شکست 171رنز ہمیشہ یاد رہیں گے،مصباح نے بھی نصف سنچری بنا کر بھرپور ساتھ نبھایا، انھوں نے میچ سے قبل کی اپنی بات درست ثابت کر دی کہ ''یونس اور مجھ پر بڑی اننگز کا قرض ہے جو اس ٹیسٹ میں چکا دیں گے''۔ 9 سال بعد پاکستان نے سری لنکا کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز ہرائی جس سے کپتان کے کریڈٹ پر ایک اور بڑی فتح آ گئی، ان دنوں اسپورٹس شائقین قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی پر سخت نالاں ہیں، ایسے میں اگر خدانخواستہ کرکٹ سیریز بھی ہاتھ سے نکل جاتی تو لوگ مزید بددل ہوتے، ٹیم عوام کے مرجھائے چہروں پر پھر سے مسکراہٹ واپس لے آئی، ایسے میں ہمیں شان مسعود کو نہیں بھولنا چاہیے۔
وہ ٹیم میں کیسے شامل ہوئے اب اس پر بات کرنے کا فائدہ نہیں مگر انھوں نے عمدہ بیٹنگ سے پاکستانی فتح میں اہم کردار نبھایا، احمد شہزاد اور اظہر علی کے جلد آؤٹ ہونے سے ٹیم دباؤ میں آ چکی تھی مگر اس کے باوجود نوجوان بیٹسمین نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے، حفیظ بولنگ ایکشن کی وجہ سے پریشان ہیں، ایسے میں ان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ تو فی الحال خطرے میں آ چکی ہے، گوکہ پاکستان کو کئی ماہ تک مزید کوئی پانچ روزہ میچ نہیں کھیلنا مگر اب ایکشن کلیئر ہونے کے باوجود بھی حفیظ کیلیے ٹیسٹ میں کم بیک آسان نہ ہوگا۔
پالے کیلی ٹیسٹ کا ٹرننگ پوائنٹ عمران خان کی 5 وکٹیں تھیں، ان کی اسپیڈ اتنی زیادہ نہیں جبکہ بولنگ ایکشن عمر گل سے مشابہہ ہے، سوشل میڈیا پر ازرائے مذاق انھیں ''چائنا کا عمر گل'' بھی کہا جا رہا تھا، مگر عمران نے عمدہ اسپیل سے پاکستان کو فتح کی آس دلائی،سری لنکا کا اسکور ایک وقت میں 5 وکٹ پر 278رنز تھا،اگر عمران6 اوورز میں 5 وکٹیں نہ لیتے تو ٹیم مزید رنز بنا کر پاکستان کیلیے ہدف کا حصول دشوار کردیتی، پیسر کی عمدہ بولنگ نے آخری 5پلیئرز کو 35ہی رنز جوڑنے دیے،وہاب ریاض کی عدم موجودگی میں کسی فاسٹ بولر کی عمدہ کارکردگی قابل داد ہے۔
سیریز کے ہیرو بلاشبہ یاسر شاہ ہیں، لیگ اسپنر نے تینوں میچز میں میزبان بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا، اسی وجہ سے صرف 19.33 کی اوسط سے 24 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک میچ میں تو پوری سری لنکن ٹیم انھوں نے ٹھکانے لگائی اور چار وکٹیں الگ ہیں، ان کے بعد زیادہ وکٹیں (6) ذوالفقار بابر کی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یاسر اور دیگر بولرز کے کھیل میں کتنا فرق رہا، راحت علی، احسان عادل اور جنید خان توقعات پر پورا نہ اتر سکے، پیس اٹیک میں پاکستان کو ابھی مزید ٹیلنٹ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلی اننگز میں اظہر علی کی نصف سنچری کے بعد سرفراز احمد نے بھی ذمہ دارانہ78رنز ناٹ آؤٹ بنائے، اگر کوئی کھلاڑی ان کا ساتھ دیتا تو وہ سنچری بھی مکمل کر سکتے تھے، سرفراز بڑی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں، البتہ وکٹ کیپنگ میں انھیں مزید محنت کرنا ہوگی، دوسری اننگز میں گوکہ انھوں نے چار کیچز لیے مگر بعض اوقات سست بھی دکھائی دیے، شاید بیٹنگ پر زیادہ توجہ نے ان کی وکٹ کیپنگ پر تھوڑا اثر ڈالا ہے، سیریز میں اسد شفیق نے ایک سنچری بنائی جبکہ اظہر کا کھیل بھی اچھا رہا،حفیظ اور احمد شہزاد کو بہتری لانا پڑے گی ورنہ مسائل منتظر ہوں گے۔
کپتان مصباح اور یونس نے پوری سیریز میں ناکامی کا ازالہ ایک اچھی اننگز سے کر دیا، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹیم کی کارکردگی اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہی، پہلے ٹیسٹ میں فتح کے بعد دوسرے میں ناکامی ہوئی پھر تیسرا میچ ہارتے ہارتے جیتا، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ''اختتام اچھا تو سب اچھا'' ، اسی لیے ہمیں بھی ٹیم کی فتح سے لطف اندوز ہونا چاہیے، ون ڈے رینکنگ میں ہم نویں نمبر پر آ چکے مگر ٹیسٹ میں تیسری پوزیشن کا حصول بہت بڑا کارنامہ ہے، اس پر یونس، یاسر، شان سمیت تمام کھلاڑی داد کے مستحق ہیں، یونس ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، وہ اب جاوید میانداد کے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز کے ریکارڈ کو بھی قبضے میں کرنے والے ہیں۔
بورڈ کو چاہیے کہ ان کی خدمات کا اعتراف کرے، انھیں خالی شیلڈ دے کر نہ ٹرخایا جائے بلکہ ایسا انعام دینا چاہیے کہ دیگر کھلاڑیوں کو بھی ان جیسی کارکردگی دکھانے کی تحریک ملے۔ ٹیسٹ سیریز کی صورت میں ٹیم نے ایک معرکہ سر کر لیا اب ون ڈے میں بھی عمدہ کھیل پیش کرنا ہوگا،چیمپئنز ٹرافی میں شمولیت داؤ پر لگی ہوئی ہے، فتح سے گرین شرٹس اپنا کیس مضبوط کر لیں گے،امید ہے کہ قوم کو خوشیاں دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
شائقین بھی ٹیم کو برا بھلا کہنے لگے، ناقدین نے چھریاں تیز کر لیں، سب اپنے اپنے ٹارگٹ تلاش کرنے لگے، کسی نے یونس تو کوئی مصباح کو آڑے ہاتھوں لینے کیلیے تیار بیٹھا ہوگا، ایسے میں وہ ہوا جس کی کسی کو توقع نہ تھی، جب شان مسعود نے یونس خان کے ساتھ شراکت بنائی اس وقت بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے چراغ بجھنے سے پہلے تیز ہوا ہے۔
مگر پھر جب دونوں نے آؤٹ ہونے کا نام ہی نہ لیا اور شاندار سنچریاں بنا دیں تو اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دینے لگی، وہ لوگ جو مایوس ہو کر ٹی وی سیٹ آف کر چکے تھے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، چوتھے روز ریکارڈ 217رنز کی شراکت کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا،اپنی بیٹنگ کا پتا تھا کبھی بھی اس پر خزاں کا موسم چھا سکتا ہے جب سوکھے پتوں کی طرح وکٹیں گرنے لگتی ہیں، آخری دن جب شان مسعود ابتدا میں ہی وکٹ گنوا بیٹھے تو خدشات مزید بڑھ گئے، مگر یونس کے انہماک میں کوئی فرق نہ آیا، وہ تہیہ کر کے آئے تھے کہ ٹیم کو جتوائے بغیر واپس نہ جائیں گے۔
مصباح پوری سیریزمیں ناکام رہے، ان کے لیے بھی کچھ کر دکھانے کا آخری موقع تھا، وہ 41برس کے ہونے والے اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کم رنز بنائے تو ٹی وی پر تبصروں کا عارضی معاہدہ مستقل بھی کرنا پڑ سکتا ہے، انھوں نے بھی اپنی پوری صلاحیتیں جھونک دیں اور پھر انہونی ہونی میں بدل گئی، پاکستان نے 377 کا ہدف عبور کر کے تاریخ رقم کر دی، اس کا زیادہ کریڈٹ یونس خان کو جاتا ہے، وہ ٹیم مین اور ان کیلیے ہر وقت پاکستان کی عظمت اہم ہوتی ہے، سخت گرمی کے باوجود یونس روزے رکھ کر ٹیسٹ میچز کھیلتے ہیں۔
گوکہ انھوں نے کیریئر میں کئی زبردست اننگز کھیلیں لیکن یہ ناقابل شکست 171رنز ہمیشہ یاد رہیں گے،مصباح نے بھی نصف سنچری بنا کر بھرپور ساتھ نبھایا، انھوں نے میچ سے قبل کی اپنی بات درست ثابت کر دی کہ ''یونس اور مجھ پر بڑی اننگز کا قرض ہے جو اس ٹیسٹ میں چکا دیں گے''۔ 9 سال بعد پاکستان نے سری لنکا کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز ہرائی جس سے کپتان کے کریڈٹ پر ایک اور بڑی فتح آ گئی، ان دنوں اسپورٹس شائقین قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی پر سخت نالاں ہیں، ایسے میں اگر خدانخواستہ کرکٹ سیریز بھی ہاتھ سے نکل جاتی تو لوگ مزید بددل ہوتے، ٹیم عوام کے مرجھائے چہروں پر پھر سے مسکراہٹ واپس لے آئی، ایسے میں ہمیں شان مسعود کو نہیں بھولنا چاہیے۔
وہ ٹیم میں کیسے شامل ہوئے اب اس پر بات کرنے کا فائدہ نہیں مگر انھوں نے عمدہ بیٹنگ سے پاکستانی فتح میں اہم کردار نبھایا، احمد شہزاد اور اظہر علی کے جلد آؤٹ ہونے سے ٹیم دباؤ میں آ چکی تھی مگر اس کے باوجود نوجوان بیٹسمین نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے، حفیظ بولنگ ایکشن کی وجہ سے پریشان ہیں، ایسے میں ان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ تو فی الحال خطرے میں آ چکی ہے، گوکہ پاکستان کو کئی ماہ تک مزید کوئی پانچ روزہ میچ نہیں کھیلنا مگر اب ایکشن کلیئر ہونے کے باوجود بھی حفیظ کیلیے ٹیسٹ میں کم بیک آسان نہ ہوگا۔
پالے کیلی ٹیسٹ کا ٹرننگ پوائنٹ عمران خان کی 5 وکٹیں تھیں، ان کی اسپیڈ اتنی زیادہ نہیں جبکہ بولنگ ایکشن عمر گل سے مشابہہ ہے، سوشل میڈیا پر ازرائے مذاق انھیں ''چائنا کا عمر گل'' بھی کہا جا رہا تھا، مگر عمران نے عمدہ اسپیل سے پاکستان کو فتح کی آس دلائی،سری لنکا کا اسکور ایک وقت میں 5 وکٹ پر 278رنز تھا،اگر عمران6 اوورز میں 5 وکٹیں نہ لیتے تو ٹیم مزید رنز بنا کر پاکستان کیلیے ہدف کا حصول دشوار کردیتی، پیسر کی عمدہ بولنگ نے آخری 5پلیئرز کو 35ہی رنز جوڑنے دیے،وہاب ریاض کی عدم موجودگی میں کسی فاسٹ بولر کی عمدہ کارکردگی قابل داد ہے۔
سیریز کے ہیرو بلاشبہ یاسر شاہ ہیں، لیگ اسپنر نے تینوں میچز میں میزبان بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا، اسی وجہ سے صرف 19.33 کی اوسط سے 24 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک میچ میں تو پوری سری لنکن ٹیم انھوں نے ٹھکانے لگائی اور چار وکٹیں الگ ہیں، ان کے بعد زیادہ وکٹیں (6) ذوالفقار بابر کی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یاسر اور دیگر بولرز کے کھیل میں کتنا فرق رہا، راحت علی، احسان عادل اور جنید خان توقعات پر پورا نہ اتر سکے، پیس اٹیک میں پاکستان کو ابھی مزید ٹیلنٹ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلی اننگز میں اظہر علی کی نصف سنچری کے بعد سرفراز احمد نے بھی ذمہ دارانہ78رنز ناٹ آؤٹ بنائے، اگر کوئی کھلاڑی ان کا ساتھ دیتا تو وہ سنچری بھی مکمل کر سکتے تھے، سرفراز بڑی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں، البتہ وکٹ کیپنگ میں انھیں مزید محنت کرنا ہوگی، دوسری اننگز میں گوکہ انھوں نے چار کیچز لیے مگر بعض اوقات سست بھی دکھائی دیے، شاید بیٹنگ پر زیادہ توجہ نے ان کی وکٹ کیپنگ پر تھوڑا اثر ڈالا ہے، سیریز میں اسد شفیق نے ایک سنچری بنائی جبکہ اظہر کا کھیل بھی اچھا رہا،حفیظ اور احمد شہزاد کو بہتری لانا پڑے گی ورنہ مسائل منتظر ہوں گے۔
کپتان مصباح اور یونس نے پوری سیریز میں ناکامی کا ازالہ ایک اچھی اننگز سے کر دیا، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹیم کی کارکردگی اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہی، پہلے ٹیسٹ میں فتح کے بعد دوسرے میں ناکامی ہوئی پھر تیسرا میچ ہارتے ہارتے جیتا، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ''اختتام اچھا تو سب اچھا'' ، اسی لیے ہمیں بھی ٹیم کی فتح سے لطف اندوز ہونا چاہیے، ون ڈے رینکنگ میں ہم نویں نمبر پر آ چکے مگر ٹیسٹ میں تیسری پوزیشن کا حصول بہت بڑا کارنامہ ہے، اس پر یونس، یاسر، شان سمیت تمام کھلاڑی داد کے مستحق ہیں، یونس ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، وہ اب جاوید میانداد کے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز کے ریکارڈ کو بھی قبضے میں کرنے والے ہیں۔
بورڈ کو چاہیے کہ ان کی خدمات کا اعتراف کرے، انھیں خالی شیلڈ دے کر نہ ٹرخایا جائے بلکہ ایسا انعام دینا چاہیے کہ دیگر کھلاڑیوں کو بھی ان جیسی کارکردگی دکھانے کی تحریک ملے۔ ٹیسٹ سیریز کی صورت میں ٹیم نے ایک معرکہ سر کر لیا اب ون ڈے میں بھی عمدہ کھیل پیش کرنا ہوگا،چیمپئنز ٹرافی میں شمولیت داؤ پر لگی ہوئی ہے، فتح سے گرین شرٹس اپنا کیس مضبوط کر لیں گے،امید ہے کہ قوم کو خوشیاں دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔