بیٹی کے ساتھ ایک سیلفی
درحقیقت مودی سرکار کو اس مہم سے آگے بڑھ کران معاشرتی رویوں کا تدارک کرنا ہوگا جسکی وجہ سے لوگ بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے ایک نئی مہم کا اعلان کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ہندوستانی اپنی بیٹیوں کی ساتھ سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کریں۔ اس مہم کا مقصد قدامت پسند ہندو معاشرے میں بچیوں کے قبل از پیدائش قتل عام کی روک تھام کرنا ہے۔ ہندوستان کی ریاست ہریانہ بیٹیوں کی قبل از ولادت قتل میں سب سے زیادہ بدنام ہے اور اِس وقت ہریانہ میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی شرح آٹھ سو ہے۔ اسی ریاست کے ایک گائوں کی سر پنچ نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر اس کے ساتھ سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کی جس کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم نے پورے ملک میں لڑکیوں کی جان بچانے اور ان کے قتل عام کی روک تھام کے لئےSelfieWithDaughter# مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں بیٹیوں سے محبت کے جذبہ کو پروان چڑھایا جائے۔
بیٹیاں تو رحمت اور گھر کی رونق سمجھی جاتی ہیں، انسانی معاشرے میں حسن اور فطرت کے رنگ عورت کی بدولت ہیں۔ بیٹی والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، انسانی معاشرے جہاں تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہیں وہیں خاندانی نظام، قوانین فطرت اورانسانی اقدار تنزلی کی جانب جا رہی ہیں، پڑوسی ملک ہندوستان جس کی جمہوریت کے ڈنکے سارے عالم میں بجائے جا رہے ہیں، جو نعروں کی حد تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ ابھی بھی زمانہ قدیم کی رسوم کی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں دنیا کی تیز ترین رفتار سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے دعویدار ہندوستان میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے شرمناک رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش سے قبل ہی اسے اسقاط حمل کے ذریعے مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ذی روح دنیا میں سانس لے بھی لے تو پھر اُس کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ لیکن ان تمام امور کے باوجود بھی کوئی روح دنیا میں سانس لینے کی جسارت کرلے تو اس کو طعنے دے دے کر ماردیا جاتا ہے۔ کبھی والدین کی جانب سے نکمی، نکھٹو اور فالتو کے طعنے اور کبھی معاشرے کے درندہ صفت انسانوں کی لالچی نظریں اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ اگر اس کی قسمت میں سسرال ہے تو وہاں تشدد اور تنقید کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
بھارت میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ بھارت کے تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 40 فیصد سے زائد عورتوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار کھانی پڑی ہے۔ یہ سروے ملک کے 28 ریاستوں میں کیا گیا جس میں 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد خواتین سے سوالات پوچھے گئے تھے۔ سروے کے مطابق 75 ہزار مردوں سے بھی سوالات پوچھے گئے جن میں سے 51 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے میں کوئی خرابی یا قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت نے 2005 میں ایک قانون بھی بنایا تھا لیکن اس سے عورتوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2014ء کے دوران عورتوں سے جنسی زیادتی کے 30,642 واقعات پیش آئے۔ ریپ یا جنسی زیادتی کا سوال بھارت میں ایک عرصے سے عوام کے شعور میں کسی آتش فشاں کے لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے جنسی زیادتی کے مجرموں کو قانون کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔ معاشرے کا رویہ بھی فرسودہ اور اکثر قابل مذمت رہا ہے۔ ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر قانون سازی نہیں کی کئی۔
شاید یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار کی جانب سے SelfieWithDaughter# کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جسے پورے ملک میں سراہا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانی عوام نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ سیلفیاں بنا کر اپ لوڈ کیں۔ لیکن اسی مہم کے دوران انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اداکارہ شروتی سیٹھ نے وزیر اعظم کی مہم پر تنقید کی۔ شروتی کے بقول اسے یہ خیال نہیں بھایا کیونکہ جس شخص کو تبدیلی کا نیا دور لانے والا کہا جا رہا ہے، اس سے ایسی چھوٹی اور سطحی مہمات کی نہیں بلکہ کچھ ٹھوس کرنے کی اُمید کرنی چاہئے تھی۔
بس شروتی کی جانب سے یہ تنقید کرنے کی دیر تھی اور جیسے اُس کے خلاف نفرت آمیز ٹوئٹس کا طوفان برپا ہوگیا، طرح طرح کی الزام تراشیاں کی گئیں۔ جس کے بعد مجبوراً شروتی کو وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھنا پڑا جس میں وہ رقم طراز ہیں کہ
معاملہ یہاں نہیں رُکتا بلکہ گجرات کی ایک خاتون نشرعین جعفری نے بھی ایک سیلفی اپ لوڈ کی، مذکورہ خاتون کے والد احسان جعفری کو گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران قتل کردیا گیا تھا جس کے بارے میں ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے نریندر مودی کا ہاتھ تھا۔ نشرعین جعفری نے اپنے باپ کے ساتھ سیلفی شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تصویر آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گی۔
فوٹو:فیس بُک
اِس طرح کے واقعات کے بعد نریندر مودی کی یہ مہم ناکامی کی جانب جاتی نظر آرہی ہے لیکن یقیناً یہ ایک اچھا اقدام ہے، ہندوستان کے لوگوں کی بیٹیوں کے ساتھ محبت میں اضافہ کرنے کے لئے ایسے اقدامات یقیناً لائق تحسین ہیں لیکن مودی سرکار کو ان معاشرتی رویوں کا تدارک کرنا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں، عورت کوعزت اور تحفظ دلانے کے لئے موثر قانون سازی کرنا ہوگی اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی ضروری ہے۔
[poll id="528"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بیٹیاں تو رحمت اور گھر کی رونق سمجھی جاتی ہیں، انسانی معاشرے میں حسن اور فطرت کے رنگ عورت کی بدولت ہیں۔ بیٹی والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، انسانی معاشرے جہاں تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہیں وہیں خاندانی نظام، قوانین فطرت اورانسانی اقدار تنزلی کی جانب جا رہی ہیں، پڑوسی ملک ہندوستان جس کی جمہوریت کے ڈنکے سارے عالم میں بجائے جا رہے ہیں، جو نعروں کی حد تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ ابھی بھی زمانہ قدیم کی رسوم کی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں دنیا کی تیز ترین رفتار سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے دعویدار ہندوستان میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے شرمناک رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش سے قبل ہی اسے اسقاط حمل کے ذریعے مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ذی روح دنیا میں سانس لے بھی لے تو پھر اُس کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ لیکن ان تمام امور کے باوجود بھی کوئی روح دنیا میں سانس لینے کی جسارت کرلے تو اس کو طعنے دے دے کر ماردیا جاتا ہے۔ کبھی والدین کی جانب سے نکمی، نکھٹو اور فالتو کے طعنے اور کبھی معاشرے کے درندہ صفت انسانوں کی لالچی نظریں اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ اگر اس کی قسمت میں سسرال ہے تو وہاں تشدد اور تنقید کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
بھارت میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ بھارت کے تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 40 فیصد سے زائد عورتوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار کھانی پڑی ہے۔ یہ سروے ملک کے 28 ریاستوں میں کیا گیا جس میں 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد خواتین سے سوالات پوچھے گئے تھے۔ سروے کے مطابق 75 ہزار مردوں سے بھی سوالات پوچھے گئے جن میں سے 51 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے میں کوئی خرابی یا قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت نے 2005 میں ایک قانون بھی بنایا تھا لیکن اس سے عورتوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2014ء کے دوران عورتوں سے جنسی زیادتی کے 30,642 واقعات پیش آئے۔ ریپ یا جنسی زیادتی کا سوال بھارت میں ایک عرصے سے عوام کے شعور میں کسی آتش فشاں کے لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے جنسی زیادتی کے مجرموں کو قانون کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔ معاشرے کا رویہ بھی فرسودہ اور اکثر قابل مذمت رہا ہے۔ ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر قانون سازی نہیں کی کئی۔
شاید یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار کی جانب سے SelfieWithDaughter# کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جسے پورے ملک میں سراہا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانی عوام نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ سیلفیاں بنا کر اپ لوڈ کیں۔ لیکن اسی مہم کے دوران انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اداکارہ شروتی سیٹھ نے وزیر اعظم کی مہم پر تنقید کی۔ شروتی کے بقول اسے یہ خیال نہیں بھایا کیونکہ جس شخص کو تبدیلی کا نیا دور لانے والا کہا جا رہا ہے، اس سے ایسی چھوٹی اور سطحی مہمات کی نہیں بلکہ کچھ ٹھوس کرنے کی اُمید کرنی چاہئے تھی۔
بس شروتی کی جانب سے یہ تنقید کرنے کی دیر تھی اور جیسے اُس کے خلاف نفرت آمیز ٹوئٹس کا طوفان برپا ہوگیا، طرح طرح کی الزام تراشیاں کی گئیں۔ جس کے بعد مجبوراً شروتی کو وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھنا پڑا جس میں وہ رقم طراز ہیں کہ
''خواتین جنہیں ایک دوسرے کو مضبوط کرنا چاہیے وہ مجھ سے پوچھ رہیں تھیں کہ کیا میں طوائف ہوں اور کیا میں اپنی بیٹی کو بھی طوائف بنانا چاہتی ہوں؟ اور کیا میں وزیر اعظم کے نام کا استعمال کرکے اپنے ناکام کریئر میں دوبارہ جان ڈالنا چاہتی ہوں اور سستی مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہوں؟ میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتی ہوں کہ آپ کے بیٹوں کے ذہن میں خواتین کے متعلق کتنا احترام پیدا ہوگا۔سوال یہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ سیلفی لینے سے کیا ہوگا، جب آپ خود ہی ان کی پرورش کے لیے زہریلا ماحول بنا رہے ہیں؟ تصویر لینے سے ہمارے معاشرے میں گہرائی تک پیوست مردوں کی افضلیت اور عورتوں کے متعلق نفرت کیسے کم ہوجائے گی؟ آپ بیٹیوں کی تعداد بڑھانے کی فکر کیوں کرتے ہیں جب آپ ان کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کرتے ہیں اور عدم مساوات کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ وہ سب جو 48 گھنٹوں تک میرے پیچھے پڑے رہے، کیا ایک لمحے کے لیے یہ سوچیں گے کہ میں بھی کسی کی بیٹی ہوں۔ کیا آپ نے خود سے کبھی یہ پوچھا کہ اگر آپ کی بیٹی کے ساتھ ایسا کیا جاتا تو آپ کو کیسا لگتا؟ میں جانتی ہوں کہ آپ کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کیونکہ آپ سب تو تصاویر لینے میں اور اپنی SelfieWithDaughter# پر لائک اور ری ٹویٹ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔''
معاملہ یہاں نہیں رُکتا بلکہ گجرات کی ایک خاتون نشرعین جعفری نے بھی ایک سیلفی اپ لوڈ کی، مذکورہ خاتون کے والد احسان جعفری کو گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران قتل کردیا گیا تھا جس کے بارے میں ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے نریندر مودی کا ہاتھ تھا۔ نشرعین جعفری نے اپنے باپ کے ساتھ سیلفی شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تصویر آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گی۔
فوٹو:فیس بُک
اِس طرح کے واقعات کے بعد نریندر مودی کی یہ مہم ناکامی کی جانب جاتی نظر آرہی ہے لیکن یقیناً یہ ایک اچھا اقدام ہے، ہندوستان کے لوگوں کی بیٹیوں کے ساتھ محبت میں اضافہ کرنے کے لئے ایسے اقدامات یقیناً لائق تحسین ہیں لیکن مودی سرکار کو ان معاشرتی رویوں کا تدارک کرنا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں، عورت کوعزت اور تحفظ دلانے کے لئے موثر قانون سازی کرنا ہوگی اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی ضروری ہے۔
[poll id="528"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس