اسلام آباد میں افغان طالبان مذاکراتاہم پیشرفت

پاکستان اس مذاکراتی عمل کو خوش آمدید کہتا ہے اور وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا

افغانستان میں ہونے والی کسی بھی سیاسی اور تزویراتی تبدیلی سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فوٹو : فائل

افغانستان میں موجودہ جنگی حالات کے خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان منگل کو اسلام آباد میں امن مذاکرات کا دور شروع ہوا جس میں چین اور امریکا بھی بطور مبصر شریک ہوئے۔

سرکاری ذرایع کے مطابق مذاکرات میں افغان حکومت کی طرف سے صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداللہ عبداللہ' افغان امن کونسل کے نمایندے جب کہ افغان طالبان کی جانب سے چار رکنی وفد نے شرکت کی۔ ذرایع کے مطابق ان مذاکرات میں طالبان پر افغانستان میں سیز فائر کے لیے زوردینے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر مکمل جنگ بندی پر انھیں فی الوقت اتفاق نہ ہو تو کم از کم شہری علاقوں ہی میں حملے بند کیے جائیں جب کہ غیر ملکی افواج کے انخلا پر بھی غور کیا گیا۔

اسلام آباد میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان یہ ملاقات ایک اہم پیشرفت ہے اگر ان مذاکرات میں فریقین کے درمیان اعتماد سازی کے امور طے پا جاتے ہیں تو اس سے بات چیت کا عمل یقیناً آگے بڑھے گا جس کے پورے خطے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان افغانستان سے باہر مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں تاہم گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کو بڑا بریک تھرو قرار دیا جا سکتا ہے۔

سفارتی حلقوں کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فروری میں کابل کے دورے کے موقع پر افغان حکام اور طالبان کے درمیان رابطوں کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے باعث گزشتہ دنوں چین کے شہر ارومچی میں دونوں فریقین کے درمیان پہلا رابطہ ہوا تھا اس طرح اسلام آباد مذاکرات ارومچی مذاکرات ہی کا ایک تسلسل ہیں۔

دفتر خارجہ کے ایک بیان میں ان مذاکرات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان اس مذاکراتی عمل کو خوش آمدید کہتا ہے اور وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔ ان مذاکرات میں پاکستان ایک ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے گزشتہ ہفتے پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل میں مدد کر رہا ہے۔


امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمے دار القاعدہ کو قرار دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں نہ صرف القاعدہ کو شکست دی بلکہ طالبان حکومت کا بھی خاتمہ کردیا۔ مبصرین کے مطابق امریکا اپنی تمام تر فوجی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود طالبان جنگجوؤں کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کر سکا اور وہ چاہے ایک کمزور قوت کی حیثیت ہی سے موجود رہے مگر امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کر کے انھیں شدید نقصان پہنچاتے رہے۔

اب امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ بزور قوت طالبان کو ختم نہیں کر سکتا لہٰذا افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے انھیں ایک اہم فریق کی حیثیت دیتے ہوئے مذاکرات کا عمل شروع کرنا پڑے گا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں بھی مذاکرات کی اطلاعات آتی رہی ہیں مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے۔

اب اسلام آباد میں ہونے والے امن مذاکرات میں جو اہم تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ چین کی شرکت ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کے افغانستان میں تجارتی مفادات بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ اس خطے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے لہٰذا اس خطے میں قیام امن اس کی ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے انعقاد اور ان کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح امریکا کے بعد چین بھی ایک عالمی قوت کی حیثیت سے ان مذاکرات میں شریک ہو چکا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات اہم قدم ہیں۔ ان مذاکرات کو چین' امریکا اور اقوام متحدہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ناروے کی وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے چاہئیں، یہ نہ صرف پاکستان' افغانستان بلکہ عالمی برادری کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اس عمل کو متاثر ہونے سے بچائیں۔

افغانستان میں ہونے والی کسی بھی سیاسی اور تزویراتی تبدیلی سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ افغانستان میں ہر صورت امن قائم ہو کیونکہ ایک مستحکم اور پرامن افغانستان اس کے مفاد میں ہے لہٰذا اسلام آباد میں افغان طالبان امن مذاکرات کا آغاز اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے انتہائی سنجیدگی اور خلوص سے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔

ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کے استوار ہونے سے ہے لہٰذا دونوں فریقین پر لازم ہے کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی جانب توجہ دیں اور ایسے مطالبات پیش نہ کریں جو مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں۔
Load Next Story