اس رپورٹ کو نتیجہ خیز بنائیں

قائداعظم کی امانت و دیانت کے واقعات جب میں سنتا اور پڑھتا ہوں تو مجھے ان پر قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا گمان گزرتا ہے۔


Abdul Qadir Hassan July 09, 2015
[email protected]

یہ کسی کی جسارت ہے یا شرارت یا پھر حد سے بڑھی ہوئی معصومیت ہے کہ ہمارے کئی بڑوں بلکہ بہت بڑوں کی بدعنوانی اور کرپشن کا ذکر اخباروں میں برملا کیا گیا ہے ایک ایک نام پر تعجب ہوتا ہے۔ 'نیب' نے یہ رپورٹ اپنے ریکارڈ سے مرتب کی ہے اور جس شخص نے یہ حرکت کی ہے اس کے کان بند کر دیے گئے تھے لکھنے کی مجبوری نہ ہوتی تو آنکھیں بھی بند کر دی جاتیں' بہر حال جس قدر ممکن تھا اس عدیم المثال شخص کو تحفظ دیا گیا ہے آگے اس کی اپنی جرات رندانہ نے کام دکھایا اور یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی۔

سپریم کورٹ سرکاری اداروں کا ڈسا ہوا ہے اس لیے اس نے فی الوقت اس رپورٹ کو زیر غور رکھ دیا ہے بلکہ اس پر عدم اطمینان بھی ظاہر کیا ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت اس ملک کا واحد ادارہ ہے جہاں سے حق سچ کی آواز سنائی دیتی ہے اور جس پر پوری قوم اعتماد کرتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کرپشن کی ماری اس قوم کا واحد سہارا یہی ادارہ ہے جس میں وہ اپنی فلاح اور بچاؤ کو دیکھتی ہے۔

اس رپورٹ میں جو نام دیے گئے ہیں ہمارے جیسے کمزور عوام تو ان کے نام نقل بھی نہیں کر سکتے حالانکہ اخباروں نے یہ چھاپ دیے ہیں جو ڈیڑھ سو کے قریب ہیں ان میں کئی ایسے نام ہیں کہ 'ایک خالصہ سوا لاکھ' کا ہے۔

اس فہرست میں وزرائے اعظم ہیں سابقہ اور حاضر سروس نائب وزیراعظم ہیں گورنر وغیرہ بھی اور نہ جانے کتنے اعلیٰ ترین منصب دار ہیں جن کی زندگی یعنی اقتدار میں ان کا نام لینے کی جرات بھی نہیں ہو سکتی تھی الزام لگانا تو بہت ہی دور کی بات ہے لیکن اس رپورٹ کی صورت میں وہ سب کچھ کر دیا گیا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہو سکا اور جس کا اب بھی کوئی امکان نہیں تھا مگر کیوں ہوا، اگر میں وکیل ہوتا یعنی فیس نہ دینی پڑتی تو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتا کہ جناب عالی پہلے آپ اس بات پر غور فرمائیں کہ یہ کیوں ہوا کیا کسی کی عقل میں کوئی خرابی تھی یا کوئی شیطانی الہام تھا کیونکہ ڈیڑھ سو کے قریب بڑوں کی اس قدر بے عزتی کوئی مذاق نہیں ہے اور نہ ہی عقل سلیم اسے تسلیم کرتی ہے لیکن بہر حال اس دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا یہ بھی ایک انہونی ہو گئی۔

اب یہ بڑے حضرات جن میں خواتین کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے اگر ممکن ہو تو صبر کر لیں لیکن عوام ان کو صبر و شکر کرنے کا موقع نہیں دیں گے اور انھیں چھیڑتے رہیں گے اس لیے وہ حسب سابق اخباری بیانوں کا سہارا لیں اور میں دعوے سے عرض کرتا ہوں کہ ان کے مبینہ وضاحتی بیانات من و عن نمایاں شایع ہوں گے بلکہ ان پر تبصرے بھی ہوں گے۔ اب جس ملک کے وزیراعظم کا نام بھی ایسی کسی بدنام فہرست میں شامل ہو تو وہ کیا خاموشی سے برداشت کر لیا جائے گا بالکل نہیں فہرست اپنی جگہ لیکن اس کی وجہ سے جن اصحاب پر بدنامی کا لیبل لگا ہے وہ اپنا رنگ دکھائے گا۔

پاکستان کا نام لیتے ہیں تو فوراً قائداعظم محمد علی جناح کا نام ذہن میں آتا ہے کہ یہ ملک ان کی فراست، تدبر اور سیاسی سوجھ بوجھ کا ایک کرشمہ تھا اور قائداعظم کی امانت و دیانت کے واقعات جب میں سنتا اور پڑھتا ہوں تو مجھے ان پر قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا گمان گزرتا ہے۔ وہی دیانت و امانت اور ریاست اور بیت المال کا تقدس کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ان لوگوں نے حکمرانی کے ایسے واقعات اور مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا آج تک حضرت عمرؓ کو دنیا کا کامیاب ترین اور لائق تقلید نمونہ سمجھتی ہے پاکستان کے ساتھ تو حضرت عمرؓ کا براہ راست تعلق ہے اس کے حکمرانوں کو تو عمرؓ کا نمونہ بن کر دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ان کا قائد عمر بن خطابؓ کیا کردار رکھتا تھا۔ ہمارے قائد محمد علی جناح نے انھی حکمرانوں کی پیروی کرنے کی کوشش کی اور چھوٹی چھوٹی بات پر نہایت سختی کے ساتھ عمل کیا۔

شدید بیماری کی حالت میں بھی پسند کے باورچی کا کھانا پتہ چلنے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور باورچی کو واپس بھجوا دیا پورا خرچ دے کر کہ کسی حکمران کو یہ حق نہیں کہ حکومت اس کے علاج کے اخراجات برداشت کرے۔ قدرت نے ہمیں محمد علی جناح کی صورت میں ایک نعمت عطا کی تھی لیکن ہم نے اس کا حق ادا نہیں کیا اور آج ہمارے وزرائے اعظم تک کے نام بدنام ہو رہے ہیں۔ کجا کہ ہم اپنے قائد عمر بن خطابؓ کی پیروی کرتے ہم نے چور اچکوں کی کسی حکومت کا فرد بن کر زندگی بسر کی اور حکمرانی کے مزے لوٹے۔

یہ جو ایک فہرست چھپی ہے اسے ناموں کی شدید مشہوری سے تعبیر کریں یا یوں بھی کہ اس رپورٹ کے ذریعے بعض فراموش شدہ معاملات کو زندہ کیا گیا ہے اور جان بوجھ کر ان معاملات کو زندہ کیا گیا ہے جو فراموش ہو جانے چاہئیں تھے۔ خدا نہ کرے پھر کوئی محکمہ جاگ اٹھے اور ایسی ناپسندیدہ رپورٹیں شایع کرنی شروع کر دے۔ یہ رپورٹ ہی ہمارے زخم زدہ قومی وجود کے لیے کافی ہے۔

ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے بلکہ اس کو بھی برداشت کر جائیں تو بڑی بات ہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ان انتہائی اونچے مرتبے کے لوگوں کا تحفظ کرے اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر انھیں عوام کی عدالت یعنی کسی سپریم کورٹ کے حوالے کر دے کیونکہ ایک نازک مسئلہ جب سامنے لایا گیا ہے تو اس کا نتارا کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ایک قومی الزام بن کر زندہ رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں