روڈ ڈسٹربنس الاؤنس دینے پر غور

گھر سے دفتر آنے جانے میں معمول سے دو گھنٹے زیادہ صرف کرتا ہے


Sajid Ali Sajid July 09, 2015
[email protected]

باخبر ذرایع سے جو غلط بھی ہو سکتے ہیں پتہ چلا ہے کہ حکومت عوام کے ایک طبقے کو خاص طور پر ایسے لوگوں کو جو کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں ٹریفک جام کی وجہ سے گھر دیر سے پہنچتے ہیں ایک معقول مالیت کا روڈ ڈسٹربنس الاؤنس دینے پر غور کر رہی ہے۔

اگر یہ فیصلہ ہو گیا تو اس پر عملدرآمد عید کے بعد کیا جائے گا جب شہر کے مختلف حصوں میں حسب روایت ٹریفک جام ہونا شروع ہو جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام طور پر ایک شہری روزانہ خصوصاً مصروف اوقات میں جب شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک کا اژدھام ہوتا ہے، گھر سے دفتر آنے جانے میں معمول سے دو گھنٹے زیادہ صرف کرتا ہے، اول تو اسے پبلک ٹرانسپورٹ دیر سے ملتی ہے اور اگر قسمت سے مل بھی جائے تو گاڑیاں سڑکوں پر رینگ رینگ کر چلتی ہیں، اور ایک عام شہری کو خاصی ذہنی اذیت اور کوفت بھی ہوتی ہے اور قیمتی وقت بھی ضایع ہوتا ہے، اپنی کاریں اور موٹر سائیکل چلانے والے بھی اس عذاب سے گزرتے ہیں اور کمپنسیشن الاؤنس ان کا حق بن گیا ہے۔

تاہم روڈ ڈسٹربنس الاؤنس کی ادائیگی کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ اس طرح حکومت عوام کو یہ باور بھی کرانا چاہتی ہے کہ شہریوں کو ایک ایفیشینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کے ذریعے گھر اور دفتر پہنچانا حکومت کی ذمے داری ہے، دوسرے ملکوں میں تو اس مقصد کے لیے بلٹ ٹرینیں چلتی ہیں مگر ہمارے یہاں یہ بلٹ زیادہ تر مسافروں کو ان کی آخری منزل تک پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔

ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یہ ڈسٹربنس الاؤنس مستحق افراد کو وفاقی حکومت کی طرف سے ادا کیا جائے گا یا صوبائی حکومت کی جانب سے۔ کیونکہ بدقسمتی سے عوام کو ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانا Concurrent سبجکیٹ ہے اور دونوں حکومتیں اس پر اپنا حق جتاتی ہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت جب اپنے ملازمین کو کمپنسیشن Compensation فراہم کرنے کی ذمے داری ادا کر لے گی تو وہ پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کے مالکان سے بھی رجوع کرے گی، اس توقع کے ساتھ کہ اگر وہ اپنے ملازمین کو Pick اینڈ Drop کی سہولت نہیں دے رہے ہیں تو پھر سرکار کی طرح اپنے ملازمین کو روڈ ڈسٹربنس الاؤنس تو ادا کریں۔

ابھی تک بیشتر ادارے پک اینڈ ڈراپ کی نہیں صرف ''ڈراپ'' کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور شام پانچ بجتے ہی اپنے ملازمین کو شہر کی مختلف سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔

اگر روڈ ڈسٹربنس الاؤنس کی ادائیگی شروع ہو گئی تو ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ ہنسی خوشی صبح اور شام کو ٹریفک کی پریشانیاں برداشت کر لیا کریں گے۔

اس کے متبادل ایک اور تجویز بھی ہے جس کی ابھی تک مختلف حلقوں کی طرف سے سخت مخالفت ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ عام پبلک جتنا وقت ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر گزارتی ہے اس وقت کا اسے اوور ٹائم ادا کر دیا جائے، اس کے لیے ملازمین کو آسان قسطوں پر گھروں کے لیے ''پنچنگ مشینیں'' فراہم کی جائیں گی جن کو ان کی بیگمات یا گھر کی کوئی اور رشتے دار خاتون آپریٹ کیا کریں گی، بس مہینے میں ایک بار دفتر کا کوئی ذمے دار افسر اس پنچنگ مشین کو چیک کرنے چلا جایا کرے گا۔ ورنہ دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پنچنگ مشینوں کو براہ راست ملازمین کے دفاتر سے آپریٹ کیا جائے۔ اس کے لیے سائنس کو ذرا تھوڑی سی زیادہ ترقی دینی پڑے گی۔

اس سلسلے میں ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاکوؤں نے جو ٹریفک جام کے دوران لوٹ مار کرتے ہیں حکومت کو اس اسکیم پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ڈاکوؤں کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہم اپنے ''ہم منصب افراد'' کی طرف سے پریشان عوام کے لیے اس نیک جذبے کے اظہار کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بخوشی یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم بھی اپنی لوٹی ہوئی رقم کا کم ازکم پندرہ فیصد حصہ ٹریفک کے اژدھام میں پھنسے ہوئے مسافروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے اور ہم اس کے لیے کسی بھی وقت میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ (MOU) پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔

حکومت ایسے محب وطن اور شہر دوست ڈاکوؤں کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

جہاں تک روڈ ڈسٹربنس الاؤنس کا تعلق ہے اس کی ادائیگی میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ بجٹ منظور ہو چکا ہے اور اب ایسی کسی قسم کی اسکیم کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنے کے لیے حکومت کو کسی اور ''ہیڈ'' سے مطلوبہ رقم نکالنی پڑے گی یا پھر قومی یا صوبائی سطح پر کوئی نیا قانون بنانا پڑے گا۔

تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ روڈ ڈسٹربنس الاؤنس کے ذریعے حکومت عوام کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو ایک وسیع طبقے تک پہنچا سکتی ہے اور اس سے اسے آیندہ الیکشن بغیر کسی مبینہ دھاندلی کے جیتنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس سلسلے میں ہمارے سمیت بہت سے لوگ حکومت کی طرف سے کسی ''عوام دوست'' فیصلے کے منتظر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں