کراچی کو لگنے والے زخم
زیادہ تر لوگو ں کی موت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ باہر کھلی دھوپ میں تھے اور بیشتر روزہ دار تھے۔
کراچی میں جھلسا دینے والی گرمی کی لہر نے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی اور پیپلز پارٹی کی حکومت ائرکنڈیشنڈ سندھ اسمبلی میں دُبک کر بیٹھی رہی۔ خود کچھ نہ کرنا اور بجلی کے تعطل کا سارا الزام K الیکٹرک پرعائد کر دینا سب سے آسان کام تھا۔ صرف یہی نہیں کہK الیکٹرک عوام کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہی، بلکہ اس کے پاس بجلی کی تقسیم کا نظام بیٹھ جانے اور سپلائی میں غیر معمولی کمی و بیشی سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی ہنگامی پلان نہیں تھا، جس کی وجہ سے صارفین کا بجلی سے چلنے والا بہت سا سامان جل گیا۔ صوبائی حکومت بھی ناکام ثابت ہوئی۔
مگر زیادہ تر لوگو ں کی موت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ باہر کھلی دھوپ میں تھے اور بیشتر روزہ دار تھے۔ ان لوگوں کو ہنگامی طبی امداد دینے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریض جسم میں پانی کی کمی کا شکار تھے اور ان کا شوگر لیول خطرناک حد تک نیچے آ چکا تھا۔ کراچی کے باسی اس قیامت خیز گرمی کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ کوئی یہ بتا پا رہا تھا کہ اس حالت میں انھیں کیا کرنا چاہیے۔
رینجرز اور فوج نے کچھ پبلک ریلیشنز کیمپ قائم کیے جو متاثرہ لوگوں کو پانی اور طبی امداد فراہم کرتے رہے مگر سول حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ البتہ یہ لوگ صوبائی اسمبلی اور ٹی وی چینلز پر بے شرمی کے ساتھ چیختے رہے۔ اگر K الیکٹرک کے پاس کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں تھا تو سندھ حکومت کا بھی یہی حال تھا۔ عوام کو بچانے کے لیے آگے آنے کی کسی کو جلدی نہیں تھی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ قبرستان مافیا نے قبروں کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا، حالانکہ یہ مختلف حکومتی اداروں کے ماتحت ہیں۔PECHS جیسے متمول علاقوں کے قبرستان والے بھی، جہاں اب مزید جگہ نہیں ہے ، فی قبر ایک لاکھ روپے مانگتے رہے۔
اس ساری صورت حال کو سندھ حکومت اور اعلیٰ فوجی افسروں کے درمیان اختیارات کی حالیہ کشمکش کے پس منظر میں دیکھیے، جس کے نتیجے میں پی پی پی کے اہم ترین رہنما آصف علی زرداری غصے سے پھٹ پڑے۔ ان کا یہ رویہ اُس ہوشیار زرداری سے مختلف تھا، جسے ہم بے نظیر کے بعد سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کے معاملات میں فوجی جرنیلوں کی مداخلت کے خلاف بات کرنے پربیشتر سیاست دانوں اور میڈیا نے توقع کے مطابق، ان پر کڑی تنقید کی۔ آپ وزرائے اعظم اور صدور پر تو الزامات کی بوچھاڑ اور ان کی بے عزتی کر سکتے ہیں لیکن سیکیورٹی اسٹیٹ میں کچھ مقدس گائیں ہوتی ہیں۔
اس پورے تنازع کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ کچھ گوشے ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ رینجرز اور کورکمانڈر کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ کراچی میں مختلف مافیاؤں کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے ذرایع بند کرنا ہوں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ادارے کراچی کے تاریخی اسٹوڈنٹس ہاسٹلز جیسے سول حکومت کے دائرہ کار میں مداخلت کریں۔ سیاست دان جوابی الزامات لگاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا دوسرے صوبوں اور وفاقی حکومت میں کرپشن نہیں ہو رہی؟ کیا اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے نہیں ہے جو ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تنگ نظر پالیسیوں کی وجہ سے پھلی پھولی؟
مگر دو برائیوں کے ملنے سے ایک اچھائی نہیں بنتی۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب فوج نے بالآخر باغی دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسری طرف زرداری کے پاس، جو عوام میں پائے جانے والے تاثر کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں، پشاور میں دائرہ اختیار کا سوال اٹھاتے وقت ٹھوس دلائل نہیں تھے۔ وہ غلط طور پر ایسا سوچتے ہیں کہ پیسہ بناتے رہو اور فضول باتیں کر کے لوگوں کا دھیان بٹاتے رہو۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور نالائقی کی کہانیاں ہر زبان پر ہیں۔ اگر اس بد عنوانی کو پچاس فیصد کم کر دیا جائے تو بھی اعداد و شمار ہوش اڑا دیتے ہیں۔
رینجرز کے230 بلین روپے کے اندازاً تخمینے کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ عوام نے رینجرز جیسے مستند ادارے کی طرف سے جو گزشتہ بیس سال سے یہاں موجود ہے اس انکشاف کو من و عن قبول کر لیا۔ شک و شبے کا اظہار کرنے والے کسی بھی رپورٹر نے، جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے تھا رینجرز سے یہ سوال نہیں کیا کہ انھوں نے یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار کیسے جمع کیے؟ اور مافیا کی اس رقم میں سے کتنا پیسہ ان کے سیاسی سر پرستوں تک پہنچتا ہے؟
کراچی جیسے بڑے شہر میں مختلف مافیا کس طرح سے کام کرتے ہیں، اس بارے میں متعدد تحقیقی جائزے اور کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ عارف حسن اور ان کی ٹیم کی طرف سے 'Karachi The land issue' اور ایک فرانسیسی اسکالرLuarent Gayer کی 'Karachi Ordered Disorder and the Struggle for the City" ان میں تازہ اضافہ ہے اور یہ اس موضوع پر خاصی تحقیق کے بعد لکھی جانے والی کتابیں ہیں۔
کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی توقع تھی۔ اس قسم کے منظم کرائم مافیا ایسے معاشروں میں فروغ پاتے ہیں جہاں عوامی سہولتوں کا فقدان ہو ریاستی ڈھانچہ زوال پذیر ہو۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جب ایک منی بس کے حادثے میں بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سامنے آئی، میں نے ویمن ایکشن فورم کے اجلاس میں لیکچر دینا تھا جس کی تیاری کے لیے میں نے فوری طور سے معلومات جمع کرنا شروع کیں تا کہ یہ سمجھ سکوں کہ کراچی کیوں پھٹنے لگا ہے۔
1980-85ء کے دوران کراچی کی آبادی 4-5% سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی جب کہ سہولتوں پر اخراجات میں 1.5% سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا تھا، جس میں پانی کی سپلائی بھی شامل تھی۔ چنانچہ سہولتوں کی اس کمی میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ رینجرز کی رپورٹ میں بطور خاص لینڈ مافیا کا ذکر کیا گیا، جو کوئی خبر نہیں ہے، کیونکہ یہ مافیا اس وقت بھی موجود تھا جب1947ء میں یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد شروع ہوئی۔ جب ریاست غریبوں کی ہاؤسنگ، پانی اور ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو گئی تو مافیاؤں نے اس خلاء کو پر کیا۔ ان مافیاؤں نے بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی مدد سے خوب دولت سمیٹی۔ فوجی حکمرانی کے دور بھی مختلف نہیں تھے۔
اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں کیا توقع کر سکتے ہیں جہاں: ہر تیسرا آدمی کچی اور غیر قانونی بستیوں میں رہتا ہے، جہاں پانی کی سپلائی لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں نصف ہے، جہاں سفری سہولتوں کے لیے مزید 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے اور جو بسیں چل رہی ہیں لوگ ان کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، جہاں فی کس پولیس ضرورت سے آدھی سے بھی کم ہے اور زیادہ تر پولیس نام نہاد VIPs کی حفاظت پر مامور ہے، جہاں افغانستان کے اسلامی جہاد کی وجہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور جہاں آبادی کی تیزی سے بدلتی ہوئی نسلی ترتیب سماجی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہے.... یہ فہرست طویل ہے، کوئی بھی سوشیالوجسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ 67 سال کی غفلت کے باعث جمع ہو جانے والے ان سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے جب تک بڑے پیمانے پر کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی کراچی جیسے شہر کی صورت حال پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
مگر زیادہ تر لوگو ں کی موت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ باہر کھلی دھوپ میں تھے اور بیشتر روزہ دار تھے۔ ان لوگوں کو ہنگامی طبی امداد دینے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریض جسم میں پانی کی کمی کا شکار تھے اور ان کا شوگر لیول خطرناک حد تک نیچے آ چکا تھا۔ کراچی کے باسی اس قیامت خیز گرمی کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ کوئی یہ بتا پا رہا تھا کہ اس حالت میں انھیں کیا کرنا چاہیے۔
رینجرز اور فوج نے کچھ پبلک ریلیشنز کیمپ قائم کیے جو متاثرہ لوگوں کو پانی اور طبی امداد فراہم کرتے رہے مگر سول حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ البتہ یہ لوگ صوبائی اسمبلی اور ٹی وی چینلز پر بے شرمی کے ساتھ چیختے رہے۔ اگر K الیکٹرک کے پاس کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں تھا تو سندھ حکومت کا بھی یہی حال تھا۔ عوام کو بچانے کے لیے آگے آنے کی کسی کو جلدی نہیں تھی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ قبرستان مافیا نے قبروں کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا، حالانکہ یہ مختلف حکومتی اداروں کے ماتحت ہیں۔PECHS جیسے متمول علاقوں کے قبرستان والے بھی، جہاں اب مزید جگہ نہیں ہے ، فی قبر ایک لاکھ روپے مانگتے رہے۔
اس ساری صورت حال کو سندھ حکومت اور اعلیٰ فوجی افسروں کے درمیان اختیارات کی حالیہ کشمکش کے پس منظر میں دیکھیے، جس کے نتیجے میں پی پی پی کے اہم ترین رہنما آصف علی زرداری غصے سے پھٹ پڑے۔ ان کا یہ رویہ اُس ہوشیار زرداری سے مختلف تھا، جسے ہم بے نظیر کے بعد سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کے معاملات میں فوجی جرنیلوں کی مداخلت کے خلاف بات کرنے پربیشتر سیاست دانوں اور میڈیا نے توقع کے مطابق، ان پر کڑی تنقید کی۔ آپ وزرائے اعظم اور صدور پر تو الزامات کی بوچھاڑ اور ان کی بے عزتی کر سکتے ہیں لیکن سیکیورٹی اسٹیٹ میں کچھ مقدس گائیں ہوتی ہیں۔
اس پورے تنازع کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ کچھ گوشے ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ رینجرز اور کورکمانڈر کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ کراچی میں مختلف مافیاؤں کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے ذرایع بند کرنا ہوں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ادارے کراچی کے تاریخی اسٹوڈنٹس ہاسٹلز جیسے سول حکومت کے دائرہ کار میں مداخلت کریں۔ سیاست دان جوابی الزامات لگاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا دوسرے صوبوں اور وفاقی حکومت میں کرپشن نہیں ہو رہی؟ کیا اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے نہیں ہے جو ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تنگ نظر پالیسیوں کی وجہ سے پھلی پھولی؟
مگر دو برائیوں کے ملنے سے ایک اچھائی نہیں بنتی۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب فوج نے بالآخر باغی دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسری طرف زرداری کے پاس، جو عوام میں پائے جانے والے تاثر کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں، پشاور میں دائرہ اختیار کا سوال اٹھاتے وقت ٹھوس دلائل نہیں تھے۔ وہ غلط طور پر ایسا سوچتے ہیں کہ پیسہ بناتے رہو اور فضول باتیں کر کے لوگوں کا دھیان بٹاتے رہو۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور نالائقی کی کہانیاں ہر زبان پر ہیں۔ اگر اس بد عنوانی کو پچاس فیصد کم کر دیا جائے تو بھی اعداد و شمار ہوش اڑا دیتے ہیں۔
رینجرز کے230 بلین روپے کے اندازاً تخمینے کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ عوام نے رینجرز جیسے مستند ادارے کی طرف سے جو گزشتہ بیس سال سے یہاں موجود ہے اس انکشاف کو من و عن قبول کر لیا۔ شک و شبے کا اظہار کرنے والے کسی بھی رپورٹر نے، جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے تھا رینجرز سے یہ سوال نہیں کیا کہ انھوں نے یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار کیسے جمع کیے؟ اور مافیا کی اس رقم میں سے کتنا پیسہ ان کے سیاسی سر پرستوں تک پہنچتا ہے؟
کراچی جیسے بڑے شہر میں مختلف مافیا کس طرح سے کام کرتے ہیں، اس بارے میں متعدد تحقیقی جائزے اور کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ عارف حسن اور ان کی ٹیم کی طرف سے 'Karachi The land issue' اور ایک فرانسیسی اسکالرLuarent Gayer کی 'Karachi Ordered Disorder and the Struggle for the City" ان میں تازہ اضافہ ہے اور یہ اس موضوع پر خاصی تحقیق کے بعد لکھی جانے والی کتابیں ہیں۔
کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی توقع تھی۔ اس قسم کے منظم کرائم مافیا ایسے معاشروں میں فروغ پاتے ہیں جہاں عوامی سہولتوں کا فقدان ہو ریاستی ڈھانچہ زوال پذیر ہو۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جب ایک منی بس کے حادثے میں بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سامنے آئی، میں نے ویمن ایکشن فورم کے اجلاس میں لیکچر دینا تھا جس کی تیاری کے لیے میں نے فوری طور سے معلومات جمع کرنا شروع کیں تا کہ یہ سمجھ سکوں کہ کراچی کیوں پھٹنے لگا ہے۔
1980-85ء کے دوران کراچی کی آبادی 4-5% سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی جب کہ سہولتوں پر اخراجات میں 1.5% سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا تھا، جس میں پانی کی سپلائی بھی شامل تھی۔ چنانچہ سہولتوں کی اس کمی میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ رینجرز کی رپورٹ میں بطور خاص لینڈ مافیا کا ذکر کیا گیا، جو کوئی خبر نہیں ہے، کیونکہ یہ مافیا اس وقت بھی موجود تھا جب1947ء میں یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد شروع ہوئی۔ جب ریاست غریبوں کی ہاؤسنگ، پانی اور ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو گئی تو مافیاؤں نے اس خلاء کو پر کیا۔ ان مافیاؤں نے بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی مدد سے خوب دولت سمیٹی۔ فوجی حکمرانی کے دور بھی مختلف نہیں تھے۔
اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں کیا توقع کر سکتے ہیں جہاں: ہر تیسرا آدمی کچی اور غیر قانونی بستیوں میں رہتا ہے، جہاں پانی کی سپلائی لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں نصف ہے، جہاں سفری سہولتوں کے لیے مزید 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے اور جو بسیں چل رہی ہیں لوگ ان کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، جہاں فی کس پولیس ضرورت سے آدھی سے بھی کم ہے اور زیادہ تر پولیس نام نہاد VIPs کی حفاظت پر مامور ہے، جہاں افغانستان کے اسلامی جہاد کی وجہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور جہاں آبادی کی تیزی سے بدلتی ہوئی نسلی ترتیب سماجی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہے.... یہ فہرست طویل ہے، کوئی بھی سوشیالوجسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ 67 سال کی غفلت کے باعث جمع ہو جانے والے ان سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے جب تک بڑے پیمانے پر کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی کراچی جیسے شہر کی صورت حال پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔