پاکستان کھیلوں کے میدانوں میں
ہاکی کے کمنٹیٹر ذاکر حسین اور ایس ایم نقی کا دنیا کے نامورکمنٹیٹروں میں شمار ہوتا تھا،
1994ء میں پاکستان کھیلوں کے میدانوں پر چھایا ہوا تھا۔ ویسے تو عام طور پر ہمارے ملک پر کرکٹ کا جنون طاری ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے ہاکی کا جنون تھا۔ کل جب جیتتے رہتے تھے تو ہاکی ہمارا قومی کھیل تھا اور جب سے اس میدان میں پسپائی ہونا شروع ہوئی اورکرکٹ میں جیت کا دور شروع ہوا تو ہم نے بھی پارٹی بدل لی اورکرکٹ کو قومی کھیل کا درجہ دے دیا۔ جیڑا جتے او دے نال۔
ہاکی کے ٹورنامنٹ اکثر مغربی ممالک میں منعقد ہوتے تھے اور چونکہ وہاں کے اور ہمارے ملک کے وقت میں کافی فرق ہوتا تھا، وہاں دن تو ہمارے ہاں رات اور وہاں رات تو ہمارے ہاں دن۔ راتوں کو بھی کبھی درمیاں رات، توکبھی فجر سے تھوڑا پہلے۔ پروانے راتوں کو جاگ کرکمنٹری سنتے تھے۔ اس زمانے میں ٹی وی نہیں تھا اور ریڈیو سے کمنٹری نشر ہوتی تھی۔ ہاکی میں ہمارا زوال 1988ء سے شروع ہوا، جب سیول (جنوبی کوریا) اور 1992ء میں بارسیلونا (اسپین) اولمپکس میں ہمیں کانسی کے تمغے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
پھر مارچ 1994ء میں کڑہی میں ابال آیا جب ورلڈ ہاکی ٹورنامنٹ لاہور میں منعقد ہوا، جہاں ہم نے جرمنی سے پینلٹی اسٹروکس پر میچ جیتا اور دسمبر میں ہم نے نیدرلینڈ (ہالینڈ) سے بھی سڈنی (آسٹریلیا) میں پینلٹی اسٹروکس پر میچ جیتا۔ ہم نے دنیا کے بہترین کھلاڑی پیدا کیے، ان میں سمیع اللہ کو اڑنے والے گھوڑےHorse Flying کا خطاب دیا گیا، نمایاں تھا۔
ہاکی کے کمنٹیٹر ذاکر حسین اور ایس ایم نقی کا دنیا کے نامورکمنٹیٹروں میں شمار ہوتا تھا، ان کی کمنٹری بہت دلفریب ہوتی تھی۔ افسوس کہ ہاکی کے میدان میں پاکستان بہت پیچھے چلا گیا۔ ابھی ائنٹورپ (بیلجیم) میں ہونے والے میچز میں بھارت اور فرانس سے میچ برابر رہے۔ لیکن ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بھارت سے برابر رہے۔ باقی اللہ اللہ خیر سلا۔
مجھے یاد ہے کہ کرکٹ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت کی ٹیم پاکستان آئی تھی۔ اس زمانے میں ریڈیو سے کمنٹری نشر ہوتی تھی اور وہ بھی انگریزی میں ( اردو میں کمنٹری پاکستان کے مرحوم منیر حسین نے 1980ء کی دہائی میں شروع کی)۔ کمنٹری بھارت کے طلحہ یار خان کرتے تھے۔ ان کی آواز بھی بہت دلفریب تھی۔ ہمارے شہر میں پتے کی بیڑی بنانے کا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا، جس میں دس بارہ کاریگر کام کرتے تھے۔ ان کا مالک ایک باذوق آدمی تھا۔ اس نے اپنے کاریگروں کو کمنٹٰری سننے کے لیے ریڈیو فراہم کیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ بیچارے انگریزی تو نہیں سمجھتے تھے، لیکن آؤٹ اور چوکے کے الفاظ سمجھ لیتے تھے اور انھی سے محظوظ ہوتے رہتے تھے۔
ہم بھی اس زمانے میں سیکنڈری اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کاریگروں کی طرح ہم بھی تھوڑی بہت انگریزی سمجھ لیتے تھے۔اس سے پہلے ہاکی یا کرکٹ کی خبریں صرف ڈان اخبار میں پڑھ لیتے تھے۔
پھر وہ زمانہ آیا کہ پاکستان اور انگلینڈ کی سیریز چل رہی تھی، لیکن اس کی کمنٹری انگریزی میں بی بی سی سے صرف آدھے گھنٹے کے لیے شام 5 بجے سے ساڑھے 5 بجے تک آتی تھی اور وہ بھی کسی چھوٹے موٹے ریڈیو پر نہیں۔ ہمارے ایک دوست کے گھر پہ ایک قد آدم ریڈیو تھا، جس پر بھی ہلکے آواز میں سنی جا سکتی تھی۔ ہم پروانے ایک ڈیڑھ میل فاصلہ طے کر کے وہاں جا کر سنتے تھے۔1950ء کی دہائی میں پاکستان نے انگلینڈ کو اوول کے میدان پر شکست دی، جو انگلینڈ کی تاریخ میں اس میدان پر اس کی پہلی ہار تھی۔ اس سیریز میں کپتان عبدالحفیظ کاردار تھے اور وائس کپتان فضل محمود تھے، جس نے زیادہ سے زیادہ وکٹیں لیں۔
یہ انگلینڈ کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔ دوسرے دن کے اخبارات کی سرخی تھی، England Fazzaled۔ کرکٹ کی تاریخ میں ہماری دوسری کامیابی 1992ء کا ورلڈ کپ تھا، جس کامیابی کا سہرا عمران خان کے سر پر سجا۔ اس زمانے میں ہماری ٹیموں میں کھلاڑیوں کے انتخاب میں کوئی سرکاری عمل دخل نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا بھی نہیں۔کھلاڑیوں کا انتخاب صرف اور صرف کپتان ہی کرتا تھا۔ کپتان کا کہنا تھا کہ میدان میں اسی نے کھیلنا اور کھلاڑیوں کو کھلانا ہوتا ہے، چیئرمین یا کسی ممبر کو نہیں۔کپتان خود بھی نظم و ضبط کی پابندی کرتے تھے۔ کھیل میں پیسہ نام کا نہیں ہوتا تھا۔ کھلاڑی صرف اور صرف ملک کی ناموس کے لیے کھیلتے تھے۔
لٹل ماسٹر حنیف محمد کا کہنا ہے کہ انھیں صرف دس روپیہ یومیہ ملتے تھے۔ ویسے اس زمانے میں دس روپے کے نوٹ کے بھی ٹھاٹھ ہوتے تھے۔ ایک مشہور فلمی نغمہ تھا، زمانہ دس دس کے دس نوٹ کا۔ اور ہمارے ایک سابقہ اور مرحوم صدر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طیارے میں سفر کر رہے تھے کہ انھیں مستی سوجھی۔ اپنے ایک مشیر سے پوچھا، اگر میں دس کا نوٹ نیچے پھینکوں، تو کتنے لوگ خوش ہونگے؟ وہ مشیر بھی کوئی جلا بْھنا بیٹھا تھا۔ اس نے کہا اگر آپ اپنے آپ کو پھینکیں گے تو پوری قوم خوش ہو جائے گی۔
ہماری آج کی کرکٹ کا یہ حال ہے کہ جن لوگوں کے نام میچ فکسنگ کے سلسلے میں جسٹس قیوم کی رپورٹ میں ہیں، وہ ہمارے کوچ ہیں۔
لاہور میں سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے بعد پاکستان کھیلوں کی دنیا میں اکیلا رہ گیا۔کوئی بھی باہرکی ٹیم ہمارے ہاں آنے کو تیار نہیں تھی۔ سب میچ ابوظہبی، دبئی یا شارجہ میں کھیلے جاتے تھے۔
خدا خدا کرکے زمبابوے کی ٹیم نے قدم رنجہ فرمایا تو ہماری باچھیں کِھل گئیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ ہم سے واقعی اپنے کمزور کھیل کی وجہ سے ہارے یا صلہ رحمی کے جذبے کے تحت۔ اب سری لنکا سے سیریز چل رہی ہے۔ ہماری کوشش تو تھی کہ وہ ہمارے ہاں آئیں، لیکن وہ ماضی کو نہیں بھولے تھے، اس لیے انھوں نے ہمیں بلایا۔ آگے اللہ جانے کیا ہوگا۔ تینوں میچز میں نئے نوجوان کھلاڑیوں نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ جن کی اجارہ داری ہے، ان کا کھیل کوئی اتنا اچھا نہیں تھا۔
اسکواش کا کھیل کے پی کے کے ایک پٹھان خاندان کی وجہ سے ہمارے ہاں متعارف ہوا۔جس کا پہلا کھلاڑی ہاشم خان تھے۔ جب وہ انگلینڈ میں اپنا پہلا اوپن میچ کھیلنے گئے تو ان کے پاس نہ یونیفارم تھی اور نا ہی ریکٹ۔ ہماری سرکار نے کوئی بھی پذیرائی نہ کی، لیکن ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر یقین اور خود پر اعتماد ایسا بلند تھا کہ انھوں نے کھیلوں کے سامان کے ایک دکاندار سے وہ دونوں چیزیں مستعار لیں اور میچ جیتا اور وہ سالہا سال اس کھیل پر مسلسل حاوی رہے اور دنیا میں اپنا اور پاکستان کا نام بلند کیا۔ اس کے بعد ان ہی کے خاندان کے لوگ یہ کھیل کھیلتے رہے اور ہاشم خان کی روایت کو برقرار رکھا، جن میں آخری کھلاڑی جہانگیر خان اور جان شیر خان ہیں، لیکن انھوں نے اپنے جانشین پیدا نہیں کیے۔ اس طرح اس کھیل کی دنیا سے پاکستان کا نام مٹ گیا۔
اسنوکر (جس کو عرف عام میں بلیئرڈ کہا جاتا ہے، حالانکہ ان دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے) بھی ایک ہی کھلاڑی محمد یوسف کے نام سے منسلک رہا، جب اس نے آئس لینڈ کے جانسن کو ہروایا۔ یہ میچ جنوبی افریقہ کے شہر جوہنسبرگ میں کھیلا گیا۔ اس کھیل کو بھی سرکاری پذیرائی نہیں ملی، کیونکہ ہمارے پاس سوائے ہاکی اور کرکٹ کے کسی کھیل کو سرپرستی حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ یہ سب کھیل ہمارے نہیں تھے۔
فٹ بال، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ممالک میں کھیلی جاتی ہے، کو بھی ہمارے ملک میں پذیرائی نہیں ملی، جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اشرافیہ کا کھیل نہیں ہے۔ کچھ وقت پہلے لیاری (کراچی) کے چند بچوں نے باہر جا کرکامیابیاں حاصل کیں۔ واپسی پر ان کو سندھ حکومت کی طرف سے کچھ انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ وفاق کی طرف سے انھیں کوئی لفٹ نہیں کرائی گئی۔ بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔
ہر ملک کا اپنا کھیل ہوتا ہے، جیسے امریکا میں بیس بال اور رگبی زیادہ کھیلی جاتی ہے لیکن جنوبی افریقہ میں رگبی بھی کھیلی جاتی ہے اورکرکٹ بھی۔ ہمارے ہاں والی بال کے بھی ٹورنامنٹ ہوئے، لیکن اس کھیل کو بھی یتیم خانے میں داخل کرا دیا گیا۔
یہاں بنگلہ دیش کی تعریف نا کرنا بھی ناانصافی ہو گی، جس نے نا صرف پاکستان سے سیریز جیتی، بلکہ بھارت کو بھی ایک ون ڈے میچ میں ہرادیا۔ ہمارے اپنے دیسی کھیل بھی ہیں، لیکن کرکٹ کا بخار بہت زوروں پر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے پنجاب میں کبڈی بھی کھیلی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیاں ٹورنامنٹ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دیسی کھیلوں کو بھی بڑھاوا دیں تو اچھا ہو گا۔
ایک زمانہ تھا کہ کھیل اسکولوں میں ہی سکھائے جاتے تھے، صبح پڑھائی اور شام کو اسکول کے میدان پر کھیل۔ کھیل بھی پڑھائی کا حصہ ہوتے تھے۔ کھیل کے میدان میں بھی حاضری لگتی تھی۔ اب نہ وہ اسکول رہے اور نا ہی اسکولوں کے کھیل کے میدان۔ ابھی تو صرف بڑے بڑے انگریزی نام والے اسکول۔ بچے صبح اسکول میں اور شام کو ٹیوشن سینٹر میں ہوتے ہیں۔ انھیں کھیل کے لیے کوئی فارغ ٹائم میسر نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کھلاڑیوں کو اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پیدا ہونا چاہیے۔