اعتکاف حضورﷺ کی محبوب عبادت
معتکف جو معترف عبدیت کا، عجز و نیاز کا، مجسم پیکر بنا بیٹھا اﷲ رحیم و رحمن کے لیے۔
دل میں اپنی عبدیت اور اﷲ کی معبودیت کا اعتراف لے کر ''لاتدعو مع اﷲ الٰھاً آخر'' کی تفسیر بن کر، اپنا گھر، مادر، پدر، دختر غرضیکہ ہر فکر چھوڑ کر دنیا سے رخ موڑ کر، بشر کا مثل سفر قبرو آخر اﷲ کے گھر کی طرف سفر کرنے اور اس کے در پر سوالی بن کر بیٹھ جانے، گویا عارضی طور پر بشر کا پردہ نشین، گوشہ نشین، اور عشق رب العالمین میں کھو جانے کا نام عبادتِ اعتکاف ہے۔
معتکف جو معترف عبدیت کا، عجز و نیاز کا، مجسم پیکر بنا بیٹھا اﷲ رحیم و رحمن کے لیے۔ معتکف کے لیے دل تو دل عقل بھی معترف ہے کہ اس دل بسملِ کی ہر مشکل حل ہو گئی، معبود، اپنے عبد کی طرف جو آنکھوں میں احساس ندامت کا سیل رواں لیے ہوئے ارحم الراحمین کی بارگاہ رحمت بیکراں کے سامنے عاجزی و انکساری کی تصویر درد بنا بیٹھا، ہاتھ باندھے کھڑا، قیام و رکوع و سجود میں، معبود کی حمد و ثنا میں رطب اللسان لرزاں و ترساں ہاتھ پھیلائے خدائے رحیم و کریم سے بہ واسطہ اس کے حبیب عظیم ؐ کے زندہ خاکی و عاصی، صدق دل سے معافی تلافی کا ملتمس ہو، اس معتکف کی طرف اﷲ لطیف کی نظر الطاف پر التفات ضرور ملتفت ہو گی۔
لغت میں اعتکاف کے معنی ٹھہرنا ہے لیکن شروع میں اعتکاف کے معنی اﷲ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر مسجد میں ٹھہرنا، مسجد میں مخصوص طریقہ پر رہنا اعتکاف کا رکن ہے، یہ طریقہ عبادت، قرآن، سنت اور اجتماع امت تینوں سے ثابت ہے، قرآن میں ارشاد ہے:
(ولا تباشروھن و انتم عاکفون فی المساجد)
اور سنت سے اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے اور وصال تک آپؐ کا یہ معمول رہا پھر آپؐ کے بعد ازدواج مطہراتؓ نے اعتکاف کیا۔ (بخاری و مسلم) اجتماع امت سے بھی اعتکاف کا عبادت ہونا ثابت ہے کیوں کہ آپؐ کے زمانہ مبارکہ سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے۔
اعتکاف ایک عظیم سعادت ہے، ناطق قرآن ﷺ کا عبادت اعتکاف کی شان کے متعلق فرمان ہے۔
(1) جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتراف کیا تو ایسا ہے جیسے اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ۔ (بیہقی)
(2) معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے (مشکوٰۃ)
(3) جو شخص رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں صدق و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کرے گا اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ہزار سال کی عبادت درج فرمائے گا اور قیامت کے دن اپنے عرش کے سینے میں جگہ دے گا۔
(4) جو شخص خالصتاً لوجہ اﷲ، رمضان شریف میں ایک دن ایک رات اعتکاف کرے تو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
(5) خالص نیت سے بغیر ریا اور بلا خواہش شہرت، جو شخص ایک دن اعتکاف بجا لائے گا اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور دوزخ کے درمیان کا فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا۔
(6) جو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتراف کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردیتا ہے اور ہر خندق کا فاصلہ آسمان اور زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے (طبرانی، بیہقی)
(7) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ''الفتح الربانی'' میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں ''کچھ لوگ مسجد میں دھرنا مار کر پڑے رہتے ہیں، اﷲ کے معصوم فرشتے ایسے لوگوں کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کبھی مسجد سے غائب ہو جائیں تو فرشتے انھیں تلاش کرتے ہیں اور اگر یہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر ان کو کوئی ضرورت پیش آ جائے تو ان کی مدد کرتے ہیں۔
ہمارے پاک طینت اسلاف کے لیے یہ انمول عبادت، اپنا دامن حیات اﷲ کی عفو و رحمت، بخشش و مغفرت کے موتیوں سے بن مول بھرنے کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کسی طرح کم نہ تھی وہ عبادت اعتکاف کو اپنے حق میں ایک عظیم سعادت سمجھتے ہیں۔
تھا جو خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اخلاق کی ایک فوج نفس موج کے ذہنی اور قلبی رویہ اﷲ کی ہر طرز بندگی کے ساتھ اسلاف کے خلاف ہوجاتا۔ ہمارے اسلاف زمانے میں قرآن میں غوطہ زن ہوکر معزز ہوئے تھے اور اخلاف مخالف اور تارک قرآن ہو کر دینا میں خوار ہو رہے ہیں۔
تعلیم، تربیت، صحبت اور ماحول یہ چار عناصر جن سے انسان کافر یا مسلمان بنتا ہے۔ تعلیم فرنگ نے فطرت کو لہو ترنگ کے بجائے جل ترنگ بنا دیا ہے۔ اﷲ نے تو آگ سے ایک ابلیس بنایا تھا لیکن مادی تہذیب فرنگ نے خاک سے کئی ابلیس بنا دیے جو اپنی خاکبازی کی کرشمہ سازی کو ابتدا و انتہا زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ماحول پر غلبہ غلامی افرنجی کے زیر اثر جو تہذیب و تمدن ہمارا ہاں ابھر رہا ہے وہ نہ اسلامی اور نہ ہی انسانی نظر آتا ہے، مسلمان کی دین سے بد ظنی، اسلاف سے بے رخی، باہمی عداوت و دوشمنی، اخلاقی پستی، دنیا پرستی، ضمیر فروشی، باہمی گولیوں کی ژالہ باری، مسلمان کی فکر و نظر پر افرنجی کی غلامی کا بین ثبوت ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اگر اب بھی ہم اسلاف کے جذبہ ایمان کو ماہ رمضان کے موسم بہار کے آخری عشرے میں ہی سہی زندہ کر لیں، آنکھیں کھول لیں، ہوش میں آ جائیں، سنبھل جائیں اور دشمنوں کی چالوں کو سمجھ جائیں اور صدق دل سے تائب ہو کر صائم بن کر دین پر قائم و دائم رہنے اور صرف اﷲ کا نائب بن کے جینے، رہنے اور مرنے کی قسم کھالیں تو دشمنوں کے سارے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں۔ اﷲ ارحم الرحمین اپنے پیارے حبیبؐ کی امت پر رحمت و برکت کے بند دروازے ہم پر اسلاف کی طرف کھول دے اور ہم کفر کی خندہ زنی اور جگ ہنسائی کی شرمندگی سے بچ جائیں۔ عروس البلاد جو یتیم البلاد بنتی جا رہی ہے اس کا سہاگ اجڑ نے سے بچ جائے۔
لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رنگ فرنگ کو چھوڑ کر صدق دل سے رنگ رب میں سب مل کر رنگ جائیں کیوں کہ جب تک عشق الٰہی سے دل کی حالت نہیں بدلتی ظاہری کی حالت بدل نہیں سکتی، دل بدل تو سمجھو دنیا بدل گئی۔ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔
اﷲ کی رحمت، اسلاف نے مفت نہیں محنت، اطاعت اور عبادت سے حاصل کی تھی ماہ رمضان میں تو اﷲ کی رحمت جم کر برستی ہے اگر اب بھی ہم ہوش میں آ جائیں اور جذبہ عشق فرہاد، دل میں پیدا کر لیں تو ممکن ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ کو ہماری ادائے شرمندگی اور آیندہ کے لیے وعدہ ادائے بندگی پر رحم آ جائے اور اﷲ رحمن ماہ رمضان قرآن اور ناطق قرآن کے صدقے میں اپنے فرمان ''الا ماقدسلف'' کی روشنی میں اپنے حبیبؐ کی امت خلف کو معاف کر کے اپنے رحمت کا سائبان ہم پر تان کر دشمنان اسلام سے محفوظ اور مامون کر دے اور ہمارے لیل و نہار ایک بار پھر باغ و بہار ہو جائیں۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا