ہائی گیٹ قبرستان پراسرار اور ہیبت ناک قصوں کی آماجگاہ
پُراسرار محل و قوع اور وسیع رقبہ قبروں کے باعث ہائی وے گیٹ قبرستان کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور قصے مشہور ہیں۔
مافوق الفطرت اور پُراسرار مقامات خوف اور وحشت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز بھی رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے کتنے ہی مقامات ہیں جو اپنی مخصوص کہانیوں، قصوں کا موضوع رہے ہیں، ایسے ہی مقامات میں برطانیہ کا ''ہائی گیٹ قبرستان'' بھی شامل ہے۔
ہائی گیٹ برطانیہ کا ایک قدیم اور وسیع وعریض قبرستان ہے۔ شمالی لندن میں واقع اس قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی مشرقی سیمیٹری اور مغربی سیمیٹری۔ اپنی ہیبت ناک طرز تعمیر اور دور دور تک پھیلے رقبے پر پھیلی قبروں کے باعث ہائی گیٹ قبرستان کافی پُر اسرارمحسوس ہوتا ہے۔ طویل العمر درخت قبروں پر سایہ فگن ہیں جن کی لمبی لٹکتی ہوئی شاخیں ہوا سے لہرا کر ایک خوف کا تاثر ڈالتی محسوس ہوتی ہیں۔ قبروں پر آویزاں مخصوص طرز تعمیر کے وزنی کتبے اور قبروں کی بناوٹ کا انداز کچھ جدا نظر آتا ہے۔ بعض قبروں پر انسانی شکل و شباہت سمیت پالتو جانوروں کے مجسمے بھی نصب ہیں جنہیں دیکھ کر گمان گذرتا ہے کہ یہ صاحبِ قبر کے وفادار ہیں اور قبر کی رکھوالی کررہے ہیں۔
1839 میں قائم کئے گئے اس تاریخی قبرستان میں مشہور شخصیات سمیت تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار افراد مدفون ہیں۔ مشہور ماہر سماجیات کارل ماکس، معروف انگریز ادیب ڈوگلس ایڈمز اور چارلس ڈکنز کے والدین کی قبریں بھی یہں ہائی گیٹ سیمیٹری میں واقع ہیں۔
اپنی منفرد اور کچھ پُراسرارمحل و قوع، وسیع رقبہ اور قبروں کی زیادتی کے باعث ہائی وے گیٹ قبرستان کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور قصے مشہور ہیں، اور اس سے متعلق ایک کتاب ''ہانٹیڈ ہائی گیٹ'' بھی منظرِعام پر آچکی ہے۔ قبرستان میں نظر آنے والے بھوت پریت کے قصوں پر ایک طویل بحث پائی جاتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود بھوتوں اور روحوں پر یقین رکھتی ہے تاہم ایک حلقہ اسے توہم پرستی بھی گردانتا ہے۔ 1840 کی دہائی میں لندن کےمقامی اخبارات میں تواتر کے ساتھ ہائی گیٹ قبرستان میں بھوت پریتوں کی خبریں شائع ہوتی رہیں ہیں۔
سب سے زیادہ عام قصہ اور واقعہ جو ہائی گیٹ قبرستان سے متعلق مشہور ہے وہ یہاں دیکھے جانے والے طویل القامت چمگادڑ نما انسان کا ہے، دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ ایک سات فٹ طویل، سیاہ رنگت کا حامل شخص جس نے سیاہ چوغہ اور اونچا ہیٹ پہنے ہوئے ہوتا ہے اور اکثر اس کی پرچھائی نظرآتا ہے جو غائب ہوجاتی ہے۔ چمکتی اور پُراسرار آنکھوں والے سیاہ ویمپائر کو 1960 سے اب تک متعدد بار دیکھے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ جس نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔
اس کے علاوہ ہائی وے گیٹ قبرستان سے جڑا ایک اور زد زبانِ عام قصہ لمبے سفید بالوں والی ناراض خاتون سے متعلق بھی مشہور ہے۔جسے اکثر قبروں کے پیچھے بھاگتے اور اپنے بچوں کو تلاش کرتے دیکھا گیا ہے، اس خاتون سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے قتل کردیا گیا ہے، یہ ناراض اور سفید دراز زلفوں والی خاتون قریب جانے پر فضا میں غائب ہوجاتی ہے۔
ایک اور قصہ جو قبرستان سے متعلق مشہور ہے وہ یہاں ایک شخص کے ساتھ پیش آنے والا قصہ ہے جس کا قبرستان کے قریب گاڑی خراب ہونے کے باعث ایک بھوت سے سامنا ہوجاتا ہے۔ قبر کے پتھریلے کتبے کے سرہانے پر کھڑے سرخ آنکھوں والے بھوت نے اس شخص کو خوفزدہ کردیا۔ اس کے علاوہ سفید مخصوس لباس میں موجود نن کو بھی دیکھا گیا ہے جو قبروں کے قریں بیٹھی نظر آتی ہے۔
ان تمام واقعات سے اور مشاہدات سے قطع نظر دیکھا جائے تو سائنس کہتی ہے کہ جو تصورات ہم زہن میں بسالیتے ہیں وہ خیالات اس حد تک راسخ ہوجاتے ہیں کہ بعض اوقات ان پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ تاہم ہائی گیٹ قبرستان اور اس جیسے بہت سے پُراسرار مقامات انسانی عقل اور فہم سے متصادم نظر آتے ہیں۔ دلائل اور حقیقیت کی اہمیت اپنی جگہ ہے تاہم کچھ مافوق الفطرت واقعات انسان کو تحیر میں مبتلا ضرور کر دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہائی گیٹ برطانیہ کا ایک قدیم اور وسیع وعریض قبرستان ہے۔ شمالی لندن میں واقع اس قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی مشرقی سیمیٹری اور مغربی سیمیٹری۔ اپنی ہیبت ناک طرز تعمیر اور دور دور تک پھیلے رقبے پر پھیلی قبروں کے باعث ہائی گیٹ قبرستان کافی پُر اسرارمحسوس ہوتا ہے۔ طویل العمر درخت قبروں پر سایہ فگن ہیں جن کی لمبی لٹکتی ہوئی شاخیں ہوا سے لہرا کر ایک خوف کا تاثر ڈالتی محسوس ہوتی ہیں۔ قبروں پر آویزاں مخصوص طرز تعمیر کے وزنی کتبے اور قبروں کی بناوٹ کا انداز کچھ جدا نظر آتا ہے۔ بعض قبروں پر انسانی شکل و شباہت سمیت پالتو جانوروں کے مجسمے بھی نصب ہیں جنہیں دیکھ کر گمان گذرتا ہے کہ یہ صاحبِ قبر کے وفادار ہیں اور قبر کی رکھوالی کررہے ہیں۔
1839 میں قائم کئے گئے اس تاریخی قبرستان میں مشہور شخصیات سمیت تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار افراد مدفون ہیں۔ مشہور ماہر سماجیات کارل ماکس، معروف انگریز ادیب ڈوگلس ایڈمز اور چارلس ڈکنز کے والدین کی قبریں بھی یہں ہائی گیٹ سیمیٹری میں واقع ہیں۔
اپنی منفرد اور کچھ پُراسرارمحل و قوع، وسیع رقبہ اور قبروں کی زیادتی کے باعث ہائی وے گیٹ قبرستان کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور قصے مشہور ہیں، اور اس سے متعلق ایک کتاب ''ہانٹیڈ ہائی گیٹ'' بھی منظرِعام پر آچکی ہے۔ قبرستان میں نظر آنے والے بھوت پریت کے قصوں پر ایک طویل بحث پائی جاتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود بھوتوں اور روحوں پر یقین رکھتی ہے تاہم ایک حلقہ اسے توہم پرستی بھی گردانتا ہے۔ 1840 کی دہائی میں لندن کےمقامی اخبارات میں تواتر کے ساتھ ہائی گیٹ قبرستان میں بھوت پریتوں کی خبریں شائع ہوتی رہیں ہیں۔
سب سے زیادہ عام قصہ اور واقعہ جو ہائی گیٹ قبرستان سے متعلق مشہور ہے وہ یہاں دیکھے جانے والے طویل القامت چمگادڑ نما انسان کا ہے، دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ ایک سات فٹ طویل، سیاہ رنگت کا حامل شخص جس نے سیاہ چوغہ اور اونچا ہیٹ پہنے ہوئے ہوتا ہے اور اکثر اس کی پرچھائی نظرآتا ہے جو غائب ہوجاتی ہے۔ چمکتی اور پُراسرار آنکھوں والے سیاہ ویمپائر کو 1960 سے اب تک متعدد بار دیکھے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ جس نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔
اس کے علاوہ ہائی وے گیٹ قبرستان سے جڑا ایک اور زد زبانِ عام قصہ لمبے سفید بالوں والی ناراض خاتون سے متعلق بھی مشہور ہے۔جسے اکثر قبروں کے پیچھے بھاگتے اور اپنے بچوں کو تلاش کرتے دیکھا گیا ہے، اس خاتون سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے قتل کردیا گیا ہے، یہ ناراض اور سفید دراز زلفوں والی خاتون قریب جانے پر فضا میں غائب ہوجاتی ہے۔
ایک اور قصہ جو قبرستان سے متعلق مشہور ہے وہ یہاں ایک شخص کے ساتھ پیش آنے والا قصہ ہے جس کا قبرستان کے قریب گاڑی خراب ہونے کے باعث ایک بھوت سے سامنا ہوجاتا ہے۔ قبر کے پتھریلے کتبے کے سرہانے پر کھڑے سرخ آنکھوں والے بھوت نے اس شخص کو خوفزدہ کردیا۔ اس کے علاوہ سفید مخصوس لباس میں موجود نن کو بھی دیکھا گیا ہے جو قبروں کے قریں بیٹھی نظر آتی ہے۔
ان تمام واقعات سے اور مشاہدات سے قطع نظر دیکھا جائے تو سائنس کہتی ہے کہ جو تصورات ہم زہن میں بسالیتے ہیں وہ خیالات اس حد تک راسخ ہوجاتے ہیں کہ بعض اوقات ان پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ تاہم ہائی گیٹ قبرستان اور اس جیسے بہت سے پُراسرار مقامات انسانی عقل اور فہم سے متصادم نظر آتے ہیں۔ دلائل اور حقیقیت کی اہمیت اپنی جگہ ہے تاہم کچھ مافوق الفطرت واقعات انسان کو تحیر میں مبتلا ضرور کر دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس