سپاہیوں کے لیے ڈبل سواری کا شاندار تحفہ
کم بختو! پابندی لگ گئی ہے، پھر مت کہنا میں خیال نہیں رکھتا۔ دو دن میں جتنے مزے اُڑانے ہیں اُڑا لو۔
HYDERABAD:
موٹی توند والے تھانیدار کی آنکھوں سے آنسو بَھل بَھل کر گرنے لگے۔ حالانکہ بھل بھل کر خون گرتا ہے، لیکن عام لوگوں کا، پولیس والوں کا نہیں۔ اُس کے رونے کی آواز اتنی خوف ناک تھی کہ وہ عوام میں ہوتا تو شاید کئی لوگ اس کی آواز کی تاب نہ لاتے ہوئے راہی ملک عدم کر جاتے لیکن یہاں سب اس کے پیٹی بند بھائی موجود تھے۔ سب کا دکھ مشترکہ تھا۔ سبھی غم ویاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ بس نہ چلتا تھا کہ وردی پھاڑ کر سینہ کوبی کریں۔ کمبخت وردی بھی تو ایک ہی ملتی ہے جوکہ حد درجہ میلی بھی ہوتی ہے لیکن اس سے ان کو کیا فرق پڑنے والا تھا۔
''یہی حال رہا تو گھر میں بچے فاقوں مرجائیں گے''۔ پیٹ کمر سے پچکا کر ایک عیار قسم کا سپاہی لہجے میں کڑواہٹ لاتے ہوئے بولا۔
''وہ تو سب چھوڑو! ایک ماہ ہوگیا۔ بیگم نے شاپنگ نہیں کی اور روز 'بے غیرت پولیس' کے طعنے سن سن کر کان پک گئے ہیں''۔ یہ ایک ہینڈ سم پولیس والا تھا۔
''لیکن غیرت تو تم میں شاید ہی کبھی میں نے دیکھی ہو۔'' موٹی توند والا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ہینڈ سم پولیس والے کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے کان غصے کے مارے سرخ ہوگئے۔ مونچھوں کے دو چار بال کھڑے ہو کر بلی کی طرح پھڑ پھڑانے لگے۔ اس سے پہلے کے تھانے میں بلوہ ہوجاتا۔ مکروہ قسم کے چہرے والے سپاہی نے ایک جملہ کہہ کر ماحول کو ایک دم ٹھنڈا کر دیا۔
''یار! تم غصے سے انگارے مت بنو۔ پولیس اور غیرت! ان دو متضاد باتوں پر دھیان مت دو۔ یہ کھلا تضاد ہے۔ ہونہہ پولیس اور غیرت ... میاں تم بھی ہوش کے ناخن لو''۔ مکروہ چہرے والے پولیس نے موٹی توند والے پولیس کے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
یہ نوک جھونک پولیس کے سپاہیوں کے درمیان جاری تھی۔ یہ ایک پولیس اسٹیشن تھا۔ جس میں چھٹی سے قبل سپاہی بیٹھے اپنے افسران بالا کو کوس رہے تھے جو ان کا دھیان نہیں رکھتے، تنخواہیں کم ہیں اور عوام بھی تیز ہوگئے ہیں۔ اب رشوت دینے کے بجائے سفارش کرواتے ہیں۔ ہر بندے کا کسی خاص بندے سے تعلق اور واسطہ ہے۔ میڈیا منہ زور ہوچکا ہے۔ ہر دوسرا بندہ مسلمان ہوتا ہے۔ یا کسی صحافی کا رشتہ دار ۔۔۔اس لیے کسی بھی عام فرد کو پکڑ کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا خواب اور محاورہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ وی آئی پی کی سیکورٹی ایک الگ مسئلہ ہے۔ جہاں پہروں بھوکے رہ کر ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ حرام ہو جو سرکار لوگوں کو ذرا رحم آئے کہ آیا ہمارے ساتھ موجود پولیس والوں کو کھانا پانی نہ دیا جائے تو پھر وہ ہلاکو خان کی طرح عوام (خصوصاً موٹر سائیکل سواروں) پر پل پڑتے ہیں۔
سپاہیوں میں پھیلی ہوئی اس بے چینی کو آئی جی نے بڑے غور سے سنا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ کہیں سپاہی اس کے خلاف اُٹھ نہ کھڑے ہوں اور حالات کو سدھارنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ آئی جی کے ذہن میں ایک بہترین ترکیب آئی۔ اپنی اس شیطانی ترکیب پر وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنے ماتھے پر بوسا لے لیتا۔
اس نے فوراً وزیر اعلی سے مشورہ کرکے شہر میں دو دن کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگا دی اور ساتھ ہی ایک خفیہ مراسلہ تھانیداروں کو پہنچایا۔
کم بختو! پھر مت کہنا میں خیال نہیں رکھتا۔ دو دن میں جتنے مزے اُڑانے ہیں اُڑا لو۔
موٹی توند والے تھانیدار کے پاس جب آئی جی کا مراسلہ آیا تو تشکر کے مارے اس کے آنسو نکل آئے۔ اس نے سوچا اگر آئی جی ان کی تنخواہ میں اضافہ نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس ہر ماہ دو دن ڈبل سواری پر پابندی لگ جائے تو اپنے وارے نیارے ۔۔۔
دے دھنا دھن ۔۔۔
چک دے پھٹے ۔۔۔
اولا لہ اولالہ۔۔۔
[poll id="530"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
موٹی توند والے تھانیدار کی آنکھوں سے آنسو بَھل بَھل کر گرنے لگے۔ حالانکہ بھل بھل کر خون گرتا ہے، لیکن عام لوگوں کا، پولیس والوں کا نہیں۔ اُس کے رونے کی آواز اتنی خوف ناک تھی کہ وہ عوام میں ہوتا تو شاید کئی لوگ اس کی آواز کی تاب نہ لاتے ہوئے راہی ملک عدم کر جاتے لیکن یہاں سب اس کے پیٹی بند بھائی موجود تھے۔ سب کا دکھ مشترکہ تھا۔ سبھی غم ویاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ بس نہ چلتا تھا کہ وردی پھاڑ کر سینہ کوبی کریں۔ کمبخت وردی بھی تو ایک ہی ملتی ہے جوکہ حد درجہ میلی بھی ہوتی ہے لیکن اس سے ان کو کیا فرق پڑنے والا تھا۔
''یہی حال رہا تو گھر میں بچے فاقوں مرجائیں گے''۔ پیٹ کمر سے پچکا کر ایک عیار قسم کا سپاہی لہجے میں کڑواہٹ لاتے ہوئے بولا۔
''وہ تو سب چھوڑو! ایک ماہ ہوگیا۔ بیگم نے شاپنگ نہیں کی اور روز 'بے غیرت پولیس' کے طعنے سن سن کر کان پک گئے ہیں''۔ یہ ایک ہینڈ سم پولیس والا تھا۔
''لیکن غیرت تو تم میں شاید ہی کبھی میں نے دیکھی ہو۔'' موٹی توند والا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ہینڈ سم پولیس والے کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے کان غصے کے مارے سرخ ہوگئے۔ مونچھوں کے دو چار بال کھڑے ہو کر بلی کی طرح پھڑ پھڑانے لگے۔ اس سے پہلے کے تھانے میں بلوہ ہوجاتا۔ مکروہ قسم کے چہرے والے سپاہی نے ایک جملہ کہہ کر ماحول کو ایک دم ٹھنڈا کر دیا۔
''یار! تم غصے سے انگارے مت بنو۔ پولیس اور غیرت! ان دو متضاد باتوں پر دھیان مت دو۔ یہ کھلا تضاد ہے۔ ہونہہ پولیس اور غیرت ... میاں تم بھی ہوش کے ناخن لو''۔ مکروہ چہرے والے پولیس نے موٹی توند والے پولیس کے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
یہ نوک جھونک پولیس کے سپاہیوں کے درمیان جاری تھی۔ یہ ایک پولیس اسٹیشن تھا۔ جس میں چھٹی سے قبل سپاہی بیٹھے اپنے افسران بالا کو کوس رہے تھے جو ان کا دھیان نہیں رکھتے، تنخواہیں کم ہیں اور عوام بھی تیز ہوگئے ہیں۔ اب رشوت دینے کے بجائے سفارش کرواتے ہیں۔ ہر بندے کا کسی خاص بندے سے تعلق اور واسطہ ہے۔ میڈیا منہ زور ہوچکا ہے۔ ہر دوسرا بندہ مسلمان ہوتا ہے۔ یا کسی صحافی کا رشتہ دار ۔۔۔اس لیے کسی بھی عام فرد کو پکڑ کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا خواب اور محاورہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ وی آئی پی کی سیکورٹی ایک الگ مسئلہ ہے۔ جہاں پہروں بھوکے رہ کر ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ حرام ہو جو سرکار لوگوں کو ذرا رحم آئے کہ آیا ہمارے ساتھ موجود پولیس والوں کو کھانا پانی نہ دیا جائے تو پھر وہ ہلاکو خان کی طرح عوام (خصوصاً موٹر سائیکل سواروں) پر پل پڑتے ہیں۔
سپاہیوں میں پھیلی ہوئی اس بے چینی کو آئی جی نے بڑے غور سے سنا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ کہیں سپاہی اس کے خلاف اُٹھ نہ کھڑے ہوں اور حالات کو سدھارنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ آئی جی کے ذہن میں ایک بہترین ترکیب آئی۔ اپنی اس شیطانی ترکیب پر وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنے ماتھے پر بوسا لے لیتا۔
اس نے فوراً وزیر اعلی سے مشورہ کرکے شہر میں دو دن کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگا دی اور ساتھ ہی ایک خفیہ مراسلہ تھانیداروں کو پہنچایا۔
کم بختو! پھر مت کہنا میں خیال نہیں رکھتا۔ دو دن میں جتنے مزے اُڑانے ہیں اُڑا لو۔
موٹی توند والے تھانیدار کے پاس جب آئی جی کا مراسلہ آیا تو تشکر کے مارے اس کے آنسو نکل آئے۔ اس نے سوچا اگر آئی جی ان کی تنخواہ میں اضافہ نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس ہر ماہ دو دن ڈبل سواری پر پابندی لگ جائے تو اپنے وارے نیارے ۔۔۔
دے دھنا دھن ۔۔۔
چک دے پھٹے ۔۔۔
اولا لہ اولالہ۔۔۔
[poll id="530"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس