موازنہ لیڈروں کا

پنجاب میں ایسے حکمران جو زرعی ترقیاتی اداروں کے تحقیقی اداروں کو ڈھا کر وہاں پلاٹ کٹنگ کی جائے

anisbaqar@hotmail.com

ایک دور ایسا تھا جب پاکستان میں معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی تھی، لیڈروں کی کوئی تنخواہ نہ تھی، وزراء تنخواہ نہ لیتے تھے، مگر چند برسوں میں دیکھتے دیکھتے دور بدلنے لگے، کرپشن کی شروعات تھی، مگر ملک کا بھی تھوڑا بہت سوچتے تھے مگر اب قومی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ 8 لاکھ فی کس ماہانہ، ترقیاتی فنڈ اپنی جگہ، قبضہ مافیا سے روابط الگ، اگر اس رقم میں 50 فی صد کٹوتی کر دی جائے تو اس رقم سے 15 ہزار ماہانہ والے 8 ہزار سے زائد لوگوں کو نوکریاں مل سکتی ہیں۔ جب کہ قومی اسمبلی کی نشستیں اکثر خالی پڑی رہتی ہیں۔

کورم اکثر پورا نہیں ہوتا، آخر 8 لاکھ ماہانہ کے کون سے کام یہ لوگ کرتے ہیں، ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر پر اور نہ ملک میں ریسرچ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی پر، حکومت کی نظریں کبھی ان لوگوں پر نہیں ہوتیں، البتہ یہ لوگ ایسی ترکیبوں میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی گرفت نہ ہو سکے، مثلاً سندھ ایچ ایس سی (HSC) جب کہ مرکز میں ایسا ادارہ موجود ہے۔

پنجاب میں ایسے حکمران جو زرعی ترقیاتی اداروں کے تحقیقی اداروں کو ڈھا کر وہاں پلاٹ کٹنگ کی جائے اور غریب ملک کی فصلوں کو ترقی دینے کے بجائے ان اداروں کو ہی تباہ کر دیا جائے جو زرعی ترقی کے خواہاں ہیں، تا کہ عام لوگوں تک غذا پہنچ سکے۔ دور کیوں جائیے ملک کے صنعت کاروں کا احوال، گلی کوچوں میں ناریل کی گیری، بسوں، ٹھیلوں اور شہر میں فروخت ہوتی ہے ہر جگہ ناریل ٹوٹتا ہے تو اس کا زیادہ تر پانی ضایع ہو جاتا ہے کیوں کہ چھ آٹھ گھنٹے میں حدت سے یہ خراب ہو جاتا ہے مگر امریکا میں کئی بڑی کمپنیاں ناریل کے پانی میں دیگر وٹامن ملا کر دودھ کے پیکٹ کے قسم کے ڈبے میں فروخت کر کے بڑے کاروبار کر رہی ہیں مگر اس ملک میں ناریل کا پانی اور گنے کا رس ایسے کیوں فروخت نہیں ہوتا محض زرعی ترقیاتی شعبے سے عدم دلچسپی اور راتوں رات زردار بننے کا خواب دیکھتے ہیں جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کے سیاست دان نہ صرف ہوشیاری کی چالیں چلتے ہیں بلکہ ملک کو ترقی دینے کے لیے نت نئے منصوبے بناتے ہیں حالیہ چند ماہ سے یورپی یونین کے ایک اہم رکن یونان (Greece) نے یورو زون (Euro Zone) میں تہلکہ مچا دیا ہے۔

یونان کے حالیہ انتخاب میں سپراس (Tsipras) نے اپنے انتخابات کے دوران عوام سے معاشی اصلاحات پر جو وعدے کیے تھے اور یورپی یونین کے مرکزی بینک اور آئی ایم ایف سے ادھار لینے کی شرائط پر جو وعدہ کیا تھا ان کو جب وفا کرنے کا وقت آیا تو یونان کے وزیر اعظم نے پہلے اپنی پارٹی کے ارکان کو اعتماد میں لیا اور پھر انتخابات کے بعد ریفرنڈم کی گوٹ یورپی یونین کے کورٹ میں پھینکی۔

5جولائی بروز اتوار سپراس (Tsipras) نے ملک میں ریفرنڈم کا اعلان کیا، یہ وہی اعلان تھا جس میں عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ (IMF) آئی ایم ایف اور یورپی سینٹرل بینک سے جو رقوم ادھار لیں گے وہ عوام دشمن شرائط ہرگز قبول نہ کریں گے (جیسا کہ پاکستانی حکمران قبول کرتے چلے آ رہے ہیں) اور اب یہ ادھار کی رقم اس قدر خطیر ہو چکی ہے کہ 20 کروڑ افراد کے حساب سے ہر فرد تقریباً ایک لاکھ فی کس مقروض ہو چکا ہے مگر سپراس یورپی یونین کے 28 ممالک کے ایوان میں تن تنہا یونان کا مقدمہ لے کر کھڑے ہو گئے، سپراس نے ٹیکسوں کا بوجھ اور دیگر عوام دشمن تجاویز کو رد کر دیا، جن میں ٹیکسوں کے اضافے، تنخواہوں میں کمی، اشیائے صرف کی قیمتوں میں سیلز ٹیکس وغیرہ میں اضافے کو نظر انداز کر دیا۔


اس کے برعکس سپراس نے 50 فیصد ادھار دی گئی رقم کا خاتمہ، جس کا اثر یہ ہوا کہ 30 فیصد تک تو قرضہ معاف کرنے کی منظوری دے دی گئی مگر جرمنی کی چانسلر مارکل یونان کو مزید مراعات پر سب سے زیادہ مزاحمت کر رہی ہیں، انھوں نے فرانس کے لیڈر کے ہمراہ یونان کے خلاف پریس کانفرنس بھی بھرپور انداز میں کی اس کے علاوہ سابق سوویت یونین کی مشرقی یورپی ریاستیں بھی یونان کو 50 فیصد کٹوتی پر تیار نہیں ہیں اور خود یورپی یونین کے مرکزی بینک کے اعلیٰ عہدے دار بھی، کیونکہ دیگر ممالک بھی ایسی ہی مراعات کے خواہاں ہوں گے، یونان کے وزیر اعظم نے گزشتہ اتوار کو جو ریفرنڈم کرایا وہ بھی یورپی یونین کے حکمرانوں کے لیے ایک جمہوری جواب تھا کیوں کہ ہمارے یہاں آپ نے دیکھا ہو گا کہ انتخاب کے موقع پر جو وعدے کیے جاتے ہیں وہ عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہوتے ہیں اور چند ماہ میں ہی وعدوں کے وفا کرنے کی بات تو دور کی بات، اس کے برعکس عمل شروع ہو چکا ہوتا ہے۔

اسی لیے یونان کے وزیر اعظم (Tsipras) سپراس نے آئی ایم ایف ورلڈ بینک کی گرفت توڑنے کی جو بات کی تھی اس وعدے کو وفا کر کے دکھایا، یہ نہیں کہ آئی ایم ایف جو املا (Dictation) لکھا رہے ہیں من و عن لکھ رہے ہیں ملک میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ملک کے حالات اور عوام کی جیب کے حساب سے نہیں لیے جاتے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے عہدیداروں کے حکم نامے کے اعتبار سے ہوتے ہیں مگر سپراس نے ورلڈ بینک کو یکسر ٹوک دیا اور بتایا کہ سیلز ٹیکس اور غیر حقیقی انکم ٹیکس ملک کی مصنوعات کو گراں کر دیں گے اور پھر یہی نہیں کہ ملک کے لوگوں کے لیے یہ مصنوعات (Products)مہنگی ہو جائیں گی بلکہ ایکسپورٹ میں بھی دشواریاں پیدا ہوں گی، جب کہ ایکسپورٹ کے پہلو کو یہاں حکمراں مدنظر نہیں رکھتے ان کا بس چلے تو یہ ملک کے گلی کوچوں کو بھی فروخت کر ڈالیں۔

کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کی چیزیں فروخت کرنے میں کوئی درد نہیں۔ جس کو پرائیوٹائزیشن کا نام دیا گیا ہے۔ کے ای ایس سی کو جب پرائیوٹائز کیا گیا تو کیوں؟ بولی بولنے والے بجلی کے کھمبوں کی قیمت بھی نہ دے سکے اور وہ شہر کے مالک بن بیٹھے۔ غیر معیاری مشینری کا استعمال اور غیر معیاری تاروں کا استعمال کر کے دھونس دے کر لوگوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں قید و بند، قرقی، جائیداد کی نیلامی، اور کن لوگوں کی؟ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جب کہ میں نے ایک موقع پر لکھا تھا کہ اکثر سائٹ کی فیکٹریوں میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں کی فیکٹریوں میں جن کے ڈانڈے حکمرانوں سے ملتے ہیں اگر آپ موازنہ کریں گے تو ہمارے حکمرانوں کی حیثیت نمایاں ہو جائے گی کہ ان لوگوں میں حب الوطنی کے آثار موجود نہیں ہیں۔ ظاہری مصنوعی ترقی بھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔

آئی ایم ایف سے ہر شرط پر یہ ادھار لینے کو تیار ہیں کیونکہ ان کو مقروض تو ہونا نہیں ہے بلکہ عام آدمی کو مقروض ہونا ہے ملک کے چپے چپے کی زمین بغیر کسی رقم کے ادھار وعدوں پر فروخت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اشتہارات کی شکل میں جب رقم آتی ہے تو پھر زمین کا قضیہ تمام ہوتا ہے۔ یونان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یورپی یونین کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے حالانکہ یونان کے وزیر اعظم یورپی ایوان میں 27 لیڈروں کے خلاف اکیلے کھڑے ہیں۔ مگر عوام کی قوت کے بل بوتے پر جب کہ پاکستانی حکمران کو عوام کی قوت میسر نہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ عوام کو لوٹا اور خواص کا ساتھ دیا۔ ایک طرف ملک مقروض، مگر دوسری طرف حکمران منی لانڈرنگ، کک بیک(Kick Back) جیسے مکروہ جرائم میں مبتلا ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دور تک بام و در روشن نظر نہیں آتے۔

الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں' جاہلوں' مُردوں کی بیماری کی دنیا ہے
(ن۔م راشد)
Load Next Story