کمزور سفارت کاری کیا رنگ لائے گی
ہمارے ملک کا دراصل المیہ یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی فوجی اور سول حکومتوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
FAISALABAD:
پاکستان کی کمزور سفارت کاری نے بھارت کو پاکستان پر حاوی کرا دیا ہے۔ وہ اپنے جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر ذلیل وخوارکرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، مگر ہم اپنے ملک میں اس کی دہشت گردی کے پختہ ثبوت رکھتے ہوئے بھی اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔گزشتہ دنوں بھارت نے بغیر ثبوت کے ممبئی حملے میں ملوث کیے گئے ایک پاکستانی شہری ذکی الرحمن لکھوی کی عدالت کے ذریعے رہائی کو بنیاد بناکر اقوام متحدہ میں متعین پاکستانی عملے کو سینکشنز کمیٹی کے روبرو اتنا بے بس و مجبور کردیا کہ قریب تھا کہ پاکستان پر بھارت کی خواہش کے مطابق پابندیاں عائد کردی جاتیں۔
واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ بھارت سرکار ممبئی حملے کے سلسلے میں لکھوی کو اس جھوٹے کیس کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر ہر قیمت پر سزا دلا کر اس سے کشمیریوں کی حمایت کرنے کا انتقام لینا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو ممبئی حملے میں مبینہ معاونت کرنے پر عالمی سطح پر رسوا کرانا چاہتا ہے، چنانچہ اپنے اس مذموم مقصد کے تحت اس نے اپریل کے مہینے میں سینکشنزکمیٹی کے چیئرمین مسٹر جم میک لے کو ایک خط ارسال کیا تھا۔ یہ خط اس کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب اشوک مکھرجی نے لکھا تھا جس میں لکھوی کی پاکستانی عدالت کی جانب سے رہائی کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پاکستان پر پابندی لگا کر غیر ملکی امداد کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جب پچھلے ہفتے 23 جون کو سینکشنز کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا ،کمیٹی کے چیئرمین نے بھارتی یک طرفہ موقف کو اتنی اہمیت دی کہ قریب تھا کہ پاکستان پر پابندی کا اطلاق ہو جاتا کہ خوش قسمتی سے ایسے میں ہمارا آزمودہ دوست چین ہمارے لیے مسیحا بن کر سامنے آگیا اوراس نے سینکشنزکمیٹی کے سامنے یہ موقف اختیارکرتے ہوئے پاکستان پر بھارتی حملے کو ناکام و نامراد بنادیا کہ بھارت نے لکھوی کے خلاف پاکستانی عدالت کو ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ سینکشنز کمیٹی چین کے ویٹو کے آگے بے بس ہوگئی اور اس طرح بھارت کو منہ کی توکھانا پڑی مگر اس واقعے نے ہماری سفارت کاری کی پول کھول دی ہے۔
کاش کہ اقوام متحدہ میں موجود ہمارے مستقل مندوب نے بھارتی خط کے سینکشنز کمیٹی کے حوالے کیے جانے کی خبر پاکر لکھوی کے مقدمے کی اصل حقیقت اور بھارتی ثبوتوں کی عدم فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے ایک خط سینکشنز کمیٹی کے حوالے کردیا ہوتا تو سینکشنز کمیٹی یک طرفہ فیصلہ نہ کرتی اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ ہمیں چین کا احسان لینے کی ضرورت پیش آتی۔ بہرحال اس واقعے سے یہ بات ضرور واضح ہوگئی کہ ہمارا سفارتی عملہ کتنا سست، حالات سے بے خبر اور قومی ذمے داریوں کے احساس سے نابلد ہے جب کہ دوسری جانب ہمارے دشمن کا سفارتی عملہ کس قدر چاک وچوبند اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ہر لمحہ تیار ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنی وزارت خارجہ کو خصوصی اہمیت دیتی ہے اور وزارت خارجہ اپنے سفارتی عملے پر خاص توجہ مرکوز رکھتی ہے۔
ہمارے ملک کا دراصل المیہ یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی فوجی اور سول حکومتوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ سول اور فوجی حکومتوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں سول حکومتوں کا بھارت کے ساتھ رویہ نرم اور دوستانہ ہوتا ہے جب کہ فوجی حکومتوں کا رویہ سخت رہا ہے۔ ادھر تجزیوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خود بھارتی حکومتوں کا پاکستانی سول حکومتوں کے ساتھ سخت اور فوجی حکومتوں کے ساتھ مصالحانہ رہا ہے۔ پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ بھارتی حکومت کا رویہ مسلسل مصالحانہ تھا ۔
جس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ اس دور میں بھارتی حکومت نے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے تھے اور وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کئی فارمولوں پر تبادلہ خیال کرنے پر آمادہ بھی ہوگئی تھی جب کہ گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں بھارتی رویہ مسلسل سخت رہا مگر پیپلز پارٹی بھارت کے ساتھ ہر معاملے میں مفاہمت کرنے پر تیار رہی۔ بدقسمتی سے اس پورے دور میں پاکستانی وزارت خارجہ کوئی اہمیت حاصل نہ کرسکی ۔
ابتدا میں چند ماہ شاہ محمود قریشی بحیثیت وزیر خارجہ اپنے فرائض قومی امنگوں کے مطابق ادا کرتے رہے مگر ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں ان کی قومی اصولوں کے مطابق نمٹنے کی پالیسی پارٹی ل لے سکتا تھا، چنانچہ شاہ محمود قریشی کو فارغ کردیا گیا اور کو پسند نہ آئی کیوں کہ امریکا بہادر کی ناراضگی کو بھلا کون موپھر حنا ربانی کھر کو وزیر خارجہ کا عہدہ تفویض کیا گیا ۔
اب دو سال قبل پاکستان میں نئی حکومت اقتدار سنبھال چکی ہے۔ افسوس کہ اس دور میں بھی وزارت خارجہ کوئی اہمیت اختیار نہ کرسکی پہلے تو کم ازکم وزیر خارجہ مقرر کرلیا جاتا تھا اس وقت تو اس وزارت کا کوئی مستقل وزیر ہی نہیں ہے ،البتہ وزیر اعظم کے دو مشیران اس وزارت کو مل کر چلا رہے ہیں، سرتاج عزیز بلاشبہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں اور دوسرے شخص طارق فاطمی بھی سفارت کاری کا کافی تجربہ رکھتے ہیں مگر دونوں ہی اب تک کوئی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے ہیں۔ ممبئی حملہ کیس میں لکھوی کی رہائی کے سلسلے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کو جو خفت اٹھانا پڑی ہے اور ہمیں چین کی مدد لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے یہ واقعہ موجودہ حکومت کی سفارتی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
اسے وزارت خارجہ سے اب سوتیلی ماں جیسا رویہ ترک کردینا چاہیے۔ سفارتی عملے کی اصلاح کے علاوہ ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا مقرر کیا جانا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اگر بھارت ممبئی حملے کے جھوٹے الزام کے سہارے پاکستان کو اقوام متحدہ تک گھسیٹ کر لے جاسکتا ہے تو ہم سمجھوتہ ایکسپریس میں بھارتی دہشت گردی کا شکار پاکستانیوں کا سچا کیس اب تک اقوام متحدہ میں کیوں لے کر نہیں جاسکے؟ اس ضمن میں دیر کرنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کیونکہ بھارتی عدالت نے خود مجرموں کی شناخت جاری کردی ہے مگر افسوس کہ ہم نہ تو بھارت پر دباؤ ڈال کر مجرموں کو سزائیں دلوا سکے اور نہ ہی بھارت کی دہشت کی اس سنگین واردات کو اقوام متحدہ کی نظر میں لاسکے۔
اگر ہماری وزارت خارجہ فعال ہوجائے تو بھارت کو اس کے کرتوتوں پر اقوام متحدہ میں ذلیل و خوار کرنے کے لیے ملک میں اس کی دہشت گردی کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ بلوچستان میں کھلم کھلا بھارت دہشت گردی میں ملوث ہے، باغی رہنما جو باہر بیٹھے ہیں بھارتی پاسپورٹ پر آزادانہ سفر کر رہے ہیں۔ کیا یہ بھارتی دہشت گردی کا کھلا ثبوت نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر مودی کا وہ دہشت گردانہ بیان ہے جو اس نے بنگلہ دیش میں دیا ہے جسے اقوام متحدہ کے سامنے لانا انتہائی ضروری ہے۔
جہاں تک ممبئی حملے کا تعلق ہے بھارت نے محض دشمنی کی بنیاد پر پاکستان کو اس میں ملوث کیا ہے۔ ورنہ پاکستان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حملہ بھارت سرکار کی ایک من گھڑت کہانی پر مبنی ہے کہ کراچی سے دس مسلح نوجوان ایک چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ کر سیکڑوں میل کھلے سمندر میں سفر کرتے ہوئے بھارتی نیوی اور کوسٹ وغیرہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ممبئی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہاں انھوں نے ایک پورا دن پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھا۔ وہ ممبئی شہر سے اس قدر واقف نکلے کہ ممبئی میں اپنی پسند کی ہر جگہ فائرنگ کرتے رہے لوگوں کو دھڑا دھڑ ہلاک کرتے رہے وہاں کی پولیس اور فوج نہایت دلچسپی سے یہ تماشا دیکھتی رہی۔
پھر بعد میں کہیں جاکر تاج ہوٹل میں ان سے مقابلہ کیا گیا ۔ 9 نوجوانوں کو تو فوراً ہلاک کردیا گیا صرف ایک کو زندہ چھوڑ دیا گیا جسے پاکستانی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ اگر وہ پاکستانی تھا تو اس کی پاکستانی سفارتی عملے سے کیوں ملاقات نہ کرائی گئی۔ حقیقت یہ تھی اجمل جسے انھوں نے قصاب کا خطاب دیا تھا کو ''را'' والے نیپال سے پکڑ کر لائے تھے اور اسے پاکستان دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
بہرحال سابقہ حکومت محض امریکی دباؤ سے مجبور ہوکر اس من گھڑت واقعے کو پاکستانی غیر ریاستی افراد کی کارروائی تسلیم کرچکی ہے اور اس طرح ہمالیہ جیسی غلطی کی مرتکب ہوچکی ہے آج پاکستان اس غلطی کو بھگت رہا ہے اور آگے نہ جانے کیسے اس سے جان چھوٹے گی۔ تاہم اس مصیبت سے جان چھڑانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بھارت کی دہشت گردی کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جائے۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کے سترہویں یوم تاسیس کے موقعے پر وزیر اعظم نواز شریف وہاں خطاب کرنے والے ہیں اس موقعے کا فائدہ اٹھاکر بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کا معاملہ شدت سے اٹھایا جائے اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر بھارت شہ پاکر پہلے سے زیادہ دہشت گردی پر کمر کس سکتا ہے۔