لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا خواب
ملک کی مقتدر طاقتوں نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی اور ٹارگٹ کلرز کو قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا۔
KARACHI:
پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے، سوائے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے۔ ایک زمانہ تھا یہ تصور کرنا بھی محال تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں سے دہشتگردوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے یا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ بند کی جاسکتی ہے۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی مقتدر طاقتوں نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی اور ٹارگٹ کلرز کو قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب کسی طرح کم ہونے میں ہی نہیں آرہا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی سے پاک ایک پرامن ملک بن جائے تو بھی اس کے بنیادی مسائل تب تک حل نہیں ہوسکتے جب تک بنیادی گورننس میں بہتری نہیں لائی جاتی۔
بجلی وگیس کے بحران اپنی حدوں سے اور لوگ اپنی جانوں سے گزر چلے،کارخانوں اور صنعتوں پر تالے پڑے، گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے لگے، بچوں کی تعلیم اور وقت پر مریضوں کے آپریشن محال ہیں اور ایسے میں ارباب اختیار روز بن سنور کر ٹی وی چینلز پر تاویلیں گھڑتے، پچھلی حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سے توانائی خصوصاً بجلی کا بحران بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، خاص طور پرگرمیوں کے اس موسم میں بجلی کی پیداوار اور طلب میں بہت زیادہ فرق نے جہاں حکومت کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔وہاں حکومت بجلی کی کمی سے عوام میں پکنے والے لاوے کو بیانات دے کر ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔
حکومت بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ 2018ء تک ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام کو اس عذاب سے نجات دلادے گی۔مگر اس سے پہلے بھی یہ سنہری باتیں کرکے عوام کو ایسے خواب دکھائے گئے ہیں جو تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے ہیں۔ تھرکول میں کوئلے کے بے بہا ذخیروں کا خواب کیسا دلکش تھا۔ پلک جھپکنے میں ہی پانچ برس گزرگئے۔ 9600 مربع کلومیٹرکے علاقے میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔اگر ان سے بجلی بنانا چاہیں تو مسلسل 500 سال تک سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے انتخابی مہم کے دوران پہلے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آکر صرف 6 ماہ کی مدت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام کو اذیت سے نجات دلائیں گے، پھر انھوں نے ڈیڑھ سال کی مدت میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا اور آخر میں کہاکہ اگر دو سال میں یہ مسئلہ حل نہ کرسکا تو آپ میرا نام بدل دیں۔ اب میاں برادران کو برسر اقتدار آئے ہوئے 6 ماہ ہی نہیں بلکہ پورے دو سال گزرچکے ہیں، مگر میاں شہباز شریف نے نہ مسئلہ حل کیا ہے اور نہ ہی اپنا نام بدلا ہے۔
مسئلہ حل ہوتا بھی توکیسا ہوتا کیونکہ بجلی کا مسئلہ حکمرانوں کی پہلی توکیا دسویں ترجیح میں بھی شامل نہیں ہے۔ اخباروں اورٹی وی اسکرینوں پر اشتہار دینے سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور تقسیم میں نظم وضبط نہیں ہوگا اور نہ ہی سیمیناروں میں بڑے بڑے دعوے کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
اس وقت حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے حسین نقشے پیش کرکے عوام کو لبھا رہی ہے مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ وہ 2 سال میں لوڈشیڈنگ کا جن قابو کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ حکومت نے گڈانی بلوچستان میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کی نوید سنائی کہ جس سے 6600 میگا واٹ بجلی پیدا ہونی تھی مگر یہ پلانٹ تکمیل سے پہلے ہی فلاپ ہوگیا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور آصف زرداری نے تھرکول پروجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح مشترکہ طور پرکیا تو اسے ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا گیا۔ مگر پھر فنڈزکی عدم دستیابی کی وجہ سے منصوبہ رک گیا۔نیلم جہلم پاور پروجیکٹ، پورٹ قاسم پاور پراوجیکٹ، گڈانی پاور پلانٹ اور چند دیگر کاغذی منصوبوں کی کہانی بھی تھرکول پروجیکٹ سے زیادہ مختلف نہیں جب کہ حال ہی میں وزارت پانی و بجلی کی جانب سے پنجاب میں 525 میگا واٹ کا چیچوکی ملیاں کا پاور پلانٹ پراجیکٹ ختم کردیا گیا ہے۔
اس وقت پورا ملک لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہا ہے۔ حکومت نے 2017 تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی خوشخبری عوام کو کئی بار سنائی ہے۔ یہ سال اس لیے اہم ہے کہ اس کے بعد عام انتخابات ہوں گے جن میں مسلم لیگ (ن) کو لوڈشیڈنگ کے ستائے ووٹروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی تک جو کچھ نظر آرہا ہے اس سے لگتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اگلے دس سال تک حل نہیں ہوگا۔ پہلے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل بجلی کا اصلہ مسئلہ اور بحران کیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کی کم ازکم طلب 16000 میگا واٹ سے زائد ہے جب کہ عملاً ہم 12000 میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں، طلب اور رسد میں مجموعی طور پر 5سے 6 ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال رہتا ہے۔ پاکستان تیل کمپنیوں کا ایک بہت بڑا خریدار ہے، یہ کمپنیاں ہمارے ملک سے اربوں ڈالر کماتی ہیں، وہ بھلا سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ہاتھ سے کیسے جانے دے سکتی ہیں، یہی کمپنیاں اور ممالک ہیں جو ہمارے متعدد ترقیاتی منصوبے متنازع بناکر ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔
ہم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جو توانائی کے بحران سے نبرد آزما ہورہے ہیں، اگر اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ماضی میں کبھی مثبت اقدامات اٹھانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی۔ ملک میں درجنوں بجلی گھر ایسے ہیں جو کئی عرصے تک اپنی استعداد سے کہیں کم بجلی پیدا کررہے ہیں مگر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی کہ اس اہم معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔ ماہرین کے اعدادوشمار کیمطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے تین ذرایع موجود ہیں۔ ہائیڈل، تھرمل اور ایٹمی توانائی۔ جب کہ ملک میں چار قسم کے ادارے بجلی کی پیداوار میں حصہ لیتے ہیں، جن میں واپڈا،کے الیکٹرک، پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن اورآزاد طور پر بجلی پیدا کرنیوالے چند ادارے (IPPs) ہیں۔ ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے، وہیں اس کی قلت بھی بڑھتی جارہی ہے۔
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔ ہم اپنے قومی بجٹ کا 16 ارب ڈالر صرف توانائی پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا تو گردشی قرضوں سے قوم کی جان کسی صورت نہیں چھوٹے گی۔ پاکستان کے مقابلے میں دیگر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں 35 فی صد بجلی جوہری توانائی سے پیدا کی جاتی ہے، جب کہ 40 فیصد توانائی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پاکستان پر خاص کرم ہے کہ ہمارے صحرا بھی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ تھر کے ریگ زاروں میں کوئلے کے کھربوں ٹن ذخائر زمین کے نیچے چھپے ہیں جن کے ذریعے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی اگلے پانچ سو برسوں تک بغیر کسی تعطل کے استعمال کی جاسکتی ہے۔
یہ توانائی ایران، سعودی عرب اور عراق کے تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کوئلہ دنیا بھر میں ایندھن اور توانائی کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ امریکا میں کوئلے کی پیداوار کا 94 فیصد بجلی بنانے کے کام آتا ہے۔ ایک اندازے کیمطابق ایک کلوگرام کوئلے سے اتنی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کہ 60 واٹ کا بلب 36 گھنٹے تک روشن رہ سکتا ہے۔ بعض افراد شمسی توانائی پر زور دیتے ہیں لیکن وہ یہ اہم حقیقت بھول جاتے ہیں یا پھر وہ اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ شمسی توانائی کا ایک ایسا پلانٹ جس کی پیداواری استعداد 100 میگا واٹ ہو، اس کے لیے 500 ایکڑ اراضی کی ضرورت ہے جب کہ تقریباً اتنی ہی اراضی پر 4سے 5 جوہری توانائی کے پلانٹس تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔
جس میں ہر پلانٹ کی پیداواری استعداد شمسی توانائی کے پلانٹ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوگی۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو مصلحت و مفادات سے بالاتر ہوکر ٹھوس فیصلے اور ان فیصلوں پر عمل کرنا ہوگا۔ پاکستان کے انرجی بحران کا صرف اور صر ف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ حکمران بجلی کی سستی پیداوار کے تمام منصوبوں پر جنگی بنیادوں پر کام کریں۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کیے جائیں، ملک میں زیادہ سے زیادہ جوہری پلانٹس تعمیر کیے جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے معاشی چیلنجز سے نمٹا جاسکے اور پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔