عید قریب مگر پیسے نہیں بچوں کو کیا منہ دکھاؤں

پیغامِ رمضان کو سمجھیں اوران تمام لوگوں کو عید کی خوشیوں میں یاد رکھیں جوہماری توجہ کے مستحق ہیں۔


سید عون عباس July 12, 2015
آنے والا ہردن عید کی نوید لئے قریب آرہا ہے ایسے میں ہماری معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں یہ ہمیں سوچنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

کہنا تو بہت آسان ہے لیکن جب غور کریں تو واقعی پتا چلتا ہے کہ ہم کسی بھی چیز کا احساس ہی نہیں کرتے اور اگر کبھی غلطی سے احساس ہو بھی جائے تو وہ بھی مختصر سے وقت کے لئے، اس کے بعد پھر ہم زندگی کی مصروفیات میں گم ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے علاوہ کسی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ اپنے اختتام پر ہے اور ہر آنے والا دن عید کی نوید لئے قریب آرہا ہے ایسے میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں یہ ہمیں سوچنا ہوگا۔

آج سے چار سال قبل پیپلز چورنگی کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سے کئے جانے والے کریکر کے حملے میں دانیال نامی ایک شخص شدید زخمی ہوگیا اور بہترعلاج نہ ملنے کے باعث اس کی بینائی بھی چلی گئی۔ ان چار سالوں میں چارعیدیں آئیں مگر گنے کا رس بیچنے والے دانیال کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے دو بیٹوں کے لئے نئے کپڑے خرید سکے اور سفید پوشی کا یہ عالم ہے کہ وہ کبھی کسی سے اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کرتا، لیکن بچے تو چھوٹے ہوتے ہیں ان کو کون سمجھائے، اس کا حل بھی اس غریب نے اس طرح نکالا کہ وہ عید کے دو دن بچوں کو گھر سے یہ کہہ کر گھرسے نکلنے نہیں دیتا کہ اگر باہر جاؤ گے تو تمہیں کوئی اغواء کرلے گا۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ آیا ایک فلاحی ریاست میں رہنے والوں کو کیا اتنی بھی سہولیات میسر نہیں کہ وہ اپنا علاج کرواسکے؟ یا پھر یہ کہا جائے کے ہم لوگ مردہ دل ہوگئے ہیں کہ ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ دانیال کے علاج کے لئے ایک پرائیوٹ اسپتال نے کہا کہ شاید بیرون ِ ملک علاج کرانے سے اس کی بینائی واپس آجائے لیکن اس مد میں لاکھوں روپے خرچ ہوں گے، جس کے باعث اس غریب نے اس اندھیروں بھری دنیا ہی کو اپنا مستقل مسکن تسلیم کرلیا ہے۔

شہر کراچی شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جو ملک بھر کو 70 دیتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی شہر میں لوگ فاقہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اگر حکومت اِن لوگوں کی مدد میں ناکام ہوگئی ہے تو کیا ہم بھی ایسی صورت میں خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہیں؟ یا پھر ہمارا بھی اس سلسلے میں کچھ فرض بنتا ہے؟ اس بات سے بلکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں رہنے اور بسنے والوں کے تمام تر حقوق کی فراہمی ریاست ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ان حکمرانوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو اقتدار کے نشے میں اس قدر چور ہیں۔ جن کے نزدیک اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ صرف اقتدار ہے باقی عوام کا کیا ہے اگر خود سے اُنہوں نے کچھ کرلیا تو ٹھیک اور اگر پریشانیوں کے سبب دنیا فانی سے کوچ کرگئے تو غربت میں کمی ہی ہوگی۔

حضرت علی سے ایک بار صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ جب آپ خلیفہ نہیں تھے تب بھی آپ کی غذا دو سے تین نوالوں سے زیادہ نہیں تھی اور اب جبکہ آپ مسلمانوں کے امیر بن گئے ہیں تب بھی آپ کی غذا اتنی ہی ہے، اس کے جواب میں حضرت علی نے فرمایا کہ
ہمارے آس پاس کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خالی پیٹ ہیں اور تم لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہو کہ میں پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں!

یعنی معاشرے کے عام فرد کے دوسروں پر حقوق اپنی جگہ مگر خلیفہ وقت کے کاندھوں پر بھی اتنے ہی حقوق ہیں کہ جس کا اندازہ ہمیں حضرت علی کے جواب سے ہوسکتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے رحمت اور برکت بھرے دن تیزی سے گزر رہے ہیں اور اب عید الفطر کی آمد میں بھی چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ کیا کبھی میں نے اور آپ نے اس غریب کے گھر کے حال کے بارے میں سوچا جہاں کھانے کے لئے دو وقت کے کھانے کا انتظام بھی بمشکل ہوپاتا ہے اور اگر ایک بار آدھے پیٹ کھانا نصیب ہو بھی جائے تو دوسرے وقت کا کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کھانا نصیب ہوگا بھی یا نہیں۔

اب اگر فرضی طور پر بھی آپ اس گھرانے کا خیال کریں کہ جہاں ایک کمانے والا ہو اور 6 کھانے والے ہوں تو اس گھر میں عید کا سماں کیسا ہوتا ہوگا ؟ جب رمضان کی آخری راتوں میں ٹی وی پر چلنے والے اشتہاروں میں جوتے، چپل، کپڑے اور مختلف نوعیت کی مٹھائیوں کے اشتہارات دیکھ کر گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی باپ سے وہ خریدنے کی فرمائش کرتی ہوگی تو اس ماں اور باپ کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی؟



کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ایسے غریب اور مستحق لوگ ہیں کی مدد کریں جو سفید پوش ہونے کے سبب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ کیا حقوق العباد کی بات کرنے والوں کو یہ معاملات نظر نہیں آتے؟ ضروری ہے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر احساس پیدا کریں ان لوگوں کے لئے جو واقعی ہماری امداد کے مستحق ہیں۔ حضرت عمرؓ کے دور میں صورتحال یہ تھی کہ لوگ ہاتھوں میں زکوۃ لئے پھرتے تھے اور لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اس کی بھی وجہ یہی تھی کہ تمام تر لوگ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگیاں گزار رہے تھے۔لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

لہذا آج کے دور میں آپ بھی اپنی اخلاقی و مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے پڑوس، محلے، دوستوں اور رشتے داروں میں دیکھیے کہ کون ہے ایسا جو عید کے دن قریب آتے ہی مشکلات اور پریشانی میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ سب لوگ عید کی تیاریاں کرتے ہیں اور وہ لوگ اس بات کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں کہ کسی طرح عید کے دن ان کے بچے پیٹ بھر کے کھانا کھاسکیں۔ لہذا پیغامِ رمضان کو سمجھیں اور ان تمام لوگوں کو یاد رکھیں جو واقعی مستحق ہیں۔ خصوصاً وہ افراد جو دہشتگردی اور اسی طرح کی نا گہانی اموات کا شکار ہو گئے اور وہ اپنے گھروں کے واحد کفیل تھے۔ یہ سوچنا ہوگا اور ان متاثرین کے لئے کام کرنا ہوگا مجھے بھی اور آپ کو بھی۔

[poll id="532"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں