سانپ اورسیڑھی
سیاست میں اب ایک تکلیف دہ حقیقت سے نظرنہیں چرائی جاسکتی۔جسکے ہاتھ میںملک کاسب سے بڑاصوبہ یعنی پنجاب ہوگا،
کوچِہ سیاست میں متضادطرح کے رجحانات برسرِپیکار ہیں۔ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی نفی کرتے ہوئے زندہ رویے۔
ہر سوچنے والاشخص اردگردکے حالات سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہاں۔جانوروں اورپرندوں کی شائددوسری بات ہو۔ویسے وہ بھی ماحول کے طابع ہی نظرآتے ہیں۔پچھلے چنددنوں میں مختلف اہل قلم،اہل ہنر، ریٹائرڈسول اوردیگر افسروں کے ساتھ طویل نشستیں ہوئیں۔سرکاری اور غیرسرکاری دونوں طرح کی۔ چندباتیں لکھ سکتاہوں مگر اکثر نہیں۔
اس وقت سیاسی بساط پرہرطرح کے مہرے اورکھلاڑی موجودہیں۔کھیلنے والوں کے اردگردمصاحبین اوردرباریوں کاایک عجیب ساہجوم ہے۔انکوکمال حاصل ہے کہ اپنے دنیاوی آقاکی غلط چال پربھی فرطِ مسرت سے بے دم ہوئے جاتے ہیں۔تالیاں بجابجاکرجب ہاتھ تھک جاتے ہیں تو آواز پیدا کرنے کے لیے ہاتھوں سے چہرے کوسرخ کرلیتے ہیں۔ ہر طرف ایک جیساحال ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جیسے مشکل ملک میں مغربی طرزکی قانون کی حکمرانی،معاشرتی اور معاشی انصاف کاکلیہ صرف ایک خواب ہے۔ شائد دھندلا ساخواب۔ہمارے پورے نظام میں ایک بھی ایسے قدکاٹھ کاانسان نہیں،جس پرتمام اداروں کواعتمادہواورجواداروں کے مابین پُل کاکرداراداکرسکے۔ہرطرف خواہشات کے غلام اورہوس زرمیں مبتلاعشق زادے۔
سیاست میں اب ایک تکلیف دہ حقیقت سے نظرنہیں چرائی جاسکتی۔جسکے ہاتھ میںملک کاسب سے بڑاصوبہ یعنی پنجاب ہوگا،مرکزی حکومت خودبخودبرق رفتاری سے دوڑ کر اس فریق کے پاس آجائے گی ۔ اس کے خلاف یاحق میں دلائل کا انبارلگاسکتے ہیں مگرفی الوقت سیاست کاکڑواسچ یہی ہے۔باقی دل کوتسلیاں دینے والے جذباتی نعرے ہیں۔
ہماری موجودہ جمہوریت کاجوہری نقطہ اب یہی رہ گیاہے۔باقی صوبوں کی اہمیت اپنی جگہ پر،مگرعدوی اعتبارسے پنجاب ہی مرکزی طاقت کاتوازن طے کریگا۔سیاست کی آنے والی ممکنہ جنگ اصل میں پنجاب میں لڑی جائے گی ۔اس خطے کی صدیوں پرانی روایت ہے کہ یہ ہمیشہ طاقت ورفریق کے ساتھ اتحاد کرتا ہے۔ سچائی اورقانون کے کسی بھی مروجہ اصول سے مکمل طور پر بالاتر۔روایت کی بنیادسیکڑوں برس سے یہی رہی ہے اور شائد اب بھی یہی ہے۔
اس وقت مقتدرطبقے کا ایک مضبوط گروہ ہے جسکی نظرمیں پورے ملک میں کوئی بحران نہیں۔ سیاسی،نہ معاشی اورنہ ہی معاشرتی۔بیانات میں انکایقین ہے کہ ہم دنیاکے ان مضبوط ممالک کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں جوسرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین گردانے جاتے ہیں۔ محض چندبرسوں میں پاکستان کی کایاپلٹ جائے گی۔ پوری دنیاکے لیے ہماراملک ایک مثال بن جائیگا اور ہرمسئلہ حل ہوجائیگا۔صرف اورصرف اس وقت صبرکی ضرورت ہے۔
تھوڑاساصبر۔ محض چندصدیوں کاصبر۔اس سیاسی مقتدر حلقے کی جڑیں پنجاب سے لے کرملک کے ہراہم حصہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔موجودہ نظام میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے تقریباً تمام لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ ان کا دعوی بہت صاف ہے۔اگلاالیکشن بھی انھیں کا ہوگا۔ ان کے نزدیک اگلے دس سے پندرہ برس صرف اورصرف ان کی حکومت قائم ودائم رہے گی۔ ہرادارے میں ان کی بات کو تسلیم کرنے والے موجود ہیں۔ ہر ادارے میں۔ منبرومحراب پربھی ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔
دوسری طرف،ایک ایساسیاسی گروہ بھی موجودہے جومختلف نہیںبلکہ متضادخیالات کاحامل ہے۔ان کے نزدیک ملک میں ہرچیزغلط ہورہی ہے۔کچھ بھی ٹھیک نہیں۔انکوملک تباہی کے دہانے پرنظرآ رہاہے۔وہ بیانات دربیانات دے رہے ہیں کہ جلدہی ان کی بدولت ملک میں ایک محیرالعقول انقلاب آجائیگا۔ان کی متبادل قیادت میںپاکستان دنیاکے لیے روشن ستارہ بنکرابھرے گا۔ان کے بقول مقتدرطبقہ اس بلاکی کرپشن میں ملوث ہے کہ ریاست کی چولیں ہل چکی ہیں۔وہ لوگوں کو خواب بیچ رہے ہیں یاان کے خواب چُرارہے ہیں۔ان کی قوت میں بھی روزبروزاضافہ ہورہاہے اورلوگ ان کی بات غورسے سن رہے ہیں۔
تصادم کی اس فضامیں سیاست دانوں،سرکاری ملازمین اورتاجروں کاایک خاموش طبقہ بھی ہے جوکونے میں بیٹھ کرملائی کھانے میں مصروف ہیں۔وہ بھیانک قسم کی مالی کرپشن میں مصروف کارہیں۔ان کے پاس کسی پرتنقیدکرنے کاوقت بالکل نہیں ہے۔دلچسپ سچ یہ ہے کہ یہ سمجھدارلوگ متضاد مقتدر طبقوں کے قریب ہیں۔ ان کاخیال رکھتے ہیں۔ ان کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔اس کے عوض ان کے تمام گناہ معاف ہیں۔ انکاذکرکسی اخباریاکسی چینل پرنہیں ہوتا۔ ہمارے موجودہ ملک کے اصل خاموش مالک یہی لوگ ہیں۔ انکاکوئی نام نہیں۔مگریہ ہرجگہ مسکراتے بلکہ قہقہے لگاتے ہوئے موجودرہتے ہیں۔ایسے لگتاہے کہ پاکستان دراصل ان کے لیے وجودمیں آیاتھا۔
موجودہ سیاست کی بساط پرغورکیجیے۔آپکومیری عرض سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی ۔اس وقت تمام ادارے عدم توازن کاشکارہیں۔اس کی عملی مثال ہرصوبے میں محسوس کی جاسکتی ہے۔کہیں غیرمعمولی پھرتی اور مستعدی،اورپھرکسی اورجگہ مکمل بے عملی اورتساہل۔ قومی اداروں کاہرصوبہ کے لیے علیحدہ طرز عمل ہے۔کہیں محبت درمحبت اورکہیں فولاداور بارود کی خوشبو۔ اس وقت اہم کھیل کراچی میں جاری ہے۔یہ ایک فطری بات ہے کیونکہ کراچی اقتصادی طورپربہت اہم شہر ہے۔وہاں سیاست دان اوردیگرادارے چو مکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں۔ گھمسان کی جنگ جاری ہے۔
پوراشہر تناؤ کاشکار ہے۔ مگر یہیں سے مرکزی سوال پیداہوتاہے کہ ہیجان کااصل مقصد کیا ہے۔یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے اوراس کے منطقی انجام میں سے کیاحاصل کرنا مقصود ہے۔ سوچیے۔ ہر طرح کی"مستندـ" انفارمیشن دفاعی اداروں کے پاس موجود ہے۔پیسہ کیسے لیا جاتا ہے،کہاں اکھٹا ہوتا ہے،کون اکھٹا کرتا ہے۔پھراسے کہاں کہاں پہنچایا جاتا ہے۔آگے پھربیرونی ممالک میں انھیں کس غیرمحسوس طریقے سے منتقل کردیا جاتا ہے۔میں نے" مستند" کالفظ استعمال کیاہے۔ٹھوس حقائق طاقتورحلقے کے پاس بمعہ ثبوت موجودہیں۔پھرمسئلہ کس چیزکاہے؟یہاں سے ایک پیچیدہ مگرغیرمبہم سوال سامنے آتا ہے۔
مقصد چند سیاسی قوتوں کو دباؤمیں رکھناہے یاایک بے لاگ احتساب کی بنیاد رکھنا ہے؟چند برس پہلے تک معمولی حیثیت کے حامل افراد سے کروڑوں روپے برآمد کر کے' پھر انھیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر سمجھ میں یہ نہیں آتا،کہ پھر اس کھیل کومنطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایاجارہا؟کیوں کرپشن کے دیوتاؤں کوسرکاری عزت واحترام کے ساتھ باہرجانے کی اجازت دی جارہی ہے۔اہل قلم یہ سوچنے پرمجبورہوچکے ہیں کہ شائدیہ سب کچھ چندسیاسی حلقوں کوشدیددباؤمیں رکھنے کی پالیسی تونہیں ہے۔شائداس دباؤکی بدولت چند جماعتوں میں توڑپھوڑکے عمل کوتیزکرنے کے بعدانھیں کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرناہے۔
آپ ریاست کی انتظامی مشینری کاغیرمتعصب تجزیہ کیجیے۔ہرصوبہ کے وفاقی افسرصرف اورصرف اپنے صوبہ میں محدودہوکررہ چکے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی افسران صرف ایک صوبہ میں اپنی پوری سرکاری نوکری گزاردیتے ہیں۔تلخ بات یہ ہے کہ وفاق کاانتظامی ڈھانچہ اب صرف کاغذپروفاقی روح کاحامل رہ گیاہے۔دوسراالمیہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین میں ہرصوبہ میں ذاتی سیاسی رجحانات پختہ ہوچکے ہیں۔ ایک غیرجانبدارانتظامی فریق کاوجودختم ہوچکا ہے۔
ذاتی پسند اور ناپسنداس پختہ سطح پرجاچکی ہے کہ پوری مشینری گروہ بندی اورجتھوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ غیرجانبدار اورغیرسیاسی افسران مکمل طورپرغیرموثرکردیے گئے ہیں۔خوفناک بات یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں سے وابستہ افسران بھیانک کرپشن میں ملوث ہیں۔انکو کرپشن کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔کرپشن کرنااب ایک میرٹ ہے۔ اس کے برعکس ایمانداری سے کام کرنے کوجرم بنادیا گیاہے۔ ہرصوبہ کے ڈیپارٹمنٹ میں ثبوت اورسچی کہانیاں موجود ہیں۔مگرکوئی بھی اس طرف دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ریاستی اداروں کی اس گروہ بندی اور میرٹ کے فقدان نے پورے ملک کے انتظامی ڈھانچے کو غیرفعال کردیا گیا ہے۔تنزلی اس قیامت کی ہے کہ پوراملک ایک ناکام ریاست میںتبدیل ہوسکتاہے۔
یہ تمام اب المناک کھیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اقتدار کی شطرنج پرکس مہرے کے پیچھے کسی مضبوط مہرے کی طاقت ہے،کسی کے علم میںنہیں۔ مگرسب کے علم میں ہے۔عام سا پیادہ بادشاہ،ملکہ،وزیریاہاتھی کے زور پر قیامت ڈھانے پر قادرہوچکاہے۔اس کے بالکل ساتھ ساتھ سانپ اورسیڑھی کا خطرناک کھیل بھی صفائی سے کھیلاجارہاہے۔جب ایک فریق سازش اورمضبوط سیڑھی کی بدولت منزل کے قریب پہنچ جاتا ہے،تواچانک سانپ اسے ڈس کر نیچے کھینچ کرصفرپرلے آتا ہے۔کبھی کبھی تویہ بھی معلوم نہیں ہوپاتاکہ سانپ کون ہے۔ اورسیڑھی کون۔سانپ اورسیڑھی کے اس غیریقینی کھیل میں ہوسکتاہے کہ کھلاڑی بھی ہارجائے،سانپ بھی غائب ہوجائے اورسیڑھی بھی ٹوٹ جائے؟