سو سال سے جاری جنگ قسط پنجم
پہلی عالمی جنگ نے مرتی ہوئی سلطنتِ عثمانیہ کے پیٹ سے تین قوم پرست تحریکوں کو جنم دیا۔
پہلی عالمی جنگ نے مرتی ہوئی سلطنتِ عثمانیہ کے پیٹ سے تین قوم پرست تحریکوں کو جنم دیا۔ ترک قوم پرست تحریک کہ جس نے بعد از جنگ نیم مردہ عثمانی سلطنت کا کفن دفن کیا۔ عرب قوم پرست تحریک کہ جو شریف ِ مکہ و مدینہ حسین ابنِ علی کے ہاتھوں جنم ہوئی اور پھر اس تحریک کے بچوں نے آگے چل کے طرح طرح کی نظریاتی شکلیں اختیار کیں اور صیہونی تحریک کہ جسے ارضِ فلسطین میں پلاٹ الاٹ ہوا۔ ترک قوم پرست تحریک کو چھوڑ کے باقی دونوں ( عرب، صیہونی) تحریکوں کے نقشوں میں ابتدائی رنگ سامراجی ڈرائنگ بورڈ پہ بھرے گئے لیکن بعد میں عرب قوم پرست تحریک سامراجی گرفت سے نکل گئی مگر سامراجیوں نے اس تحریک کو صیہونی تحریک کے ذریعے مسلسل یرغمال کیے رکھا اور آج تک ایسا ہی ہے۔
جیسے ہی سلطنتِ عثمانیہ نے نومبر انیس سو چودہ میں جرمنوں کی حمایت میں جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ روس، برطانیہ اور فرانس نے مستقبل میں ہونے والی ممکنہ بندر بانٹ کے دعوے تیار کرنے شروع کر دیے یعنی حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کا انتظام ہونے لگا۔ مارچ انیس سو پندرہ میں روس نے اعلان کیا کہ وہ فتح کی صورت میں آبنائے استنبول پر قبضہ رکھے گا تاکہ بحیرہِ روم سے بحیرہِ اسود کو ملانے والا یہ تنگ راستہ آیندہ کبھی بھی روس کی اقتصادی و اسٹرٹیجک کمزوری نہ بن سکے۔ فرانس نے روسی دعوی قبول کرتے ہوئے اپنی فرمائش جاری کردی کہ اسے تو بعد از جنگ ترکے میں صرف بلادِ شام اور ترکی کے جنوب مشرقی ساحل سے دلچسپی ہے۔
جب کہ جون انیس سو پندرہ میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ تو بس اتنا چاہتا ہے کہ ترکوں پر فتح کے بعد اسے عدن تا سویز پورا بحیرہ احمر اور خلیجِ فارس تا میسو پوٹامیا ( عراق ) اور پھر فلسطین کی پٹی مل جائے تا کہ جب برطانوی ہندوستان سے آدمی یا مال چلے تو وہ براستہ خلیجِ فارس بغداد پہنچے۔ وہاں سے ریل میں بیٹھ کے ( جو ابھی تعمیر ہونی ہے) فلسطین کی بندرگاہ حیفہ تک جائے اور پھر بحیرہ روم کے ذریعے براعظم یورپ عبور کرتا ہوا آرام سے لندن میں اتر جائے اور یوں ہندوستان تا برطانیہ ہفتوں کا سفر دنوں میں طے ہو جائے۔ اور اگر خوش قسمتی سے خلیج یا میسو پوٹامیا میں کل کلاں تیل نکل آتا ہے تو وہ بھی اسی راستے سے برطانیہ پہنچ جایا کرے اللہ اللہ خیر صلا۔
یہ تھے اصل سامراجی مقاصد کہ جنھیں حاصل کرنے کے لیے انیس سو پندرہ تا سترہ تین علیحدہ علیحدہ خفیہ محاذوں پر ایک ساتھ کام کیا گیا۔ اور تین متضاد سمجھوتے کیے گئے۔ شریفِ مکہ اور دیگر عرب قوم پرستوں سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ ترک جُوا اپنے کندھے سے اتارنے کے لیے برطانیہ اور فرانس کی مدد کو تیار ہوں تو پھر شام تا یمن کا علاقہ عربوں کا۔ صیہونیوں سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ دور بیٹھے امریکا کو جنگ میں کدوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تو پھر فلسطین میں ایک عدد یہودی ریاست ان کی۔ عربوں اور صیہونیوں کو اپنے اپنے کام پر لگا کر اور روس کا آبنائے استنبول پر دعوی تسلیم کرنے کے بعد تیسری جانب برطانیہ اور فرانس بندر بانٹ کے اصل ڈرائنگ بورڈ پر سر جوڑ کے بیٹھ گئے۔
انیس سو پندرہ کے وسط میں جب وسطی یورپ کے محاذ پر جنگ تعطل کا شکار ہوگئی تو مشرقِ وسطی کا محاذ گرم کرنے پر توجہ دینے کے لیے اتحادیوں کو وقت مل گیا۔ شریف حسین کے ساتھ مصر میں متعین برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میکموہن مسلسل رابطے میں رہے ( یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے انیسویں صدی کے آخر میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان سرحدی حد بندی کی جو آج بھی میک موہن لائن کہلاتی ہے )۔
دمشق میں عرب قوم پرستوں کا خفیہ اجلاس ہوا اور ترک گورنر جمال پاشا کی عرب کش پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے برطانیہ اور فرانس کی طرف جھکاؤ کو جائز سمجھتے ہوئے شریفِ مکہ حسین ابنِ علی کی قیادت میں بغاوت ِ عام کا فیصلہ ہوا۔ اس اجلاس میں شریف حسین کا بیٹا فیصل بھی شریک تھا۔ اس نے قوم پرستوں کے مطالبات کاغذ پر لکھ کر جوتے کے تلوے میں چھپائے اور طائف روانہ ہو گیا۔ وہاں پر شریف خاندان کے تصورات پر یمن سے شام تک کا عظیم عرب نقشہ چھایا ہوا تھا کہ جس پر خاندانِ شریف کی حکمرانی کا جھنڈا لہرایا جانا تھا۔
چنانچہ پانچ جون انیس سو سولہ کو شریف حسین نے عرب بغاوت کا بگل بجا دیا۔ اس کے بیٹے فیصل کی قیادت میں ترکوں کی سپلائی لائن یعنی حجاز ریلوے جگہ جگہ سے اکھاڑنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ تاہم ٹرانس اردن کے بدو قبائل عثمانی سلطنت سے بدستور وفادار رہے اور انھوں نے عرب قوم پرست دستوں کی شدید مزاحمت کی۔ لیکن انیس سو اٹھارہ میں جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوا۔ جب برطانوی جنرل ایلن بی یروشلم میں فاتحانہ داخل ہوا تو امیر فیصل کے دستے بھی اس کے شانہ بشانہ تھے۔ اور پھر جب دو اکتوبر انیس سو اٹھارہ کو ترک ولایت شام کے ہیڈ کوارٹر دمشق میں برطانوی فوجیں داخل ہوئیں تب بھی امیر فیصل ہمراہ تھا۔
گیارہ نومبر انیس سو اٹھارہ کو جرمنی اور ترکی نے ہتھیار ڈال دیے اور جنگ بندی ہو گئی۔ انیس سو انیس میں پیرس امن کانفرنس ( منعقدہ ورسائے پیلس ) میں شریف حسین کا بیٹا امیر فیصل اس امید کے ساتھ شریک ہوا کہ نئے نقشے میں فاتح طاقتیں ( برطانیہ ، فرانس ) اس کے سر پر آزاد عرب مملکت کا تاج خوشی خوشی رکھ دیں گی۔ لیکن فیصل کو اس وقت زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا جب یہ اعلان ہوا کہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہنے والے عرب علاقوں کو فوری آزادی نہیں ملے گی بلکہ انھیں کچھ عرصے کے لیے برطانیہ اور فرانس کی عارضی مینڈیٹ میں رکھا جائے گا تا کہ عربوں کو رموزِ حکمرانی سکھائے جا سکیں۔ جب وہ یہ امتحان پاس کرلیں گے تو پھر انھیں مکمل آزادی مل جائے گی اور استادی شاگردی کے اس انتظام کا نام مینڈیٹ (نظامِ انتداب ) ہو گا۔ اس انتظام کے تحت مصر اور میسو پوٹامیا برطانوی شاگردی میں رہیں گے اور شام و لبنان فرانسیسی شاگردی میں۔ ظاہر ہے کہ یہ سنتے ہی عرب آپے سے باہر ہو گئے۔
مصر جس نے جنگ میں برطانیہ کو سب سے زیادہ افرادی قوت فراہم کی تھی وہاں بغاوت ہو گئی اور برطانیہ بہت مشکل سے دبا سکا۔ امیر فیصل نے اس استادی شاگردی نظام کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے کھلا دھوکا قرار دیا اور دمشق پہنچ کر یکطرفہ بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے صرف چار ماہ بعد پیرس امن کانفرنس کی مینڈیٹ سے مسلح فرانسیسی افواج نے فیصل کے مٹھی بھر دستوں کو جنگِ میسلون میں تباہ کر دیا اور فیصل کو دمشق سے بھاگنا پڑا۔ مگر برطانویوں کو فیصل کی جنگی خدمات پر ترس آ گیا اور انھوں نے بطور اشک شوئی اسے جنگ کے بعد ابھرنے والی نئی مملکتِ عراق کی زیرِ انتداب بادشاہی تھما دی اور اس کے بھائی کو ٹرانس جارڈن کا حکمران بنا دیا اور مکہ و مدینہ پر بھی شریف خاندان کی اجارہ داری اگلے کچھ برس برقرار رکھی گئی حتی کہ برطانیہ کو شریفِ مکہ کی جگہ ایک نیا بااعتماد خاندانِ سعود میسر نہ آ گیا جس نے انیس سو چوبیس کے بعد سے شریفوں کو حجاز سے ہی رخصت کر دیا۔
اب ہم ایک بار ٹیپ ذرا سی ری وائنڈ کرتے ہیں۔
جب انیس سو پندرہ میں مصر میں برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میکموہن شریفِ مکہ کو بعد از جنگ عرب بادشاہت کے سبز باغ دکھا رہے تھے عین اسی وقت ہزاروں کلو میٹر پرے برطانوی کاؤنٹی یارک شائر کے ایک محل نما گھر میں برطانیہ اور فرانس کے دو کھڑپینچ نئے مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کے اصل نقشے میں رنگ بھر رہے تھے۔ جب کہ اس سامراجی سودے بازی سے بے خبر عرب جب برطانیہ کے فراہم کردہ اسلحے سے ترکوں کی سپلائی لائن پر جوش و خروش سے حملے کر رہے تھے تو اس وقت برطانیہ اور فرانس بندربانٹ پلان پر دستخط فرما چکے تھے۔
فرانس کی جانب سے سابق سفارتکار اور وکیل جارج پیکو اور برطانیہ کی جانب سے امورِ مشرقِ وسطی کے مشیر سر مارک سائکس نے اس مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کے نقشے میں نیلا اور سرخ رنگ بھرنا شروع کر دیا جو ابھی ان کے قبضے میں آنا تھا۔ ( سرخ رنگ برطانوی قبضے کے لیے اور نیلا فرانسیسی قبضے کے لیے۔ فلسطین پر بھوری پنسل پھیری گئی یعنی اس کی ملکیت طے ہونا باقی تھی )۔ سائکس پیکو سمجھوتہ شریفِ مکہ اور اس کے بیٹے فیصل کی بغاوت کے چار ماہ بعد اکتوبر انیس سو سولہ میں طے پایا اور اس کی حتمی کاپی صرف روس کی شاہی حکومت کو دکھائی گئی۔
یہ سمجھوتہ آخر تک خفیہ ہی رہتا مگر روس میں کیمونسٹ انقلاب آ گیا اور نومبر انیس سو سترہ میں بالشویک حکومت نے روس کو جنگ سے یکطرفہ طور پر نکال لیا۔ کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار پراودا نے مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کا سائکس پیکو معاہدہ من و عن شایع کر دیا۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی اور جنگ پر برطانیہ و فرانس کی گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔ عرب قوم پرست بھی اس گمان میں رہے کہ پراودا میں جو مسودہ شایع ہوا ہے دراصل عربوں اور جیتنے والی یورپی طاقتوں میں پھوٹ ڈالنے کی کیمونسٹ سازش ہے۔ وہ تو جب پیرس امن کانفرنس میں مشرقِ وسطی آزاد ہونے کے بجائے برطانیہ و فرانس کو مینڈیٹ کی مستاجری کے نام پر الاٹ ہو گیا تب عربوں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور آج تک پھٹی ہیں۔ اس مضمون کی ابتدا میں ایک اور فریق کا بھی تذکرہ ہوا یعنی صیہونیوں سے کیے گئے وعدوں کا۔ اس پر گفتگو ہوگی اگلی قسط میں (داستان جاری ہے )۔
جیسے ہی سلطنتِ عثمانیہ نے نومبر انیس سو چودہ میں جرمنوں کی حمایت میں جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ روس، برطانیہ اور فرانس نے مستقبل میں ہونے والی ممکنہ بندر بانٹ کے دعوے تیار کرنے شروع کر دیے یعنی حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کا انتظام ہونے لگا۔ مارچ انیس سو پندرہ میں روس نے اعلان کیا کہ وہ فتح کی صورت میں آبنائے استنبول پر قبضہ رکھے گا تاکہ بحیرہِ روم سے بحیرہِ اسود کو ملانے والا یہ تنگ راستہ آیندہ کبھی بھی روس کی اقتصادی و اسٹرٹیجک کمزوری نہ بن سکے۔ فرانس نے روسی دعوی قبول کرتے ہوئے اپنی فرمائش جاری کردی کہ اسے تو بعد از جنگ ترکے میں صرف بلادِ شام اور ترکی کے جنوب مشرقی ساحل سے دلچسپی ہے۔
جب کہ جون انیس سو پندرہ میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ تو بس اتنا چاہتا ہے کہ ترکوں پر فتح کے بعد اسے عدن تا سویز پورا بحیرہ احمر اور خلیجِ فارس تا میسو پوٹامیا ( عراق ) اور پھر فلسطین کی پٹی مل جائے تا کہ جب برطانوی ہندوستان سے آدمی یا مال چلے تو وہ براستہ خلیجِ فارس بغداد پہنچے۔ وہاں سے ریل میں بیٹھ کے ( جو ابھی تعمیر ہونی ہے) فلسطین کی بندرگاہ حیفہ تک جائے اور پھر بحیرہ روم کے ذریعے براعظم یورپ عبور کرتا ہوا آرام سے لندن میں اتر جائے اور یوں ہندوستان تا برطانیہ ہفتوں کا سفر دنوں میں طے ہو جائے۔ اور اگر خوش قسمتی سے خلیج یا میسو پوٹامیا میں کل کلاں تیل نکل آتا ہے تو وہ بھی اسی راستے سے برطانیہ پہنچ جایا کرے اللہ اللہ خیر صلا۔
یہ تھے اصل سامراجی مقاصد کہ جنھیں حاصل کرنے کے لیے انیس سو پندرہ تا سترہ تین علیحدہ علیحدہ خفیہ محاذوں پر ایک ساتھ کام کیا گیا۔ اور تین متضاد سمجھوتے کیے گئے۔ شریفِ مکہ اور دیگر عرب قوم پرستوں سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ ترک جُوا اپنے کندھے سے اتارنے کے لیے برطانیہ اور فرانس کی مدد کو تیار ہوں تو پھر شام تا یمن کا علاقہ عربوں کا۔ صیہونیوں سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ دور بیٹھے امریکا کو جنگ میں کدوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تو پھر فلسطین میں ایک عدد یہودی ریاست ان کی۔ عربوں اور صیہونیوں کو اپنے اپنے کام پر لگا کر اور روس کا آبنائے استنبول پر دعوی تسلیم کرنے کے بعد تیسری جانب برطانیہ اور فرانس بندر بانٹ کے اصل ڈرائنگ بورڈ پر سر جوڑ کے بیٹھ گئے۔
انیس سو پندرہ کے وسط میں جب وسطی یورپ کے محاذ پر جنگ تعطل کا شکار ہوگئی تو مشرقِ وسطی کا محاذ گرم کرنے پر توجہ دینے کے لیے اتحادیوں کو وقت مل گیا۔ شریف حسین کے ساتھ مصر میں متعین برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میکموہن مسلسل رابطے میں رہے ( یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے انیسویں صدی کے آخر میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان سرحدی حد بندی کی جو آج بھی میک موہن لائن کہلاتی ہے )۔
دمشق میں عرب قوم پرستوں کا خفیہ اجلاس ہوا اور ترک گورنر جمال پاشا کی عرب کش پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے برطانیہ اور فرانس کی طرف جھکاؤ کو جائز سمجھتے ہوئے شریفِ مکہ حسین ابنِ علی کی قیادت میں بغاوت ِ عام کا فیصلہ ہوا۔ اس اجلاس میں شریف حسین کا بیٹا فیصل بھی شریک تھا۔ اس نے قوم پرستوں کے مطالبات کاغذ پر لکھ کر جوتے کے تلوے میں چھپائے اور طائف روانہ ہو گیا۔ وہاں پر شریف خاندان کے تصورات پر یمن سے شام تک کا عظیم عرب نقشہ چھایا ہوا تھا کہ جس پر خاندانِ شریف کی حکمرانی کا جھنڈا لہرایا جانا تھا۔
چنانچہ پانچ جون انیس سو سولہ کو شریف حسین نے عرب بغاوت کا بگل بجا دیا۔ اس کے بیٹے فیصل کی قیادت میں ترکوں کی سپلائی لائن یعنی حجاز ریلوے جگہ جگہ سے اکھاڑنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ تاہم ٹرانس اردن کے بدو قبائل عثمانی سلطنت سے بدستور وفادار رہے اور انھوں نے عرب قوم پرست دستوں کی شدید مزاحمت کی۔ لیکن انیس سو اٹھارہ میں جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوا۔ جب برطانوی جنرل ایلن بی یروشلم میں فاتحانہ داخل ہوا تو امیر فیصل کے دستے بھی اس کے شانہ بشانہ تھے۔ اور پھر جب دو اکتوبر انیس سو اٹھارہ کو ترک ولایت شام کے ہیڈ کوارٹر دمشق میں برطانوی فوجیں داخل ہوئیں تب بھی امیر فیصل ہمراہ تھا۔
گیارہ نومبر انیس سو اٹھارہ کو جرمنی اور ترکی نے ہتھیار ڈال دیے اور جنگ بندی ہو گئی۔ انیس سو انیس میں پیرس امن کانفرنس ( منعقدہ ورسائے پیلس ) میں شریف حسین کا بیٹا امیر فیصل اس امید کے ساتھ شریک ہوا کہ نئے نقشے میں فاتح طاقتیں ( برطانیہ ، فرانس ) اس کے سر پر آزاد عرب مملکت کا تاج خوشی خوشی رکھ دیں گی۔ لیکن فیصل کو اس وقت زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا جب یہ اعلان ہوا کہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہنے والے عرب علاقوں کو فوری آزادی نہیں ملے گی بلکہ انھیں کچھ عرصے کے لیے برطانیہ اور فرانس کی عارضی مینڈیٹ میں رکھا جائے گا تا کہ عربوں کو رموزِ حکمرانی سکھائے جا سکیں۔ جب وہ یہ امتحان پاس کرلیں گے تو پھر انھیں مکمل آزادی مل جائے گی اور استادی شاگردی کے اس انتظام کا نام مینڈیٹ (نظامِ انتداب ) ہو گا۔ اس انتظام کے تحت مصر اور میسو پوٹامیا برطانوی شاگردی میں رہیں گے اور شام و لبنان فرانسیسی شاگردی میں۔ ظاہر ہے کہ یہ سنتے ہی عرب آپے سے باہر ہو گئے۔
مصر جس نے جنگ میں برطانیہ کو سب سے زیادہ افرادی قوت فراہم کی تھی وہاں بغاوت ہو گئی اور برطانیہ بہت مشکل سے دبا سکا۔ امیر فیصل نے اس استادی شاگردی نظام کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے کھلا دھوکا قرار دیا اور دمشق پہنچ کر یکطرفہ بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے صرف چار ماہ بعد پیرس امن کانفرنس کی مینڈیٹ سے مسلح فرانسیسی افواج نے فیصل کے مٹھی بھر دستوں کو جنگِ میسلون میں تباہ کر دیا اور فیصل کو دمشق سے بھاگنا پڑا۔ مگر برطانویوں کو فیصل کی جنگی خدمات پر ترس آ گیا اور انھوں نے بطور اشک شوئی اسے جنگ کے بعد ابھرنے والی نئی مملکتِ عراق کی زیرِ انتداب بادشاہی تھما دی اور اس کے بھائی کو ٹرانس جارڈن کا حکمران بنا دیا اور مکہ و مدینہ پر بھی شریف خاندان کی اجارہ داری اگلے کچھ برس برقرار رکھی گئی حتی کہ برطانیہ کو شریفِ مکہ کی جگہ ایک نیا بااعتماد خاندانِ سعود میسر نہ آ گیا جس نے انیس سو چوبیس کے بعد سے شریفوں کو حجاز سے ہی رخصت کر دیا۔
اب ہم ایک بار ٹیپ ذرا سی ری وائنڈ کرتے ہیں۔
جب انیس سو پندرہ میں مصر میں برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میکموہن شریفِ مکہ کو بعد از جنگ عرب بادشاہت کے سبز باغ دکھا رہے تھے عین اسی وقت ہزاروں کلو میٹر پرے برطانوی کاؤنٹی یارک شائر کے ایک محل نما گھر میں برطانیہ اور فرانس کے دو کھڑپینچ نئے مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کے اصل نقشے میں رنگ بھر رہے تھے۔ جب کہ اس سامراجی سودے بازی سے بے خبر عرب جب برطانیہ کے فراہم کردہ اسلحے سے ترکوں کی سپلائی لائن پر جوش و خروش سے حملے کر رہے تھے تو اس وقت برطانیہ اور فرانس بندربانٹ پلان پر دستخط فرما چکے تھے۔
فرانس کی جانب سے سابق سفارتکار اور وکیل جارج پیکو اور برطانیہ کی جانب سے امورِ مشرقِ وسطی کے مشیر سر مارک سائکس نے اس مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کے نقشے میں نیلا اور سرخ رنگ بھرنا شروع کر دیا جو ابھی ان کے قبضے میں آنا تھا۔ ( سرخ رنگ برطانوی قبضے کے لیے اور نیلا فرانسیسی قبضے کے لیے۔ فلسطین پر بھوری پنسل پھیری گئی یعنی اس کی ملکیت طے ہونا باقی تھی )۔ سائکس پیکو سمجھوتہ شریفِ مکہ اور اس کے بیٹے فیصل کی بغاوت کے چار ماہ بعد اکتوبر انیس سو سولہ میں طے پایا اور اس کی حتمی کاپی صرف روس کی شاہی حکومت کو دکھائی گئی۔
یہ سمجھوتہ آخر تک خفیہ ہی رہتا مگر روس میں کیمونسٹ انقلاب آ گیا اور نومبر انیس سو سترہ میں بالشویک حکومت نے روس کو جنگ سے یکطرفہ طور پر نکال لیا۔ کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار پراودا نے مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کا سائکس پیکو معاہدہ من و عن شایع کر دیا۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی اور جنگ پر برطانیہ و فرانس کی گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔ عرب قوم پرست بھی اس گمان میں رہے کہ پراودا میں جو مسودہ شایع ہوا ہے دراصل عربوں اور جیتنے والی یورپی طاقتوں میں پھوٹ ڈالنے کی کیمونسٹ سازش ہے۔ وہ تو جب پیرس امن کانفرنس میں مشرقِ وسطی آزاد ہونے کے بجائے برطانیہ و فرانس کو مینڈیٹ کی مستاجری کے نام پر الاٹ ہو گیا تب عربوں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور آج تک پھٹی ہیں۔ اس مضمون کی ابتدا میں ایک اور فریق کا بھی تذکرہ ہوا یعنی صیہونیوں سے کیے گئے وعدوں کا۔ اس پر گفتگو ہوگی اگلی قسط میں (داستان جاری ہے )۔