کراچی کا اصل مسئلہ کیا ہے
مسولینی کا تعلق اٹلی سے تھا، وہ ایک صحافی ہونے کے ساتھ ایک بڑا سیاستدان بھی تھا۔
مسولینی کا تعلق اٹلی سے تھا، وہ ایک صحافی ہونے کے ساتھ ایک بڑا سیاستدان بھی تھا۔ وہ 1922 میں اٹلی کا وزیراعظم بھی رہا۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک کتاب میں اس سے اپنی ایک ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔
علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ایک دن میری مسولینی سے ملاقات ہوئی، اس نے اس ملاقات میں مختلف امور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ''علامہ! آپ ایک عظیم دانشور ہیں، دور جدید کے اعتبار سے کوئی کارآمد مشورہ دیجیے۔ علامہ نے جواب دیا کہ اپنے شہر کی آبادی کا خیال رکھو اور اسے مقررہ حد سے آگے نہ بڑھنے دو کیونکہ شہر میں آبادی کے بے تحاشا اضافے سے شہر کی اخلاقی اور ثقافتی روح پر موت کا عالم طاری ہوجاتا ہے جس سے شہر میں شر اور فساد کی قوتیں سر اٹھاتی ہیں اور تباہی پیدا کرتی ہیں۔''
علامہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے اسے یہ بتایا کہ یہ مشورہ میرا نہیں ہے بلکہ یہ مشورہ میرے پیارے نبی کریمﷺ کا ہے ، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ مدینہ کی آبادی کا خیال رکھنا اور اسے اپنی خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا۔ تو مسولینی میری بات سن کر حیرت میں مبتلا ہوگیا اور اس نے کہا اس دور میں تمہارے نبی کریم ﷺ کی سوچ کیسی عظیم اور کس قدر شاندار تھی۔
آئیے اس بات کی روشنی میں شہر کراچی کا جائزہ لیتے ہیں۔ کراچی ابتدائی طور پر ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ 1592 میں یہ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا اس کے یہاں مختلف خاندانوں کی حکومت رہی۔ انگریزوں کی برصغیر پاک و ہند میں آمد کے بعد 1843 میں یہ برطانیہ کے زیر کنٹرول آگیا۔
اس وقت کراچی شہر کی آبادی چودہ ہزار تھی اور شہر کا رقبہ 35 ایکڑ پر محیط تھا۔ قیام پاکستان کے وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی۔ قیام پاکستان کے نتیجے میں ہجرت کرکے آنے والے مہاجر یہاں بڑی تعداد میں آباد ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے علاوہ تارکین وطن کی بڑی تعداد اس شہر میں آباد ہوئی۔ اس سے اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔
ملک کے دیگر حصوں میں آبادی کی شرح میں اضافہ تین فیصد تک ہے جب کہ کراچی میں آبادی کی شرح میں اضافہ چھ (6) فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے جو تقریباً دو گنا ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اور غیر فطری اضافے نے شہر میں بدامنی، جرائم، بے روزگاری، نسلی تصادم جیسے سنگین مسائل کو جنم دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر شہر میں آبادی کے اس تیزرفتار اور غیر فطری بہاؤ پر قابو نہ پایا گیا تو یہ شہر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے گا اور ایک خوفناک آتش فشاں کا روپ دھار لے گا۔ اس حوالے سے ہمارا غیر سنجیدہ رویہ قومی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ بدقسمتی دیکھیے کراچی کے اس اہم ایشو پر کوئی جماعت چاہے وہ سیاسی ہو یا دینی کوئی بھی جماعت اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر جماعت اس ایشو پر بات کرنے کو اپنے لیے سیاسی طور پر گھاٹے کا سودا تصور کرتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں اس مسئلے کے تباہ کن اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شہر کی وسعت میں اضافے کے بجائے ملک میں نئے شہر آباد کیے جائیں تاکہ شہروں کو شر اور فسادات سے محفوظ رکھا جاسکے۔
کراچی میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اس ضمن میں تجویز ہے کہ شہر کے بالکل درمیان میں ایک برساتی ندی ہے جو سرجانی ٹاؤن اور معمار آباد سے شروع ہوتی ہوئی نیو کراچی، سہراب گوٹھ، گلشن اقبال، عزیز آباد، پی آئی بی کالونی، تین ہٹی، لسبیلہ، گلبہار، پاکستان کوارٹر، میوا شاہ، عثمان آباد سے ہوتی ہوئی آگرہ تاج پر ختم ہوتی ہے اور آگے جاکر سمندر سے مل جاتی ہے۔ اس گزرگاہ کے ساتھ درمیان میں نکاسی آب کا انتظام کرکے ڈبل ریلوے لائن آسانی سے ڈالی جاسکتی ہے اور اسے موجودہ ریلوے سرکلر (آگرہ تاج) سے ملادیا جائے۔
اس سے گنجان علاقے کے عوام الناس کو نہ صرف سفری سہولتیں میسر ہوں گی بلکہ شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا اور اس سے شہر کی دیگر سڑکوں پر بھی ٹریفک کا جو دباؤ ہے وہ کم ہوجائے گا۔ اس ندی کی ذیلی شاخیں بھی ہیں جو شہر کی مختلف سمت میں جاتی ہیں، اگر اس پر سڑکیں تعمیر کردی جائیں تو اس سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔
شہر کے وسط میں ایک ریلوے لائن جو سٹی اسٹیشن (ٹاور) سے شروع ہوتی ہوئی سائٹ ایریا، ناظم آباد، کریم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے ہوتی ہوئی ملیر کینٹ سے جاملتی ہے۔ یہ ریلوے لائن گنجان آبادی سے منسلک ہوچکی ہے اور اب اس کا وجود بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے لہٰذا اس ریلوے لائن کو ختم کر کے اس ریلوے لائن پر ایک سڑک تعمیر کردی جائے اس سے شہر کے وسط میں ٹریفک کا جو دباؤ ہے اس میں کمی واقع ہوگی۔
کراچی کا ایک بڑا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی ہے، کراچی میں شدید گرمی اور بارشوں کا نہ ہونا اسی آلودگی کا نتیجہ ہے۔ اس سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کی سڑکوں اور پارکوں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ اس کے لیے ہمیں پہلے پارکوں کی سابقہ حیثیت بحال کرنی ہوگی۔
کراچی میں ایک اہم مسئلہ کھیل کے میدانوں کی کمی ہے جو میدان تھے وہ بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں اس صورتحال پر توجہ نہ دی گئی تو سوچیے کراچی کے نوجوان اور ان کے بعد آنے والی نسلیں کس طرح اپنی صحت مندانہ سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے۔ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس اہم مسئلے پر توجہ دی جائے۔ان اقدامات کے بعد نظام حکومت کی اصلاح کے لیے ایک انقلابی قدم بھی اٹھانا ہوگا۔
مرکز اور چاروں صوبوں کی جغرافیائی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ملک میں جو 26 ڈویژن ہیں ان کو سٹی گورنمنٹ سسٹم کی طرز پر انتظامی یونٹ میں تسلیم کیا جائے ہر ڈویژن جوکہ سٹی کہلائے اپنے منتخب میئر منتخب سٹی کونسل کے ذریعے وسیع اختیارات کے ساتھ کام کرے اسی صورت میں ہی کراچی شہر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے ارباب اقتدار کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا بقول ایک مزاح نگار ''کراچی ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ سب پینا چاہتے ہیں لیکن اسے چارہ (گھاس) دینے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔'' جب تک کراچی کے حوالے سے یہ رویہ تبدیل نہیں ہوگا کراچی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔