یہ ناانصافی اور چکر بازیاں
اندرون سندھ میں گرمی کی شدت باقی ہے اور وہاں کے باسی ابھی تک گرمی کی حدت سے شدت سے بے حال اور بے بس ہیں۔
اندرون سندھ میں گرمی کی شدت باقی ہے اور وہاں کے باسی ابھی تک گرمی کی حدت سے شدت سے بے حال اور بے بس ہیں۔ ناگہانی مصیبتیں وہ کہلاتی ہیں جو اللہ کی طرف سے آتی ہیں اور انسانوں کو بے بس کرکے رکھ دیتی ہیں، عقل فارغ ہوجاتی ہے جسم لاچار ہونے لگتے ہیں اور اپنے وقت مقررہ پر ہی یہ ناگہانی پریشانیاں ختم ہوتی ہیں۔
انسان کی اپنی کمبختی ہی ان ناگہانی پریشانیوں کی وجہ ہوتی ہے۔ ہم سے کہا کچھ اور جا رہا ہے اور ہم کرتے کچھ اور ہیں۔ غلاظت دلوں اور دماغوں میں بھرتی جا رہی ہے، معاشرہ بے بس اور انسان جانوروں سے بھی زیادہ بدتر۔ یہ بھی کوئی زندگی کی شکل ہے؟ ایک ترقی یافتہ دنیا میں جہاں لمحہ بہ لمحہ ایک نئی ریسرچ ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے کیا اس ترقی یافتہ دور میں انسانوں کے گلے میں رسی ڈال کر ان کو جانوروں کی طرح باندھا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج بھی ایسی ہی کچھ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں مارا پیٹا گیا، پھر اس کو گندگی اور غلاظت پلائی گئی پھر اس کے سر کے بال مونڈھے گئے پھر اس کو برہنہ کرکے گھسیٹا گیا، مقصد اس کو سزا دینا تھا، کیا آپ کسی جانور کے ساتھ بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ پھر یہ کون لوگ کس شکل کے لوگ ہمارے اردگرد ہیں جو جانوروں سے زیادہ جانور ہیں، وحشی درندے اور گدھ ہیں، عوام ان کو پہچان کیوں نہیں پاتے؟ ان کو ہاتھ پیر توڑ کے زمینوں میں دفن کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یہ لوگ وہ ناگہانی عذاب ہیں جس میں اللہ آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ خود ان سے نجات حاصل کریں، ہزاروں لوگ گرمی کی شدت اپنی مگر اصل میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حبس ہونے کی وجہ سے اس جہاں سے گزر جاتے ہیں۔
سب کا ذمے دار K-Electric اور تاحال ابھی تک سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے بجلی کا انتظام! پورا کا پورا شہر ایک دم اندھیروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ساری زندگی درہم برہم! رمضان سے پہلے انتظامات بھرپور کیے گئے تھے، کیا اسی طرح انتظامات کیے جاتے ہیں؟ Talks Show میں مہمان حضرات گلے پھاڑ پھاڑ کر جناب وزیر اعظم صاحب کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح K-Electric نے کراچی بھر سے Copper کے Wire اتار اتار کر 7 سے 8 ارب میں بیچ ڈالے اور ان کی جگہ Silver کے وائر لگا دیے ہیں جو بوجھ نہیں سہہ پا رہے ہیں۔
جب یہ آوازیں عوام کے کانوں میں پڑ رہی ہیں تو کیا وزیراعظم کو علم نہیں؟انسانوں کو زندہ درگور کرکے کیا پیسہ کمایا جائے گا، عسکری قیادت، وزیرستان سے لے کر جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں وہاں سرگرم نظر آتی ہے اور سول قیادت بھی جہاں جہاں لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ہے وہاں سرگرم نظر آتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ عسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردوں کا صفایا جاری ہے ورنہ ہفتے میں کئی کئی بم دھماکے سننے کو ملتے تھے، کہا جا رہا ہے کہ 20-15 فیصد رہ گئے ہیں اور انشاء اللہ ان کا بھی صفایا کردیا جائے گا۔
اور ہم امید رکھتے ہیں جو لوگ عوام کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں ان کا بھی صفایا ہوگا اور ان کو بھی ان کی آخری منزل تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست اتنی کمزور ہے کہ قانون کو نافذ کرنے سے گریزاں پولیس کرپٹ اور نا اہل کہ کٹھ پتلیوں کی طرح حکمرانوں کے اشارے پر ناچتی ہے، عدالتوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے۔
عوام کے صبر کو زیادہ نہ آزمایا جائے تو بہتر ہے کہ جب جب یہ صبر حد سے گزرا ہے قوموں کی تاریخ بدل گئی ہے، بادشاہت ہو یا جمہوریت زمینوں میں دفن ہو کے رہ جاتی ہے اور پھر اس کو کوئی روک نہیں سکا۔ اب بھی موقع ہے کہ ریاست اپنے اداروں کو مضبوط کرے، قابل اور لائق دیانت دار لوگوں کو اوپر لایا جائے، کٹھ پتلیوں والا کھیل ختم ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ یہی لوگ خود کٹھ پتلیاں بن جائیں گے اور ذلت ان کا مقدر بن جائے گی۔
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ خاص طور پر سندھ کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ اندرون سندھ کا حال بہت برا ہے۔ جو جو حلقے ہیں خاص لوگوں کے وہی سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ ایک سیمینار میں مقررین نے سندھ کو یعنی موجودہ سندھ کو پنجاب سے 25 سال پیچھے قرار دیا، پسماندگی اور بنیادی ضرورتوں سے بے بس اور لاچار سندھ کبھی بھی عوام کا مقدر نہیں تھا مگر اس کو پسماندہ کیا جا رہا ہے۔
اور اب تو ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ واقعی کچھ انسان نما لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو بڑے بڑے درندوں سے بھی بڑے ہیں جو ہزاروں انسانوں کو نگلنے کے بعد بھی ڈکار نہیں لیتے اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک شکن بھی ماتھے پر نہیں۔ رمضان اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور شروع رمضان المبارک سے ہی عوام اور خاص طور پر روزہ داروں کا سکون غارت کیا گیا۔ بے انتہا مشکل حالات سخت گرمیاں اپنی جگہ اور بار بار بجلی کے بڑے بڑے بریک ڈاؤن۔ بے آرامی اور بے سکونی نے کام کرنے کی قوت کو بھی سلب کردیا ہے کب تک یہ سلسلہ چلے گا اور کب تک عوام کا خون چوسا جائے گا بے انتہا کرب اور وزیر اعظم خاموش!
انسانیت کو سیاست کی نذر ہونے سے بچنا چاہیے کہ یہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے بہتر ہے۔ پنجاب میں میٹرو کا منصوبہ اور عام آدمی بنیادی ضرورتوں سے محروم۔یہ جو بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں ناں یہ بہت سارے دکھوں کا مداوا ہوتی ہیں بہت ساری بیماریاں ان کی کمی سے انسانوں کو نگل لیتی ہیں۔ پتھر میں یہ کمی بچوں، عورتوں اور مردوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے اور آخر وہ اپنی جان سے جاتے ہیں۔ پنجاب جیسے صوبے میں ہیپاٹائٹس 70 لاکھ مریضوں تک پہنچ گیا ہے۔ عقل حیران ہے کہ میٹرو ضروری ہے یا انسانوں کی صحت و زندگی۔
بجلی کے بریک ڈاؤنز اور بندشیں گھروں سے لے کر اسپتالوں تک قیامت کر رہی ہیں۔ کچھ دوائیں اور انجکشن فریج کے بغیر ممکن نہیں، کئی کئی گھنٹوں تک بجلی غائب وہی انجکشن اور دوائیں مریضوں کو لگا دیے جاتے ہیں اور جو زندگی کے لیے ہوتا ہے وہ موت بن جاتا ہے۔ قیامت خیز گرمی میں جا بجا کوڑے کے ڈھیر اور Waste ہزاروں لاکھوں جراثیموں کو پیدا کرتا ہے اور کبھی یہی چیزیں ایک وبا کی صورتحال پیدا کردیتی ہیں، چند برس قبل ڈینگی نے پنجاب میں وبا کی صورت اختیار کی اور کئی جانیں بازی ہار گئیں۔
بہت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے جب آپ اپنے ہی جیسے لوگوں کو بے آسرا، بے سہارا دیکھتے ہیں اور بہت کچھ ان کے لیے کرسکتے ہیں مگر سیاست کی چکر بازی اور ناانصافیاں ہمیں ان سے اور اپنے آپ سے بھی بہت دور کیے دے رہی ہیں۔ اسپاٹ چہرے، اسپاٹ ضمیر پتہ نہیں کس منزل پر ہمیں لے کر چل رہے ہیں، پینے کا صاف پانی، دواؤں کا جعلی نہ ہونا، بات سنے جانا، کم ازکم یہ تو عوام کا حق بنتا ہے، مگر سوچ منفی ہوگئی ہے اپنی طاقت اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تمام انسانیت کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ غلامانہ ذہنیت آخر کب تک، 1947 سے آزادی حاصل کی مگر آزادی کی صحیح روح حاصل نہ کرسکے، کوٹ پینٹ پہن کر انگریز تو بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر انسان بننے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
حالانکہ دنیا میں موجود ہونا تو ایک انسان ہی بننا ہے مگر عقل و جذبات سے عاری ہو کر خالی گوشت پوست کا انسان بننا جو اس زمین پر اور تمام انسانیت پر بوجھ بن جائے کیا صحیح سمت ہے؟ بددعائیں بڑے بڑے سکندروں کو کھا جاتی ہیں، دکھے ہوئے دل سے آواز سیدھی اللہ تک رسائی پاتی ہے اور پھر وہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وقت سے سیکھا جائے، سمتیں درست کی جائیں، ورنہ ہوگا یہی کہ ساری نظریں عسکری قیادت کی طرف اٹھیں گی پھر چیختے رہیں چلاتے رہیں۔
انسان کی اپنی کمبختی ہی ان ناگہانی پریشانیوں کی وجہ ہوتی ہے۔ ہم سے کہا کچھ اور جا رہا ہے اور ہم کرتے کچھ اور ہیں۔ غلاظت دلوں اور دماغوں میں بھرتی جا رہی ہے، معاشرہ بے بس اور انسان جانوروں سے بھی زیادہ بدتر۔ یہ بھی کوئی زندگی کی شکل ہے؟ ایک ترقی یافتہ دنیا میں جہاں لمحہ بہ لمحہ ایک نئی ریسرچ ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے کیا اس ترقی یافتہ دور میں انسانوں کے گلے میں رسی ڈال کر ان کو جانوروں کی طرح باندھا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج بھی ایسی ہی کچھ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں مارا پیٹا گیا، پھر اس کو گندگی اور غلاظت پلائی گئی پھر اس کے سر کے بال مونڈھے گئے پھر اس کو برہنہ کرکے گھسیٹا گیا، مقصد اس کو سزا دینا تھا، کیا آپ کسی جانور کے ساتھ بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ پھر یہ کون لوگ کس شکل کے لوگ ہمارے اردگرد ہیں جو جانوروں سے زیادہ جانور ہیں، وحشی درندے اور گدھ ہیں، عوام ان کو پہچان کیوں نہیں پاتے؟ ان کو ہاتھ پیر توڑ کے زمینوں میں دفن کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یہ لوگ وہ ناگہانی عذاب ہیں جس میں اللہ آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ خود ان سے نجات حاصل کریں، ہزاروں لوگ گرمی کی شدت اپنی مگر اصل میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حبس ہونے کی وجہ سے اس جہاں سے گزر جاتے ہیں۔
سب کا ذمے دار K-Electric اور تاحال ابھی تک سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے بجلی کا انتظام! پورا کا پورا شہر ایک دم اندھیروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ساری زندگی درہم برہم! رمضان سے پہلے انتظامات بھرپور کیے گئے تھے، کیا اسی طرح انتظامات کیے جاتے ہیں؟ Talks Show میں مہمان حضرات گلے پھاڑ پھاڑ کر جناب وزیر اعظم صاحب کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح K-Electric نے کراچی بھر سے Copper کے Wire اتار اتار کر 7 سے 8 ارب میں بیچ ڈالے اور ان کی جگہ Silver کے وائر لگا دیے ہیں جو بوجھ نہیں سہہ پا رہے ہیں۔
جب یہ آوازیں عوام کے کانوں میں پڑ رہی ہیں تو کیا وزیراعظم کو علم نہیں؟انسانوں کو زندہ درگور کرکے کیا پیسہ کمایا جائے گا، عسکری قیادت، وزیرستان سے لے کر جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں وہاں سرگرم نظر آتی ہے اور سول قیادت بھی جہاں جہاں لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ہے وہاں سرگرم نظر آتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ عسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردوں کا صفایا جاری ہے ورنہ ہفتے میں کئی کئی بم دھماکے سننے کو ملتے تھے، کہا جا رہا ہے کہ 20-15 فیصد رہ گئے ہیں اور انشاء اللہ ان کا بھی صفایا کردیا جائے گا۔
اور ہم امید رکھتے ہیں جو لوگ عوام کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں ان کا بھی صفایا ہوگا اور ان کو بھی ان کی آخری منزل تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست اتنی کمزور ہے کہ قانون کو نافذ کرنے سے گریزاں پولیس کرپٹ اور نا اہل کہ کٹھ پتلیوں کی طرح حکمرانوں کے اشارے پر ناچتی ہے، عدالتوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے۔
عوام کے صبر کو زیادہ نہ آزمایا جائے تو بہتر ہے کہ جب جب یہ صبر حد سے گزرا ہے قوموں کی تاریخ بدل گئی ہے، بادشاہت ہو یا جمہوریت زمینوں میں دفن ہو کے رہ جاتی ہے اور پھر اس کو کوئی روک نہیں سکا۔ اب بھی موقع ہے کہ ریاست اپنے اداروں کو مضبوط کرے، قابل اور لائق دیانت دار لوگوں کو اوپر لایا جائے، کٹھ پتلیوں والا کھیل ختم ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ یہی لوگ خود کٹھ پتلیاں بن جائیں گے اور ذلت ان کا مقدر بن جائے گی۔
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ خاص طور پر سندھ کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ اندرون سندھ کا حال بہت برا ہے۔ جو جو حلقے ہیں خاص لوگوں کے وہی سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ ایک سیمینار میں مقررین نے سندھ کو یعنی موجودہ سندھ کو پنجاب سے 25 سال پیچھے قرار دیا، پسماندگی اور بنیادی ضرورتوں سے بے بس اور لاچار سندھ کبھی بھی عوام کا مقدر نہیں تھا مگر اس کو پسماندہ کیا جا رہا ہے۔
اور اب تو ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ واقعی کچھ انسان نما لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو بڑے بڑے درندوں سے بھی بڑے ہیں جو ہزاروں انسانوں کو نگلنے کے بعد بھی ڈکار نہیں لیتے اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک شکن بھی ماتھے پر نہیں۔ رمضان اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور شروع رمضان المبارک سے ہی عوام اور خاص طور پر روزہ داروں کا سکون غارت کیا گیا۔ بے انتہا مشکل حالات سخت گرمیاں اپنی جگہ اور بار بار بجلی کے بڑے بڑے بریک ڈاؤن۔ بے آرامی اور بے سکونی نے کام کرنے کی قوت کو بھی سلب کردیا ہے کب تک یہ سلسلہ چلے گا اور کب تک عوام کا خون چوسا جائے گا بے انتہا کرب اور وزیر اعظم خاموش!
انسانیت کو سیاست کی نذر ہونے سے بچنا چاہیے کہ یہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے بہتر ہے۔ پنجاب میں میٹرو کا منصوبہ اور عام آدمی بنیادی ضرورتوں سے محروم۔یہ جو بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں ناں یہ بہت سارے دکھوں کا مداوا ہوتی ہیں بہت ساری بیماریاں ان کی کمی سے انسانوں کو نگل لیتی ہیں۔ پتھر میں یہ کمی بچوں، عورتوں اور مردوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے اور آخر وہ اپنی جان سے جاتے ہیں۔ پنجاب جیسے صوبے میں ہیپاٹائٹس 70 لاکھ مریضوں تک پہنچ گیا ہے۔ عقل حیران ہے کہ میٹرو ضروری ہے یا انسانوں کی صحت و زندگی۔
بجلی کے بریک ڈاؤنز اور بندشیں گھروں سے لے کر اسپتالوں تک قیامت کر رہی ہیں۔ کچھ دوائیں اور انجکشن فریج کے بغیر ممکن نہیں، کئی کئی گھنٹوں تک بجلی غائب وہی انجکشن اور دوائیں مریضوں کو لگا دیے جاتے ہیں اور جو زندگی کے لیے ہوتا ہے وہ موت بن جاتا ہے۔ قیامت خیز گرمی میں جا بجا کوڑے کے ڈھیر اور Waste ہزاروں لاکھوں جراثیموں کو پیدا کرتا ہے اور کبھی یہی چیزیں ایک وبا کی صورتحال پیدا کردیتی ہیں، چند برس قبل ڈینگی نے پنجاب میں وبا کی صورت اختیار کی اور کئی جانیں بازی ہار گئیں۔
بہت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے جب آپ اپنے ہی جیسے لوگوں کو بے آسرا، بے سہارا دیکھتے ہیں اور بہت کچھ ان کے لیے کرسکتے ہیں مگر سیاست کی چکر بازی اور ناانصافیاں ہمیں ان سے اور اپنے آپ سے بھی بہت دور کیے دے رہی ہیں۔ اسپاٹ چہرے، اسپاٹ ضمیر پتہ نہیں کس منزل پر ہمیں لے کر چل رہے ہیں، پینے کا صاف پانی، دواؤں کا جعلی نہ ہونا، بات سنے جانا، کم ازکم یہ تو عوام کا حق بنتا ہے، مگر سوچ منفی ہوگئی ہے اپنی طاقت اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تمام انسانیت کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ غلامانہ ذہنیت آخر کب تک، 1947 سے آزادی حاصل کی مگر آزادی کی صحیح روح حاصل نہ کرسکے، کوٹ پینٹ پہن کر انگریز تو بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر انسان بننے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
حالانکہ دنیا میں موجود ہونا تو ایک انسان ہی بننا ہے مگر عقل و جذبات سے عاری ہو کر خالی گوشت پوست کا انسان بننا جو اس زمین پر اور تمام انسانیت پر بوجھ بن جائے کیا صحیح سمت ہے؟ بددعائیں بڑے بڑے سکندروں کو کھا جاتی ہیں، دکھے ہوئے دل سے آواز سیدھی اللہ تک رسائی پاتی ہے اور پھر وہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وقت سے سیکھا جائے، سمتیں درست کی جائیں، ورنہ ہوگا یہی کہ ساری نظریں عسکری قیادت کی طرف اٹھیں گی پھر چیختے رہیں چلاتے رہیں۔