باسمتی چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ایکسپورٹرز کا حکومت سے اقدامات کا مطالبہ
جولائی تاجون68کروڑڈالر کا پونے7لاکھ ٹن باسمتی چاول برآمدکیاگیا، مقدار8 اور مالیت کے لحاظ سے 19فیصدکمی آئی
KUWAIT:
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال (جولائی 2014 تا جون 2015) کے دوران چاول کی بر آمدات کے اعداد و شمار جاری کردیے ہیں جس کے مطابق باسمتی چاول کی بر آمدات 6 لاکھ 76ہزار630 میٹرک ٹن رہی۔
جس کی مالیت 68کروڑ 15لاکھ 48 ہزار911 ڈالر رہی جو مالی سال 2013-14 جولائی تا جون کے مقابلے میں مقدار کے حساب سے 8 فیصد اور مالیت کے حساب سے 19 فیصد زوال کا شکار رہی، نان باسمتی چاول کی بر آمدات 30لاکھ 54ہزار 680 میٹرک ٹن رہی جس کی مالیت 1ارب 16کروڑ71لاکھ52 ہزار 157 ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سا ل کے مقابلے میں مقدار کے تناسب میں 16 فیصد اور مالیت کے تناسب میں11 فیصد بہتر رہی۔ جولائی 2014 تا جون 2015 کے دوران رائس ایکسپورٹ ٹریڈ کئی بحرانوں کا شکار رہی، پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے با وجود کوئی مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہیں کر سکا۔
گزشتہ سال بین الاقوامی مارکیٹ میں چاول کی طلب میں کمی اور رسد میں اضافے کے باعث چاول کی قیمتیں بے تحاشہ کمی کا شکار رہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں چاول کی ٹریڈ سے وابستہ افراد کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا، بھارت میں حکومتی سطح پر کسانو ں کو بے تحاشہ مراعات ملتی ہیں جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
ہر سال پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث پاکستانی کاشت کار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن بھی کاشت کار کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اور اس کیلیے حکومت پاکستان سے درخواست کرتی رہی ہے کہ کسان کو مفت بیج، مفت کھاد، مفت پانی اور بجلی فراہم کی جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آسکے اور پاکستانی رائس ایکسپورٹرز بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں، اس کے علاوہ ایسوسی ایشن نے کسانوں کی آگہی کیلیے حکومت کو تجاویز دی ہیں جس پر ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں چاول کے برآمدکنندگان کو درپیش مسائل میں سے بڑا مسئلہ بجلی کی عدم فراہمی ہے، کئی اہم انڈسٹریل علاقوں مثلا ہاکس بے انڈسٹریل ایریا میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چاول کے کارخانے اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل پارہے جس کی وجہ سے برآمدی ہدف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا رہا، اس وقت پاکستانی چاول کی برآمدات کو کئی ممالک میں پابندی کا سامنا ہے۔
ایران جو باسمتی چاول کا بہت بڑا خریدار تھا اس نے چاول کی درآمد پر پابندی لگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی باسمتی چاول بہت بڑی مارکیٹ سے محروم ہوگیا جو باسمتی چاول کی بر آمدات میں زوال کی ایک بہت بڑی وجہ رہی، اس کے علاوہ میکسیکو میں جہاں پاکستانی چاول نے قدم جما لیے تھے مگر گزشتہ سال نا گریز وجوہ کی بنا پر پاکستانی چاول کی برآمد پر پابندی لگادی گئی حالانکہ پاکستانی سفیر کی دعوت پر میکسیکو کے اعلیٰ حکام کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور ہمارے چاول کے کارخانوں کا تسلی بخش دورہ کرنے کے باوجود میکسیکو کی حکومت نے پابندی نہیں اٹھائی جس کیلیے وزارت تجارت اور وزارت خارجہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو حل کرانے کیلیے مناسب اقدامات کریں۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال (جولائی 2014 تا جون 2015) کے دوران چاول کی بر آمدات کے اعداد و شمار جاری کردیے ہیں جس کے مطابق باسمتی چاول کی بر آمدات 6 لاکھ 76ہزار630 میٹرک ٹن رہی۔
جس کی مالیت 68کروڑ 15لاکھ 48 ہزار911 ڈالر رہی جو مالی سال 2013-14 جولائی تا جون کے مقابلے میں مقدار کے حساب سے 8 فیصد اور مالیت کے حساب سے 19 فیصد زوال کا شکار رہی، نان باسمتی چاول کی بر آمدات 30لاکھ 54ہزار 680 میٹرک ٹن رہی جس کی مالیت 1ارب 16کروڑ71لاکھ52 ہزار 157 ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سا ل کے مقابلے میں مقدار کے تناسب میں 16 فیصد اور مالیت کے تناسب میں11 فیصد بہتر رہی۔ جولائی 2014 تا جون 2015 کے دوران رائس ایکسپورٹ ٹریڈ کئی بحرانوں کا شکار رہی، پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے با وجود کوئی مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہیں کر سکا۔
گزشتہ سال بین الاقوامی مارکیٹ میں چاول کی طلب میں کمی اور رسد میں اضافے کے باعث چاول کی قیمتیں بے تحاشہ کمی کا شکار رہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں چاول کی ٹریڈ سے وابستہ افراد کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا، بھارت میں حکومتی سطح پر کسانو ں کو بے تحاشہ مراعات ملتی ہیں جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
ہر سال پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث پاکستانی کاشت کار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن بھی کاشت کار کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اور اس کیلیے حکومت پاکستان سے درخواست کرتی رہی ہے کہ کسان کو مفت بیج، مفت کھاد، مفت پانی اور بجلی فراہم کی جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آسکے اور پاکستانی رائس ایکسپورٹرز بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں، اس کے علاوہ ایسوسی ایشن نے کسانوں کی آگہی کیلیے حکومت کو تجاویز دی ہیں جس پر ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں چاول کے برآمدکنندگان کو درپیش مسائل میں سے بڑا مسئلہ بجلی کی عدم فراہمی ہے، کئی اہم انڈسٹریل علاقوں مثلا ہاکس بے انڈسٹریل ایریا میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چاول کے کارخانے اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل پارہے جس کی وجہ سے برآمدی ہدف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا رہا، اس وقت پاکستانی چاول کی برآمدات کو کئی ممالک میں پابندی کا سامنا ہے۔
ایران جو باسمتی چاول کا بہت بڑا خریدار تھا اس نے چاول کی درآمد پر پابندی لگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی باسمتی چاول بہت بڑی مارکیٹ سے محروم ہوگیا جو باسمتی چاول کی بر آمدات میں زوال کی ایک بہت بڑی وجہ رہی، اس کے علاوہ میکسیکو میں جہاں پاکستانی چاول نے قدم جما لیے تھے مگر گزشتہ سال نا گریز وجوہ کی بنا پر پاکستانی چاول کی برآمد پر پابندی لگادی گئی حالانکہ پاکستانی سفیر کی دعوت پر میکسیکو کے اعلیٰ حکام کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور ہمارے چاول کے کارخانوں کا تسلی بخش دورہ کرنے کے باوجود میکسیکو کی حکومت نے پابندی نہیں اٹھائی جس کیلیے وزارت تجارت اور وزارت خارجہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو حل کرانے کیلیے مناسب اقدامات کریں۔