دفترِ سود و زیاں کھول ذرا
زندگی کو رمضان کی طرح گزار لو، تمھارے لئے موت عید کی مانند ہوگی۔
MULTAN:
فرض کیجیے کہ سرکاری افسران کے ایک گروہ کو حکومت ری فریش کورس کروانے کیلئے لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک بھجواتی ہے مگر جب وہ واپس آتے ہیں تو ان کی کارکردگی پہلے سے بھی گئی گزری ہوتی ہے تو ایسے حالات میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ ہر کوئی افسران کو معطون ٹھہرائے گا کہ انہوں نے وقت اور پیسوں کا ضیاع کیا مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ ایک انگلی تو ہم دوسروں پر اٹھادیتے ہیں مگر بدلے میں چار انگلیوں کا رخ ہماری جانب ہی ہوتا ہے۔ کیا ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی؟
خدا ہمیں ہر سال ماہِ صیام سے سرفراز کرتا ہے، اس میں شیاطین کو جکڑ دیتا ہے، آسمانوں کے دروازے کھول دیتا ہے، رزق میں برکت ڈال دیتا ہے، چہارسو برکتوں کا نزول فرماتا ہے، نیکی کی راہ آسان فرماتا ہے اور بُرائی سے بچنے کیلئے ہر طرح کے اسباب مہیا کرتا ہے۔ فرمایا گیا کہ
کیا کبھی ہم نے اس آواز کو سننے کی کوشش کی؟ ہم نے سوچا کہ خدا ہمیں پکار رہا ہے، اس نے ہمیں رمضان کی صورت میں ایک موقع فراہم کیا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے قدم برائی کی جانب جانے سے روک لیں، کیوں نہ خود کو اس گڑھے میں گرنے سے بچا لیں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ماہِ بابرکت کو خدا تعالیٰ نے ایک طرح سے ری فریش کورس قرار دیا کہ اس کا مقصد یہ فرمایا کہ ''لعلکم تتقون'' (تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ) مگر کیا ہم رمضان کے روزے، تراویح کا اہتمام تقویٰ کے حصول کیلئے کرتے ہیں؟ ہمارا تو سارا زور ہی
ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ بس زیادہ سے زیادہ بار قرآن نظر سے گزار لیا جائے، ہم نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ
ہم نے قرآن کو زبانی پڑھنے کی کتاب بنا دیا، ہم نے عمل کے بجائے ثواب کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنا لیا حالانکہ ثواب تو عمل میں ہی پنہاں ہے۔ ہم رمضان کو صرف زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے حوالے سے ہی جانتے ہیں اور ثواب کی اصل گھڑیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم یہ جان ہی نہیں پاتے کہ
رمضان آڈٹ کا مہینہ ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب سود و زیاں کے دفاتر کھولے جانے چاہئیں۔ جب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ مجھ میں یہ، یہ برائیاں، یہ، یہ خامیاں اور یہ، یہ کوتاہیاں ہیں، مجھے اس رمضان المبارک میں کوشش کرنی ہے کہ یہ کمی و کوتاہی دور کی جائے، ان برائیوں سے نجات پائی جائے ۔
مگر کیا کبھی ہم یہ سوچتے ہیں، ہم نے کبھی اپنا احتساب خود کیا؟ فضائل رمضان کے حوالے سے جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں ایمان کے ساتھ ساتھ احتساب کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ
''جو ایمان کی حالت میں احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کرے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے وہ اپنے پیدائش کے وقت گناہوں سے مبرا تھا'' (سنن نسائی)
اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہم میں سے کبھی کسی نے رمضان کو خود احتسابی کا مہینہ جانا ہے؟ رمضان میں بھی ہمارے معمولات ایسے ہوتے ہیں کہ پہلا عشرہ رمضان کے حوالے سے روٹین سیدھی کرنے میں صرف ہوجاتا ہے، دوسرا کچھ بہتر ہونے لگتا ہے تو ختم ہوجاتا ہے اور تیسرا عشرہ عید کی شاپنگ میں گزر جاتا ہے۔ رمضان کا اصل تو اس کا آخری عشرہ ہوتا ہے جسے ہم بازاروں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ان آنکھوں نے تو معتکفین کو بھی فکر ِ شاپنگ میں غلطاں دیکھا ہے۔ رمضان کی سب سے اہم رات ''لیلۃ الناجیہ'' (نجات کی رات) جسے ہم چاند رات کے حوالے سے جانتے ہیں، اس شب کے بارے میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جس کی شبِ قدر میں بھی بخشش نہیں ہوتی اس رات میں اس کی بھی بخشش ہوجاتی ہے مگر اس رات میں ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے آج شیاطین نہیں ہم آزاد ہوئے ہیں۔ شبِ عیدین (چاند رات) کے حوالے سے حدیث شریف میں آتا ہے کہ
مگر کبھی ہم نے یہ غور و فکر کی کہ ہم یہ وقت کیسے گزارتے ہیں؟ ہم تو رمضان کے آخری دن ہی یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم پر عائد سبھی ''پابندیاں'' آج ختم ہوگئی ہیں، آج سے ہم آزاد ہیں مگر کیا ہم واقعی آزاد ہوجاتے ہیں؟
عید کا چاند نظر آتے ہی سود و زیاں کے سبھی دفتر کھل جاتے ہیں مگر ہم غفلت میں ڈوبے دنیا کی رنگینیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں، یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوا ہے، رمضان کا پیغام ختم نہیں ہوا، اب جا کر ہی تو رمضان میں حاصل کی گئی ٹریننگ کے اظہار کا وقت شروع ہوا ہے مگر اسی رات بازاروں میں بپا طوفانِ بدتمیزی دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ہم نے ایک مہینہ تک تقویٰ کی ٹریننگ لی ہے۔ لشتم پشتم ہم رمضان میں تو نمازِ پنج وقتہ ادا کرلیتے ہیں مگر عید والے دن ایسے نظریں پھیرتے ہیں جیسے نماز پڑھنا کوئی عیب ہو۔ وہ مسجدیں جو ایک دن پہلے تک معتکفین کے قیام کے اسباب مہیا کیے ہوئے تھیں، وہ عید پر نمازیوں کی راہ تک رہی ہوتی ہیں۔ رمضان میں ٹی وی پر آ کر درس دینے والی اینکرز بھی فیشن کے نت نئے رنگ دکھانے لگتی ہیں۔ وہ علماء جو رمضان ٹرانسمیشن کے روح رواں ہوتے ہیں وہ پس منظر میں کہیں غائب ہوجاتے ہیں۔ رمضان کا سارا اثر عید کے تین دنوں میں ہی کہیں زائل ہوجاتا ہے۔
ہم رمضان اور اس کی تعلیمات سے یکسر بے بہرہ ہوجاتے ہیں اور پھر چند دن میں ہی دوبارہ وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں پر رمضان سے پہلے موجود ہوتے ہیں۔ ہم سے تقویٰ کا وہ رنگ اترنے لگتا ہے جو خدائے لم یزل نے روزوں کے ذریعے ہم پر چڑھایا ہوتا ہے، ایسے میں ہم سید الانبیاء (ﷺ) کی وہ بد دعا بھی بھول جاتے ہیں جس پر جبریل امینؑ نے آمین کہا تھا کہ
یہ ساعتیں دعوت دے رہی ہیں کہ سود و زیاں کے دفتر کھولو، اپنا احتساب خود کرو، خود اپنے آڈیٹر بنو، کیونکہ جب خدا کسی پرگرفت کرتا ہے تو سات آسمانوں میں بھی اسے کوئی حامی و مددگار نہیں ملتا۔ رمضان کے مہینے کے ساتھ رمضان کا حقیقی پیغام ختم نہیں ہورہا، رمضان کا مقصد ہی اس پیغام کا احیاء ہے کہ رمضان میں حاصل کردہ تزکیہ کو بروئے کار لا کر سال کے باقی مہینوں کو بھی رمضان کی مانند گزارا جائے۔ کسی نے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ
[poll id="538"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
فرض کیجیے کہ سرکاری افسران کے ایک گروہ کو حکومت ری فریش کورس کروانے کیلئے لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک بھجواتی ہے مگر جب وہ واپس آتے ہیں تو ان کی کارکردگی پہلے سے بھی گئی گزری ہوتی ہے تو ایسے حالات میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ ہر کوئی افسران کو معطون ٹھہرائے گا کہ انہوں نے وقت اور پیسوں کا ضیاع کیا مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ ایک انگلی تو ہم دوسروں پر اٹھادیتے ہیں مگر بدلے میں چار انگلیوں کا رخ ہماری جانب ہی ہوتا ہے۔ کیا ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی؟
خدا ہمیں ہر سال ماہِ صیام سے سرفراز کرتا ہے، اس میں شیاطین کو جکڑ دیتا ہے، آسمانوں کے دروازے کھول دیتا ہے، رزق میں برکت ڈال دیتا ہے، چہارسو برکتوں کا نزول فرماتا ہے، نیکی کی راہ آسان فرماتا ہے اور بُرائی سے بچنے کیلئے ہر طرح کے اسباب مہیا کرتا ہے۔ فرمایا گیا کہ
''رمضان میں ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے بُرائی کے طالب رک جا'' (مسند احمد)
کیا کبھی ہم نے اس آواز کو سننے کی کوشش کی؟ ہم نے سوچا کہ خدا ہمیں پکار رہا ہے، اس نے ہمیں رمضان کی صورت میں ایک موقع فراہم کیا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے قدم برائی کی جانب جانے سے روک لیں، کیوں نہ خود کو اس گڑھے میں گرنے سے بچا لیں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ماہِ بابرکت کو خدا تعالیٰ نے ایک طرح سے ری فریش کورس قرار دیا کہ اس کا مقصد یہ فرمایا کہ ''لعلکم تتقون'' (تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ) مگر کیا ہم رمضان کے روزے، تراویح کا اہتمام تقویٰ کے حصول کیلئے کرتے ہیں؟ ہمارا تو سارا زور ہی
''کوانٹٹی پر ہوتا ہے، کوالٹی پر نہیں''۔
ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ بس زیادہ سے زیادہ بار قرآن نظر سے گزار لیا جائے، ہم نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ
''قرآن کی ایک آیت سیکھ لینا، سو رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے'' (ابن ماجہ)
ہم نے قرآن کو زبانی پڑھنے کی کتاب بنا دیا، ہم نے عمل کے بجائے ثواب کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنا لیا حالانکہ ثواب تو عمل میں ہی پنہاں ہے۔ ہم رمضان کو صرف زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے حوالے سے ہی جانتے ہیں اور ثواب کی اصل گھڑیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم یہ جان ہی نہیں پاتے کہ
''رمضان ثواب کا نہیں احتساب کا مہینہ ہے''۔
رمضان آڈٹ کا مہینہ ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب سود و زیاں کے دفاتر کھولے جانے چاہئیں۔ جب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ مجھ میں یہ، یہ برائیاں، یہ، یہ خامیاں اور یہ، یہ کوتاہیاں ہیں، مجھے اس رمضان المبارک میں کوشش کرنی ہے کہ یہ کمی و کوتاہی دور کی جائے، ان برائیوں سے نجات پائی جائے ۔
خود عمل اپنے تول ذرا
دفترِ سود و زیاں کھول ذرا
مگر کیا کبھی ہم یہ سوچتے ہیں، ہم نے کبھی اپنا احتساب خود کیا؟ فضائل رمضان کے حوالے سے جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں ایمان کے ساتھ ساتھ احتساب کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ
''جو ایمان کی حالت میں احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کرے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے وہ اپنے پیدائش کے وقت گناہوں سے مبرا تھا'' (سنن نسائی)
''جو ایمان کی حالت میں احتساب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں'' (متفق علیہ)
اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہم میں سے کبھی کسی نے رمضان کو خود احتسابی کا مہینہ جانا ہے؟ رمضان میں بھی ہمارے معمولات ایسے ہوتے ہیں کہ پہلا عشرہ رمضان کے حوالے سے روٹین سیدھی کرنے میں صرف ہوجاتا ہے، دوسرا کچھ بہتر ہونے لگتا ہے تو ختم ہوجاتا ہے اور تیسرا عشرہ عید کی شاپنگ میں گزر جاتا ہے۔ رمضان کا اصل تو اس کا آخری عشرہ ہوتا ہے جسے ہم بازاروں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ان آنکھوں نے تو معتکفین کو بھی فکر ِ شاپنگ میں غلطاں دیکھا ہے۔ رمضان کی سب سے اہم رات ''لیلۃ الناجیہ'' (نجات کی رات) جسے ہم چاند رات کے حوالے سے جانتے ہیں، اس شب کے بارے میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جس کی شبِ قدر میں بھی بخشش نہیں ہوتی اس رات میں اس کی بھی بخشش ہوجاتی ہے مگر اس رات میں ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے آج شیاطین نہیں ہم آزاد ہوئے ہیں۔ شبِ عیدین (چاند رات) کے حوالے سے حدیث شریف میں آتا ہے کہ
''جو شخص عید الفطر اور عید الالضحیٰ کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے اس کا دل اس دن بھی نہیں مرے گا جس دن تمام دل فوت ہوجائیں گے'' (ابن ماجہ)
مگر کبھی ہم نے یہ غور و فکر کی کہ ہم یہ وقت کیسے گزارتے ہیں؟ ہم تو رمضان کے آخری دن ہی یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم پر عائد سبھی ''پابندیاں'' آج ختم ہوگئی ہیں، آج سے ہم آزاد ہیں مگر کیا ہم واقعی آزاد ہوجاتے ہیں؟
عید کا چاند نظر آتے ہی سود و زیاں کے سبھی دفتر کھل جاتے ہیں مگر ہم غفلت میں ڈوبے دنیا کی رنگینیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں، یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوا ہے، رمضان کا پیغام ختم نہیں ہوا، اب جا کر ہی تو رمضان میں حاصل کی گئی ٹریننگ کے اظہار کا وقت شروع ہوا ہے مگر اسی رات بازاروں میں بپا طوفانِ بدتمیزی دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ہم نے ایک مہینہ تک تقویٰ کی ٹریننگ لی ہے۔ لشتم پشتم ہم رمضان میں تو نمازِ پنج وقتہ ادا کرلیتے ہیں مگر عید والے دن ایسے نظریں پھیرتے ہیں جیسے نماز پڑھنا کوئی عیب ہو۔ وہ مسجدیں جو ایک دن پہلے تک معتکفین کے قیام کے اسباب مہیا کیے ہوئے تھیں، وہ عید پر نمازیوں کی راہ تک رہی ہوتی ہیں۔ رمضان میں ٹی وی پر آ کر درس دینے والی اینکرز بھی فیشن کے نت نئے رنگ دکھانے لگتی ہیں۔ وہ علماء جو رمضان ٹرانسمیشن کے روح رواں ہوتے ہیں وہ پس منظر میں کہیں غائب ہوجاتے ہیں۔ رمضان کا سارا اثر عید کے تین دنوں میں ہی کہیں زائل ہوجاتا ہے۔
ہم رمضان اور اس کی تعلیمات سے یکسر بے بہرہ ہوجاتے ہیں اور پھر چند دن میں ہی دوبارہ وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں پر رمضان سے پہلے موجود ہوتے ہیں۔ ہم سے تقویٰ کا وہ رنگ اترنے لگتا ہے جو خدائے لم یزل نے روزوں کے ذریعے ہم پر چڑھایا ہوتا ہے، ایسے میں ہم سید الانبیاء (ﷺ) کی وہ بد دعا بھی بھول جاتے ہیں جس پر جبریل امینؑ نے آمین کہا تھا کہ
''ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا''۔ (ترمذی)
یہ ساعتیں دعوت دے رہی ہیں کہ سود و زیاں کے دفتر کھولو، اپنا احتساب خود کرو، خود اپنے آڈیٹر بنو، کیونکہ جب خدا کسی پرگرفت کرتا ہے تو سات آسمانوں میں بھی اسے کوئی حامی و مددگار نہیں ملتا۔ رمضان کے مہینے کے ساتھ رمضان کا حقیقی پیغام ختم نہیں ہورہا، رمضان کا مقصد ہی اس پیغام کا احیاء ہے کہ رمضان میں حاصل کردہ تزکیہ کو بروئے کار لا کر سال کے باقی مہینوں کو بھی رمضان کی مانند گزارا جائے۔ کسی نے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ
''زندگی کو رمضان کی طرح گزار لو، تمھارے لئے موت عید کی مانند ہوگی''۔
[poll id="538"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس