نئے بلدیاتی نظام سے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں اضافہ
کیا نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کو جنم دے سکتی ہے؟
نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران سندھ میں پہلی مرتبہ زبردست سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سے قبل سندھ واحد صوبہ تھا جہاں نہ صرف صوبائی اسمبلی میں کوئی اپوزیشن نہیں تھی بلکہ اسمبلی سے باہر بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے پاس پیپلز پارٹی کے خلاف سیاست کرنے کا کوئی جواز موجود نہیںتھا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ دعوٰی کرتی تھی کہ آئندہ عام انتخابات میں پورے سندھ کے اندر پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ، صوبے میں کہیں بھی انتخابی معرکہ نہیں ہوگا اور تمام متفقہ امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوجائیں گے ۔ اگر ایک دو نشستوں پر کہیں مقابلہ ہوا بھی تو اس کا نتیجہ یکطرفہ ہوگا لیکن اب نئے بلدیاتی نظام کے بعد پیپلز پارٹی کے لوگ اس طرح کی باتیں کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران نئے بلدیاتی نظام کے مخالفین نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور وہ سندھ کے عوام کو اس نظام کے خلاف متحرک کرنے کے لیے اپنا بھرپورزور لگا رہی ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنی عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے قوم پرستوں کے گڑھ حیدرآباد میں پہلا جلسہ منعقد کیا جبکہ سندھ بچاؤ کمیٹی کی طرف سے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف پورے سندھ میں یوم سوگ منایا گیا ۔
لیکن عام انتخابات سے قبل ہی سندھ میں بہت کچھ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے مخالفین ایک جگہ جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اور یہ ایسی غیر متوقع تبدیلیاں ہیں جو عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں ۔ سیاست میں تشدد کا عنصر تیزی سے داخل ہو رہا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض قوتیں سندھ کو اس طرف لے جانا چاہتی ہیں جہاں مفاہمت اور ہم آہنگی کی وہ فضاء برقرار نہ رہے جو اب تک برقرار رہی اور معاملات پیپلز پارٹی کے قابو میں رہے ۔ خیرپور کے ایک گوٹھ میں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے جلسے پر حملے سے صحافی مشتاق کھنڈ سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو ، صوبائی وزراء آٓغا سراج درانی ، ایاز سومرو ، ارکان سندھ اسمبلی میر حیات تالپور ، امداد پتافی ، شمیم آراء پہنور اور دیگر کے گھروں پر بھی حملے ہوئے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے گھروں کی سیکورٹی بھی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہ غلطی تھی یا مجبوری کہ اس نے 7 ستمبر کی صبح 3 بجے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے دستخط سے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او 2012 ) کے اجراء کا اعلان تو کردیا لیکن اس نے اپنی دیگر اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (فنکشنل ) ، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی سے ویسی مشاورت نہیں کی جو اسے کرنی چاہیے تھی ۔ اس پر مذکورہ سیاسی جماعتیں نہ صرف ناراض ہوگئیں بلکہ وہ حکومت سے بھی الگ ہوگئیں اس کے نتیجے میں سندھ اسمبلی میں پہلی مرتبہ 16 ارکان پر مشتمل اپوزیشن وجود میں آگئی ۔
ان ارکان نے اگر چہ اپوزیشن کی نشستوں کے لیے درخواست دے دی ہے لیکن انہیں ابھی تک نشتیں الاٹ نہیں کی گئی ہیں ۔ اسی طرح ان جماعتوں کے وزراء اور مشیران کے استعفیٰ بھی ابھی تک منظور نہیں کیے گئے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری کی کوشش یہ ہے کہ ان ناراض اتحادیوں کو منا لیا جائے ۔ انھوں نے اپنے گذشتہ دورہ کراچی میں حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (ف) کے سربراہ پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی سے رابطہ کیا تھا لیکن جب پیر پگارا کو یہ معلوم ہوا کہ صدر زرداری ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ دبئی جانے کے لیے ہوائی جہاز میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دبئی پہنچنے کے بعد صدر زرداری سے پیر پگارا کی بات ہوگئی تھی لیکن اس میں مزید پیش رفت پیر پگارا کے دبئی سے واپسی پر ہونا تھی جبکہ صدر زرداری کے رابطے پر اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کو حکومت کے خلاف نرم رویہ اپنانے کی ہدایت کی ہے ۔اگر اسی دوران نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ میر مرتضیٰ جتوئی سے بھی براہ راست رابطہ کیا جاتا تو ناراض اتحادیوں کے منانے میں اہم قدم ثابت ہوتا جبکہ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے بڑھائے جاسکتے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کو جنم دے سکتی ہے یا صدر آصف علی زرداری اس نظام سے پہلے والا سیاسی ماحول سندھ میں دوبارہ پیدا کرسکتے ہیں ؟
اس سے قبل سندھ واحد صوبہ تھا جہاں نہ صرف صوبائی اسمبلی میں کوئی اپوزیشن نہیں تھی بلکہ اسمبلی سے باہر بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے پاس پیپلز پارٹی کے خلاف سیاست کرنے کا کوئی جواز موجود نہیںتھا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ دعوٰی کرتی تھی کہ آئندہ عام انتخابات میں پورے سندھ کے اندر پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ، صوبے میں کہیں بھی انتخابی معرکہ نہیں ہوگا اور تمام متفقہ امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوجائیں گے ۔ اگر ایک دو نشستوں پر کہیں مقابلہ ہوا بھی تو اس کا نتیجہ یکطرفہ ہوگا لیکن اب نئے بلدیاتی نظام کے بعد پیپلز پارٹی کے لوگ اس طرح کی باتیں کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران نئے بلدیاتی نظام کے مخالفین نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور وہ سندھ کے عوام کو اس نظام کے خلاف متحرک کرنے کے لیے اپنا بھرپورزور لگا رہی ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنی عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے قوم پرستوں کے گڑھ حیدرآباد میں پہلا جلسہ منعقد کیا جبکہ سندھ بچاؤ کمیٹی کی طرف سے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف پورے سندھ میں یوم سوگ منایا گیا ۔
لیکن عام انتخابات سے قبل ہی سندھ میں بہت کچھ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے مخالفین ایک جگہ جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اور یہ ایسی غیر متوقع تبدیلیاں ہیں جو عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں ۔ سیاست میں تشدد کا عنصر تیزی سے داخل ہو رہا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض قوتیں سندھ کو اس طرف لے جانا چاہتی ہیں جہاں مفاہمت اور ہم آہنگی کی وہ فضاء برقرار نہ رہے جو اب تک برقرار رہی اور معاملات پیپلز پارٹی کے قابو میں رہے ۔ خیرپور کے ایک گوٹھ میں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے جلسے پر حملے سے صحافی مشتاق کھنڈ سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو ، صوبائی وزراء آٓغا سراج درانی ، ایاز سومرو ، ارکان سندھ اسمبلی میر حیات تالپور ، امداد پتافی ، شمیم آراء پہنور اور دیگر کے گھروں پر بھی حملے ہوئے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے گھروں کی سیکورٹی بھی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہ غلطی تھی یا مجبوری کہ اس نے 7 ستمبر کی صبح 3 بجے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے دستخط سے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او 2012 ) کے اجراء کا اعلان تو کردیا لیکن اس نے اپنی دیگر اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (فنکشنل ) ، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی سے ویسی مشاورت نہیں کی جو اسے کرنی چاہیے تھی ۔ اس پر مذکورہ سیاسی جماعتیں نہ صرف ناراض ہوگئیں بلکہ وہ حکومت سے بھی الگ ہوگئیں اس کے نتیجے میں سندھ اسمبلی میں پہلی مرتبہ 16 ارکان پر مشتمل اپوزیشن وجود میں آگئی ۔
ان ارکان نے اگر چہ اپوزیشن کی نشستوں کے لیے درخواست دے دی ہے لیکن انہیں ابھی تک نشتیں الاٹ نہیں کی گئی ہیں ۔ اسی طرح ان جماعتوں کے وزراء اور مشیران کے استعفیٰ بھی ابھی تک منظور نہیں کیے گئے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری کی کوشش یہ ہے کہ ان ناراض اتحادیوں کو منا لیا جائے ۔ انھوں نے اپنے گذشتہ دورہ کراچی میں حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (ف) کے سربراہ پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی سے رابطہ کیا تھا لیکن جب پیر پگارا کو یہ معلوم ہوا کہ صدر زرداری ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ دبئی جانے کے لیے ہوائی جہاز میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دبئی پہنچنے کے بعد صدر زرداری سے پیر پگارا کی بات ہوگئی تھی لیکن اس میں مزید پیش رفت پیر پگارا کے دبئی سے واپسی پر ہونا تھی جبکہ صدر زرداری کے رابطے پر اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کو حکومت کے خلاف نرم رویہ اپنانے کی ہدایت کی ہے ۔اگر اسی دوران نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ میر مرتضیٰ جتوئی سے بھی براہ راست رابطہ کیا جاتا تو ناراض اتحادیوں کے منانے میں اہم قدم ثابت ہوتا جبکہ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے بڑھائے جاسکتے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کو جنم دے سکتی ہے یا صدر آصف علی زرداری اس نظام سے پہلے والا سیاسی ماحول سندھ میں دوبارہ پیدا کرسکتے ہیں ؟