یونان بقاء کی جنگ میں مصروف
ہر یونانی پوری وفاداری سے اپنے شہر کی خدمت کے لیے اپنی جان ومال وقف کردیتا۔
یونان کو مغربی ممالک کا گہوارہ تمدن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا چھوٹے چھوٹے خطوں اورعلاقوں میں بٹے ہونے کے باوجود اس کے جلائے ہوئے چراغِ علم وادب سے دنیا منور ہوئی یہ چار سو سال تک گہوارہ سیا سیات ،طب اورعلم وادب کا مرکز بنا رہا۔ ریاضیات کا ما ہر ارشمیدس جس نے جیو میٹری پر کتاب لکھی آج بھی ہما ری اقلیدس کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ طب کا بابائے آدم ہیپوکرٹس (Hippocrates ( کا تعلق بھی یونان سے تھا۔
تاریخ لکھنے کی ابتدا صحیح معنوں میں یونان سے ہو ئی ہیرو ڈوٹس (HERODOTUS) کو فن تاریخ کا بانی جب کہ دوسرا قابل ذکرمورخ تھیو سیڈیس(Thueydides (جس نے تا ریخ کو تمام افواہوں اورافسانوں سے پاک کر کے حقیقت نگاری کا رنگ دیا۔ ڈاکٹر ہاس نے جینوا میںدیے گئے،اپنے تین لیکچرز میں کہا کہ' یونان کے سارے افکار و اعمال کا مقصد انسانی زندگی کے شا ندار، موثر اور روزافزوں ہو نے پر تھی اس کے مذہب پر نہ رو حانیت کا اثر تھا نہ باطن اور پیشوایان دین کا اثر رہا، قدیم یونانی شہری ریاست کے تمام لوگ خود کو ایک مو رث اعلیٰ کی اولا د سمجھ کر ایک دوسرے سے اپنا رشتہ استوارکرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے شہرکی عظمت وزینت ،عبادت گاہوں، نفیس عمارتوں اوراپنے اجدادکی وراثت ،دیوی دیوتاؤں کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
ہر یونانی پوری وفاداری سے اپنے شہر کی خدمت کے لیے اپنی جان ومال وقف کردیتا۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جواقوام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ یونانی شہری ریا ستیں اگرچہ چھوٹی تھیں لیکن بہت جلد یہ تہذیب وترقی کی بام عروج تک پہنچی پھر یورپ کے لیے مشعل راہ بنی ہومر نے اپنی شا عری الیڈ (ILIad (اور اوڈیسے (ODysseY) کے ذر یعے یونان میں آباد آریا تہذیبی معاشرت کوخوبصورتی سے بیان کیا۔ ہومر عہد کے یو نانی مختلف دیوی دیوتا ؤں کی پرستش کرتے تھے اس سرزمین نے بڑے عالم پیدا کیے جن کے کہے گئے افکارآج بھی تسلیم کیے جاتے ہیں،ان نادار روزگار لوگوں میں سقراط جو تاریخ کا بڑا فلسفی، خطیب اور پرجوش بیان مفکر تھا جس نے ضمیرکی آزادی کو کسی قیمت نہیں بیچا جس کا ایما ن تھا کہ ''نیک آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا نہ زندگی میں نہ مرنے کے بعد،اس کا شاگرد افلاطون اپنے استاد کی طر ح زبر دست مصلح اورمفکر جس کے خیالات زرو جواہر سے قیمتی تھے۔ سکندراعظم جو پوری دنیا کو فتح کر نے کا خواب لیے گھر سے چلا تھا، ایک تہائی دنیا فتح کی پھر موت سے ہارگیا، ارسطو جیسے بڑے عالم مفکرکا شا گرد تھا۔
یونان نے دنیا کے سامنے جمہوریت ، دستوری قانون ،آزدی تحریروتقریر کی مثالیں پیش کی، آج بھی مغربی اقوام ان ھی کے نقش قدم پرگامزن ہے لیکن اتنا شاندار ماضی رکھنے والا یونان ان دنوںاپنی تا ریخ کے شدیدمعا شی بحران سے گزر رہا ہے۔ اپنی مالی حالت کی درستگی کے لیے 50 ارب یورو ضرورت ہے اس نے اپنے مسائل کے حل کے لیے مغربی ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے سے ایک خطیر رقم قرض لے رکھی ہے جس میں جرمنی اور فرانس نے سب سے زیادہ قرضہ دیا ہے جسے واپس کرنا اب اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوچکا ہے۔
یونان30 جون کو آئی ایم کی قسط ادا نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے یورپی مرکزی بینک نے یونان کو مزید قرضے دینا بندکردیا۔ 7 جولائی کو ملک میں تمام بینک بند رہے اے ٹی ایم پر عوام کا رش بڑھ گیا تھا، پینشنرزبینکوں کے آگے پر یشان نظر آئے۔ حکومت نے اے ٹی ایم مشینوں سے صرف 60 یورو روزانہ کی بنیاد پر نکالنے کی اجازت دی بر سر اقتدار پارٹی سائریزا کی حکومت نے آسٹریٹی کو جا ری رکھنے یا مسترد کر نے کا اختیا ر ریفرنڈم کے ذر یعے عوام کے سامنے رکھا تھا عوام خود فیصلہ کر یں کہ ریا ستی اخراجات ، پینشن، علاج ،تعلیم اور دیگر اداروں کی تنخواہوں میں کی جا نے وا لی رقم میں کٹوتی کی جائے یا نہیں، تا کہ قرضے کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جاسکے قرض خوا ہوں کی رکھی گئی کڑی شرائط اب یونان کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یونان کو منگل تک قرض خواہوں کو 60کروڑ یورو واپس کرنے ہیں خطرہ یہ بھی ہے یونان دیوالیہ ہو جائے گا، یونانیوں پر ٹرایکا کی تلوار لٹک رہی ہے۔
ٹرائیکا سے مراد آئی ایم ایف ، یورپی یونین کمیشن اور یور پی سینٹرل بینک پر مشتمل تین کا گروپ شامل ہے جن کے کرتا دھرتا سرما یہ دارانہ نظا م کے تحت ضرورت مند ملکوںکو پہلے قرضے دیتے ہیں ،اس پر بھاری سود کے ذریعے اپنی رقم کو دگنا تین گنا بڑھاتے ہیں پھر اس جال میں جکڑے قرض خواہوں سے اپنی جائز ناجائز شرائط منواتے ہیں۔
یہ ترقی یافتہ ممالک ورلڈ بینک کے مضبوط رکن کی حیثیت رکھتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضے کی کڑی شرائط میںسیاہ وسفید کے مالک ہوتے ہیں غریب ممالک کی بقاء کا دارومدار اسی قرضے اورغیر ملکی امداد پر ہو تا ہے۔ لہذایہ کسی دباؤ اور شرائط کو نہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس کی ایک مثال ورلڈ بینک حکام نے 2005 ء میں اپنے مقروض ملک بولیویا (جنوبی امریکا) میں حکومتی کابینہ کے اجلا س میں شرکت کی، بوولیویا کے تیسرے بڑے شہر'کوچابا ما'میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے25ملین امریکی ڈالر قرضہ دینے سے انکارکردیا شرط یہ رکھی گئی کہ حکومت جب تک پہلے پانی کے نظام کو نجی ملکیت میں نہیں دے دیتی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔
ورلڈ بینک نے پانی کی نجکا ری کی پا لیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت پانی کی پوری پوری قیمت وصول کی جائے گی، عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا نے کے لیے ورلڈ بینک نے مر اعات یافتہ طبقے کو پانی کے نرخ مقر رکرنے کا مکمل اختیار دے دیا۔ نیزحکومت کو تنبیہ کی گئی کہ اس کی قرضے دی گئی رقم پانی کے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں کی جا ئے گی ۔ یونان اس قسم کے شکنجے میں پھنسنے کو تیار نہیں عوام نے اتوارکو کیے گئے ریفرنڈم میں وزیرکا ساتھ دیا۔ اس بات کو مستردکردیا ہم کسی بلیک میلنگ میں آنے والے نہیں ہم مل کر مقابلہ کرینگے، اب یونانی قوم اپنی شاندار تہذیب وتمدن کی روایت لیے اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے ۔
تاریخ لکھنے کی ابتدا صحیح معنوں میں یونان سے ہو ئی ہیرو ڈوٹس (HERODOTUS) کو فن تاریخ کا بانی جب کہ دوسرا قابل ذکرمورخ تھیو سیڈیس(Thueydides (جس نے تا ریخ کو تمام افواہوں اورافسانوں سے پاک کر کے حقیقت نگاری کا رنگ دیا۔ ڈاکٹر ہاس نے جینوا میںدیے گئے،اپنے تین لیکچرز میں کہا کہ' یونان کے سارے افکار و اعمال کا مقصد انسانی زندگی کے شا ندار، موثر اور روزافزوں ہو نے پر تھی اس کے مذہب پر نہ رو حانیت کا اثر تھا نہ باطن اور پیشوایان دین کا اثر رہا، قدیم یونانی شہری ریاست کے تمام لوگ خود کو ایک مو رث اعلیٰ کی اولا د سمجھ کر ایک دوسرے سے اپنا رشتہ استوارکرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے شہرکی عظمت وزینت ،عبادت گاہوں، نفیس عمارتوں اوراپنے اجدادکی وراثت ،دیوی دیوتاؤں کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
ہر یونانی پوری وفاداری سے اپنے شہر کی خدمت کے لیے اپنی جان ومال وقف کردیتا۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جواقوام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ یونانی شہری ریا ستیں اگرچہ چھوٹی تھیں لیکن بہت جلد یہ تہذیب وترقی کی بام عروج تک پہنچی پھر یورپ کے لیے مشعل راہ بنی ہومر نے اپنی شا عری الیڈ (ILIad (اور اوڈیسے (ODysseY) کے ذر یعے یونان میں آباد آریا تہذیبی معاشرت کوخوبصورتی سے بیان کیا۔ ہومر عہد کے یو نانی مختلف دیوی دیوتا ؤں کی پرستش کرتے تھے اس سرزمین نے بڑے عالم پیدا کیے جن کے کہے گئے افکارآج بھی تسلیم کیے جاتے ہیں،ان نادار روزگار لوگوں میں سقراط جو تاریخ کا بڑا فلسفی، خطیب اور پرجوش بیان مفکر تھا جس نے ضمیرکی آزادی کو کسی قیمت نہیں بیچا جس کا ایما ن تھا کہ ''نیک آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا نہ زندگی میں نہ مرنے کے بعد،اس کا شاگرد افلاطون اپنے استاد کی طر ح زبر دست مصلح اورمفکر جس کے خیالات زرو جواہر سے قیمتی تھے۔ سکندراعظم جو پوری دنیا کو فتح کر نے کا خواب لیے گھر سے چلا تھا، ایک تہائی دنیا فتح کی پھر موت سے ہارگیا، ارسطو جیسے بڑے عالم مفکرکا شا گرد تھا۔
یونان نے دنیا کے سامنے جمہوریت ، دستوری قانون ،آزدی تحریروتقریر کی مثالیں پیش کی، آج بھی مغربی اقوام ان ھی کے نقش قدم پرگامزن ہے لیکن اتنا شاندار ماضی رکھنے والا یونان ان دنوںاپنی تا ریخ کے شدیدمعا شی بحران سے گزر رہا ہے۔ اپنی مالی حالت کی درستگی کے لیے 50 ارب یورو ضرورت ہے اس نے اپنے مسائل کے حل کے لیے مغربی ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے سے ایک خطیر رقم قرض لے رکھی ہے جس میں جرمنی اور فرانس نے سب سے زیادہ قرضہ دیا ہے جسے واپس کرنا اب اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوچکا ہے۔
یونان30 جون کو آئی ایم کی قسط ادا نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے یورپی مرکزی بینک نے یونان کو مزید قرضے دینا بندکردیا۔ 7 جولائی کو ملک میں تمام بینک بند رہے اے ٹی ایم پر عوام کا رش بڑھ گیا تھا، پینشنرزبینکوں کے آگے پر یشان نظر آئے۔ حکومت نے اے ٹی ایم مشینوں سے صرف 60 یورو روزانہ کی بنیاد پر نکالنے کی اجازت دی بر سر اقتدار پارٹی سائریزا کی حکومت نے آسٹریٹی کو جا ری رکھنے یا مسترد کر نے کا اختیا ر ریفرنڈم کے ذر یعے عوام کے سامنے رکھا تھا عوام خود فیصلہ کر یں کہ ریا ستی اخراجات ، پینشن، علاج ،تعلیم اور دیگر اداروں کی تنخواہوں میں کی جا نے وا لی رقم میں کٹوتی کی جائے یا نہیں، تا کہ قرضے کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جاسکے قرض خوا ہوں کی رکھی گئی کڑی شرائط اب یونان کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یونان کو منگل تک قرض خواہوں کو 60کروڑ یورو واپس کرنے ہیں خطرہ یہ بھی ہے یونان دیوالیہ ہو جائے گا، یونانیوں پر ٹرایکا کی تلوار لٹک رہی ہے۔
ٹرائیکا سے مراد آئی ایم ایف ، یورپی یونین کمیشن اور یور پی سینٹرل بینک پر مشتمل تین کا گروپ شامل ہے جن کے کرتا دھرتا سرما یہ دارانہ نظا م کے تحت ضرورت مند ملکوںکو پہلے قرضے دیتے ہیں ،اس پر بھاری سود کے ذریعے اپنی رقم کو دگنا تین گنا بڑھاتے ہیں پھر اس جال میں جکڑے قرض خواہوں سے اپنی جائز ناجائز شرائط منواتے ہیں۔
یہ ترقی یافتہ ممالک ورلڈ بینک کے مضبوط رکن کی حیثیت رکھتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضے کی کڑی شرائط میںسیاہ وسفید کے مالک ہوتے ہیں غریب ممالک کی بقاء کا دارومدار اسی قرضے اورغیر ملکی امداد پر ہو تا ہے۔ لہذایہ کسی دباؤ اور شرائط کو نہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس کی ایک مثال ورلڈ بینک حکام نے 2005 ء میں اپنے مقروض ملک بولیویا (جنوبی امریکا) میں حکومتی کابینہ کے اجلا س میں شرکت کی، بوولیویا کے تیسرے بڑے شہر'کوچابا ما'میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے25ملین امریکی ڈالر قرضہ دینے سے انکارکردیا شرط یہ رکھی گئی کہ حکومت جب تک پہلے پانی کے نظام کو نجی ملکیت میں نہیں دے دیتی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔
ورلڈ بینک نے پانی کی نجکا ری کی پا لیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت پانی کی پوری پوری قیمت وصول کی جائے گی، عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا نے کے لیے ورلڈ بینک نے مر اعات یافتہ طبقے کو پانی کے نرخ مقر رکرنے کا مکمل اختیار دے دیا۔ نیزحکومت کو تنبیہ کی گئی کہ اس کی قرضے دی گئی رقم پانی کے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں کی جا ئے گی ۔ یونان اس قسم کے شکنجے میں پھنسنے کو تیار نہیں عوام نے اتوارکو کیے گئے ریفرنڈم میں وزیرکا ساتھ دیا۔ اس بات کو مستردکردیا ہم کسی بلیک میلنگ میں آنے والے نہیں ہم مل کر مقابلہ کرینگے، اب یونانی قوم اپنی شاندار تہذیب وتمدن کی روایت لیے اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے ۔