پیپلز پارٹی اور اے این پی کے راستے جدا
یہ واضح نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے تعلقات کہاں تک بگڑے ہیں
پیپلز پارٹی کی جانب سے آئندہ عام انتخابات میں اے این پی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد بالآخر اے این پی کے رہنمائوں نے بھی اپنا منہ کھول ہی لیا ہے اور انہوں نے بھی واضح کردیا ہے کہ اے این پی ایک آزاد جماعت ہے۔
جو آئندہ عام انتخابات میں اپنی پالیسی اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ۔اے این پی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں پہلی دراڑ سندھ میںموجودہ بلدیاتی نظام رائج کرنے پر پڑی جب اے این پی کے تحفظات کو دور کیے بغیر نیا نظام نافذ کردیا گیا ،جس پر اے این پی سندھ میں حکومت سے الگ ہوگئی جبکہ بعدازاں دہری شہریت کے معاملے پر اے این پی نے جو موقف اپنایا وہ پیپلزپارٹی کے مزاج پر یقینا گراں گزرا ہوگا کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں اے این پی ،پیپلز پارٹی کی وہ واحد اتحادی جماعت ثابت ہوئی جو ہر موقع پر پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ کھڑی رہی تاہم پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام اور بعض دیگر امور پر اے این پی کو نظر انداز کیا تو اب اے این پی بھی کھل کر میدان میں آگئی ہے جس نے انتخابات میں تنہا پرواز کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے تعلقات کہاں تک بگڑے ہیں تاہم دونوں پارٹیوں کے راستے جدا ہوگئے ہیں جس کے باعث دونوں پارٹیاں جو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے کئی حلقوں میں خود کو بندشوں میں جکڑا ہوا محسوس کررہی تھیں اب ان کی یہ بندشیں کھل گئی ہیں اور اب وہ آزادی کے ساتھ اپنا سفر کرسکیں گی ،جہاں تک پیپلز پارٹی کا معاملہ ہے تو پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی شیر پائو اور جے یو آئی (ف)کو اپنا رفیق بنانے کی خواہاں ہے اور اس بات کے امکانات موجود بھی ہیں کہ ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ ان کی سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے ۔
جے یو آئی ،مسلم لیگ(ن)کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی خواہاں ہے تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی بھی ایم ایم اے میں واپسی کا معاملہ ختم ہونے پر ایسی ہی کوشش کررہی ہے اس لیے اس بارے میں معاملات واضح ہونے پر ہی پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے معاملات بھی واضح ہوں گے ۔
اے این پی نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا تو کرلی ہیں تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ کس کے سنگ انتخابی میدان میں اترے گی ،اے این پی کے اندر بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس کے لیے جمیعت علماء اسلام(ف)اورپیپلز پارٹی شیر پائو بطور سیاسی رفیق سود مند رہیں گے تاہم مقتدر پارٹی ہونے کے باعث اے این پی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاملات طے کرنا قدرے مشکل ہوگا اس لیے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے این پی صوبہ کے مختلف اضلاع میں مختلف پارٹیوں کے ساتھ ضلعی طور پر ایڈجیسٹمنٹ کی پالیسی اپنائے جسے پارٹی کے اندر سے بھی سپورٹ کیاجارہا ہے تاہم ان معاملات کا حتمی فیصلہ اے این پی کے سینئر رہنمائوں اور بعدازاں تھنک ٹینک کے اجلاسوں میں کیاجائے گا۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی کا اتحاد غیر فطری تھا، دونوں پارٹیاں طویل عرصہ کے بعد 2008 ء کے انتخابات کے بعد ہی قریب آئیں جس میں اصل کردار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری کا ہے جنہوں نے اپنی پارٹی پر واضح کردیا تھا کہ صوبہ میں چونکہ اے این پی نے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اس لیے حکومت بنانے کا موقع بھی اے این پی کو ہی ملنا چاہیے ۔ اب پانچ سال اکھٹے گزارنے کے بعد دونوں پارٹیاں ایک مرتبہ پھر راہیں جدا کررہی ہیں تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں تاہم ابھی اس سلسلے میں آصف علی زرداری اور اسفندیارولی خان کی جانب سے فیصلے ہونے باقی ہیں جو حتمی ہوں گے ۔
ادھر اگر صوبہ میں حکومتی اتحاد توڑ پھوڑ کا شکار ہے تو ادھر مسلم لیگ(ن)اندرونی طور پر ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ اب تک پیر صابر شاہ اور امیر مقام گروپوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ ان کے ساتھیوں کی ایڈجسٹمنٹ کس طریقہ سے ہوگی جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جب مسلم لیگ(ن)آئندہ عام انتخابات کے لیے قومی وصوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم کرے گی تو اس وقت اسے کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا؟کیونکہ ایک جانب امیر مقام اپنے جن ساتھیوں کو اپنے ساتھ مسلم لیگ(ن)میں لائے ہیں وہ اسی توقع پر ان کے ساتھ آئے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے ان کو ٹکٹ ملیں گے جبکہ دوسری جانب پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب جو پہلے ہی سے پارٹی میں صاحبان اقتدار ہیں ان کے ذہنوں میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے خاکہ موجود ہوگا ایسے میں دونوں گروپوں کے درمیان اچھی خاصی دھماچوکڑی ہونے کا امکان ہے ۔
جو آئندہ عام انتخابات میں اپنی پالیسی اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ۔اے این پی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں پہلی دراڑ سندھ میںموجودہ بلدیاتی نظام رائج کرنے پر پڑی جب اے این پی کے تحفظات کو دور کیے بغیر نیا نظام نافذ کردیا گیا ،جس پر اے این پی سندھ میں حکومت سے الگ ہوگئی جبکہ بعدازاں دہری شہریت کے معاملے پر اے این پی نے جو موقف اپنایا وہ پیپلزپارٹی کے مزاج پر یقینا گراں گزرا ہوگا کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں اے این پی ،پیپلز پارٹی کی وہ واحد اتحادی جماعت ثابت ہوئی جو ہر موقع پر پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ کھڑی رہی تاہم پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام اور بعض دیگر امور پر اے این پی کو نظر انداز کیا تو اب اے این پی بھی کھل کر میدان میں آگئی ہے جس نے انتخابات میں تنہا پرواز کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے تعلقات کہاں تک بگڑے ہیں تاہم دونوں پارٹیوں کے راستے جدا ہوگئے ہیں جس کے باعث دونوں پارٹیاں جو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے کئی حلقوں میں خود کو بندشوں میں جکڑا ہوا محسوس کررہی تھیں اب ان کی یہ بندشیں کھل گئی ہیں اور اب وہ آزادی کے ساتھ اپنا سفر کرسکیں گی ،جہاں تک پیپلز پارٹی کا معاملہ ہے تو پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی شیر پائو اور جے یو آئی (ف)کو اپنا رفیق بنانے کی خواہاں ہے اور اس بات کے امکانات موجود بھی ہیں کہ ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ ان کی سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے ۔
جے یو آئی ،مسلم لیگ(ن)کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی خواہاں ہے تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی بھی ایم ایم اے میں واپسی کا معاملہ ختم ہونے پر ایسی ہی کوشش کررہی ہے اس لیے اس بارے میں معاملات واضح ہونے پر ہی پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے معاملات بھی واضح ہوں گے ۔
اے این پی نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا تو کرلی ہیں تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ کس کے سنگ انتخابی میدان میں اترے گی ،اے این پی کے اندر بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس کے لیے جمیعت علماء اسلام(ف)اورپیپلز پارٹی شیر پائو بطور سیاسی رفیق سود مند رہیں گے تاہم مقتدر پارٹی ہونے کے باعث اے این پی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاملات طے کرنا قدرے مشکل ہوگا اس لیے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے این پی صوبہ کے مختلف اضلاع میں مختلف پارٹیوں کے ساتھ ضلعی طور پر ایڈجیسٹمنٹ کی پالیسی اپنائے جسے پارٹی کے اندر سے بھی سپورٹ کیاجارہا ہے تاہم ان معاملات کا حتمی فیصلہ اے این پی کے سینئر رہنمائوں اور بعدازاں تھنک ٹینک کے اجلاسوں میں کیاجائے گا۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی کا اتحاد غیر فطری تھا، دونوں پارٹیاں طویل عرصہ کے بعد 2008 ء کے انتخابات کے بعد ہی قریب آئیں جس میں اصل کردار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری کا ہے جنہوں نے اپنی پارٹی پر واضح کردیا تھا کہ صوبہ میں چونکہ اے این پی نے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اس لیے حکومت بنانے کا موقع بھی اے این پی کو ہی ملنا چاہیے ۔ اب پانچ سال اکھٹے گزارنے کے بعد دونوں پارٹیاں ایک مرتبہ پھر راہیں جدا کررہی ہیں تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں تاہم ابھی اس سلسلے میں آصف علی زرداری اور اسفندیارولی خان کی جانب سے فیصلے ہونے باقی ہیں جو حتمی ہوں گے ۔
ادھر اگر صوبہ میں حکومتی اتحاد توڑ پھوڑ کا شکار ہے تو ادھر مسلم لیگ(ن)اندرونی طور پر ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ اب تک پیر صابر شاہ اور امیر مقام گروپوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ ان کے ساتھیوں کی ایڈجسٹمنٹ کس طریقہ سے ہوگی جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جب مسلم لیگ(ن)آئندہ عام انتخابات کے لیے قومی وصوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم کرے گی تو اس وقت اسے کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا؟کیونکہ ایک جانب امیر مقام اپنے جن ساتھیوں کو اپنے ساتھ مسلم لیگ(ن)میں لائے ہیں وہ اسی توقع پر ان کے ساتھ آئے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے ان کو ٹکٹ ملیں گے جبکہ دوسری جانب پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب جو پہلے ہی سے پارٹی میں صاحبان اقتدار ہیں ان کے ذہنوں میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے خاکہ موجود ہوگا ایسے میں دونوں گروپوں کے درمیان اچھی خاصی دھماچوکڑی ہونے کا امکان ہے ۔