کیا بلوچستان میں گورنر راج آنے والا ہے
بلوچستان میں انتہائی مخدوش صورتحال ہے
بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں بھی بعض ارکان نے بلوچستان کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ناکام قرار دے کر اسے تحلیل کرنے اور صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں کسی بھی منتخب حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنا منتخب نمائندوں ، سیاسی جماعتوں اور عوام کا حق ہے لیکن جمہوریت کو ختم کرنے اور غیر جمہوری طرز عمل و فکر کسی طور پر درست اقدام نہیں۔ امن و امان کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں شک و شبہ نہیں کہ بلوچستان میں انتہائی مخدوش صورتحال ہے لیکن دوسرے صوبوں میں بھی کوئی مثالی امن و امان نہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے اور آئے دن ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ افراد کے کیس میں عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہوگئی ہے جبکہ موجودہ صوبائی حکومت آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ روکنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے جبکہ وفاق نے بھی صوبے میں ایسے اقدامات نہیں کئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔وفاقی حکومت نے اگرچہ ایف سی کی تعیناتی کی مگر اس کے بھی432 اہلکار جاں بحق اور604 زخمی ہوچکے ہیں تاہم لاپتہ افراد کا الزام صرف ایف سی پر عائد کیا جاتا ہے سویلین اور نان سویلین افراد کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں اس لئے انارکی بڑھتی جارہی ہے جن افراد کی لاشیں ملی ہیں حکومت ان کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا عمل تیز کرے۔
حکومت اس سلسلے میں ایک اسکیم بنائے تاکہ ان افراد کے گھرانوں کی کفالت کا انتظام ہوسکے۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں ڈیرہ بگٹی سے بے گھر ہونے والے ایک لاکھ44 ہزار سے زائد افراد کی دوبارہ آباد کاری سمیت ان کے جان و مال کے تحفظ کو ممکن بنانے اور ڈیرہ بگٹی میں سول انتظامیہ کو فعال بنانے کی ہدایت کی ۔ حکم میں کہا گیا کہ موبائل سم کو ریگولیٹ کرنے کے سلسلے میں21 مئی کی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
صوبائی حکومت کے خلاف فنڈز کے غلط استعمال کے بھی الزامات ہیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کو روکا جائے۔
عبوری حکم میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی اس بات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات میں ہے اور اب یہ انتخابات ہونے جارہے ہیں جس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاق صاف اور شفاف انتخابات کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ حکم میں بلوچستان پولیس اور لیویز کی جانب سے زبردستی لاپتہ کئے جانے والے افراد، مسخ شدہ لاشوں، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان سمیت دیگر سے متعلق تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش کو سی آئی ڈی کے حوالے کرنے اور چالان ہائی کورٹ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کالعدم تنظیموں کے بیانات سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے موقف کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر صوبے کی بعض قوم پرست اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا عبوری حکم نامہ عوام کی ترجمانی ہے ۔ ان جماعتوں نے کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی حکومتی وزراء اس کرپشن، لوٹ مار میں ملوث ہوں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق سپریم کورٹ کے عبوری حکم نامے کے بعد بلوچستان میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے، سیاسی جماعتیں صوبائی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کررہی ہیں تاہم انتخابات کی باتیں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ عبوری حکم نامے میں ایڈووکیٹ جنرل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انتخابات ہونے والے ہیں ان حلقوں کے مطابق اگر نومبر تک نگران سیٹ اپ تشکیل پاجاتا ہے اور ملک میں مارچ یا اپریل 2013ء میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو پھر دو ماہ کیلئے بلوچستان کی موجودہ حکومت کو برطرف کرنے یا پھر گورنر راج کے نفاذ سے سیاسی شہید کرنے کی غلطی سیاسی جماعتوں کیلئے نقصان دہ ہے، تاہم موجودہ صوبائی حکومت اور وفاق کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ان آخری ایام میں صوبے میں قیام امن کیلئے موثر حکمت عملی مرتب کریں اور سپریم کورٹ کے عبوری حکم نامے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسے موثر اور مثبت اقدامات کریں جس سے اس حکومت کی اپنی ساکھ بہتر ہو۔
قومی اسمبلی میں بھی بعض ارکان نے بلوچستان کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ناکام قرار دے کر اسے تحلیل کرنے اور صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں کسی بھی منتخب حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنا منتخب نمائندوں ، سیاسی جماعتوں اور عوام کا حق ہے لیکن جمہوریت کو ختم کرنے اور غیر جمہوری طرز عمل و فکر کسی طور پر درست اقدام نہیں۔ امن و امان کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں شک و شبہ نہیں کہ بلوچستان میں انتہائی مخدوش صورتحال ہے لیکن دوسرے صوبوں میں بھی کوئی مثالی امن و امان نہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے اور آئے دن ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ افراد کے کیس میں عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہوگئی ہے جبکہ موجودہ صوبائی حکومت آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ روکنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے جبکہ وفاق نے بھی صوبے میں ایسے اقدامات نہیں کئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔وفاقی حکومت نے اگرچہ ایف سی کی تعیناتی کی مگر اس کے بھی432 اہلکار جاں بحق اور604 زخمی ہوچکے ہیں تاہم لاپتہ افراد کا الزام صرف ایف سی پر عائد کیا جاتا ہے سویلین اور نان سویلین افراد کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں اس لئے انارکی بڑھتی جارہی ہے جن افراد کی لاشیں ملی ہیں حکومت ان کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا عمل تیز کرے۔
حکومت اس سلسلے میں ایک اسکیم بنائے تاکہ ان افراد کے گھرانوں کی کفالت کا انتظام ہوسکے۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں ڈیرہ بگٹی سے بے گھر ہونے والے ایک لاکھ44 ہزار سے زائد افراد کی دوبارہ آباد کاری سمیت ان کے جان و مال کے تحفظ کو ممکن بنانے اور ڈیرہ بگٹی میں سول انتظامیہ کو فعال بنانے کی ہدایت کی ۔ حکم میں کہا گیا کہ موبائل سم کو ریگولیٹ کرنے کے سلسلے میں21 مئی کی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
صوبائی حکومت کے خلاف فنڈز کے غلط استعمال کے بھی الزامات ہیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کو روکا جائے۔
عبوری حکم میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی اس بات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات میں ہے اور اب یہ انتخابات ہونے جارہے ہیں جس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاق صاف اور شفاف انتخابات کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ حکم میں بلوچستان پولیس اور لیویز کی جانب سے زبردستی لاپتہ کئے جانے والے افراد، مسخ شدہ لاشوں، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان سمیت دیگر سے متعلق تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش کو سی آئی ڈی کے حوالے کرنے اور چالان ہائی کورٹ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کالعدم تنظیموں کے بیانات سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے موقف کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر صوبے کی بعض قوم پرست اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا عبوری حکم نامہ عوام کی ترجمانی ہے ۔ ان جماعتوں نے کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی حکومتی وزراء اس کرپشن، لوٹ مار میں ملوث ہوں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق سپریم کورٹ کے عبوری حکم نامے کے بعد بلوچستان میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے، سیاسی جماعتیں صوبائی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کررہی ہیں تاہم انتخابات کی باتیں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ عبوری حکم نامے میں ایڈووکیٹ جنرل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انتخابات ہونے والے ہیں ان حلقوں کے مطابق اگر نومبر تک نگران سیٹ اپ تشکیل پاجاتا ہے اور ملک میں مارچ یا اپریل 2013ء میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو پھر دو ماہ کیلئے بلوچستان کی موجودہ حکومت کو برطرف کرنے یا پھر گورنر راج کے نفاذ سے سیاسی شہید کرنے کی غلطی سیاسی جماعتوں کیلئے نقصان دہ ہے، تاہم موجودہ صوبائی حکومت اور وفاق کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ان آخری ایام میں صوبے میں قیام امن کیلئے موثر حکمت عملی مرتب کریں اور سپریم کورٹ کے عبوری حکم نامے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسے موثر اور مثبت اقدامات کریں جس سے اس حکومت کی اپنی ساکھ بہتر ہو۔