یہ ہنستے ہنساتے لوگ بالی ووڈ کے بہترین مزاحیہ اداکار

پاریش روال نے اپنے کیریر کا آغاز 1984 میں کیا اور پریا درشن کی فلم ہیر ا پھیری نے ان کی قسمت بدل کے رکھ دی

جانی واکر نے اپنے ہر مزاحیہ انداز سے لوگوں کو اتنا متاثر کیا کہ اس دور میں ان کا نام ہی فلم بیں طبقے کے لیے کشش کا باعث ہوتا تھا: فوٹو : فائل

ہندی فلموں میں بے شمار کامیڈین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری کے ساتھ کامیڈی کے ذریعے عرصہ تک فلم بین طبقے پر راج کیا ان کی کامیڈی میں لچرپن اور عامیانہ پن کا احساس تک نہیں ہوتا تھا، بل کہ وہ اپنے طنز، مزاح ، جسمانی اور چہرے کی دل چسپ حرکات و سکنات کی بدولت ہمیشہ سے پسند کیے جاتے رہے۔

یقیناً مزاح دنیا کا مشکل ترین کام ہے کہا جاتا ہے کہ کسی کو رلانا آسان ہوتا ہے بہ نسبت کسی کو ہسنانے کے۔ اس لیے فن کی دنیا میں اداکار تو بہت ہیں لیکن کامیاب کامیڈین کم ہی نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے کام سے لوگوں کا اپنا اسیر بنائے رکھا۔ ایسے ہی چند ناموں میں کچھ نام ان کامیاب اور نامور کامیڈین کے بھی ہیں ۔

محمود
اپنے دور کے سب سے کام یاب اور سپر ہٹ کامیڈین کے ان کے بعد آنے والوں نے ان کی کاپی اور پیروی کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھا۔ ان کا پورا نام محمود علی تھا۔ وہ نہ صرف ایکٹر بلکہ پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور رائٹر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کئی ڈائیلاگ تحریر کیے جو یاد گار ہوگئے۔

تاہم ان کا کامیڈین ہونا ان سب خصوصیات پر فوقیت رکھتا تھا۔ اسی کے ذریعے انہیں شہرت اور کام یابی ہی ملی۔ محمود کا پورا فلمی کیریر تقریباً چار دہائیوں پر محیط رہا اور انہوں نے چار سو سے زاید فلموں میں کام کیا۔ 1960کے دور میں انہیں ہندی سنیما نے کنگ آف کامیڈی کا خطاب دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ صدی کے بہترین کامیڈین بھی قرار پائے۔ بہ طور ڈائریکٹر بنائی گئی اپنی فلم بمبئی ٹو گوا میں انہوں نے امیتابھ بچن کو ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا تھا، اس فلم میں محمود کے حیدرآبادی لہجے نے انہیں سلور اسکرین کا بے تاج بادشاہ بنادیا تھا۔

ان کی وراسٹائلٹی نے سب ہی کو ان کا گرویدہ کر دیا تھا۔ محمود کی کوئی فلم خواہ وہ ناکام ہو یا ہٹ اس سے قطع نظر ان کا ہر کردار ہٹ رہا۔ وہ لوگوں کو ہنسانے میں ہمیشہ کام یاب رہے۔ فلم بیں طبقہ ان کی فلمیں دیکھنا پسند کرتا۔ محمود نے اپنے چھے بیٹوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ایک باپ چھ بیٹے 1978میں بنائی۔ یہ فلم کمرشلی سطح پر ناکام ہوگئی تھی لیکن ان کی اداکاری اپنے تمام بیٹوں پر بھاری تھی۔ محمود انڈین فلم انڈسٹری کے گریٹ کامیڈین کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

کشور کمار
بولی وڈ میں جتنی کام یابی بہ حیثیت پلے بیک گلوکار کشور کمار کو ملی وہ شاید اب تک کسی اور سنگر کے حصے میں نہیں آپائی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہترین سُروں کے مالک تھے۔ ان کے گائے ہوئے لاتعداد گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ کشور کمار کی زندگی کا دوسرا پہلو بہ حیثیت اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بولی وڈ میں ان کی کارکردگی ہے، جس میں کچھ خاص کام یاب نظر نہیں آتے، لیکن اگر ان کی فلموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سنجیدہ اداکاری سے زیادہ موثر طریقے سے وہ کامیڈی کیا کرتے تھے۔

ان کا ہر کردار انرجیٹک اور جان دار ہوتا اور اس میں وہ اپنی حرکات وسکنات اور ڈائیلاگ ڈلیوری کے ذریعے مزاح کا رنگ شامل کر دیتے تھے۔ ان کا ایک ہنریہ بھی تھا کہ وہ بغیر کچھ کہے بھی بہترین کامیڈی کیا کرتے اور اس کا ثبوت ان کی فلم ہاف ٹکٹ تھا۔ ان کا سینس آف ہیومر کمال کا تھا۔ کشور کمار ہندی فلموں کے شاید واحد اداکار تھے جو ہر طرح کی حالت میں کامیڈی کیا کرتے مثلاً خاموشی میں، گانے کے دوران ، ڈانس کرتے ہوئے اور ڈائیلاگ ڈلیوری کے دوران ان کا ہر انداز مزاحیہ ہی ہوتا تھا۔

جانی واکر
ہندی سنیما کی تاریخ اداکار جانی واکر کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ جانی واکر نے اپنے ہر مزاحیہ انداز سے لوگوں کو اتنا متاثر کیا کہ اس دور میں ان کا نام ہی فلم بیں طبقے کے لیے کشش کا باعث ہوتا تھا۔ لوگ سنیما کا رخ صرف ا ن کا نام سن کر ہی کیا کرتے تھے اور یہی کام یاب اداکار کی پہچان ہے۔ جانی واکر کا اصل نام بدر الدین جمال الدین قاضی تھا۔

فلموں میں آنے سے پہلے جانی واکر بس کنڈیکٹری کیا کرتے تھے۔ فلم میکر اور اداکار بلراج ساہنی نے انہیں گرودت سے ملایا، جو جانی واکر کے پہلے ہی اسکرین ٹیسٹ سے خاصے متاثر ہوئے۔ جانی واکر کا نام انہیں گرودت ہی نے دیا تھا۔ اس وقت فلموں میں مزاحیہ اداکار کے طور پر محمود کا راج تھا۔ جانی واکر کے آنے سے ان پر کچھ بوجھ کم ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فلمی دنیا پر چھاتے چلے گئے۔

ایک دور وہ بھی تھا جب جانی واکر ہر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی پہلی چوائس ہوا کرتے تھے۔ وہ ایسے پہلے کامیڈین ہیں جن کے لیے ایس ڈی برمن اور او پی نیئر جیسے عظیم موسیقاروں نے دھنیں تخلیق کیں۔ ان میں سر جو تیرا چکرائے اور اے دل ہے مشکل جیسی دھنیں شامل ہیں۔ جانی واکر کا سب سے اہم کام ایک شرابی کی لاجواب ایکٹنگ تھا۔ ان کے اس انداز کو آنے والے کئی اداکاروں نے کاپی کیا۔ جانی واکر کی آخری فلم چاچی چار سو بیس تھی، جو انہوں نے کمل ہاسن کے بے حد اصرار پر کی۔ ایک بار پھر اس فلم کے ذریعے انہوں نے خود کو بہترین کامیڈین ثابت کیا۔

راجندر ناتھ
اداکار راجند ر ناتھ نے راج کپور اور شمی کپور کی کئی فلموں میں سائڈ اور مختصر رول کیے، لیکن ان کی پہچان ان کے کامیڈی کرداروں کے ذریعے زیادہ ہوئی۔ اپنے دور میں وہ بہترین کامیڈین تصور کیے جاتے تھے، جن کی مزاحیہ حرکات و سکنات دیکھ کر فلم بیں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ 1959میں ریلیز ہونے والی فلم میکر ناصر حسین کی فلم دل دے کے دیکھو میں راجندر ناتھ کی کامیڈی کا معیار نہایت اعلیٰ تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ بغیر لچرپن کے بھی باوقار انداز میں کامیڈی کی جاسکتی ہے۔


بہت کم لوگ اس حقیقت سے وقف ہیں کہ پنجابی سنیما کے لیے راجندر ناتھ نے بہت کام کیا۔

جگدیپ
بولی وڈ میں مزاحیہ اداکاروں کا ذکر اداکار جگدیپ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے اسٹائل کے انڈسٹری میں واحد ایکٹر تھے۔ جگدیپ کا اصل نام سید اشتیاق احمد جعفری تھا اور فلموں میں اپنے کیریر کا آغاز بہ طور چائلڈ آرٹسٹ فلم میکر بی آر چوپڑہ کی فلم افسانہ سے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی یاد گار فلموں میں کام کیا 1957میں بمل رائے کی فلم دو بیگھ زمین ان کے کیریر کے لیے بہترین ثابت ہوئی اور یہاں ہی سے ان کے کامیڈی دور کا آغاز ہوا۔ رمیش سپی کی شہرۂ آفاق فلم شعلے میں سورما بھوپالی کا کردار آج بھی لوگ اتنا ہی پسند کر تے ہیں جتنا اس وقت جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ جگدیپ نے سورما بھوپالی کے کردار کو ہمیشہ کے لیے یاد گار بنا دیا وہ واحد اداکار تھے جو ایک لفظ کہے بغیر بھی دوسرے کے ہنسنے پر مجبور کر دیتے تھے ۔

اسرانی
ہندی فلموں کے ایک اور مزاحیہ اداکار جنہوں نے نہ صرف کامیڈی میں اپنی پہچان بنائی بل کہ چند یادگار سنجیدہ رول بھی کیے۔ اسرانی کا پورا نام گووردھن اسرانی ہے اور وہ آج بھی مختلف فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ان کا فلم شعلے میں جیلر کا مشہور زمانہ کردار ان کی شخصیت ک ایک حصہ بن گیا ہے۔ جیلر کا یہ کردار اسرانی نے اس قدر ڈوب کر کیا کہ ان کی اس کے بعد آنے والی کئی فلموں میں اس کردار کی چھاپ نظر آئی، لیکن آج کی فلموں میں وہ مختلف انداز میں نظر آتے ہیں۔

پونے سے اپنا اداکاری کا کورس مکمل کرنے کے بعد 1967میں انہوں نے فلم ہرے کانچ کی چوڑیاں سے اپنے فلمی کیریر کا آغا ز کیا تھا۔ اسرانی نے صرف کامیڈی ہی نہیں کی بلکہ کئی فلموں میں سنجیدہ اداکاری بھی کی، جن میں میرے اپنے فلم میں ان کی اداکاری لاجواب تھی۔ اس کے علاوہ وہ امیتابھ اور ریکھا کی ایک فلم الاپ میں گلوکاری بھی کر چکے ہیں، جب کہ فلم پھول کھلے ہیں گلشن گلشن میں کشور کمار کے ساتھ ڈوئیٹ بھی گاچکے ہیں۔

قادر خان
اداکار قادر خان کے نام کے بغیر ہندی فلموں کی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔ وہ ایک وراسٹائل ادا کار تھے، جنہوں نے ہر فیلڈ میں خود کو منوایا سنجیدہ نوعیت کا کام ہو یا کوئی منفی رول ہر جگہ وہ مختلف انداز میں نظر آئے۔ قادر خا ن نہ صرف اداکار بل کہ اسکرپٹ رائٹر، ڈائیلاگ رائٹر اور ڈائریکٹر بھی تھے۔ اپنے کالج میں ہونے والے ایک سالانہ فنکشن میں پرفارمینس انہیں بے حد داد ملی، جس کا دلیپ کمار نے نوٹس لی اور انہیں فلموں میں متعارف کرایا۔ قادر خان کا شمار انڈسٹری کے سنیئر کامیڈینز میں کیا جاتا ہے، جنہوں نے تقریباً چار سو پچاس فلموں میں کام کیا۔

جانی لیور
کچھ لوگوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پیدا ہی مزاحیہ اداکاری کے لیے ہوئے ہیں تو اس میں ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہ اداکار جانی لیور کا شمار ایسے ہی فن کاروں میں ہوتا ہے، جو بچپن ہی سے مزاحیہ کام کرتے آئے ہیں۔ جانی لیور کا پورا نام جان پرکاسا راؤ جمولا ہے۔

فلموں میں اپنا نام بنانے کے لیے انہوں نے انتھک محنت کی بہت ابتدا میں انتہائی چھوٹے اور مختصر کرداروں کے ذریعے کیریر کا آغاز کرنے والے جانی لیور نے ایک طویل سفر کے بعد بالآخر وہ مقام پاہی لیا جس کی خواہش ان کے دل میں بچپن ہی سے تھی۔ جانی لیور کی اسکرین کمیسٹری کو آڈینس نے ہمیشہ گووندا کے ساتھ پسند کیا۔ انہوں نے فلم دیوانہ مستانہ اور دلہے راجا میں بہترین کامیڈین کا فلم فئیر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

راج پال یادیو
اداکار راج پال کی مزاحیہ اداکاری کا اپنا ہی ایک منفرد مگر سادہ انداز ہے اور وہ اسی اسٹائل میں پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ راج پال نے اپنے ایکٹنگ کیریر کا آغاز دوردرشن کی ایک سیریل منرنگی کے بھائی نورنگی لال سے کیا اور پھر ٹی وی سے فلم تک کے لمبے سفر کا دور شروع ہوا۔ راج پال کی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنے سادہ اور معصوم انداز میں وہ کامیڈی کرتے ہیں اور یہ کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں۔ ان کا ہر کردار ہی قدرتی معلوم ہوتا ہے۔ کرینہ کپور اور شاہد کپور کی فلم چپکے چپکے اور میں نے پیار کیو ں کیا بھی ان کے کیریر کی یاد گار فلمیں ہیں۔

پاریش راول
پاریش راول نے ابتدا میں فلموں میں منفی کرداروں سے شہرت حاصل کی، لیکن بعدازاں انہیں مزید کام یابی مزاحیہ اداکاری سے ملی اور شاید انہیں خود بھی اس طرز کی ایکٹنگ زیادہ پسند آئی اور وہ منفی کرداروں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اب ان کی پہچان ایک کام یاب مزاحیہ اداکار کی ہے۔

پاریش روال نے اپنے کیریر کا آغاز 1984 میں کیا اور پریا درشن کی فلم ہیر ا پھیری نے ان کی قسمت بدل کے رکھ دی۔ اس فلم میں بابو بھائی کے کردار میں انہوں ایسی یاد گار پرفارمینس دی کہ اس سال کا بیسٹ کامیڈین کا فلم فیئر ایوراڈ اپنے نام کرالیا۔ پاریش نے اور بھی کئی فلموں میں یادگار مزاحیہ رول کیے ہیں، لیکن بابو بھائی ان کے تما م اب تک کے کیے کرداروں پر بھاری ہے۔
Load Next Story