بڑھتی آبادی سکڑتے وسائل
4 برس بعد پاکستان آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہوگا
PARIS:
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان انسانی ترقی کے معیار کے حوالے سے موجود فرق کے باعث زندگی کہیں پُرآسائش تو کہیں پُر آزمائش ہے۔
اور ایسا صرف اس بنیادی نقطہ کی پیروی ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ یعنی اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی آبادی بڑھائی جائے اور ایسا اکثر ترقی یافتہ ممالک نے کر دکھایا ہے جہاںگزشتہ 65 سال کے دوران آبادی میں 55 فیصد اضافہ ہوا جو 1950 میں 813 ملین سے بڑھ کر 2015 ء تک 1259 ملین تک پہنچی جبکہ اس کے برعکس اس عرصہ کے دوران ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں 254 فیصد اضافہ ہوا جو 1713 ملین سے بڑھ کر ان 65 سالوں میں6065 ملین ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس دی 2012 ء ریوژن کے مطابق 1950-2013 ء کے دورا ن ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح عشاریہ69 فیصد(0.69) رہی۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 1.97 فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی میں اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے صورتحال کچھ یوں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں دنیا کی آبادی کا 1950ء میں 67.8 فیصد حصہ آباد تھا بڑھ کر 2015 ء تک 83 فیصدتک پہنچ چکا ہے۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ خطوں میں دنیا کی آبادی کا حصہ جو 1950 ء میں32.2 فیصد تھا کم ہو کر 2015 ء تک 17 فیصد پرآ چکا ہے۔ اور 2050 ء تک یہ مزید کم ہوکر13.6 فیصد اور ترقی پذیر ممالک کا مزید بڑھ کر 86.4 فیصد ہو جائے گا۔ یوں ترقی پذیر دنیا آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کی زد میں ہے اوراپنی آبادی کے بوجھ تلے دبتے ہوئے پسماندگی کی دلدل سے باہر نہ آسکی اور انسانی ترقی کے وہ معیارات حاصل نہیں کر پا رہی جو کم آبادی کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے حصہ میں آئے۔
انسانی ترقی کے درمیان موجود اس خلیج کو کم کرنے اور قدرتی وسائل پر بڑھتے ہوئے انسانی دباؤ کو کم کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے اعادہ کی خاطر ہر سال 11 جولائی کو آبادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاکہ دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کو روکنے کی خاطر شعور اجاگر کرنے اور موثر حکمت عملی پر عملدرآمد کے حوالے سے مزیدکام کیا جائے۔کیونکہ 2050 تک دنیا کی آبادی 09 ارب 55 کروڑ ہونے کا اندازہ ہے جو 30 جو ن 2015 ء تک 07 ارب 25 کروڑ 32 لاکھ 60 ہزار ہو چکی ہے۔ یعنی آنے والے 35 برسوں میں دنیا کی آبادی میں 31.6 فیصد اضافہ متوقع ہے ۔
پاکستان کا شماربھی اُن ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کا شکار اور موجب بھی ہے ۔ یوایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان جو 1950ء میں دنیا میں زیادہ آبادی کے حوالے سے 13 ویں نمبر پر تھا ۔ 2015 ء تک دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ آبادی کا حامل ملک بن چکا ہے۔ اور مزید چار سال بعد یعنی 2019 ء میں پاکستان دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
اقوام متحدہ اور یو ایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 1950-55 ء کے دوران پاکستان آبادی کی مجموعی تعداد میں خالص اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں 13 ویں نمبر پر تھا۔ جو 2014 ء کے دوران دنیا کی آبادی میں 32 لاکھ 58 ہزار نفوس کے خالص اضافہ کے ساتھ چوتھے نمبر پرآچکا ہے۔
اسی طرح آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے پاکستان جو 1950-55 ء کے دوران 1.65 فیصد سالانہ کے ساتھ دنیا بھر میں 145ویں نمبر پر تھا۔ اور 2014-15ء تک 1.47 فیصد کے ساتھ د نیابھر میں79 ویں نمبر پر آچکا تھا۔ اور جنوبی ایشیاء میں افغانستان ، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے چوتھے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1951 ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ( بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان کو نکال کر) 3 کروڑ 37 لاکھ40 ہزار تھی جو 1998 ء کی پانچویں مردم شماری کے مطابق بڑھ کر 13 کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار ہو چکی تھی ۔ یوں 47 سال میں پاکستان کی آبادی میں مجموعی طور پر 292 فیصد اضافہ ہوا اور اگر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈی کے مطابق2015 ء تک پاکستان کی کل آبادی 18 کروڑ 17لاکھ38 ہزار کو مدنظر رکھیں تو 1951 ء سے 2015 ء تک پاکستان کی کل آبادی میں 439 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
پہلی سے دوسری مردم شماری (1951-61) کے دوران ملک کی آبادی میں 27 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ دوسری سے تیسری مردم شماری (1961-72) کے دوران مجموعی طور پر ملکی آبادی میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔تیسری سے چوتھی مردم شماری (1972-81) کے دوران ملکی کی آبادی میں اضافہ مجموعی طور پر29 فیصد رہا۔ چوتھی سے پانچویں مردم شماری (1981-98) کے مابین ملک کی آبادی میں57 فیصد اضافہ ہوا۔
اور 1998 ء سے 2015 ء تک ملک کی مجموعی آبادی میں37 فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔ 1951 ء تا 2015 ء ان 64 سالوں کے دوران ملک میں آبادی میں سب سے زیادہ فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران آبادی میں مجموعی طور پر 1381 فیصد اضافہ ہوا۔ دوسرے نمبر پر صوبہ بلوچستان رہا جہاں 64 سالوں میں آبادی میں 726 فیصد اضافہ ہوا۔ سندھ 588 فیصد اضافہ کے ساتھ تیسرے اور خیبر پختونخوا 455 فیصد اضافہ کے ساتھ چوتھے جبکہ پنجاب کی آبادی میں 383 فیصد اضافہ ہوا۔ فاٹا میں اس عرصہ کے دوران آبادی میں مجموعی اضافہ 233 فیصد رہا ۔
پاکستان کی آبادی میں اضافے کے رجحانات کا اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیا جائے تو چند ایک غور طلب پہلو سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً پنجاب جو آبادی کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بڑے ہونے کے تناسب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔1951ء میں جب ملک میں پہلی مردم شماری ہوئی تو اُس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 60.9 فیصد حصہ پنجاب کی آبادی پر مشتمل تھا جو 1961ء تک کم ہو کر 59.4 فیصد، 1972 ء میں مزید کم ہوکر 57.6 فیصد، 1981 ء میں مزید کمی کے ساتھ 56.1 فیصد اور 1998ء کی پانچویں مردم شماری کے مطابق 55.6 فیصد ہو چکا تھااور 2015 ء تک یہ مزید کم ہوکر 54.6 تک آچکا ہے۔
اسی طرح صوبہ سندھ کی آبادی کا تناسب جو 1951 ء میں ملکی آبادی کا 17.9 فیصد پر مشتمل تھا بتدریج اضافہ کے ساتھ 2015 ء تک 23 فیصد تک آچکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور اسلام آباد کی آبادی کے حصے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ فاٹا کی آبادی کا ملکی آبادی میں حصہ 3.9 فیصد سے کم ہو کر 2.4 فیصد ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا کا حصہ 1951ء سے 2015 ء تک تقریباً یکساں رہا۔
اس کے علاوہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے پہلی اور دوسری مردم شماری کے دوران فاٹا کا علاقہ سرفہرست رہا جہاں1951-61 ء کے دوران4.08 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ دوسری سے تیسری مردم شماری کے مابین اسلام آباد میں آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح 5.34 فیصد رہی۔ تیسری اور چوتھی مردم شماری تک ملک میں سب سے زیادہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح بلوچستان میں رہی جہاں ان 10 سالوں میں آبادی میں 7.09 فیصدسالانہ اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں چوتھی اور پانچویںمردم شماری کے عرصہ میں اسلام آباد کی آبادی میں 5.19 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو ملک بھر میں سب سے زیادہ تھا ۔
پاکستان میں آبادی کی شہری اور دیہی جغرافیائی تقسیم ملک میں آبادی میں اضافہ اور آبادی کی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوںکو شہری درجہ ملنے کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس حوالے سے 1951-98 ء تک ملک کی شہری آبادی میں 619 فیصد اضافہ ہوا اور یہ شرح 17.7 فیصد سے بڑھ کر 1998 تک 32.5 فیصد تک آچکی تھی اور اگر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈی کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھیں تو 2015 ء تک پاکستان کی شہری آبادی کا تناسب کل آبادی کے 41 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی دیہی آبادی جو 1951ء میں ملک کی 82.2 فیصد آبادی پر مشتمل تھی 1998 ء تک اس کا حصہ کم ہو کر 67.4 فیصد ہو چکا تھا۔ اور 2015 ء تک یہ مزید کمی کے ساتھ 59 فیصد پر آچکا ہے۔
2015 ء میں ملک کے جغرافیائی علاقوں میں سب سے زیادہ شہری آبادی کے تناسب کا تعلق اسلام آبادسے ہے جہاں کی 75 فیصد آبادی شہری علاقہ میں مقیم ہے۔ دوسرے نمبر پرصوبہ سندھ ہے جہاں کی 58 فیصد آبادی شہری ہے۔ اس کے بعد 40 فیصد آبادی کے ساتھ پنجاب تیسرے نمبر پر ہے۔
جبکہ بلوچستان کی 36 فیصد شہری آبادی اُسے چوتھے نمبر پر فائز کئے ہوئے ہے۔ خیبر پختونخوا کی 24 فیصداور فاٹا کی 4 فیصد آبادی شہری نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس 2015 ء میں دیہی آبادی کا سب سے زیادہ تناسب فاٹا میں موجود ہے جہاں کی کل آبادی کا 96 فیصد دیہی علاقوں میں آبادہے ۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں76 فیصد آبادی کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔
اس کے بعد 64 فیصد دیہی علاقوں کی آبادی کے ساتھ بلوچستان تیسرے، 60 فیصد کے ساتھ پنجاب چوتھے اور 42 فیصد کے ساتھ سندھ پانچویںنمبر پرہے۔ جبکہ ملک میں سب سے کم دیہی آبادی کے تناسب کا تعلق اسلام آباد سے ہے جہاں 34.2 فیصدآبادی دیہی آبادی قرار دی گئی ہے۔ 1951-2015 ء تک ملک میں سب سے زیادہ دیہی آبادی میں مجموعی تناسب کا اضافہ بلوچستان میں ہوا جہاں 64 سالوں کے دوران دیہی آبادی کی تعداد میں505 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا اس کے بعد خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں کی آبادی میں اضافہ کی صورتحال رہی جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران 377 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
307 فیصد دیہی آبادی کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ سندھ تیسرے اور268 فیصد کے ساتھ اسلام آبادچوتھے نمبر پر رہا۔ پنجاب میں 1951-2015 ء تک دیہی آبادی میں 250 فیصد اور فاٹا میں 219 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں 1951-2015 ء تک سب سے زیادہ شہری علاقوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ بھی بلوچستان میںریکارڈ ہوا۔ جہاں 64 سالوں کے دوران شہری آبادی میں 2300 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔
اس کے بعد اسلام آباد کی شہری آبادی بڑھی ۔ جس میں 1972-2015 ء کے دوران1311 فیصد بڑھوتری ہوئی۔ تیسرے نمبر پر سندھ رہا جہاں 1951-2015ء کے دوران 1271فیصد شہری آبادی میں اضافہ ہوا۔ خیبر پختونخوا میں1089 فیصد اضافہ جبکہ پنجاب میں شہری علاقوں کی آبادی میں1019 فیصدہوا۔ فاٹا میں 1961-2015 ء کے دوران شہری آبادی میں 683 فیصد مجموعی اضافہ ہوا ۔
1951-2015 ء کے دوران ملکی سطح پر دیہی آبادی میں 285 فیصد مجموعی اضافہ اور شہری علاقوں کی آبادی میں 1151 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان جو دنیا کے رقبہ کے عشاریہ 60 فیصد (0.60) رقبہ پر مشتمل ہے میں 2015 ء تک دنیا کی 2.48 فیصد آبادی مقیم ہے۔ یعنی 2015ء تک پاکستان کے فی مربع کلومیٹر رقبہ میں 228 افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہ تعداد 1951ء میں 42 اور 1961 ء میں 54 افراد فی مربع کلو میٹر تھی جو 1972ء میں بڑھ کر 82 اور 1981ء میں 106اور 1998 میں بڑھ کر 166 ہو چکی تھی ۔
یعنی 1951ء سے 1998 ء تک ملک میں فی مربع کلو میٹرآبادی میں 295 فیصد اضافہ ہوا اور اگر 2015 ء کی ملکی آبادی کو بھی سامنے رکھا جائے تو گزشتہ 64 برسوںمیں ملک کے فی مربع کلو میٹر آبادی میں 443 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں 1951-2015 تک فی مربع کلو میٹر آبادی میں سب سے زیادہ فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں 64 سال کے دوران فی مربع کلو میٹر آبادی میں 1381فیصد اضافہ ہوا۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان رہا جہاں فی مربع کلو میٹرآبادی میں 833 فیصد اضافہ ہوا۔ 586 فیصد اضافہ کے ساتھ سندھ تیسرے نمبر پر رہا۔ جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ اضافہ 457 فیصد رہا۔ پنجاب میں فی مربع کلو میٹر آبادی میں 384 فیصد اضافہ اور فاٹا میں 263 فیصد اضافہ ہوا۔
کسی ملک کی آبادی میں اضافہ میں شادی شدہ خواتین کے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی صورتحال، فی خاتون بچوں کی تعداد، شرح پیدائش و اموات اور اوسط دورانیہ عمر اہم عوامل خیال کئے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح کے حقائق سامنے آتے ہیں کہ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈزمیزرمنٹ سروے 2013-14 ء کے مطابق ملک میں 32 فیصد شادی شدہ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے کسی ایک طریقے کا استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان میں آبادی میں اضافہ کا ایک اور پہلو شرح اموات میں کمی اور عمر کے اوسط دورانیہ میں اضافہ بھی ہے۔اعدادو شمار کے مطابق بیسویں صدی انسانی تاریخ میں طب کے شعبے میں بے مثال ترقی کے باعث اموات میں تیز کمی کی شاہد ہے یہی وجہ ہے کہ 1950-55 ء میں پاکستان میں شرح اموات جو 26.3 فی ہزار تھی اور پاکستان اُس وقت دنیا بھر میں شرح اموات کے حوالے سے 40 ویں نمبر پر تھا۔ یہ شرح 2014 ء تک کم ہو کر 6.6 اموات فی ہزار تک آچکی تھی۔ یعنی 60 سال کے دوران پاکستان میں شرح اموات میں 19.7 اموات فی ہزار کمی واقع ہوئی ہے۔اور پاکستان اس وقت اس حوالے سے دنیا میں150 ویں پوزیشن پر ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں عمر کا دورانیہ جو 1950-55 ء میںاوسطً 38.4 سال پر مشتمل تھا۔2014 ء تک بڑھ کر 67.1 برس پر محیط ہو چکا ہے۔ یعنی گزشتہ آدھی صدی میں پاکستانیوںکی عمر میںاوسطً28.7 سال کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ تمام عوامل ملک کی آبادی میں بتدریج اضافہ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اور یہ بڑھتی ہوئی ملکی آبادی معاشی، سماجی اور قدرتی وسائل پر بھرپور دبائو کا باعث بن رہی ہے۔ کیونکہ خوراک،صحت، روزگار، تعلیم اور تحفظ ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کو پورا کرنا ہر حکومت کا بنیادی فرض ہے۔ لیکن بڑھتی آبادی کے ان حقوق کی تکمیل ہر آنے والے سال اضافی معاشی وسائل کی طالب ہو رہی ہے۔ اور اگر معیشت پہلے ہی توانائی کے بحران، امن وامان اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کا شکار ہو تو وہ کس طرح لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے معاشی وسائل مہیا کرسکتی ہے؟ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری میں اضافہ اور عوام کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم رہ جاتی ہے۔ اور آنے والا ہر نیا دن آبادی میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے صورتحال کو اور مخدوش کرتا جاتا ہے۔ اور یوں انسانی ترقی کا خواب ادھورا اور ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان موجود انسانی ترقی کی خلیج بڑھتی جاتی ہے۔اور ایسی ہی کچھ صورتحال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔
جہاں 2013-14 کے دوران10 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح لیبر فورس سروے کے مطابق 5.27 فیصد تھی۔دیہی علاقوں میں یہ شرح 4.26 فیصد اور شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.79 فیصد تھی۔ اور یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کے187 ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے 146 ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے لئے مرتب کردہ کثیر الجہت غربت انڈکس 2015 ء جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی Multidimensional Poverty یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہیں ۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد، پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔ جبکہ بلوچستان کی مزید12.7 فیصد، خیبرپختونخوا کی 19.1فیصد، پنجاب کی 17.2 فیصد اور سندھ کی 8.3 فیصد ، شمالی علاقہ جات کی 22.8 فیصد اور اسلام آباد کی 7.1 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerable ہے۔ پاکستان کی سطح پرکثیر الجہت غربت کے حوالے سے مزید Vulnerable آبادی کا تناسب 15.1 فیصد ہے۔
پاکستان میں آبادی کے جن کو بوتل میں بندکرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے بہتری کے آثار بھی سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں واضح کمی کا ہونا ہے۔ یہ شرح 1950-55ء میں 42.8 پیدائش کے کیسز فی ہزار تھی جو 2014 ء تک کم ہوکر 23.2 پیدائش کے کیسز فی ہزار تک آچکی ہے۔ یعنی 60 سال کے دوران پاکستان میں پیدائش کے کیسز میں 19.6 کیسز فی ہزار کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ اسی طرح فی خاتون بچوں کی تعداد 6.6 بچوں سے کم ہوکر 2.86 بچے فی خاتون تک آچکی ہے۔
پاکستان کی پسماندگی کی بنیادی وجوہات میںزیادہ آبادی کا عنصر یقیناسب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جب تک ہم اپنی آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق کنٹرول میں نہیں لائیں گے تب تک انسانی ترقی، غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا اوراس سلسلے میں پہل ہم سب کو انفرادی سطح پر کرنا ہوگی۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان انسانی ترقی کے معیار کے حوالے سے موجود فرق کے باعث زندگی کہیں پُرآسائش تو کہیں پُر آزمائش ہے۔
اور ایسا صرف اس بنیادی نقطہ کی پیروی ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ یعنی اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی آبادی بڑھائی جائے اور ایسا اکثر ترقی یافتہ ممالک نے کر دکھایا ہے جہاںگزشتہ 65 سال کے دوران آبادی میں 55 فیصد اضافہ ہوا جو 1950 میں 813 ملین سے بڑھ کر 2015 ء تک 1259 ملین تک پہنچی جبکہ اس کے برعکس اس عرصہ کے دوران ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں 254 فیصد اضافہ ہوا جو 1713 ملین سے بڑھ کر ان 65 سالوں میں6065 ملین ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس دی 2012 ء ریوژن کے مطابق 1950-2013 ء کے دورا ن ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح عشاریہ69 فیصد(0.69) رہی۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 1.97 فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی میں اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے صورتحال کچھ یوں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں دنیا کی آبادی کا 1950ء میں 67.8 فیصد حصہ آباد تھا بڑھ کر 2015 ء تک 83 فیصدتک پہنچ چکا ہے۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ خطوں میں دنیا کی آبادی کا حصہ جو 1950 ء میں32.2 فیصد تھا کم ہو کر 2015 ء تک 17 فیصد پرآ چکا ہے۔ اور 2050 ء تک یہ مزید کم ہوکر13.6 فیصد اور ترقی پذیر ممالک کا مزید بڑھ کر 86.4 فیصد ہو جائے گا۔ یوں ترقی پذیر دنیا آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کی زد میں ہے اوراپنی آبادی کے بوجھ تلے دبتے ہوئے پسماندگی کی دلدل سے باہر نہ آسکی اور انسانی ترقی کے وہ معیارات حاصل نہیں کر پا رہی جو کم آبادی کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے حصہ میں آئے۔
انسانی ترقی کے درمیان موجود اس خلیج کو کم کرنے اور قدرتی وسائل پر بڑھتے ہوئے انسانی دباؤ کو کم کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے اعادہ کی خاطر ہر سال 11 جولائی کو آبادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاکہ دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کو روکنے کی خاطر شعور اجاگر کرنے اور موثر حکمت عملی پر عملدرآمد کے حوالے سے مزیدکام کیا جائے۔کیونکہ 2050 تک دنیا کی آبادی 09 ارب 55 کروڑ ہونے کا اندازہ ہے جو 30 جو ن 2015 ء تک 07 ارب 25 کروڑ 32 لاکھ 60 ہزار ہو چکی ہے۔ یعنی آنے والے 35 برسوں میں دنیا کی آبادی میں 31.6 فیصد اضافہ متوقع ہے ۔
پاکستان کا شماربھی اُن ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کا شکار اور موجب بھی ہے ۔ یوایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان جو 1950ء میں دنیا میں زیادہ آبادی کے حوالے سے 13 ویں نمبر پر تھا ۔ 2015 ء تک دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ آبادی کا حامل ملک بن چکا ہے۔ اور مزید چار سال بعد یعنی 2019 ء میں پاکستان دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
اقوام متحدہ اور یو ایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 1950-55 ء کے دوران پاکستان آبادی کی مجموعی تعداد میں خالص اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں 13 ویں نمبر پر تھا۔ جو 2014 ء کے دوران دنیا کی آبادی میں 32 لاکھ 58 ہزار نفوس کے خالص اضافہ کے ساتھ چوتھے نمبر پرآچکا ہے۔
اسی طرح آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے پاکستان جو 1950-55 ء کے دوران 1.65 فیصد سالانہ کے ساتھ دنیا بھر میں 145ویں نمبر پر تھا۔ اور 2014-15ء تک 1.47 فیصد کے ساتھ د نیابھر میں79 ویں نمبر پر آچکا تھا۔ اور جنوبی ایشیاء میں افغانستان ، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے چوتھے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں آبادی کے بڑھتے ہوئے سونامی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1951 ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ( بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان کو نکال کر) 3 کروڑ 37 لاکھ40 ہزار تھی جو 1998 ء کی پانچویں مردم شماری کے مطابق بڑھ کر 13 کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار ہو چکی تھی ۔ یوں 47 سال میں پاکستان کی آبادی میں مجموعی طور پر 292 فیصد اضافہ ہوا اور اگر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈی کے مطابق2015 ء تک پاکستان کی کل آبادی 18 کروڑ 17لاکھ38 ہزار کو مدنظر رکھیں تو 1951 ء سے 2015 ء تک پاکستان کی کل آبادی میں 439 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
پہلی سے دوسری مردم شماری (1951-61) کے دوران ملک کی آبادی میں 27 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ دوسری سے تیسری مردم شماری (1961-72) کے دوران مجموعی طور پر ملکی آبادی میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔تیسری سے چوتھی مردم شماری (1972-81) کے دوران ملکی کی آبادی میں اضافہ مجموعی طور پر29 فیصد رہا۔ چوتھی سے پانچویں مردم شماری (1981-98) کے مابین ملک کی آبادی میں57 فیصد اضافہ ہوا۔
اور 1998 ء سے 2015 ء تک ملک کی مجموعی آبادی میں37 فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔ 1951 ء تا 2015 ء ان 64 سالوں کے دوران ملک میں آبادی میں سب سے زیادہ فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران آبادی میں مجموعی طور پر 1381 فیصد اضافہ ہوا۔ دوسرے نمبر پر صوبہ بلوچستان رہا جہاں 64 سالوں میں آبادی میں 726 فیصد اضافہ ہوا۔ سندھ 588 فیصد اضافہ کے ساتھ تیسرے اور خیبر پختونخوا 455 فیصد اضافہ کے ساتھ چوتھے جبکہ پنجاب کی آبادی میں 383 فیصد اضافہ ہوا۔ فاٹا میں اس عرصہ کے دوران آبادی میں مجموعی اضافہ 233 فیصد رہا ۔
پاکستان کی آبادی میں اضافے کے رجحانات کا اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیا جائے تو چند ایک غور طلب پہلو سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً پنجاب جو آبادی کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بڑے ہونے کے تناسب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔1951ء میں جب ملک میں پہلی مردم شماری ہوئی تو اُس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 60.9 فیصد حصہ پنجاب کی آبادی پر مشتمل تھا جو 1961ء تک کم ہو کر 59.4 فیصد، 1972 ء میں مزید کم ہوکر 57.6 فیصد، 1981 ء میں مزید کمی کے ساتھ 56.1 فیصد اور 1998ء کی پانچویں مردم شماری کے مطابق 55.6 فیصد ہو چکا تھااور 2015 ء تک یہ مزید کم ہوکر 54.6 تک آچکا ہے۔
اسی طرح صوبہ سندھ کی آبادی کا تناسب جو 1951 ء میں ملکی آبادی کا 17.9 فیصد پر مشتمل تھا بتدریج اضافہ کے ساتھ 2015 ء تک 23 فیصد تک آچکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور اسلام آباد کی آبادی کے حصے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ فاٹا کی آبادی کا ملکی آبادی میں حصہ 3.9 فیصد سے کم ہو کر 2.4 فیصد ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا کا حصہ 1951ء سے 2015 ء تک تقریباً یکساں رہا۔
اس کے علاوہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح کے حوالے سے پہلی اور دوسری مردم شماری کے دوران فاٹا کا علاقہ سرفہرست رہا جہاں1951-61 ء کے دوران4.08 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ دوسری سے تیسری مردم شماری کے مابین اسلام آباد میں آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح 5.34 فیصد رہی۔ تیسری اور چوتھی مردم شماری تک ملک میں سب سے زیادہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح بلوچستان میں رہی جہاں ان 10 سالوں میں آبادی میں 7.09 فیصدسالانہ اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں چوتھی اور پانچویںمردم شماری کے عرصہ میں اسلام آباد کی آبادی میں 5.19 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو ملک بھر میں سب سے زیادہ تھا ۔
پاکستان میں آبادی کی شہری اور دیہی جغرافیائی تقسیم ملک میں آبادی میں اضافہ اور آبادی کی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوںکو شہری درجہ ملنے کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس حوالے سے 1951-98 ء تک ملک کی شہری آبادی میں 619 فیصد اضافہ ہوا اور یہ شرح 17.7 فیصد سے بڑھ کر 1998 تک 32.5 فیصد تک آچکی تھی اور اگر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈی کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھیں تو 2015 ء تک پاکستان کی شہری آبادی کا تناسب کل آبادی کے 41 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی دیہی آبادی جو 1951ء میں ملک کی 82.2 فیصد آبادی پر مشتمل تھی 1998 ء تک اس کا حصہ کم ہو کر 67.4 فیصد ہو چکا تھا۔ اور 2015 ء تک یہ مزید کمی کے ساتھ 59 فیصد پر آچکا ہے۔
2015 ء میں ملک کے جغرافیائی علاقوں میں سب سے زیادہ شہری آبادی کے تناسب کا تعلق اسلام آبادسے ہے جہاں کی 75 فیصد آبادی شہری علاقہ میں مقیم ہے۔ دوسرے نمبر پرصوبہ سندھ ہے جہاں کی 58 فیصد آبادی شہری ہے۔ اس کے بعد 40 فیصد آبادی کے ساتھ پنجاب تیسرے نمبر پر ہے۔
جبکہ بلوچستان کی 36 فیصد شہری آبادی اُسے چوتھے نمبر پر فائز کئے ہوئے ہے۔ خیبر پختونخوا کی 24 فیصداور فاٹا کی 4 فیصد آبادی شہری نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس 2015 ء میں دیہی آبادی کا سب سے زیادہ تناسب فاٹا میں موجود ہے جہاں کی کل آبادی کا 96 فیصد دیہی علاقوں میں آبادہے ۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں76 فیصد آبادی کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔
اس کے بعد 64 فیصد دیہی علاقوں کی آبادی کے ساتھ بلوچستان تیسرے، 60 فیصد کے ساتھ پنجاب چوتھے اور 42 فیصد کے ساتھ سندھ پانچویںنمبر پرہے۔ جبکہ ملک میں سب سے کم دیہی آبادی کے تناسب کا تعلق اسلام آباد سے ہے جہاں 34.2 فیصدآبادی دیہی آبادی قرار دی گئی ہے۔ 1951-2015 ء تک ملک میں سب سے زیادہ دیہی آبادی میں مجموعی تناسب کا اضافہ بلوچستان میں ہوا جہاں 64 سالوں کے دوران دیہی آبادی کی تعداد میں505 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا اس کے بعد خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں کی آبادی میں اضافہ کی صورتحال رہی جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران 377 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
307 فیصد دیہی آبادی کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ سندھ تیسرے اور268 فیصد کے ساتھ اسلام آبادچوتھے نمبر پر رہا۔ پنجاب میں 1951-2015 ء تک دیہی آبادی میں 250 فیصد اور فاٹا میں 219 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں 1951-2015 ء تک سب سے زیادہ شہری علاقوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ بھی بلوچستان میںریکارڈ ہوا۔ جہاں 64 سالوں کے دوران شہری آبادی میں 2300 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔
اس کے بعد اسلام آباد کی شہری آبادی بڑھی ۔ جس میں 1972-2015 ء کے دوران1311 فیصد بڑھوتری ہوئی۔ تیسرے نمبر پر سندھ رہا جہاں 1951-2015ء کے دوران 1271فیصد شہری آبادی میں اضافہ ہوا۔ خیبر پختونخوا میں1089 فیصد اضافہ جبکہ پنجاب میں شہری علاقوں کی آبادی میں1019 فیصدہوا۔ فاٹا میں 1961-2015 ء کے دوران شہری آبادی میں 683 فیصد مجموعی اضافہ ہوا ۔
1951-2015 ء کے دوران ملکی سطح پر دیہی آبادی میں 285 فیصد مجموعی اضافہ اور شہری علاقوں کی آبادی میں 1151 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان جو دنیا کے رقبہ کے عشاریہ 60 فیصد (0.60) رقبہ پر مشتمل ہے میں 2015 ء تک دنیا کی 2.48 فیصد آبادی مقیم ہے۔ یعنی 2015ء تک پاکستان کے فی مربع کلومیٹر رقبہ میں 228 افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہ تعداد 1951ء میں 42 اور 1961 ء میں 54 افراد فی مربع کلو میٹر تھی جو 1972ء میں بڑھ کر 82 اور 1981ء میں 106اور 1998 میں بڑھ کر 166 ہو چکی تھی ۔
یعنی 1951ء سے 1998 ء تک ملک میں فی مربع کلو میٹرآبادی میں 295 فیصد اضافہ ہوا اور اگر 2015 ء کی ملکی آبادی کو بھی سامنے رکھا جائے تو گزشتہ 64 برسوںمیں ملک کے فی مربع کلو میٹر آبادی میں 443 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں 1951-2015 تک فی مربع کلو میٹر آبادی میں سب سے زیادہ فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں 64 سال کے دوران فی مربع کلو میٹر آبادی میں 1381فیصد اضافہ ہوا۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان رہا جہاں فی مربع کلو میٹرآبادی میں 833 فیصد اضافہ ہوا۔ 586 فیصد اضافہ کے ساتھ سندھ تیسرے نمبر پر رہا۔ جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ اضافہ 457 فیصد رہا۔ پنجاب میں فی مربع کلو میٹر آبادی میں 384 فیصد اضافہ اور فاٹا میں 263 فیصد اضافہ ہوا۔
کسی ملک کی آبادی میں اضافہ میں شادی شدہ خواتین کے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی صورتحال، فی خاتون بچوں کی تعداد، شرح پیدائش و اموات اور اوسط دورانیہ عمر اہم عوامل خیال کئے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح کے حقائق سامنے آتے ہیں کہ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈزمیزرمنٹ سروے 2013-14 ء کے مطابق ملک میں 32 فیصد شادی شدہ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے کسی ایک طریقے کا استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان میں آبادی میں اضافہ کا ایک اور پہلو شرح اموات میں کمی اور عمر کے اوسط دورانیہ میں اضافہ بھی ہے۔اعدادو شمار کے مطابق بیسویں صدی انسانی تاریخ میں طب کے شعبے میں بے مثال ترقی کے باعث اموات میں تیز کمی کی شاہد ہے یہی وجہ ہے کہ 1950-55 ء میں پاکستان میں شرح اموات جو 26.3 فی ہزار تھی اور پاکستان اُس وقت دنیا بھر میں شرح اموات کے حوالے سے 40 ویں نمبر پر تھا۔ یہ شرح 2014 ء تک کم ہو کر 6.6 اموات فی ہزار تک آچکی تھی۔ یعنی 60 سال کے دوران پاکستان میں شرح اموات میں 19.7 اموات فی ہزار کمی واقع ہوئی ہے۔اور پاکستان اس وقت اس حوالے سے دنیا میں150 ویں پوزیشن پر ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں عمر کا دورانیہ جو 1950-55 ء میںاوسطً 38.4 سال پر مشتمل تھا۔2014 ء تک بڑھ کر 67.1 برس پر محیط ہو چکا ہے۔ یعنی گزشتہ آدھی صدی میں پاکستانیوںکی عمر میںاوسطً28.7 سال کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ تمام عوامل ملک کی آبادی میں بتدریج اضافہ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اور یہ بڑھتی ہوئی ملکی آبادی معاشی، سماجی اور قدرتی وسائل پر بھرپور دبائو کا باعث بن رہی ہے۔ کیونکہ خوراک،صحت، روزگار، تعلیم اور تحفظ ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کو پورا کرنا ہر حکومت کا بنیادی فرض ہے۔ لیکن بڑھتی آبادی کے ان حقوق کی تکمیل ہر آنے والے سال اضافی معاشی وسائل کی طالب ہو رہی ہے۔ اور اگر معیشت پہلے ہی توانائی کے بحران، امن وامان اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کا شکار ہو تو وہ کس طرح لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے معاشی وسائل مہیا کرسکتی ہے؟ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری میں اضافہ اور عوام کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم رہ جاتی ہے۔ اور آنے والا ہر نیا دن آبادی میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے صورتحال کو اور مخدوش کرتا جاتا ہے۔ اور یوں انسانی ترقی کا خواب ادھورا اور ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان موجود انسانی ترقی کی خلیج بڑھتی جاتی ہے۔اور ایسی ہی کچھ صورتحال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔
جہاں 2013-14 کے دوران10 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح لیبر فورس سروے کے مطابق 5.27 فیصد تھی۔دیہی علاقوں میں یہ شرح 4.26 فیصد اور شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.79 فیصد تھی۔ اور یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کے187 ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے 146 ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے لئے مرتب کردہ کثیر الجہت غربت انڈکس 2015 ء جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی Multidimensional Poverty یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہیں ۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد، پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔ جبکہ بلوچستان کی مزید12.7 فیصد، خیبرپختونخوا کی 19.1فیصد، پنجاب کی 17.2 فیصد اور سندھ کی 8.3 فیصد ، شمالی علاقہ جات کی 22.8 فیصد اور اسلام آباد کی 7.1 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerable ہے۔ پاکستان کی سطح پرکثیر الجہت غربت کے حوالے سے مزید Vulnerable آبادی کا تناسب 15.1 فیصد ہے۔
پاکستان میں آبادی کے جن کو بوتل میں بندکرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے بہتری کے آثار بھی سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں واضح کمی کا ہونا ہے۔ یہ شرح 1950-55ء میں 42.8 پیدائش کے کیسز فی ہزار تھی جو 2014 ء تک کم ہوکر 23.2 پیدائش کے کیسز فی ہزار تک آچکی ہے۔ یعنی 60 سال کے دوران پاکستان میں پیدائش کے کیسز میں 19.6 کیسز فی ہزار کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ اسی طرح فی خاتون بچوں کی تعداد 6.6 بچوں سے کم ہوکر 2.86 بچے فی خاتون تک آچکی ہے۔
پاکستان کی پسماندگی کی بنیادی وجوہات میںزیادہ آبادی کا عنصر یقیناسب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جب تک ہم اپنی آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق کنٹرول میں نہیں لائیں گے تب تک انسانی ترقی، غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا اوراس سلسلے میں پہل ہم سب کو انفرادی سطح پر کرنا ہوگی۔