پیپلزپارٹی ق لیگ اور ایم کیو ایم کا ممکنہ انتخابی اتحاد
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری روایات کو مضبوط ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا
ISLAMABAD:
5 برس کی خالص جمہوریت اور پھر بھی انتخابات کے لئے بے یقینی کیفیت' یہ ہے جمہوری اقدار کا وہ نیا سفر جو ہم نے اب تک طے کیا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری روایات کو مضبوط ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا' جمہوری عمل میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا نظام موجود ہوتا ہے جو گورننس کو بہتر بنا دیتا ہے اپوزیشن حکومت کے ہر منفی اور عوامی مفاد کے برعکس قدم کے خلاف مضبوط دیوار ہوتی ہے اور عوامی نمائندے دوبارہ عوام میں جانے کے خوف سے عوامی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن گزشتہ 5 برسوں میں مرکز اور صوبوں میں کیا ہوا کہ عوام اچھی حکمرانی سے تو محروم رہے ہی اچھی اپوزیشن بھی میسر نہ آسکی۔ آج الیکشن کے قریب آنے پر پھر جلسے ،جلوسوں کا موسم لوٹ رہا ہے ۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں' معیشت پر سیاست ہو یا مذہب پر سب کچھ آئندہ انتخابات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا جارہا ہے لیکن یہ خوف بھی سب میں موجود ہے کہ کیا آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوجائیں گے۔ جمہوریت کی آڑ میں اقتدار کو طول دینے کا کوئی نیا کھیل تو نہیں کھیلا جائے گا۔ انہی 5 برسوں میں ہم نے بلوچستان کے حالات سدھانے میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں کی اور ہر آنے والا دن گزرے دن سے خراب ہوتا چلا گیا ۔ قومیت پسندی کو قوم میں بدلنے کی بجائے ہم نے معاملے کو خود ہوا دی اور آج سندھ میں وفاق کے نمائندہ ہونے کے دعویدار اور قومیت پسندی کا پرچار کرنے والے آمنے سامنے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف مظاہرے اور جلسے کررہے ہیں۔
ملک کے مغربی اور شمالی علاقوں میں بھی حالات بہتر ہونے کی بجائے بگڑے ہیں۔ مہنگائی' بدامنی' بیروز گاری اور لاقانونیت کا جن ہر سیاسی فیصلے پر حاوی نظر آتا ہے اور عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مستقبل کی حکمرانی کے لئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، ٹکٹوں کی تقسیم، سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور نئے انتخابی اتحاد کی تیاریاں ہیں۔ مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کی بحالی چاہتی ہیں لیکن جماعت اسلامی پکڑائی نہیں دیتی اور واضح ہوگیا ہے کہ اب یہ اتحاد جماعت اسلامی کے بغیر بنے گا۔
پیپلز پارٹی نظریاتی سیاست اور دائیں بائیں بازوئوں کے بکھیڑوں کو ختم کرکے انتخابی اتحاد کی نئی روایت قائم کرنے جارہی ہے اور اگر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی کی کامیاب سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے تو یہ تینوں کے لئے نیا تجربہ ہوگا اور انتخابی اتحاد سے زیادہ مفاداتی اتحاد کہلائے گا ۔آئندہ کے لئے پیپلز پارٹی کا ہدف پنجاب کی حکومت ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس اتحاد کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم پنجاب اور خصوصی طور پر جنوبی پنجاب میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے جس کے لئے انہیں دیگر سیاسی قوتوں سے بھی تعاون کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) اس تعاون کے لئے قطعاً تیار نہیں جبکہ پیپلز پارٹی اتحادی ہونے کے باعث کچھ حلقوں میں معاملات طے کرسکتی ہے' جلسے جلوسوں کے اسی موسم میں جماعت اسلامی کی خواتین نے ریلی نکالی اور جلسہ بھی منعقد کیا جس سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے خطاب کیا لیاقت بلوچ آئندہ انتخابات میں ملتان سے الیکشن لڑنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف کراچی سے پنڈی تک جانے والا سنی اتحاد کونسل کا ٹرین مارچ بھی ملتان پہنچا اور صاحبزادہ فضل کریم نے ملتان کے ریلوے سٹیشن پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے قائدین کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ادھر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی ملتان میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا لیکن ان کی آمد سے ایک روز قبل ملتان میں دو ہلکے دھماکے ہوگئے اور سکیورٹی حکام نے ان کی آمد کو رسک قرار دیا جس کے بعد انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو اس جلسے سے خطاب کرنے کے لئے بھیجا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی ناراضگی اور تلخ بیانات رنگ لے آئے ہیں اور ان کو پارٹی میں ایک مرتبہ پھر اہم مقام دیئے جانے کی اطلاعات ہیں اور آئندہ کی انتخابی مہم کی اہم ذمہ داریاں بھی انہیں سونپی جارہی ہیں' صدر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے ساری صورتحال کا خوب ادراک رکھتے ہیں ۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زیادہ انحصار جنوبی اور مغربی علاقے پر ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی سابقہ انتخابات میں بھی نتائج کے اعتبار سے یہاں کی بڑی جماعت رہی اور مظفر گڑھ اور خانیوال کے اضلاع میں تو اس نے قومی اسمبلی کی ساری نشستیں جیتیں ان حالات میں پیپلز پارٹی کی نظر اپنے ان حلقوں کو مضبوط بنانے پر ہے جہاں سے پنجاب کے روایتی حکمرانوں پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے اور ان علاقوں میں سید یوسف رضا گیلانی بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔
5 برس کی خالص جمہوریت اور پھر بھی انتخابات کے لئے بے یقینی کیفیت' یہ ہے جمہوری اقدار کا وہ نیا سفر جو ہم نے اب تک طے کیا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری روایات کو مضبوط ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا' جمہوری عمل میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا نظام موجود ہوتا ہے جو گورننس کو بہتر بنا دیتا ہے اپوزیشن حکومت کے ہر منفی اور عوامی مفاد کے برعکس قدم کے خلاف مضبوط دیوار ہوتی ہے اور عوامی نمائندے دوبارہ عوام میں جانے کے خوف سے عوامی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن گزشتہ 5 برسوں میں مرکز اور صوبوں میں کیا ہوا کہ عوام اچھی حکمرانی سے تو محروم رہے ہی اچھی اپوزیشن بھی میسر نہ آسکی۔ آج الیکشن کے قریب آنے پر پھر جلسے ،جلوسوں کا موسم لوٹ رہا ہے ۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں' معیشت پر سیاست ہو یا مذہب پر سب کچھ آئندہ انتخابات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا جارہا ہے لیکن یہ خوف بھی سب میں موجود ہے کہ کیا آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوجائیں گے۔ جمہوریت کی آڑ میں اقتدار کو طول دینے کا کوئی نیا کھیل تو نہیں کھیلا جائے گا۔ انہی 5 برسوں میں ہم نے بلوچستان کے حالات سدھانے میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں کی اور ہر آنے والا دن گزرے دن سے خراب ہوتا چلا گیا ۔ قومیت پسندی کو قوم میں بدلنے کی بجائے ہم نے معاملے کو خود ہوا دی اور آج سندھ میں وفاق کے نمائندہ ہونے کے دعویدار اور قومیت پسندی کا پرچار کرنے والے آمنے سامنے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف مظاہرے اور جلسے کررہے ہیں۔
ملک کے مغربی اور شمالی علاقوں میں بھی حالات بہتر ہونے کی بجائے بگڑے ہیں۔ مہنگائی' بدامنی' بیروز گاری اور لاقانونیت کا جن ہر سیاسی فیصلے پر حاوی نظر آتا ہے اور عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مستقبل کی حکمرانی کے لئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، ٹکٹوں کی تقسیم، سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور نئے انتخابی اتحاد کی تیاریاں ہیں۔ مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کی بحالی چاہتی ہیں لیکن جماعت اسلامی پکڑائی نہیں دیتی اور واضح ہوگیا ہے کہ اب یہ اتحاد جماعت اسلامی کے بغیر بنے گا۔
پیپلز پارٹی نظریاتی سیاست اور دائیں بائیں بازوئوں کے بکھیڑوں کو ختم کرکے انتخابی اتحاد کی نئی روایت قائم کرنے جارہی ہے اور اگر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی کی کامیاب سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے تو یہ تینوں کے لئے نیا تجربہ ہوگا اور انتخابی اتحاد سے زیادہ مفاداتی اتحاد کہلائے گا ۔آئندہ کے لئے پیپلز پارٹی کا ہدف پنجاب کی حکومت ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس اتحاد کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم پنجاب اور خصوصی طور پر جنوبی پنجاب میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے جس کے لئے انہیں دیگر سیاسی قوتوں سے بھی تعاون کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) اس تعاون کے لئے قطعاً تیار نہیں جبکہ پیپلز پارٹی اتحادی ہونے کے باعث کچھ حلقوں میں معاملات طے کرسکتی ہے' جلسے جلوسوں کے اسی موسم میں جماعت اسلامی کی خواتین نے ریلی نکالی اور جلسہ بھی منعقد کیا جس سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے خطاب کیا لیاقت بلوچ آئندہ انتخابات میں ملتان سے الیکشن لڑنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف کراچی سے پنڈی تک جانے والا سنی اتحاد کونسل کا ٹرین مارچ بھی ملتان پہنچا اور صاحبزادہ فضل کریم نے ملتان کے ریلوے سٹیشن پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے قائدین کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ادھر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی ملتان میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا لیکن ان کی آمد سے ایک روز قبل ملتان میں دو ہلکے دھماکے ہوگئے اور سکیورٹی حکام نے ان کی آمد کو رسک قرار دیا جس کے بعد انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو اس جلسے سے خطاب کرنے کے لئے بھیجا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی ناراضگی اور تلخ بیانات رنگ لے آئے ہیں اور ان کو پارٹی میں ایک مرتبہ پھر اہم مقام دیئے جانے کی اطلاعات ہیں اور آئندہ کی انتخابی مہم کی اہم ذمہ داریاں بھی انہیں سونپی جارہی ہیں' صدر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے ساری صورتحال کا خوب ادراک رکھتے ہیں ۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زیادہ انحصار جنوبی اور مغربی علاقے پر ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی سابقہ انتخابات میں بھی نتائج کے اعتبار سے یہاں کی بڑی جماعت رہی اور مظفر گڑھ اور خانیوال کے اضلاع میں تو اس نے قومی اسمبلی کی ساری نشستیں جیتیں ان حالات میں پیپلز پارٹی کی نظر اپنے ان حلقوں کو مضبوط بنانے پر ہے جہاں سے پنجاب کے روایتی حکمرانوں پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے اور ان علاقوں میں سید یوسف رضا گیلانی بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔