دنیا کو تبدیل کرتی گلوبل وارمنگ میں کراچی بھی زد میں

کرہ ارض کے بڑھتے درجہ حرارت نے قدرتی توازن بگاڑ کر زندگی کو مشکلات میں ڈال دیا،چشم کشا تحقیق


تبدیلیاں ماضی میں کئی عظیم تہذیبوں کا صفایا کر چکیں۔ ان میں سرفہرست ہماری اپنی وادی سند ھ کی تہذیب ہے ۔ فوٹو : فائل

راقم کا لڑکپن کراچی میں گزرا ۔ 1980ء میں والدین کے ہمراہ شہر قائد پہنچا اور 1990ء تک وہاں مقیم رہا۔ ان دنوںکراچی معتدل آب و ہوا والا شہر تھا۔ موسم گرما میں تیز اور قدرے ٹھنڈی سمندری ہوائیںگرمی کو جوبن پر نہ آنے دیتیں۔ چناں چہ ہم دوست کبھی کبھی مئی جون کی گرمیوں میں بھی دن دیہاڑے بائکس پہ سڑکوں پر گھومتے پھرتے ۔

لیکن دنیا کے کئی شہروں کی طرح کراچی کا موسم بھی بدل چکا۔ اب وہاں موسم گرما میں اچھی خاصی گرمی پڑتی ہے، جبکہ سردیوں میں ٹھیک ٹھاک سردی !حالیہ ماہ جون میں تو شہر قائد 45 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں جلتا بھنتا رہا جوایک ہزار سے زائد ہم وطنوں کی قیمتی جانیں لے گیا۔ شدید گرمی اور حبس نے وہ سڑکیں بھی ویران کر ڈالیں جہاں عموماً رات گئے تک ٹریفک رواں دواں رہتا تھا۔

مگر موسم نے صرف کراچی پہ آفت نہیں ڈھائی، دنیا کے بہت سے شہر و علاقے بدلتے موسموں کا عجوبہ دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طرف کراچی میں سورج آگ برسا رہا تھا، تو صرف ایک ہزار میل دور ' بھارتی شہر ممبئی میں تڑاتڑ بارشیں جاری تھیں جنھوں نے نظام زندگی درہم برہم کر ڈالا۔ وہاں وسط جون میں اتنی زور دار بارشیں ہوئیں کہ کئی سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔اس سے کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاستوں، آندھرا پردیش اور تلگانہ میں شدید گرمی نے دو ہزار سے زائد مردوزن ہلاک کر ڈالے تھے۔

جب موسم قاتل ہو جائیں
یہ حقائق عیاں کرتے ہیں کہ موسم قاتل بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے چند برس میںآسٹریلیا' برطانیہ سے لے کر الاسکا،امریکا تک کے باشندے گرمی کی شدت بڑھنے سے بے حال ہوئے۔ دوسری طرف ایسے علاقوں مثلاً بیت المقدس میں برف باری ہونے لگی ہے جہاں ماضی میں عموماً سورج خوب چمک دکھاتا تھا۔ غرض بدلتے موسموں اور تبدیل ہوتی آب و ہوا (Climate) نے کئی ممالک کے شہریوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔

دنیا کی امیر ترین امریکی ریاست ' کیلی فورنیا کو لیجیے۔ یہ پچھلے چار برس سے قحط کا شکار ہے۔ اب وہاں حکومت نے پانی کی راشن بندی کر دی ہے تاکہ کیلی فورنین 25 فیصد کم پانی استعمال کریں۔ اس ریاست میں 80 فیصد پانی زراعت میں کھپتا ہے۔ لہٰذا پانی نہ ملنے سے فصلیں وباغ تباہ ہونے پہ کئی کسان دیوالیہ ہو چکے۔



عظیم تہذیبیں مٹ گئیں
آب و ہوا اور موسموں میں تبدیلیوں کو معمولی مت سمجھیے... یہ ماضی میں کئی عظیم تہذیبوں کا صفایا کر چکیں۔ ان میں سرفہرست ہماری اپنی وادی سند ھ کی تہذیب ہے۔ ساڑھے چار ہزار سال قبل جب وادی دجلہ و فرات (میسو پوٹومیا) میں سمیری ' مصری اور اکادی اپنی بستیوں کی بنیاد رکھ رہے تھے' تو پنجاب ' سندھ اور بلوچستان کے قدیم باشندے منظم شہر بسا چکے تھے۔ وہ عمدہ برتن بناتے اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں طاق تھے۔

لیکن ساڑھے تین ہزار سال پہلے چند صدیوں میں وادی سندھ کی تہذیب کا نام و نشان مٹ گیا۔ اب صرف کھنڈرات ' برتن' مجسمے وغیرہ ہی خبر دیتے ہیں کہ پنجاب و سندھ میں دنیا کی پہلی عظیم تہذیب نے جنم لیا جو تحریری زبان بھی رکھتی تھی، گو ماہرین اب تک اسے سمجھ نہیں سکے۔یہ تہذیب اسی لیے نابود ہوئی کہ اچانک پورا علاقہ شدیدقحط کا شکار ہو گیا۔قحط کے حالات کئی برس تک برقرار رہے۔اس عرصے میں وادی سندھ کی تہذیب کے سبھی شہروں کی آبادی دوسرے علاقوں کی سمت نقل مکانی کر گئی۔

سبز مکانی اثر کو سمجھئے
یہ تہذیب تو قدرتی آفت کے باعث تباہ ہوئی، مگر آج کا انسان آب وہوا اور موسموں کے عالمی نظام میں تبدیلیاں لا کر اپنی قبر خود کھود رہا ہے۔ لالچ وہوس کا شکار ہو کر اس نے وہ قدرتی توازن بگاڑ ڈالا جو کرہ ارض پہ زندگی برقرار رکھتا ہے۔سائنسی اصطلاح میں یہ قدرتی توازن ''سبز مکانی اثر''(greenhouse effect)کہلاتا ہے۔

آب وہوا اور موسموں میں عالمی سطح پہ جنم لیتی تبدیلیوں کا کرہ ارض کے درجہ حرارت میں کمی بیشی سے گہرا تعلق ہے۔جب سورج کی شعاعیں زمین کی سطح سے ٹکرائیں، تو ان کی بہت تھوڑی مقدار ارضی اشیا میں جذب ہوتی ہے۔ بقیہ شعاعیں منعکس ہوکر واپس خلا میں پلٹ جاتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین کے گرد ''فضا'' (Atmosphere) کو جنم دیا تاکہ کرہ ارض میں زندگی جنم لے سکے۔

زمین کی فضا میں چند گیسیں پائی جاتی ہیں جنہیں ماہرین نے ''سبزمکانی گیسوں'' کا نام دیا۔ ان میں نمایاں یہ ہیں: کاربن ڈائی آکسائڈ،آبی قطرے، میتھین، نائٹروس آکسائڈ، اوزون اور کلورو فلورو کاربنز۔ ان گیسوں کی اہم ذمے داری یہ ہے کہ زمین سے منعکس شمسی شعاعوں کا کچھ حصہ جذب کرکے اسے واپس زمین کی سمت دھکیل دیں۔ یوں زمین کو وہ حرارت میسر آتی ہے جو زندگی کی بقا کے لیے اشد ضرورت ہے۔ یہی عمل ''سبز مکانی اثر'' کہلاتا ہے۔

زمین پر زندگی کی نشوونما اور بقا کے لیے سبز مکانی اثر کا موجود رہنا انتہائی ضروری ہے۔ خدانخواستہ کسی وجہ سے فضا میں سبز مکانی گیسیں ختم ہوجائیں، تو زمین کا درجہ حرارت بہت نیچے آ جائے۔پچھلے دس ہزار برس سے زمین کا درجہ حرارت 14 تا 15 سینٹی گریڈ کے درمیان چلا آرہا ہے۔ یہ معتدل درجہ حرارت ہے، اسی لیے زمین پر زندگی خوب پھلی پھولی۔ خصوصاً حضرت انسان کرۂ ارض کے چپے چپے پر پھیل گیا۔ مگر اب وہی اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی اکلوتی پناہ گاہ کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔صد افسوس!

جیسا کہ بتایا گیا، کرہ ارض پر زندگی کا دارومدار ہی ان سبز مکانی گیسوں پر ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے یہ گیسیں معدوم ہوئیں'تو درجہ حرارت منفی 18 سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ اس درجہ حرارت میں زمین پر موجود سارا پانی جمنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ چونکہ زندگی کے لیے پانی لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کی عدم موجودگی میں زمین پہ آباد تمام جان داروں کے لیے زندہ رہنا نہایت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔

زمین کی فضا میں سبز مکانی گیسیں اربوں سال سے موجود ہیں۔ان کا ایک منفرد عجوبہ یہ ہے کہ مختلف قدرتی آفات مخصوص سبز مکانی گیسوں کی مقدار میں کمی یا اضافہ سبز مکانی اثر کا قدرتی توازن بگاڑ کردنیا میں زیادہ سردی یا گرمی پیدا کردیتی ہیں۔ ماہرین اثریاتی شہادتوں کے ذریعے جان چکے کہ ماضی میں کرہ ارض شدید سردی یا زبردست گرمی کے ادوار سے گزر چکا ۔یہ ادوار جنم دینے میں سبز مکانی گیسوں نے اہم ترین حصہ لیا۔ یاد رہے' زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال سے زیادہ ہے۔

پہلے برفانی اور گرمی کے ادوار
مثال کے طور پر دو ارب چالیس کروڑ سال پہلے زمین پہ نامیات(organisms) کی کثیر تعداد نے جنم لیا۔ ان کی وجہ سے فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جبکہ سبز مکانی گیسوں کی مقدار کم ہو گئی۔ چناں چہ دنیا میں پہلے ''برفانی دور''(آئس ایج) نے جنم لیا جو ارضیاتی اصطلاح میں ''ہورونیان'' (Huronian) کہلاتا ہے۔ یہ دور تیس کروڑ سال تک جاری رہا۔ اس دوران زمین ''برف کا گولہ'' بنی رہی۔ کرہ ارض پہ سمندرو ں ا ور درختوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ہر طرف برف ہی برف پھیلی نظر آتی۔ اس زمانے میں خوش قسمتی سے سمندروں کی گہرائی میں موجود یک خلوی جاندار زندہ رہے ورنہ شاید کرہ ارض سے زندگی کا وجود ہی مٹ جاتا ۔خیال ہے' تب عالمی درجہ حرارت'' منفی 20 سینٹی گریڈ ''تک پہنچ گیا تھا۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔اثریاتی شہادتیں گواہی دیتی ہیں کہ زمین پر جنم لینے والا آب و ہوا کا گرم ترین دور گیارہ کرڑو سال پہلے گزرا ہے۔ یہ ارضیاتی اصطلاح میں ''کریٹاسیوس تھرمل میکسیم''(Cretaceous Thermal Maximum) کہلاتا ہے۔ یہ دور تقریباً ڈیڑھ کروڑ سال تک جاری رہا۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ اس وقت سمندروں کی تہہ اور خشکی پہ موجود دیوہیکل آتش فشاں پہاڑوں نے پھٹ کر بہت زیادہ میتھین فضا میں اگل دی جو بہت طاقت ور سبز مکانی گیس ہے۔ چناں چہ فضا میں اس کی زیادتی سے زمین کا عالمی درجہ حرارت'' 35 ڈگری سینٹی گریڈ ''تک پہنچ گیا...گویا آج کے درجہ حرارت سے دگنے سے بھی زیادہ!

کرہ ارض پر شدید گرمی کے باعث قطب شمالی اور قطب جنوبی میں ساری برف پگھل گئی۔ گرین لینڈ اور آئس لینڈ میں جنگل اُگ آئے۔ بحیرہ قطب شمالی میں مگر مچھ سے ملتے جلتے جانور تیرنے لگے۔ غرض دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ جب لاکھوں برس کے عمل میں فضا سے رفتہ رفتہ میتھین ختم ہوئی، تو زمین کا درجہ حرارت پھر نیچے آگیا۔

انسان اپنی قبر کھودنے لگا
پچھلے تین سو برس سے زمین کا درجہ حرارت دوبارہ بڑھ رہا ہے۔اس عجوبے کا خطرناک اور انوکھا پہلو یہ ہے کہ اس بار قدرتی حادثات و آفات نہیں انسانی سرگرمیاں بڑھوتری کی ذمے دار ہیں۔ انسان ساختہ اس عمل کا آغاز صنعتی انقلاب (1760ء) سے شروع ہوا، جب کارخانے اور ریلیں چلانے کے لیے کوئلہ بطور ایندھن استعمال ہونے لگا۔ کوئلے سمیت تمام رکازی ایندھن (تیل، گیس، لکڑی) جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر سبز مکانی گیس خارج کرتے ہیں۔

اسی دوران انسان وسیع پیمانے پر جنگل کاٹنے لگا تاکہ کارخانے، سڑکیں اور گھر تعمیر کرسکے۔ چناں چہ کٹے درختوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں جا شامل ہوئی۔ بیسویں صدی میں انسان نت نئے کیمیکل بھی تیار کرنے لگا تاکہ اپنی ترقی کی رفتار بڑھا سکے۔ مگر انسان کے تیار کردہ ''60 ہزار'' کیمیائی مادوں میں سے کئی سبز مکانی گیسوں کی مقدار میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

دور جدید کا انسانی طرز زندگی تیل اور بجلی پر استوار ہے۔ زیادہ سے زیادہ ترقی کی چاہ میں وہ تیل و بجلی زیادہ استعمال کررہا ہے۔ مگر یہ دونوں چیزیں اور ان سے چلنے والی مشینیں کاربن ڈائی آکسائیڈ و دیگر سبز مکانی گیسیں پیدا کرتی ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران انسان ''تین کھرب ٹن'' کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھینک چکا۔ اب بھی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہر سال 35 ارب ٹن یہ سبز مکانی گیس فضا میں پہنچ رہی ہے۔

چناں چہ ابن آدم کی بے روک ٹوک سرگرمیوں نے فضا میں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسوں کی مقدار بڑھادی۔ اس باعث اب کرہ ارض کا درجہ حرارت رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ اس میں پچھلے ڈھائی سو برس کے درمیان تقریباً .85 0 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا۔ سائنس دانوں نے اسی اضافے کو ''عالمی گرماؤ'' (Global warming) کا نام دیا۔

خیال ہے کہ انسان یونہی فضا میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھاتا رہا، تو 2050ء تک زمین کا درجہ حرارت دو تین سینٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے۔ چونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ 50 تا 100 سال فضا میں رہتی ہے۔ لہٰذا اس میں مسلسل اضافہ اگلے ایک سو سال میں درجہ حرارت 20 سینٹی گریڈ تک بھی پہنچا سکتا ہے۔

انسان ساختہ گلوبل وارمنگ کی خصوصیت
زمین کا درجہ حرارت بڑھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، پہلے بھی کرہ ارض اس تبدیلی سے گزر چکا۔ خاص بات یہ کہ موجودہ درجہ حرارت ''بہت تیزی سے بڑھ'' رہا ہے۔ زمین کی ساڑھے چار ارب سالہ تاریخ میں یہی امر ''عالمی گرماؤ'' کو منفرد و ممتاز بنا دیتا ہے۔

ساڑھے پانچ کروڑ سال قبل بھی زمین کا عالمی درجہ حرارت 5 تا 9 سینٹی گریڈ بڑھ گیا تھا۔ تب براعظم تشکیل پارہے تھے۔ چناں چہ جگہ جگہ زمین کی شکست و ریخت نے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی بڑی مقدار فضا میں پہنچا دی۔ انہوں نے پھر درجہ حرارت بڑھا ڈالا۔زمین پر گرمی بڑھی، تو افریقہ و ایشیا کے کئی ممالیہ قطب شمالی کے قریب ہجرت کرگئے۔ اسی طرح سمندری حیوان بھی قطبین کے قریب رہنے لگے۔ جان لیوا گرمی کی وجہ سے حیوانات و نباتات کی کئی اقسام صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ارضیاتی اصطلاح میں یہ دور ''پیلوسین۔ ایوسین تھرمل میکسیم'' (Paleocene-Eocene Thermal Maximum)کہلاتا ہے۔

یہ دور تقریباً دو لاکھ سال تک برقرار رہا۔ اس دوران زمین کے قدرتی نظاموں نے فضا میں موجود زائد سبز مکانی گیسیں چوس لیں۔ یوں کرہ ارض کا درجہ حرارت دوبارہ معمول پر آگیا۔ مگر پیلوسین، ایوسین تھرمل میکسیم نے زمین کا نقشہ بدل ڈالا اور ایک نئے ارضیاتی دور (ایوسین) نے جنم لیا۔

قابل ذکر بات یہ کہ اس دوران دس ہزار سال تک سالانہ دو ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین فضا میں شامل ہوئیں۔ جبکہ انسان پچھلے ڈھائی پونے تین سو سال میں تقریباً تین کھرب ٹن سبز مکانی گیسیں فضا میں داخل کرچکا اور اب بھی ہر سال 35 ارب ٹن مقدار میں انھیںپھینک رہا ہے۔ گویا فضا میں گیسوں کی مقدار بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے... ایسی تیزی جوشاید کرہ ارض نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

سبز مکانی گیسوں کی مقدار تیزی سے بڑھنے کے باعث ہی درجہ حرارت بلند ہونے کی رفتار بھی زیادہ ہے۔ اس محیر العقول تیزی کے باعث بین الاقوامی سطح پر آب و ہوا، موسموں اور ماحول میں بھی عجیب و غریب تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ انسانی سرگرمیوں کے باعث بیچارا کرہ ارض چکرایا ہوا ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کا کیونکر مقابلہ کرے۔

پاکستان پہ اثرات
عالمی گرماؤ کے باعث کرہ ارض پر بے شمار منفی تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں اور ان میں سے اکثر کا نشانہ پاکستان بھی بن سکتا ہے۔ درحقیقت وطن عزیز کا شمار ان 20 ممالک میں ہوتا ہے جو مستقبل میں آب و ہوائی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر ''وزارت آب و ہوائی تبدیلی''(Ministry of Climate Change ) تشکیل دی چکی، تاہم ابھی مزید ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی گرماؤ پاکستان میں پہلا اہم اثر زراعت پر ڈالے گا۔تب شدید گرمی کے باعث دن کے بڑے حصّے میں کھیتی باڑی کرنا مشکل مرحلہ بن جائے گا۔ مزید براں بلند درجہ حرارت بعض فصلوں و سبزیوں کی نشوونما پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہ منفی عوامل خوراک کی پیداوار کم کر دیں گے۔ چناں چہ غذائیں مزید مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ غریب اور متوسط پاکستانی طبقوں کے لیے اچھی خبر نہیں۔

آب و ہوائی تبدیلیوں نے خریف و ربیع کی فصلیں ہونے کا نظام بھی بدل ڈالا ۔ ماضی میں خریف کی فصلیں (چاول، گنا، کپاس، مکئی، باجرہ) ماہ جون تک بو لی جاتی تھیں۔ یہ فصلیں زیادہ پانی پیتی ہیں، اسی لیے مون سون کے آغاز میں انہیں بویا جاتا ہے۔ مگر اب مون سون اواخر جون یا اوائل جولائی میں شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا خریف کی فصلیں بونے کا زمانہ بھی آگے بڑھ گیا ۔


اس تبدیلی نے ربیع کی فصلوں (گندم، چنا، جو، سرسوں) پر بھی اثر ڈالا۔ پہلے یہ فصلیں ستمبر اکتوبر تک بوئی جاتی تھیں۔ مگر اب ان کی بوائی نومبر تک چلتی ہے۔ غرض آب و ہوائی تبدیلیوں نے فصلیں بونے کا نظام الاوقات ہی بدل ڈالا۔

یہ تبدیلیاں پانی کے نظام پر بھی اثرات ڈالیں گی۔ پاکستانی دریاؤں میں پہاڑوں پر برف پگھلنے سے پانی آتا ہے۔ مگر ماہرین کا دعویٰ ہے، عالمی گرماؤ کے باعث اگلے 40 سے 80 سال میں ہمالیہ، ہندوکش، قراقرم وغیرہ کے تقریباً سبھی گلیشیئر پگھل جائیں گے۔گلیشیئر پگھلنے کے باعث شروع میں موسم گرما کے دوران پاکستان زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا رہے گا۔ لیکن اس کے بعد پاکستانی زراعت زیادہ تر بارشوں پر انحصار کرے گی۔ خوش آئند بات یہ ، ماہرین کی رو سے بلند درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ مگر جس سال کم بارشیں ہوئیں، ہمیں قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مستقبل کی درج بالا صورت حال مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی ذخیرہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے۔ یہ ڈیم نہ صرف سیلاب کی شدت روکیں گے، بلکہ بارشیں نہ ہونے کی صورت میں زراعت کو مطلوبہ پانی بھی فراہم کرسکیں گے۔ اگر زرعی مقاصد کے لیے پانی نہ ملا، تو مستقبل کے پاکستان میں خوراک کا شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔

آب وہوائی تبدیلیوں کا مقابلہ یوں بھی ممکن ہے کہ پاکستانی کسانوں کو کھیتی باڑی کے دوران کم پانی سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے طریق کار سکھائے جائیں۔ نیز ایسی غذائیں بھی متعارف کرانا ہوں گی جوکم پانی پی کر نشوونما پالیں۔
درختوں کی کٹائی بھی پاکستان میں عالمی گرماؤ بڑھا رہی ہے۔ یہ درخت ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ چوس کر آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ یوں ماحول صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔

مگر ایک طرف لکڑی حاصل کرنے کی خاطر درخت کٹ رہے ہیں، تو دوسری طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں، کارخانے اور دفاتر بنانے کے لیے جنگل صاف کردیئے جاتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے، کاٹے گئے درختوں کی جگہ بہت کم درخت اگائے جارہے ہیں۔ خصوصاً شہروں میں ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ اسی لیے شہروں میں فضائی آلودگی بڑھتی جاتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی شہروں میں زہریلا دھواں اگلتی گاڑیاں اور کارخانوں کی چمنیاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ان گاڑیوں و کارخانوں کے مالک اتنے دلیر ہیں کہ علی الاعلان فضا میں زہر چھوڑتے ہیں اور پولیس یا شعبہ ماحولیات کا کوئی افسر انہیں روک نہیں پاتا۔

آب و ہوائی تبدیلیوں کا ایک خطرناک مظہر سمندروں کی سطح بڑھنا ہے۔ وجہ یہی کہ دنیا بھر میں گلیشیر اور قطبین پر جمی برف پگھلنے سے سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے، اگلے ایک سو برس میں سطح 6 فٹ بلند ہوجائے گی۔یہ صورتحال پاکستانی ساحلی شہروں کے لیے خطرناک ہے۔ ہمارے کئی ساحلی شہر مثلاً کراچی، پسنی، جیوانی وغیرہ سمندری سطح سے کچھ ہی بلند ہیں۔ لہٰذا 6 فٹ کا اضافہ ان شہروں کے کئی علاقے پانی میں ڈبو دے گا۔

عالمی گرماؤ کے دیگر اثر
فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کچھ حصہ سمندروں میں جذب ہوجاتا ہے۔ چونکہ فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھ چکی لہٰذا وہ زیادہ تعداد میں سمندروں میں جذب ہورہی ہے۔مسئلہ یہ ہے، یہ گیس پانی میں حل ہوکر کاربونک تیزاب میں بدل جاتی ہے۔ پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران یہ تیزاب سمندری پانی کو 25 فیصد زیادہ تیزابی بناچکا۔ اسی تیزابیت کے باعث خول والے سمندری جانور مثلاً گھونگھے، مرجان، سیپ وغیرہ زندہ نہیں رہ پاتے۔

ان کے خول تیزابی پانی میں حل ہوجاتے ہیں۔ غرض سمندروں میں بڑھتی تیزابیت کئی آبی اقسام کو نیست و نابود کردے گی۔ خشکی پر بھی ارضی جانوروں کی ناپیدگی کا آغاز ہوچکا ۔ بے دریغ شکار اور جنگلوں کی کٹائی کے باعث بہت سے جانور مٹنے کا خدشہ ہے۔ اوپر سے بڑھتا درجہ حرارت بھی انہیں موت کے منہ میں لے جائے گا۔

اگر درجہ حرارت چھ سات ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا، تو عالمی پیمانے پر ہجرت کا عجوبہ بھی جنم لے گا۔ ظاہر ہے، شدید گرمی کئی علاقوں میں زندگی برقرار رکھنا ناممکن بنا دے گی۔ تب ان علاقوں کے باشندے سرد ممالک کی سمت ہجرت کرجائیں گے۔ اس عالمی ہجرت کی وجہ سے کئی اقسام کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل جنم لیں گے۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک مہاجرین کی آمد زبردستی روک سکتے ہیں۔

ایک بری خبر یہ ہے کہ بالفرض انسان فضا میں سبزمکانی گیسیں چھوڑنا بند بھی کردے، تو عالمی گرماؤ کا مسئلہ جلد حل نہیں ہوگا۔ دراصل یہ گیسیں دو تین سو سال تک فضا میں موجود رہیں گی۔ لہٰذا آنے والی انسانی نسلوں کو زیادہ شدید آب و ہوائی تبدیلیوں کا نشانہ بننا پڑے گا۔جدید انسان نے مادی ترقی تو بہت کر لی،مگر آنے والی نسلوں کو خصوصاً اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

گرمی کی لہر کا کراچی پہ حملہ
آب و ہوائی تبدیلیوں میں شاید سب سے زیادہ خطرناک تبدیلی ''گرمی کی لہر ''(Heat wave) ہے۔ کراچی والوں نے حال ہی میں خوفناک طریقے سے اس تبدیلی کا مشاہدہ کیا جس نے ایک ہزار سے زائد انسانوں کی قیمتی جانیں لے لیں۔ نیز لاکھوں انسانوں کو بیمار کرکے کام کاج کے قابل نہیں چھوڑا۔

گرمی کی لہر عموماً موسم گرما میں تب جنم لیتی ہے جب ایک خاص علاقے کے اوپر (10 تا 25 ہزار فٹ بلندی پر) ہوا کا زیادہ یا کم دباؤ (high pressure) پیدا ہوجائے۔ تب اس دباؤ والے علاقے میں ہوا نیچے کی سمت سفر کرتی اور زمین سے ٹکرا کر اٹھنے والی ہوا کو بلند نہیں ہونے دیتی۔ لہٰذا وہ وہیں مقید ہوجاتی ہے۔

یہ مقید ہوا زمین کی تپش کے باعث بہت گرم ہوتی ہے ۔ سمندر قریب ہو، تو اس میں بہت زیادہ نمی بھی شامل ہوجاتی ہے۔اس گرم ہوا کے باعث زیادہ دباؤ والے علاقے کا درجہ حرارت معمول سے 5 تا 7 درجے سینٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے۔یہ موسمیاتی عجوبہ دو تین دن سے زیادہ رہے، تو ''گرمی کی لہر'' بن جاتا ہے۔



یہ موسمی تبدیلی انسان کی صحت پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ ایک انسان کے جسم کا اندرونی درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 37 سینٹی گریڈ پر معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ اگر شدید گرم ماحول کے باعث یہ بڑھ جائے، تو ہمارا جسم قدرتی انداز میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔

سب سے پہلے خون کی نالیاں پھیل جاتی ہیں تاکہ خون کی روانی بہتر ہوسکے۔ مزید براں دماغ خون کوحکم دیتا ہے کہ وہ جلد کے قریب پہنچ جائے۔ وجہ یہ کہ بیرون سے ہمارے جسم میں 90 فیصد حرارت جلد کے ذریعے ہی داخل (یا خارج) ہوتی ہے۔دوسرا جسمانی مکینزم پسینہ پیدا کرتا ہے۔ گرمی کی وجہ سے پسینہ فوراً آبی بخارات میں ڈھل کر ہماری جلد کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ یوں ہمارا جسم زیادہ گرم نہیں ہوپاتا۔

لیکن ماحول میں نمی ہو، تو انسانی جسم کے یہ دونوں ہتھیار بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ ہوا میں آبی بخارات کی موجودگی کے باعث انسان کو پسینہ نہیں آتا۔ لہٰذا تپش تیزی سے جسم میں داخل ہونے لگتی ہے۔یہی وجہ ہے، پنجاب اور بلوچستان میں اگر درجہ حرارت 40سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جائے تو عموماً کسان و مزدور سر ڈھانکے سورج تلے کام کرتے رہتے ہیں۔ وجہ یہی کہ وہاں کے ماحول میں نمی نہیں ہوتی۔ چناں چہ دھوپ میں کام کرنے والے پسینے کے قدرتی نظام سے خود کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ انسان تب مائع چیزیں بکثرت استعمال کرے۔

اب یہ دیکھیے کہ حالیہ موسم گرما میں سبّی میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، مگر وہاں ایک بھی ہم وطن جاں بحق نہ ہوا۔ مگر کراچی میں محض 45 درجے سینٹی گریڈ ایک ہزار افراد کو نگل گیا۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ کراچی کی فضا میں نمی کی زیادتی کے باعث انسانی جسم قدرتی طور پر اپنے آپ کو ٹھنڈا نہیں کرسکا۔

بدن ِانساں خود کو سرد رکھنے کی خاطر بہت زور لگاتا ہے۔ لیکن وہ بڑھتی تپش نہ روک سکے، تو نڈھال ہوجاتا ہے۔ تب جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کے باعث عضلات کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ چناں چہ انسان شدید کمزوری و نقاہت محسوس کرتا ہے۔ ایسی حالت میں عموماً دماغ تک خون بھی کم پہنچتا ہے۔ تب انسان سردرد اور بے ہوشی محسوس کرنے لگتا ہے۔

دھوپ میں کام کرنے والے، بیمار، بوڑھے، بچے اور کمزور صحت والے درج بالا عوامل کا جلد شکار ہوتے ہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ گرمی کا نشانہ بننے پہ انہیں نمکیات والی مائع اشیاء مثلاً او آر ایس پلائی جائیں۔ وجہ یہ کہ اس کیفیت میں انسان کا علاج نہ ہو، تو وہ جلد موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔

دراصل انسانی جسم میں درجہ حرارت کنٹرول کرنے والا نظام کام کرنا چھوڑ دے، تو محض دس منٹ میں ہمارا درجہ حرارت 41ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس بلند درجہ حرارت میں اعضاء کام کے قابل نہیں رہتے۔ خصوصاً دماغ میں تپش بڑھ جائے، تو چند منٹ میں مریض اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔گرمی کی لہر کے دوران محفوظ اور تندرست رہنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کیجیے:۔



٭... شدید گرمی میں کمرے میں رہیے، کوئی بلب یا مشین نہ چلائیے کہ وہ حرارت پیدا کرکے گرمی بڑھاتی ہیں۔
٭... پانی اور دیگر مائع جات کثیر مقدار میں استعمال کیجیے۔ تاہم چائے اور کافی کم پیجیے۔
٭... اگر باہر ہیں، تو سر اور گردن سوتی کپڑے سے ڈھک لیجیے، کوشش کیجیے کہ سائے تلے کام کریں۔
٭... ہلکے رنگوں والے سادہ کپڑے پہنیے۔
٭... سخت ورزش اور محنت والے کام نہ کیجیے۔ دھوپ میں زیادہ عرصہ نہ رہیے۔
٭... اگر آپ دو منزلہ مکان میں رہتے ہیں تو شدید گرمی کے وقت نچلی منزل میں چلے جائیے۔ وہ نسبتاً زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔
٭... پروٹین سے بھر پور غذائیں کم کھائیے، ایسی غذائیں جسم میں زیادہ گرمی پیدا کرتی ہیں۔
٭... اگر بہت زیادہ گرمی لگے، تو ٹب میں پانی بھر کر پاؤں ڈبو دیجیے۔ نیز سر پر ٹھنڈے پانی کا تولیہ رکھیے۔
اگر گرمی کی لہر کے باعث کوئی انسان بیمار ہوجائے، تو تندرستی پانے کے لیے یہ اقدامات کیجیے:۔
٭... جسم کا درجہ حرارت کم کرنے کی خاطر اس کے سر، چہرے اور دیگر جسمانی حصوں پر گیلا کپڑا رکھیے۔
٭... مریض کو اسپرین یا اسی قسم کی دوا نہ دیجیے۔ یہ دوا جسم کے اندرونی ٹھنڈک نظام کو متاثر کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آب و ہوائی تبدیلیوں کے باعث اب ہر سال موسم گرما میں ''گرمی کی لہر'' جنم لے سکتی ہے۔ لہٰذا کراچی اور دیگر پاکستانی ساحلی علاقوں کے ہم وطن گرمی کے موسم میں خاص احتیاط کریں۔ ان علاقوں میں نمی کی کثرت اور ہوا بند ہونا گرمی کی لہر کو سہ آتشہ بنا ڈالتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں