بی جے پی نے مذہب کے نام پر نہیں ترقی کے نام پر ووٹ لیے وبھوتی نارائن رائے

اگر ہمیں جمہوری و سیکولر آئین نہیں ملتا تو شاید بھارت اندرونی تضادات کا شکار ہوکر بکھر چکا ہوتا

ہندی کے ممتاز ناول نگار اور بھارتی مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھانے والے قلم کار وبھوتی نارائن رائے سے مکالمہ ۔ فوٹو:ایکسپریس

ہندی کے ممتاز ناول نگار وبھوتی نارائن رائے بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر جون پور میں پیدا ہوئے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعدمقابلے کا امتحان دیا اور انڈین پولیس سروس میں اہم عہدے پر فائز ہوئے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے پر ریٹائرہوئے۔ 36 سالہ کیریر میں انہیں اعلیٰ کارکردگی پر پولیس میڈل، صدارتی پولیس میڈل سے نوازا گیا۔

ادبی خدمات کے اعتراف میں اندو شرما انتر راشٹریہ کتھا سامان، پولیس نیوٹریلیٹی فیلوشپ ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور ریاست اترپردیش کے کئی حساس علاقوں میں اپنے فرائض سرانجام دیے۔ ان کی علمی وانتظامی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاتما گاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی کا یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے وبھوتی نارائن رائے کے اب تک 5ناول ''گھر''، ''شہر میں کرفیو''، ''قصہ لوک تنترا''، ''تبادلہ'' اور ''پریم کی بھوت کتھا'' کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں وہ عوامی مسائل اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے نسلی تعصب کو احاطہ تحریر میں لائے ہیں۔

اُن کے ناول 'شہر میں کرفیو' کو انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ہندو مخالف قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ ریاستوں میں'شہر میں کرفیو' پر پابندی عاید کردی گئی۔ لیکن یہ تمام تر مشکلات وبھوتی نارائن کو حق بات کہنے سے نہ روک سکیں۔ 1980میں الہ آباد میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے پس منظر میں موجود مذہبی تعصب کا پردہ چاک کرنے والے اس ناول میں نارائن رائے نے ہندئوں پر مشتمل پولیس فورس اور صوبائی انتظامیہ کے متعصب کردار کو غیرجانب داری سے پیش کیا۔ ان کے ناولوں کا انگریزی، اُردو، پنجابی، بنگلا، مراٹھی، مین پوری، آسامی اور ملیالم زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ہاشم پورہ میں بھارتی فوج کی جانب سے ہونے والے 42مسلمانوں کے قتل عام پر ایک ناول تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ 'ورت مان ستھیا' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالتے ہیں۔ فرقہ واریت اورنسلی و لسانی عصبیتوں کے خلاف بلا خوف و خطر اپنے جذبات کا اظہار کرنے والے وبھوتی نارائن رائے گذشتہ دنوں پاکستان تشریف لائے تو اُن سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اُن سے گفت گو کا احوال قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس: ادب کا باقاعدہ سفر کب اور کیسے شروع کیا؟
وِبھوتی نارائن رائے: لکھنے کا شوق زمانۂ طالب علمی ہی میں ہوگیا تھا۔ شاعری کی مدد سے اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کچھ چھوٹی موٹی نظمیں شایع بھی ہوئیں، لیکن جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس میدان میں طبع آزمائی میرے بس کی بات نہیں۔ شاعری کے بعد فکشن لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن میرے اندر کا لکھاری اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اس کے بعد ناول نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔

ایکسپریس: کن وجوہات کی بنا پر انگریزی ادب میں ماسٹرز کے بعد پولیس سروس میں شمولیت کا فیصلہ کیا؟
وِبھوتی نارائن رائے: اس وقت ہمارے یہاں ایک مقابلے کا امتحان ہوا کرتا تھا جیسے پاکستان میں سول سروس کا امتحان ہوتا ہے۔ پولیس میں جانے کا دانستہ کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی اس طرف کسی قسم کا رجحان تھا۔ بس ہوا کچھ یوں کہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا اور اسے اچھے نمبروں سے پاس بھی کرلیا، میرٹ کی بنیاد پر ہی پولیس میں اچھے عہدے پر نوکری مل گئی تو بس پھر اسے ہی اپنا مستقل ذریعہ معاش بنا لیا، لیکن لکھنے لکھانے کا سلسلہ متاثر نہیں ہوا۔

ایکسپریس: آپ بھارت میں اُردو کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
وبھوتی نارائن رائے: اُردو کا مستقبل بھارت میں بہت روشن ہے۔ ہماری چار سو سے زاید یونیورسٹیز میں شعبہ اُردو قائم ہیں۔ ان یونیورسٹیز سے ہر سال سیکڑوں طلبا اُردو زبان میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرتے ہیں۔ میں نے مہاتما گاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چیئر مین کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد یونیورسٹی میں شعبۂ اُردو کا آغاز کیا۔ کبھی کبھار سنسکرت کو سرکاری زبان بنانے کی بازگشت سنائی دیتی ہے، لیکن اس معاملے کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اور سنسکرت کی اُردو کے متبادل کے طور پر جگہ کسی صورت ممکن نہیں ہے، کیوں کہ سنسکرت ایک کلاسیکی زبان ہے جو کچھ مخصوص خطوں میں بھی بہت کم بولی جاتی ہے۔

ایکسپریس: پاکستان اور بھارت کی شرح تعلیم میں ایک واضح فرق دیکھنے میں آتا ہے، آپ کے خیال میں اس کے اسباب کیا ہیں؟
وبھوتی نارائن رائے: اس کے بہت سے اسباب ہیں تقسیم کے بعد دونوں ملک ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن اب ہماری شرح تعلیم اسی فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کی شرح تعلیم مجھے بالکل درست تو نہیں معلوم، لیکن یہ بھارت سے کم ہے۔ پاکستانی حکومت ، دانش وروں اور ماہرینِ تعلیم کو اس شرح میں اضافے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر بہت سے اقدامات کرنے پڑیں گے۔ آپ کو سوچنا چاہیے کہ ایک ساتھ آزاد ہونے والے ملکوں کی شرح تعلیم میں اتنا فرق کیوں ہے۔ ہمارے یہاں نظام تعلیم بھی محدود ہیں، جب کہ پاکستان میں ایک ہی صوبے میں مختلف نظامِ تعلیم ہیں۔

ایکسپریس: بھارت کی سیاست، شوبز اور دیگر شعبوں میں انڈرورلڈ کے اثرورسوخ کو بولی وڈ کی فلموں میں اجاگر کیا جاتا ہے، اس میں کہاں تک حقیقت ہے اور ایسا ہے تو کیوں ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: بھارتی فلموں میں انڈر ورلڈ کے کردار پر بننے والی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب بھی ہر سال اس موضوع پر کئی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں، جہاں تک بات ہے ان میں پیش کیے گئے انڈرورلڈ کے کردار اور معاشرتی مسائل کی تو یہ بات حقیقت ہے کہ فلموں میں جتنا فکشن، فسانہ ہوتا ہے اتنی ہی حقیقت بھی ہوتی ہے۔ انڈر ورلڈ کی موجودگی سے کسی کو انکار نہیں لیکن ان کا اثر ورسوخ اُن علاقوں میں زیادہ ہے جہاں پیسے کی ریل پیل ہے۔ لیکن ایک عام آدمی کی زندگی انڈر ورلڈ سے اتنی متاثر نہیں ہوتی، انڈرورلڈ کا غریبوں سے کیا لینا دینا۔ وہ صرف اُن کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جہاں سے انہیں مالی فائدہ حاصل ہو۔

ایکسپریس: بھارتی پولیس میں اہم عہدے پر فائز رہنے کے باوجود آپ بھارتی پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے تعصب کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کیا یہ تعصب صرف مسلمانوں کے خلاف پایا جاتا ہے یا کوئی اور کمیونٹی بھی اس کے نشانے پر ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: محکمہ پولیس میں اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود میں یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ پولیس کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اقلیت اور کم زور افراد کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ بھارت میں دلت، شودر اور بہت سی اقلیتیں ہیں جو پولیس کے تعصب یا ناانصافی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کا شمار بڑی اقلیتوں میں ہوتا ہے، ان کی تعداد عیسائیوں اور سکھوں کی نسبت بہت زیادہ ہے لہذا وہ نسلی اور مذہبی تعصب کا بھی سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ اس تعصب کو کچھ انتہا پسند تنظیمیں بھی ہوا دیتی رہتی ہیں۔ اگر ہندو مسلمان کا تعصب ختم ہوجائے تو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن یہ کام اتنا آسان اور جلد ہونے والے نہیں ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

ایکسپریس: بھارتی پولیس پر اکثروبیشتر ماورائے عدالت قتل، جعلی پولیس مقابلوں اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عاید ہوتے رہتے ہیں، پولیس میں سیاسی مداخلت کس حد تک پائی جاتی ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: ہندوستان میں پولیس کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں کا سبب 1861میں انگریزوں کی جانب سے بنایا گیا پولیس ایکٹ ہے۔ جو انہوں (انگریزوں) نے اپنے راج کو برقرار رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ ہندوستانی سماج میں 'ورن ویوستھا' (ذات پات کا نظام) کے نام سے رائج قانون نے بھی مختلف مسائل سے نمٹنے کے لیے عوام مخالف پولیس کے قیام کو مجبوری قرار دیا۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج بھی حکومتیں پولیس کے اسی کردار کو پسند کرتی ہیں، جو کہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ بھارت میں رائج 'ورن ویوستھا'عدم مساوات کا سب سے زیادہ نفرت پر مبنی ایسا نظام ہے، جس سے ہم آج تک آزاد نہیں ہو سکے۔

انگریزوں نے مختلف ممالک میں مختلف کردار کی پولیس بنائی۔ ہندوستان میں بنایا گیا پولیس کا نظام سری لنکا، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا یا امریکا کی پولیس سے بالکل مختلف ہے۔1861 کے پولیس ایکٹ، آئی پی سی، سی آر پی سی اور انڈین ایوی ڈینس ایکٹ جیسے قانونی ستونوں کی مدد سے جس ہندوستانی پولیس کی عمارت کھڑی کی وہ حکم راں طبقے کو خوش کرنے کے لیے اپنی حد سے تجاوز کرتی رہتی ہے۔ پولیس کو کبھی بھی ایک پیشہ ور، قانون پر عمل کرنے والا عوام دوست ادارہ بنانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کی گئیں۔ بھارتی سماج کے بااثر طبقے کو بھی اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے قانون شکنی کرنے والی پولیس پسند ہے۔ اب بھی ایک پولیس افسر خود کو عوام کے خادم کے بجائے عوام کا حاکم سمجھتا ہے اور یقیناً یہ سب سیاسی سر پرستی کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس: بھارت میں جمہوری نظام کو بہت مضبوط سمجھا جاتاہے، لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندی اس کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: یقیناً انتہاپسندی جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، لیکن گذشتہ ساٹھ سال میں ہمارے ادارے، عدلیہ، ذرائع ابلاغ مضبوط ہوچکے ہیں۔ انتہاپسندی جمہوریت کے لیے خطرہ تو ہے لیکن یہ اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ انتہاپسند جمہوری نظام کو کم زور تو کریں گے، لیکن اسے ختم نہیں کر سکیں گے، اتنا کھوکھلا نہیں کریں گے کہ جمہوری نظام ڈھے جائے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں انداز حکم رانی آج بھی ایک جیسا ہے، ہماری افسرشاہی کا طرز عمل وہی ہے جو پاکستان میں ہے۔ بس ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارے یہاںسیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اور ہمارے جمہوری ادارے مستحکم ہوچکے ہیں۔

یہ ادارے ہر اُس اقدام کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں جس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اسے ہماری خوش قسمتی کہہ لیں کہ ہمیں شروع میں ہی ایک جمہوری اور سیکولر آئین مل گیا۔ اگر یہ آئین نہ ہوتا تو شاید بھارت دس سال ہی میں اندرونی تضادات کا شکار ہوکر بکھر چکا ہوتا۔ 1940 میں قرارداد لاہور کی منظور ی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے ایک بہت بڑے حلقے میں یہ سوچ اور رائے بن گئی تھی کہ جب مسلمان ہندوستان کو توڑ کر ایک مسلم ریاست بنانے پر اصرار کر رہے ہیں، تو ہم بھی ا زادی کے بعد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنائیں۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام ا زاد بھارت کو سیکولر جمہوری ریاست بنانے کا عزم کر چکے تھے۔

ہماری بقا صرف سیکولر نظام سے مشروط ہے۔ کیوں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں درجنوں عقائد، زبانیں اور طویل تاریخی پس منظر رکھنے والی ثقافتیں ہوں، وہاں ملک کو متحد رکھنے کے لیے اکثریت کے عقائد نہیں بل کہ سیکولر جمہوریت ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک حقیقی معنی میں سیکولر نہیں بن سکا ہے، جس کا اہم سبب صدیوں پر محیط مذہبی اثرات ہیں۔ راشٹریہ سماج سیوک اور شیوسینا جیسی انتہا پسند ہندو تنظیمیں اور خود نریندر مودی کی شدت پسندی بھارت کے وجود کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے ریاستی ادارے بالخصوص عدلیہ ، ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی 68 برسوں کی جمہوریت میں اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوچکے ہیں کہ وہ سیکولرازم کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا نے کے لیے مستعد ہیں۔


ایکسپریس: بھارت میں انتہاپسندی کے فروغ کی کیا وجوہات ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی ہندوازم پر یقین رکھنے والی جماعت کو وہاں عوام کی حمایت کیوں حاصل ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت میں مذہبی نعروں پر نہیں بل کہ ڈیویلپمنٹ کے نعروں پر اقتدار میں آئی ہے۔ ان کی بنیاد تو انتہا پسندی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں ترقی کی بات کی، خوش حالی کی بات کی، عوام کو باورکرایا کہ ملک میں ترقی ہم (بی جے پی) ہی لاسکتے ہیں۔ اگر یہ انتہاپسندی یا مذہب کے نام پر الیکشن لڑتے تو کبھی کام یاب نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں ووٹ ہندو توا کا نعرہ لگانے پر نہیں بل کہ نریندر مودی کی ان معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملے ہیں جو انہوں نے بہ طور وزیر اعلیٰ گجرات میں نافذ کی تھیں۔

ایکسپریس: ہندو مسلم فسادات کے پس منظر میں 1988میں شایع ہونے والے آپ کے ناول 'شہر میں کرفیو' کو انتہاپسند ہندئووں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس میں بیان کیے گئے واقعات کس حد تک حقیقت کے قریب تر تھے؟
وبھوتی نارائن رائے: اس ناول میں بیان کیے گئے زیادہ تر واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس ناول میں، میں نے وہی واقعات قلم بند کیے جو ایک پولیس افسر ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ الہ آباد میں ہونے والے ان ہندو مسلم فسادات میں، میں نے یہی دیکھا کہ انتہاپسندوں کے نزدیک مسلمان اُن کے سب سے بڑے دشمن تھے اور اسی وجہ سے اُن کے ساتھ بڑے پیمانے پر بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔

ایکسپریس: آپ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کا ذمے دار کسے سمجھتے ہیں؟
وبھوتی نارائن رائے: دیکھیں جی ہندو مسلم فسادات کی ذمے دار تو ہماری تاریخ ہے۔ ہم چھے سات سو سال ایک ساتھ رہے۔ اس عرصے میں ہمارے درمیان پیار محبت بھی رہی اور لڑائی جھگڑے بھی۔ اس دوران ہم میں انتہاپسندی بھی پروان چڑھتی رہی اور یہی سبب ہے جس کی وجہ سے بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں ہے۔

ایکسپریس: آپ اپنی نئی آنے والی کتاب کے لیے 1987میں ہاشم پورہ میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کی تحقیقات کر رہے ہیں، اس قتل عام کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟
وبھوتی نارائن رائے: ہاشم پورہ تقسیم کے بعد ہونے والی سب سے بڑی کسٹوڈیل کلنگ (زیرحراست قتل) کی واردات ہے۔ 1984 میں ہونے والے سِکھ مخالف فسادات یا آسام کا قتل عام اس سے قدرے مختلف ہیں، کیوں کہ ان میں پولیس کی موجودگی میں لوگوں کو قتل کیا گیا تھا، لیکن ہاشم پورہ میں قتل ہونے والے لوگ پولیس کی حراست میں تھے، بل کہ ان کے قاتل بھی پولیس والے ہی تھے۔ پولیس نے پہلے کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں زیرحراست افراد کو قتل نہیں کیا۔ اس واقعے نے ہندوستانی جمہوریت کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اگر وحشت و بربریت کے اس ہول ناک واقعے میں ملوث ملزمان کو سزا نہیں دی گئی تو پھر بھارت کے ایک سیکولر سماج ہونے کے سارے دعوے دھرے رہ جائیں گے۔ ہاشم پورہ قتل عام کی دوبارہ غیرجانب دارانہ تفتیش کی جائے اور اس تفتیش کی نگرانی ہائی کورٹ کرے یا پھر ہائی کورٹ اس کام کے لیے ریٹائرڈ سی ایس پی افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔ ازسرنو تفتیش کے بغیر ان اصل ملزمان تک نہیں پہنچا جاسکتا، جنہیں سی آئی ڈی نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوڑ دیا تھا۔ اس قتل عام میں فوج کے اہم کردار پر سی آئی ڈی نے کبھی تفتیش ہی نہیںکی ۔

یہ افسوس ناک واقعہ 22 مئی 1987 کو میرٹھ کے ایک محلے ہاشم پورہ میں پیش آیا، جب پروونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے اہل کار 42 مسلمانوں کو حراست میں لے کر غازی آ باد لے گئے اور نہرکنارے کھڑا کرکے انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ اس وقت میں غازی آباد میں سپرنٹنڈنٹ آ ف پولیس کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ یہ واقعہ رات تقریباً 9 بجے رونما ہوا اورمجھے ساڑھے 10 بجے اس کی اطلاع ملی۔

مکن پور گائو ں کی گنگ نہر پر اس اندھیری رات کو میں نے جو منظر دیکھا، اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ نہر کنارے اْگے سرکنڈوں کے بیچ خون سے لت پت زمین پر لاشوں کے درمیان کسی زندہ شخص کو تلاش کرنا اور ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ قدم کسی زندہ یا مردہ جسم پر نہ پڑے، یہ سب واقعات آج بھی میرے ذہن میں کسی ڈرائونی فلم کی طرح چلتے ہیں۔ بے رحمانہ قتل عام کی اس واردات میں بچ جانے والے واحد خوش نصیب بابو الدین سے ہمیں اس واقعے کا پتا چلا تھا۔ اس واقعے کے تھوڑی دیر بعد ہی مراد نگر نہر کی طرف دوسری واردات کی اطلاع ملی، جہاں پی اے سی کا ٹرک پہلے لے جایا گیا تھا اور کچھ لوگوں کو وہاں بھی گولیوں سے چھلنی کرکے نہر میں پھینک دیا گیا تھا۔

میں نے فوراً ہی اس واقعے کی ایف آ ئی آ ر درج کرنے کا حکم دیا، لیکن چند ہی گھنٹوں میں اس کیس کو مجھ سے واپس لے کر سی آئی ڈی کے حوالے کردیا گیا۔ اس معاملے میں سی آئی ڈی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر بے پرواہی برتتے ہوئے ملزمان کو بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اُن کا سارا زورقصورواروں کو بچانے پر تھا۔ میں نے کچھ سال قبل اس اندوہ ناک واقعے پر کچھ سال قبل کتاب لکھنے کا آغاز کیا۔ اس دوران متعدد افراد سے ملا اور اس قتل عام کی اپنے طور پر تفتیش بھی کی۔ اس دوران جو حقائق میرے ہاتھ لگے، وہ چونکا دینے والے ہیں۔

سی آئی ڈی نے جان بوجھ کر اس کیس میں بے پرواہی برتی، انہوں نے نہ صرف اس واقعے میں فوج کے کردار کو نظر انداز کیا، بل کہ اس قتل (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) عام میں ملوث میجر ستیش چندراکوشک کی قریبی عزیز اور آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہا پسند راہ نما شکنتلا کوشک سے بھی کبھی تفتیش نہیں کی گئی۔ یہ ساری تفصیلات میں نے اپنی اس کتاب میں تحریر کی ہیں۔ یہ کتاب رواں سال اکتوبر میں منظر عام پر آجائے گی۔ اس کے کچھ باب مختلف رسالوں اور اخبارات میں شایع ہوچکے ہیں۔

ایکسپریس: آپ نے مقبوضہ کشمیر سمیت کئی حساس علاقوں میں خدمات انجام دیں، مقبوضہ کشمیر کا حل کیا دیکھتے ہیں؟
وبھوتی نارائن رائے: دیکھیں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کا نظریہ یکسر مختلف ہے۔ اس کے حل کے لیے ہمیں مستقل بنیادوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے۔ میں آپ کو ایک بات اور بتاتا چلوں کہ بھارت میں ہونے والے تمام انتخابات میں کشمیر کا ووٹرٹرن آئوٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کشمیر کو بنیاد بنا کر اپنے تعلقات کشیدہ نہ کریں۔ آپ (پاکستان، انڈیا) کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کرتے رہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی اور تجارتی بنیادوں پر اچھے تعلقات مستحکم کرنے چاہییں۔

ایکسپریس: بہ حیثیت ادیب پاک بھارت تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ عام ہندوستانیوں کا پاکستان سے متعلق کیا رویہ ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: ادیب تو امن کا سفیر ہوتا ہے اور امن کی چاہ کرنے والے تو یہی چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں امن اور آشتی ہو۔ ویزوں کے حصول میں آسانی ہو۔ مذہب الگ ہونے کے باوجود ہماری بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ ادیب چاہے پاکستانی ہو یا بھارتی، ہندو ہو یا مسلمان سب کی دلی خواہش یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔ آپ خود دیکھیں کہ تقریباً پورے سال ہی دونوں ممالک کے ادیب، شعرا اور اہل دانش ادبی تقریبات میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ ایک عام ہندوستانی ہر پاکستان کو بڑی محبت سے دیکھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ پاکستانی اس کے ملک میں آئے ۔ آپ دیکھیں جب بھی کوئی پاکستانی بھارت آتا ہے تو اس کا کیسے سواگت ہوتا ہے۔ اسے کتنی عزت دی جاتی ہے۔

ایکسپریس: حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری خطے کے بہترین مفاد کے لیے ناگزیر ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سیاست دانوں کو بیان دیتے وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسے بیانات نہ دیے جائیں جن سے عوام کی دل آزاری ہو، عوام کو ایک دوسرے سے ملنے دیا جائے ویزے کے قوانین میں نرمی کی جائے۔ ہم تقسیم کے بعد سے لڑتے چلے آرہے ہیں، آخر ہم کب تک لڑتے رہیں گے۔ ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ نفرتوں کے بجائے محبت کو فروغ دیں، ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دیں، ایک دوسرے کی ثقافت کو اُجاگر کریں۔

ایکسپریس: بھارت میں اس وقت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کیا کہیں گے؟
وبھوتی نارائن رائے: بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یقیناً ہیں، لیکن اس کے سدباب کے لیے بہت سے ادارے قائم ہوچکے ہیں۔ جو ایک ساتھ مل کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سد باب کے لیے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس: پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت کو اتنے تحفظات کیوں ہیں اور ایک عام بھارتی اس بارے میں کیا سوچتا ہے؟
وبھوتی نارائن رائے: پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں تشویش یقیناً حکومتی سطح پر تو ہوگی، لیکن ایک عام بھارتی شہری، ادیب کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ ہم صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں تو ہماری دعا تو صرف یہی ہے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گام زن ہو۔

ایکسپریس: پسندیدہ ادیب، شاعر؟
وبھوتی نارائن رائے: ہندی زبان کے پسندیدہ ادیبوں اور شعرا کی فہرست تو بہت طویل ہے۔ اگر ہم اُردو زبان کی بات کریں تو فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو بڑی دل چسپی اور شوق کے ساتھ سنا اور پڑھا ہے، اسی طرح حفیظ جالندھری ہیں، فکشن میں سعادت حسن منٹو بہت بڑا نام ہے، عصمت چغتائی بہت بڑی رائٹر ہیں۔
Load Next Story