جسم اور روح تو بدلنے والے نہیں

ہمارے یہاں لوگ اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ بھارت کی نصف آبادی کے پاس ٹوائیلٹ موجود نہیں ہے

muhammad.anis@expressnews.tv

ان کی باتوں کو میں کیسے سچ مان لوں جو ملک کے اندر شلوار قمیض پہن کر ہماری زمین کو کھوکھلا کرتے ہیں اور باہر سوٹ ٹائی پہن کر بڑے بڑے دعوی کرتے ہیں۔ یہ لوگ باہر کی دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ترقی کے لیے تعلیم سب سے زیادہ ضروری ہے اور یہاں بیٹھ کر یہ ان اسکولوں میں اپنی اوطاق بناتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ میں ان کی کون سی بات پر یقین کروں، اس پر جو یہ باہر جا کر مہنگے سوٹ پہن کردیتے ہیں یا اس حساب کتاب پر جو انھوں نے بجٹ میں پیش کیے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں سب سے پہلے تعلیم نہیں ہے بلکہ اس کی تباہی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا ایسا ہی جیسے اونٹ کے سامنے گوشت رکھ دیا جائے۔

حکمران یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کی بری حالت سیلاب، زلزلے، دہشت گردی اور لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے 9 ہزار سے زائد اسکول تباہ ہوئے، 5 ہزار سے زائد اسکولوں کو نقل مکانی کرنے والوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ سیلاب کو آئے ہوئے 8 سال گزر چکے اور زلزلے کو 10 سال ہوچکے۔ آپ بتادیجیے کہ اس پورے عرصے میں کون سا کام کیا گیا۔ پنجاب میں کتنے اسکول ایسے ہیں جہاں تمام کی تمام سہولت موجود ہے۔ اگر آپ کے لیے یہ سوال انتہائی مشکل ہے تو یہ بتا دیجیے کہ پنجاب کے کتنے اسکول کے اندر اس وقت بجلی کی سہولت موجود ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کے آدھے سے زیادہ سرکاری اسکولوں میں بجلی نہیں ہے اور اتنے ہی اسکولوں میں ٹوائیلٹ نہیں ہے۔

ہمارے یہاں لوگ اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ بھارت کی نصف آبادی کے پاس ٹوائیلٹ موجود نہیں ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کہ سندھ کے آدھے سے زائد سرکاری اسکولوں میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ایک عرصے سے سندھ میں طاقت ور سمجھا جانے والا شخص کہہ رہا ہے جو اس وقت صوبائی سیکریٹری تعلیم ہے۔ وہ اس بات کا کھلے عام پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ سندھ میں 20 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں ٹوائیلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے والدین خاص طور پر اپنے بچوں کا داخلہ وہاں نہیں کراتے۔ فضل اللہ پیچوہو صاحب فرماتے ہیں کہ خاص طور پر لڑکیوں کے والدین اسی لیے اپنی بڑی بچیوں کو اسکول نہیں بھیجتے کہ وہاں پر یہ سہولت موجود نہیں ہے اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ کیا ہمیں بھی اب اس ملک میں ٹوائیلٹ کے لیے کوئی مہم چلانی پڑے گی۔ ہمیں تشویش تو بالکل بھی نہیں ہو گی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری اولین ترجیح تعلیم ہے اور ہم تعلیم کے ذریعے ترقی کریں گے۔

کون سی ترقی جو ہمیشہ وعدوں میں قید رہے گی۔ یہ پہلے ترقی کریں گے یا پہلے تعلیم دیں گے؟ یہ پہلے ٹوائیلٹ بنائیں گے یا پہلے بچیوں کو اعلی تعلیم دیں گے؟ پہلے کیا ہوگا اور پہلے کیا ہونا چاہیے یہ ہی تو غلطی ہے۔ پہلے کیا ہونا چاہیے کی بھول میں ہی ہم اپنی نئی نسل کو سمجھ نہیں پا رہے۔ انڈیا میں خوشبو کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا اور اُس کی جان چلی گئی۔ ہمارے یہاں کتنی خوشبو اسی لیے تعلیم سے محروم ہورہی ہیں۔ کیا ہم اپنی خوشبو کے لیے کچھ کرسکیں گے۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ خوشبوکون تھی تو سنیں۔


یہ اس خطے کی اُن بدنصیب خوشبو میں شامل ہے جن کو ہوا میں شامل ہونے سے پہلے ہی برباد کر دیا گیا۔ معاشرے کی گندی بُو نے انھیں قتل کردیا۔ خوشبو17کی ہو چکی تھی اور اب 12 جماعت کی طالب علم تھی۔ اُسے اپنے ماں باپ اور حکومت سے کچھ بڑا نہیں چاہیے تھا کہ اسے اپنی جان دینی پڑتی۔ خوشبو بھارت کی مشرقی ریاست جھاڑکنڈ کے ایک گاؤں میں رہتی تھی، جب سے اس نے نوجوانی میں قدم رکھا تھا اسے اس بات میں شرم محسوس ہوتی تھی کہ اسے ٹوائیلٹ کی سہولت گھر میں نہیں ملتی تھی۔ اسے یہ بہت برا لگتا تھا کہ وہ دن یا رات کے کسی پہر میں کھیتوں یا جنگل کا رخ کرے۔ اس کا اپنے غریب ماں باپ سے یہ ہی جھگڑا رہتا تھا کہ تھوڑے پیسے جمع کرکے یہ سہولت گھر میں بنالی جائے۔

جس طرح ہمارے یہاں کے سیکریٹری تعلیم فرما رہے تھے کہ ہمارے آدھے سے زائد سرکاری اسکولوں میں ٹوائیلٹ نہیں ہے اسی طرح بھارت کی نصف آبادی کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ خوشبو جس گاؤں میں رہتی تھی، وہاں پچاس کے قریب گھر آباد ہیں۔ ایسا نہیں کہ جس طرح ہمارے یہاں کرپشن کا بازار گرم ہے وہ انڈیا میں نہیں۔ سرحد کے دونوں پار ایک جیسا ہی دکھ ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس ریاست میں ٹوائیلٹ بنانے کی سرکاری اسکیم میں 2 ارب 53کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی تھی۔ اور یہ بات پڑھی لکھی خوشبو بھی جانتی تھی کہ حکومت اتنی کرپٹ ہے کہ وہ ہمیں یہ سہولت نہیں دے سکے گی، اسی لیے اپنے غریب ماں باپ سے یہ درخواست کرتی رہی کہ براہ مہربانی مجھے یہ سہولت گھر میں دے دیں۔ لیکن مجبور ماں باپ اس سے ہمیشہ یہ ہی کہتے کہ ہم نے ساری زندگی جو کچھ جمع کیا ہے وہ تمھاری شادی کا جہیز ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ایک بار تمھاری شادی ہوگئی تو اس کے بعد ہم جو رقم جمع کریں گے اس سے ٹوائیلٹ بنا دیں گے۔ لیکن خوشبو کا کہنا یہ تھا کہ نہیں پہلے مجھے ٹوائیلٹ بنادیں۔ یہ معاملہ روز ایک جھگڑے کا سبب بنتا۔ ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ اب تھوڑے دنوں کی بات ہے اس کی شادی ہوجائے گی تو سب معمول پر آجائے گا لیکن خوشبو دلبرداشتہ ہوگئی اور پھر چند دن پہلے اس نے اپنے گلے میں دوپٹہ لگا کر خودکشی کرلی۔

ایسے میں یہ انڈیا اور پاکستان ترقی کریں گے۔ جہاں پر ایک معصوم لڑکی اس لیے خودکشی کرلیتی ہے کہ اس کے گھر میں ٹوائیلٹ کی سہولت نہیں ہے۔ یہ ہے مودی کا بھارت؟ اور دوسری طرف ہمارا ایک اہم سرکاری اور طاقت ور شخص یہ فرماتا ہے کہ یہاں پر لڑکیوں کے اسکول میں ٹوائیلٹ کی سہولت نہیں ہے تو لوگ اپنی بچیوں کے داخلے نہیں کراتے، اور اسی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کم ہے۔ اب آپ بتائیں اس صورتحال میں ہم وزیراعظم صاحب کی اوسلو میں کی جانے والی تقریر کو سچ مانیں یا پھر یہاں بیٹھے ہوئے سیکریٹری کو ٹھیک کہیں۔ ہمارا کون سا چہرہ سچا ہے وہ جو ہم دنیا کو بتا رہے ہیں یا پھر وہ جو ہم حقیقت میں ہیں۔ جہاں ہماری اولین ترجیحات میں تعلیم اور صحت دور دور تک نہیں ہے۔ اس خطے میں سب سے کم تعلیم کی شرح ہمارے یہاں ہے۔

ملالہ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ زیادہ نہیں بس 8 دن پوری دنیا اسلحہ پر جو رقم خرچ کرتی ہے اُسے تعلیم کے لیے وقف کردیا جائے تو پوری دنیا میں یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ لیکن باتیں کرنا آسان ہے۔ دیکھیں نہ ہمارے یہاں اربوں روپے کی بس چلے گی تو لوگ تعلیم کے لیے اسکول پہنچ سکیں گے۔ سوچیں، جب تک ہمارے یہاں سڑک نہیں ہوگی تب تک بچوں کو کتنی مشکل ہوگی اور پھر ابھی تو بہت کام باقی ہے، 10 سال پہلے آئے زلزلے کا رونا ابھی ختم نہیں ہوا، تو باقی باتیں تو بعد کی بات ہے۔ ترقی کے لیے تعلیم پر بعد میں بات کریں گے پہلے یہ بتائیں کہ اگلی پیشی پر ایان علی کا سوٹ کیسا ہوگا، کیونکہ عورتوں کو عید کے لیے سوٹ بھی بنانے ہیں۔ یہاں بس سوٹ بدلیں گے جسم اور روح تو بدلنے والی نہیں۔
Load Next Story