کینیڈا سے ایک خط

Nova Scotia قدرتی حسن و خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، یہاں قدرت آپ پر حاوی ہے

shahida@sqaiser.com

کینیڈا کے صوبہ نوواسکوشیا کے شہر ہیلی فیکس کی مرکزی پبلک لائبریری سے راقم الحروف کو سڑک پر چلتے پھرتے تمام قومیتوں کے باشندے نظر آرہے ہیں، جن میں چینی، فلپائنی، تھائی، انڈینز، انڈونیشینز، فرنچ، کینیڈین اور انگلش کینیڈین نمایاں ہیں، بھارتی کئی جگہوں پر اور پاکستانی کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں، یہ تمام اب کینیڈا کے باشندے ہیں اور ان سب نے دل کھول کر کینیڈا کے قومی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریبات میں حصہ لیا۔ ان میں بیشتر طالب علم ہیں۔ مجھے پاکستان کی ایک نمایاں بزنس یونیورسٹی کے طالب علم جو اپنے ڈگری پروگرام کے امتحانات سے فارغ ہوئے تھے ان کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا تھا، زیادہ تر باہر جانے کے مواقع اور بین الاقوامی یونیورسٹیز میں داخلے کے طریقہ کار کے بارے میں باہمی بحث و مباحثے میں مصروف تھے، اگرچہ سبھی بیرون ملک تعلیمی اخراجات کے بارے میں کسی حد تک آگاہ تھے مگر خواہشات پر کیا پابندی۔ کینیڈا دنیا کا وہ انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے جس نے ایک پالیسی کے تحت نئے آنے والوں اور قابل اور ذہین بشرطیکہ وہ سب محنتی بھی ہوں، کے لیے تعلیم کے دروازے کھلے رکھے ہیں، سالانہ تقریباً 250,000 افراد امیگریشن سے مستفید ہوتے ہیں جن میں پیشہ ور افراد، طالب علم یا یہاں بسنے والوں کے اہل خانہ شامل ہیں۔

یہاں کی نمایاں یونیورسٹیز میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو، برٹش کولمبیا، البرٹا، میک گل، یارک اور ڈل ہوزی شامل ہیں، جن میں داخلے کے طریقہ کار ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، ایک ڈگری پروگرام پر اخراجات کا تخمینہ 40 سے 70 لاکھ تک لگایا جاسکتا ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ یہاں کے سسٹم میں داخل ہوجاتے ہیں اور کوئی ملازمت حاصل کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔ مگر باہر کی ڈگری کے بل بوتے پر جاب حاصل کرنا کار دشوار ہے۔

کینیڈا ایک بین الاقوامی ملک ہے، اپنے ایک ماہ کے قیام کے دوران میں نے ملٹی کلچرل فیسٹیول میں ایک رضاکار کے طور پر کام کیا اور مختلف قومیتوں کا مشاہدہ کیا جو ایک دلچسپ تجربہ رہا۔ یہاں کے باشندوں کو آپ نئے آنے والوں، پرانے امیگرنٹس اور بہت پرانے امیگرنٹس میں درجہ بندی کرسکتے ہیں۔ ایک انتہائی ترقی یافتہ، قدرتی حسن و جمال اور زندگی بسر کرنے کی بہترین سہولیات سے آراستہ ملک ہے۔ اگر اس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 10,000 سال پہلے تک کینیڈا تمام تر برف تھا، جہاں برف نہ تھی وہاں جنگلات تھے، کبھی برف حاوی آجاتی کبھی جنگلات۔ یہاں تک کہ برف نے اتنا پانی جمع کرلیا کہ سمندری سطح نیچے ہوگئی اور انسانی آبادی کے لیے جگہ دستیاب ہوگئی۔ پہلے پہل آبادکاروں نے زمینی پلوں کے ذریعے الاسکا عبور کیا اور ساحلوں پر آباد ہوگئے۔ یہاں لوگوں کو جانوروں کے فر، چارہ، مچھلی اور لکڑی نے اپنی جانب راغب کیا۔ مختلف قومیتوں کے لوگ مختلف سمتوں سے آئے۔ پرتگالیوں نے Labrador نام دیا۔ سب سے زیادہ اور نمایاں تعداد میں فرانسیسی اور انگریز آئے جنھوں نے مشرقی اور وسطی علاقوں میں اپنی کالونیز آباد کیں اور اپنا تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے آپس میں بہت جنگیں لڑیں۔

روسی الاسکا کی طرف سے آئے اور سینیشن میکسیکو کی طرف سے، امریکیوں نے سیدھا سادا بارڈر کراس کیا اور گھاس کے میدانوں میں آباد ہوئے۔ وہ تمام لوگ جو فرسٹ نیشن کہلاتے ہیں انھوں نے طاقت، بہادری اور وفاداری کا سرچشمہ اپنے اپنے ممالک کے بادشاہ کو قرار دیا اور اپنی ثقافت کو فروغ دیا، اسی وجہ سے یہاں انگریزی اور فرانسیسی ثقافتیں نمایاں ہیں اور ان کے زیر اثر علاقوں میں سیاسی، سماجی ہر طرح کا ان کا رنگ جھلکتا ہے۔ انگریزوں نے تقریباً ہر ایک کو خوش آمدید کہا جب کہ فرانسیسیوں نے اپنے علاقے خصوصاً کیوبیک صوبہ میں اپنی قوم اور کیتھولک کو آباد ہونے میں مدد کی۔

اس کے علاوہ اسماعیلی بھی عیدی امین سے بچ کر آئے اور ایرانی شاہ ایران سے۔کینیڈین مورخ پال سؤتے کے مطابق اس ملک کو ''کینیڈا'' نام فرانسیسی آبادکاروں نے 16 ویں صدی میں دیا جس کا مطلب ''گاؤں'' ہے، فرانسیسیوں کے لیے فتوحات حاصل کرنے والوں میں نمایاں نام مسٹر جیکولیس کارٹیر کا ہے جس نے 1534 سے 1541 کے درمیان لاتعداد سفر کیے اور اس علاقے کی آیندہ تاریخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، وہ براڈور نیو فاؤنڈلینڈ ہوتے ہوئے کیوبیک پہنچے اور دوسری طرف سینٹ لارنس اور مونٹریال تک پیش قدمی کی۔ یہاں کے قدیمی باشندے بھی کچھ عرصہ مزاحمت کے بعد ان کا ساتھ دینے لگے۔ ایک اور مورخ ایچ وی نیلز نے ایک کتاب ''لٹل ہسٹری آف کینیڈا'' میں تمام واقعات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے، اگر ہم کہیں کہ 1740 تک کینیڈا فرانسیسی تھا تو اگلی صدی میں یہ انگریزوں کے زیر اثر چلا گیا اور انگلش کینیڈا کہلایا۔ بالآخر 1867 میں ایک کنفیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جس نے ایک باقاعدہ ملک کی بنیاد رکھی۔


یہ امر دلچسپ ہے کہ جب کینیڈا ملک کے طور پر وجود میں آیا تو اس کی آبادی میں فرنچ کینیڈینز کی تعداد ایک ملین تھی، آئرش باشندے 8 لاکھ، انگریز 7 لاکھ، اسکاٹ 5 لاکھ اور جرمن 2 لاکھ تھے، یہ فرسٹ نیشن کہلاتے ہیں اور یہ ملک اونٹوریو، کیوبیک ، نیوبرونسوک اور نوواسکوشیا پر مشتمل تھا۔

رقبے کے لحاظ سے کینیڈا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو مشرقی طرف بحر اوقیانوس اور مغربی طرف بحرالکاہل تک پھیلا ہوا ہے، اس کا رقبہ 9,984671 کلومیٹر ہے جو امریکا اور چین سے بھی بڑا ہے۔ اس کی آبادی فقط 35 ملین ہے، دنیا کی سب سے بڑی ساحلی پٹی 202,080 کلومیٹر کا مالک ہے۔ اس کے 10 صوبے ہیں جن میں اونٹوریو، کیوبیک، برٹش کولمبیا، Alberta اور نوواسکوشیا نمایاں ہیں۔انگریزی اور فرانسیسی سرکاری زبانیں ہیں لیکن نمایاں زبانوں میں پنجابی بھی شامل ہے کیونکہ سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ سب سے بڑی قدرتی خوبی 161 Million ہیکڑ پر مشتمل جنگلات ہیں جو دنیا کے مستند جنگلات کا 43 فیصد ہیں، جب کہ امریکا میں 41 ملین ہیکڑ پر ہے جوکہ 11فیصد ہے، یہ بات ہمارے لیے سبق آموز ہے کہ گزشتہ 2 صدیوں سے کینیڈا کے جنگلات کے رقبے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

ملٹی کلچرل فیسٹیول میں میری ملاقات نوواسکوشیا کے امیگریشن کی وزیر لینا ڈائب Lena Diab سے ہوئی جو انتہائی خوش خلقی سے ملیں، بعد میں انھوں نے فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ ہم اگلے سال ایک لاکھ مزید امیگریشن لینا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس بات سے چینی بہت خوش ہوئے ہوں گے کیونکہ ان کی کثیر تعداد یہاں آباد ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے یہ ایک بہترین جگہ ہے بشرطیکہ آپ شدید سردی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں کیونکہ سردیوں میں اس صوبے کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک جا پہنچتا ہے اور ہر شے برف سے ڈھک جاتی ہے۔ اگرچہ گھروں کو گرم رکھنے کا مستقل بہترین انتظام ہے لیکن بہرحال آپ کو باہر نقل و حرکت کی ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ پڑھنے کے لیے ہو یا روزی کمانے کے لیے۔

Nova Scotia قدرتی حسن و خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، یہاں قدرت آپ پر حاوی ہے، حسین جھیلیں، ساحلی پٹیاں، بل کھاتی بہترین سڑکیں اور ہائی ویز۔ لوگ انتہائی زیادہ قاعدے قوانین پر عمل کرنے والے ہیں۔ پاس سے گزرتے ہوئے کچھ نہ کچھ گفتگو کرتے جائیں گے یا ہاتھ ہی ہلا دیں گے۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے شہری گہما گہمی، تیز رفتار زندگی کے ساتھ رہنا ہے تو ٹورنٹو میں رہیں اور اگر قدرتی خوبصورتی کے دلدادہ اور سکون کے خواہش مند ہیں تو نوواسکوشیا۔ میں نے یہاں کے اسٹور دیکھے ہیں اور درآمد شدہ اشیا کا جائزہ لیا اور ان کی قیمتیں دیکھیں۔ اگلے کالم میں انشا اللہ اس کا ذکر ہوگا۔

یہاں کی حسن و خوبصورتی روزمرہ کی سہولیات اور کشش اپنی جگہ مگر مجھے اب اپنا کراچی یاد آرہا ہے۔ بس!

(یہ مضمون لکھنے کے لیے جن نمایاں تصانیف کا مطالعہ کیا ان میں مارگریٹ کونراڈ کی ''ہسٹری آف کینیڈا''، پیٹر نیومین کی Island of Canada، پال اسٹیون کی ''کینیڈا'' اور ایچ وی نیلز کی ''لٹل ہسٹری آف کینیڈا'' شامل ہیں)
Load Next Story