ڈرون حملہ مگر کون سے وزیرستان پر
مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان چھوٹا سا ٹاکرا ہو گیا اور ہمیں اس سارے قصے میں یہی ٹاکرا بہت زیادہ پسند آیا
عمران خان کے معاملات ہم سے اکثر دور اس لیے رہ جاتے ہیں کہ وہ جب بھی کچھ کرتے ہیں بڑا ہی کرتے ہیں، چھوٹا موٹا کام کرنا تو جیسے انھیں آتا ہی نہیں۔
کرکٹ کھیلے تو بھی بڑا کھیلے، اسپتال بنوایا تو بھی بڑا بنوایا حتیٰ کہ شادی کے لیے بھی اپنی عمر کو خوب بڑا کرکے بہت بڑی شادی کی اور اب جو سیاست میں آئے ہیں تو توپ ہی کو بغل میں پستول کی طرح دبا رکھا ہے اور گاہے بگاہے نکال نکال کر داغتے رہتے ہیں، چاہے شکار چڑیا ہی کو کرنا کیوں نہ ہو۔ خوشحال خان خٹک نے بھی کہا تھا کہ میں ''باز'' ہوں اور بڑے شکار پر میری نظر رہتی ہے، اقبال نے تو خوشحال سے بھی دو قدم آگے ہو کر کہا ،
در دشتِ جنونِ من جبرئیل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
(یعنی جبریل تو میرے جنون کے صحرا کا ادنیٰ سا قیدی ہے۔ اگر ہمت مردانہ ہے تو یزداں پر کمند ڈالو)
اور ہم ٹھہرے ایک نہایت ''طوطی مثال'' آواز والے، اس لیے ان کے نقار خانے جیسے معاملات سے ذرا دور ہی رہتے ہیں لیکن ''کھجلی'' بھی تو آخر کوئی چیز ہے جو ہمیں دائمی نزلے کی طرح لاحق ہے چنانچہ پشاور میں ''سونامی'' لانے پر بھی ہم نے اپنی باریک آواز میں صرف اتنا کہا کہ آخر دنیا بھر کے طوفانوں، سونامیوں اور ال نینوں نے اس پتلی سی زمینی پٹی میں کیا دیکھا ہے کہ سب نے اسے ''خانہ انوری'' بنا رکھا ہے۔ کسی بھی آسمان سے کوئی بھی بلا یا پتھر آتا ہے تو اس بدبخت پشتون عرف انوری کا پتہ پوچھتا ہوا نظر آتا ہے،
بدبختیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو یہ ''پشتون'' بنا دیا
خیر چھوڑیئے، اب کے عمران خان نے دوسرے سرے پر ڈرون حملہ کیا ہے، اس پر ہم کچھ اور تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ سب کچھ اپنے منارہ قد صحافی، مداری صفت اینکرز وغیرہ کہہ چکے ہوں گے، ہم تو اپنی ہی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں کریں گے، ویسے عمران خان کے وزیرستان پر اس ڈرون حملے میں اور کچھ ہوا ہو نہ ہوا ہو لیکن اتنا تو ضرور ہوا کہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان چھوٹا سا ٹاکرا ہو گیا اور ہمیں اس سارے قصے میں یہی ٹاکرا بہت زیادہ پسند آیا۔ عمران خان نے مولانا پر الزام لگایا کہ وہ زداری کے دست راست ہیں اور صرف اپنی کمائی پر نظر رکھتے ہیں، جب کہ مولانا نے عمران خان کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ قرار دیا، اب ہماری اتنی حیثیت تو ہے نہیں کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کی بات کو بھی جھٹلا دیں، اس لیے یہی کہہ سکتے ہیں کہ دونوں بڑے لوگ ہیں، معتبر ہیں، اعتباری ہیں، اس لیے دونوں ہی ٹھیک کہتے ہوں گے بلکہ ہم تو دونوں کے فرمودات کے بارے میں یہی کہیں گے کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ایسے مواقع پر اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اتنی بڑی باتیں اپنے چھوٹے منہ سے کہہ سکتے ہیں، چاہے سو فیصد سچ ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔ ویسے بھی بزرگوں نے کہا ہے کہ ''ولی'' ۔۔۔ را ''ولی'' می شناسد، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ساری سیاسی بوریت میں اس طرح کی چھیڑ چھاڑ ہی اچھی لگتی ہے کیوں کہ ویسے تو ان لوگوں سے کچھ اور نہ حاصل ہوا ہے نہ ہو گا تھوڑی سی چھیڑ ہی سہی
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
کم از کم معلومات میں تو اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہو از ہو، وہاٹ از وہاٹ، وائی از وائی، ویسے عمران خان کے وزیرستان پر اس ڈرون حملے کے کئی کئی پہلوؤں پر لوگ بولے اور خوب بولے لیکن ہمیں تو کچھ اور شبہ ہو رہا ہے جس روز شور سے یہ ڈرون حملہ چلا تھا اس سے تو یہی لگتا تھا کہ چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے ہمالیہ پہاڑ جا کر بحرالکاہل میں بیٹھ جائے یا زمین اٹھ کر سورج یا چاند سے گلے ملے مگر وزیرستان پر یہ ڈرون حملہ ہو کر رہے گا جس کا زبردست آفٹر شاک پورے پاکستان کی پوری سیاست کو ہلا کر رکھ دیگا لیکن ہوا وہی جو غالب نے کہا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
جو رکاوٹیں پیش آئیں، وہ نہ خلاف توقع تھیں اور نہ خلاف معمول لیکن اس کے باوجود بھی ڈرون چلا، اور نہایت ہی رسمی اور حسب معمول انداز میں انجام کو پہنچا، یوں کہیے کہ
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبر د تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
اس سے ہمیں خیال آتا ہے کہ کہیں عمران خان کو بہت دیر بعد اپنی غلطی کا احساس تو نہیں ہو گیا کہ مجھے اصل حملہ تو اصل ''وزیرستان'' پر کرنا تھا، یہ تو وہ وزیرستان نہیں بلکہ نام کا وزیرستان ہے جہاں بے قلمدان کے وزیر رہتے ہیں کیوں کہ ان کا اصل ہدف تو بہرحال وہی وزیرستان ہے جہاں اصلی وزیر رہتے ہیں یا یوں کہیے کہ بلحاظ نسل نہیں بلکہ بلحاظ عہدہ وزیر رہتے ہیں، شاید ان کو احساس ہو گیا ہو کہ میرا اصل ہدف تو وہاں اسلام آباد میں رہ گیا ہے اور میں یہاں خواہ مخواہ پہاڑوں میں صرف نام کے وزیروں سے الجھ رہا ہوں، کیوں کہ وہ بہرحال ایک لیڈر ہیں اور پاکستان کی سیاست اور لیڈر شپ کو بدلنا چاہتے ہیں، نوے روز میں وہ سارا گند صاف کرنا چاہتے ہیں
جو ''بلخاظ عہدہ'' وزیروں نے اس ملک میں پھیلایا ہوا ہے، وہ نہ کمانڈو ہیں نہ کمانڈر، نہ پائلٹ ہیں نہ جنگ جو، لڑاکو ہیں نہ یودھا ،صرف ایک سیاست دان ہیں اور سیاست کا اصل میدان تو اصل ''وزیرستان'' عرف پاکستان بمقام اسلام آباد ہے اگر وہ سارے وزیرستان (نام کی حد) کو الٹ پلٹ کر بھی رکھ دیتے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں تھا کیوں کہ تاروں کے اصل سرے اور تماشے کے ماسٹر تودور بیٹھے ہوئے ہیں، غالباً یہی احساس ہوتے ہی انھوں نے اپنے ڈرون کی لگام ڈھیلی کر دی اور اس کا رخ موڑ کر اصل وزیروں کے وزیرستان کی طرف کر دیا، ڈاچی والیا موڑ مہار وے، اور ہمارے اس خیال کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ جغرافیائی وزیرستان کچھ بھی کرے ،کچھ بھی کہلائے لیکن اصل وزیرستان وہی ہے جس کا نام پاکستان ہے کیوں کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے اس وقت پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ وزیر پائے جاتے ہیں۔
ملاحظہ فرمایئے چین ایک ارب 35 کروڑ کی آبادی رکھنے والا ہے وہاں صرف 14 وزیر پائے جاتے ہیں، انڈیا ایک ارب 27 کروڑ کی آبادی پر صرف 32 وزیر رکھتاہے۔ امریکا کی آبادی 32کروڑ ہے اور وزیر 14 ہیں، یوکے میں 13کروڑ آبادی ہے اور 12 وزیر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا پاکستان عرف وزیرستان 18 کروڑ لوگوں کے لیے 96 وزیر رکھے ہوئے ہیں ان وزیروں کے سال کا خرچہ سولہ کروڑ فی نگ ہے، 96 سے ضرب دیجیے تو پندرہ ارب 36 کروڑ روپے بنتے ہیں لیکن ٹھہریئے ہر وزیر کو سالانہ چھ ہزار یونٹ بجلی مفت ہے اور موبائل کا فری خرچہ ایک لاکھ ماہانہ فری ہے، صوابدیدی فنڈ اغرہ و اقربا کے معاملے سب ملائے جائیں، ان کے ہوائی سفر وغیرہ کو دھیان میں رکھا جائے اور ساتھ ہی صوبوں کے وزیر مشیر بھی جمع کیے جائیں اور بے شمار اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے لوگ بھی محسوب کیے جائیں تو پاکستان سے بڑا اصلی تے وڈا وزیرستان اور کون سا ہو سکتا ہے ؟
کرکٹ کھیلے تو بھی بڑا کھیلے، اسپتال بنوایا تو بھی بڑا بنوایا حتیٰ کہ شادی کے لیے بھی اپنی عمر کو خوب بڑا کرکے بہت بڑی شادی کی اور اب جو سیاست میں آئے ہیں تو توپ ہی کو بغل میں پستول کی طرح دبا رکھا ہے اور گاہے بگاہے نکال نکال کر داغتے رہتے ہیں، چاہے شکار چڑیا ہی کو کرنا کیوں نہ ہو۔ خوشحال خان خٹک نے بھی کہا تھا کہ میں ''باز'' ہوں اور بڑے شکار پر میری نظر رہتی ہے، اقبال نے تو خوشحال سے بھی دو قدم آگے ہو کر کہا ،
در دشتِ جنونِ من جبرئیل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
(یعنی جبریل تو میرے جنون کے صحرا کا ادنیٰ سا قیدی ہے۔ اگر ہمت مردانہ ہے تو یزداں پر کمند ڈالو)
اور ہم ٹھہرے ایک نہایت ''طوطی مثال'' آواز والے، اس لیے ان کے نقار خانے جیسے معاملات سے ذرا دور ہی رہتے ہیں لیکن ''کھجلی'' بھی تو آخر کوئی چیز ہے جو ہمیں دائمی نزلے کی طرح لاحق ہے چنانچہ پشاور میں ''سونامی'' لانے پر بھی ہم نے اپنی باریک آواز میں صرف اتنا کہا کہ آخر دنیا بھر کے طوفانوں، سونامیوں اور ال نینوں نے اس پتلی سی زمینی پٹی میں کیا دیکھا ہے کہ سب نے اسے ''خانہ انوری'' بنا رکھا ہے۔ کسی بھی آسمان سے کوئی بھی بلا یا پتھر آتا ہے تو اس بدبخت پشتون عرف انوری کا پتہ پوچھتا ہوا نظر آتا ہے،
بدبختیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو یہ ''پشتون'' بنا دیا
خیر چھوڑیئے، اب کے عمران خان نے دوسرے سرے پر ڈرون حملہ کیا ہے، اس پر ہم کچھ اور تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ سب کچھ اپنے منارہ قد صحافی، مداری صفت اینکرز وغیرہ کہہ چکے ہوں گے، ہم تو اپنی ہی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں کریں گے، ویسے عمران خان کے وزیرستان پر اس ڈرون حملے میں اور کچھ ہوا ہو نہ ہوا ہو لیکن اتنا تو ضرور ہوا کہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان چھوٹا سا ٹاکرا ہو گیا اور ہمیں اس سارے قصے میں یہی ٹاکرا بہت زیادہ پسند آیا۔ عمران خان نے مولانا پر الزام لگایا کہ وہ زداری کے دست راست ہیں اور صرف اپنی کمائی پر نظر رکھتے ہیں، جب کہ مولانا نے عمران خان کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ قرار دیا، اب ہماری اتنی حیثیت تو ہے نہیں کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کی بات کو بھی جھٹلا دیں، اس لیے یہی کہہ سکتے ہیں کہ دونوں بڑے لوگ ہیں، معتبر ہیں، اعتباری ہیں، اس لیے دونوں ہی ٹھیک کہتے ہوں گے بلکہ ہم تو دونوں کے فرمودات کے بارے میں یہی کہیں گے کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ایسے مواقع پر اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اتنی بڑی باتیں اپنے چھوٹے منہ سے کہہ سکتے ہیں، چاہے سو فیصد سچ ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔ ویسے بھی بزرگوں نے کہا ہے کہ ''ولی'' ۔۔۔ را ''ولی'' می شناسد، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ساری سیاسی بوریت میں اس طرح کی چھیڑ چھاڑ ہی اچھی لگتی ہے کیوں کہ ویسے تو ان لوگوں سے کچھ اور نہ حاصل ہوا ہے نہ ہو گا تھوڑی سی چھیڑ ہی سہی
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
کم از کم معلومات میں تو اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہو از ہو، وہاٹ از وہاٹ، وائی از وائی، ویسے عمران خان کے وزیرستان پر اس ڈرون حملے کے کئی کئی پہلوؤں پر لوگ بولے اور خوب بولے لیکن ہمیں تو کچھ اور شبہ ہو رہا ہے جس روز شور سے یہ ڈرون حملہ چلا تھا اس سے تو یہی لگتا تھا کہ چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے ہمالیہ پہاڑ جا کر بحرالکاہل میں بیٹھ جائے یا زمین اٹھ کر سورج یا چاند سے گلے ملے مگر وزیرستان پر یہ ڈرون حملہ ہو کر رہے گا جس کا زبردست آفٹر شاک پورے پاکستان کی پوری سیاست کو ہلا کر رکھ دیگا لیکن ہوا وہی جو غالب نے کہا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
جو رکاوٹیں پیش آئیں، وہ نہ خلاف توقع تھیں اور نہ خلاف معمول لیکن اس کے باوجود بھی ڈرون چلا، اور نہایت ہی رسمی اور حسب معمول انداز میں انجام کو پہنچا، یوں کہیے کہ
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبر د تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
اس سے ہمیں خیال آتا ہے کہ کہیں عمران خان کو بہت دیر بعد اپنی غلطی کا احساس تو نہیں ہو گیا کہ مجھے اصل حملہ تو اصل ''وزیرستان'' پر کرنا تھا، یہ تو وہ وزیرستان نہیں بلکہ نام کا وزیرستان ہے جہاں بے قلمدان کے وزیر رہتے ہیں کیوں کہ ان کا اصل ہدف تو بہرحال وہی وزیرستان ہے جہاں اصلی وزیر رہتے ہیں یا یوں کہیے کہ بلحاظ نسل نہیں بلکہ بلحاظ عہدہ وزیر رہتے ہیں، شاید ان کو احساس ہو گیا ہو کہ میرا اصل ہدف تو وہاں اسلام آباد میں رہ گیا ہے اور میں یہاں خواہ مخواہ پہاڑوں میں صرف نام کے وزیروں سے الجھ رہا ہوں، کیوں کہ وہ بہرحال ایک لیڈر ہیں اور پاکستان کی سیاست اور لیڈر شپ کو بدلنا چاہتے ہیں، نوے روز میں وہ سارا گند صاف کرنا چاہتے ہیں
جو ''بلخاظ عہدہ'' وزیروں نے اس ملک میں پھیلایا ہوا ہے، وہ نہ کمانڈو ہیں نہ کمانڈر، نہ پائلٹ ہیں نہ جنگ جو، لڑاکو ہیں نہ یودھا ،صرف ایک سیاست دان ہیں اور سیاست کا اصل میدان تو اصل ''وزیرستان'' عرف پاکستان بمقام اسلام آباد ہے اگر وہ سارے وزیرستان (نام کی حد) کو الٹ پلٹ کر بھی رکھ دیتے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں تھا کیوں کہ تاروں کے اصل سرے اور تماشے کے ماسٹر تودور بیٹھے ہوئے ہیں، غالباً یہی احساس ہوتے ہی انھوں نے اپنے ڈرون کی لگام ڈھیلی کر دی اور اس کا رخ موڑ کر اصل وزیروں کے وزیرستان کی طرف کر دیا، ڈاچی والیا موڑ مہار وے، اور ہمارے اس خیال کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ جغرافیائی وزیرستان کچھ بھی کرے ،کچھ بھی کہلائے لیکن اصل وزیرستان وہی ہے جس کا نام پاکستان ہے کیوں کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے اس وقت پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ وزیر پائے جاتے ہیں۔
ملاحظہ فرمایئے چین ایک ارب 35 کروڑ کی آبادی رکھنے والا ہے وہاں صرف 14 وزیر پائے جاتے ہیں، انڈیا ایک ارب 27 کروڑ کی آبادی پر صرف 32 وزیر رکھتاہے۔ امریکا کی آبادی 32کروڑ ہے اور وزیر 14 ہیں، یوکے میں 13کروڑ آبادی ہے اور 12 وزیر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا پاکستان عرف وزیرستان 18 کروڑ لوگوں کے لیے 96 وزیر رکھے ہوئے ہیں ان وزیروں کے سال کا خرچہ سولہ کروڑ فی نگ ہے، 96 سے ضرب دیجیے تو پندرہ ارب 36 کروڑ روپے بنتے ہیں لیکن ٹھہریئے ہر وزیر کو سالانہ چھ ہزار یونٹ بجلی مفت ہے اور موبائل کا فری خرچہ ایک لاکھ ماہانہ فری ہے، صوابدیدی فنڈ اغرہ و اقربا کے معاملے سب ملائے جائیں، ان کے ہوائی سفر وغیرہ کو دھیان میں رکھا جائے اور ساتھ ہی صوبوں کے وزیر مشیر بھی جمع کیے جائیں اور بے شمار اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے لوگ بھی محسوب کیے جائیں تو پاکستان سے بڑا اصلی تے وڈا وزیرستان اور کون سا ہو سکتا ہے ؟