ایئر چیف کو خراج تحسین
میں اس وقت پاک فوج کا ذکر چھیڑ رہا ہوں اور بجا طور پر چھیڑرہا ہوں کہ فوج کا ہر کام ضروری نہیں کہ ناپسندیدہ ہی ہو
میں فوج کا ذکر ایک ایسے موقع پر چھیڑبیٹھا ہوں جب یہ چاروں طرف سے فائر کی زد میں ہے، مگر میں ٹھہرا ایک ناتواں شخص، میں کیا ،میری مجال کیا، اس ادارے کا کیادفاع کر سکوں گا۔
ملالہ کی آڑ میں فوج کو بے نقط سنائی جا رہی ہیں، ملالہ کے سانحے کا ذکر اس انداز میںکیا گیا جیسے اس کی آڑ میں وزیرستان آپریشن ہوا کہ ہوا۔ در اصل اعتراضات کرنے والے چاہتے یہ ہیں کہ فوج سے کہلوالیا جائے کہ وہ اس آپریشن کے قضیے میں نہیں پڑے گی، وزیرستان سے ایسے ڈرایا جاتا ہے جیسے وہاں کہیں پینٹاگان کا ہیڈ کوارٹر ہو،مگر دوسری طرف پینٹاگان سے لڑنے بھڑنے پر اکسانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ملالہ اب برطانوی ڈاکٹروں لیکن مسلمان بہن بھائیوںکی دعائوں کے سپرد ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس معصوم کو اب معاف کر دیا جائے اور جو لوگ ڈرون میں مرنے والوں، لال مسجد میں نشانہ بننے والوں،اور عافیہ کے سانحے کو زیادہ اہمیت دینے کے حق میں ہیں،وہ اپنے دلائل کے انبار میں ملالہ کا ذکر پس منظر میں دھکیلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ زمانہ جاہلیت کے عربوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے، وہ فریاد کرتی رہ جاتیں، ہمارا قصور کیا ہے مگر یہاں ملالہ کا ایک کیا ، ہزار وںقصور گنوائے جا رہے ہیں۔اور اعلان یہ ہے کہ وہ بچ بھی گئی تو پھر گولیوں سے بھون دیا جائے گا، رحم خدایا رحم!
میں اس وقت پاک فوج کا ذکر چھیڑ رہا ہوں اور بجا طور پر چھیڑرہا ہوں کہ فوج کا ہر کام ضروری نہیں کہ ناپسندیدہ ہی ہو۔ پاکستان ایئر فورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ اور یہ ہے بزرگوں کی عزت و تکریم کی روایت۔وہ لوگ جنہوںنے پاکستان ایئر فورس کو ایک جدید لڑاکا اور دفاعی مشین بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ، ان کے کارناموںکو اجاگر کرنے کی روایت کا آغاز کیا گیا ہے۔
مجھے ایئر چیف کے بارے میں ایک ذاتی ذریعے سے خبریں ملتی رہتی ہیں، ان کے ایک خاندانی بزرگ کا رابطہ میرے ساتھ ٹیلی فون پر رہتا ہے، اس لیے میرے دل میں ان کے لیے بے حد قدرو منزلت ہے اور میں ہمیشہ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، چند روز پہلے ایئر چیف نے ایسا اقدام کر ڈالا جس کی مثال سرکاری اداروں میںمشکل سے ملتی ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے کوئی شخص دوسرے کو برداشت کرنے کا روا دار نہیں چہ جائیکہ کسی دوسرے کی عزت کی جائے۔ہمارا صدر یا وزیر اعظم لاہور آ جائے تو یہاں کا وزیر اعلی شہر ہی نہیںملک چھوڑ کر چلا جاتا ہے، مبادا کہیں ہاتھ ملانا پڑ جائے۔
ایسے ماحول میں چند روز پہلے راولپنڈی کے چک لالہ ایئر پورٹ کے ہال میں ایک پر وقار تقریب منعد ہوئی۔شاید ہی اس کی تفصیلات میڈیا پر آئی ہوں یا میری نظر سے نہ گزری ہوں مگر میں نے ایک ای میل میں اس کا تذکرہ پڑھا تو قلم یکبارگی رواں ہو گیا۔ یا اﷲ! کیا یک جہتی ہے، اس ادارے میں کہ ایئر فورس کے تمام ریٹائرڈ سربراہ یہاں ایک چھت تلے موجود تھے اور اس کی صدارت ملک کے پہلے ایئر چیف، جناب اصغر خاں کر رہے تھے اور انتہائی تعظیم کے لائق بیگم فرحت نو ر خان تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔کیا آپ کوئی ایسی سول تقریب کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ملک کے سابق صدور یا وزرائے اعظم ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں ، ہر گز نہیں۔
مگر یہ انہونی فضائیہ کی تقریب میں ہو گئی اور ہر کسی کا دل باغ باغ ہو گیا۔ تقریب کا مقصد یہ تھا کہ چک لالہ ایئر پورٹ کو نور خاں سے موسوم کر دیا جائے کہ وہ آزادی کے بعد ایک اسکواڈرن لیڈر کے طور پر اس اڈے کے پہلے اسٹیشن کمانڈر مقرر ہوئے، انھوں نے اپنا نیا منصب 14 اگست 1947 کو سنبھالا۔آج یہاں اکتالیسویں بیس کمانڈر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں ، اس با کمال تقریب کی میزبانی کا اعزاز انھی ایئر کموڈور طاہر رانجھا کو میسر آیا ۔ایئر مارشل نور خان کی پذیرائی کے لیے پہلے بھی ایک تقریب ہو چکی ہے ۔یہ اس سال 22 فروری کا واقعہ ہے۔فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر میں نورخان کی 89ویں سالگرہ منائی گئی، پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن کے فنی تعاون سے ایئر مارشل پر ایک ڈاکو مینٹری بھی تیار کر کے دکھائی گئی، پی اے ایف ہیڈ کوارٹر کے آڈیٹوریم کو نور خان ہا ل کا نام دیا گیا۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی بیگم فرحت نور خاں تھیں۔ اور مہمانوں میں تمام سابق ایئر چیف اوردفاعی ہیرو شامل تھے۔
ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ نے اپنے مختصر خطاب میں جناب نور خان کو بے پناہ خراج عقیدت پیش کیا۔انھوں نے بتایا کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے، ان کی قائدانہ صلاحیتو ں کا ایک زمانہ معترف ہے اور 1965 کی جنگ میںانھوں نے اپنے سے تین گنا بھارتی ایئر فورس کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان کی بے مثال بہادری کی پیروی میں پاک فضائیہ کے ایک ایک پائلٹ نے جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا کی عملی تعبیر پیش کی اور فضائی برتری قائم کر کے عوام کو تحفظ کا احساس بخشا۔اس جنگ میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے گئے جو نور خان کے نام کو رہتی دنیا تک چار چاند لگائیں گے۔
انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا دشمن سے بھی لوہا منوایا اور بھارتی جرنیل اور ایئر مارشل بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے سامنے ہر مشکل آسان ہو جاتی تھی۔ پی اے ایف ہو ، یا پی آئی اے، ہاکی فیڈریشن ہو،یا کرکٹ بورڈ ، ہر ادارے کو اوج کمال تک پہنچانے میں نور خاں کا اہم حصہ ہے۔وہ محض افسری نہیں جماتے تھے بلکہ ایک شفیق باپ کی طرح رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔جہاں سخت گیری کی ضرورت ہوتی، وہاں وہ اٹل فیصلہ کرتے اور پھر ان کے پائے استقلال میں ہر گز لغزش نہ آتی۔جناب طاہر رفیق بٹ نے بتایا کہ وہ کئی بار ایئر مارشل نور خاں سے ملے، یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے اور یہ ملاقاتیں ان کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں ، انھوں نے اپنے لیڈر سے بہت کچھ سیکھا اورا نہی کی بنیادوں پر پی اے ایف کی عمارت استوار کی گئی ہے۔اس تقریب کا مقصد ان کی عظمتوں کو سلام پیش کرنا ہے، وہ ہمارے سب کے مسلمہ لیڈر تھے ،وہ نور خاں تھے۔وہ مینارہ نورتھے۔
بیس کمانڈر ایئر کموڈور طاہر رانجھا نے اپنے پیش رو اور پی اے ایف کے سابق سربراہ کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ جناب نورخان کی قیادت میں ہر پائلٹ شجاعت کا پیکر ثابت ہوا، آزادی کے بعد صوبہ کے پی کے سے انخلا میں اس اڈے کے ہوابازوںنے دن رات ایک کر دیا ، واپسی پر وہ بھارت سے مسلم مہاجرین کو لے کر پنڈی پہنچاتے رہے، اس وقت یہاںکا رن وے کچا تھا اور مختصر عرصے میں یہاں سے 309 پروازیں اڑیں یاا تریں۔
4 نومبر1948کو اسی اڈے سے پرواز کر کے فلائٹ لیفٹننٹ ڈوگر گلگت کی فضائی حدود میں بھارتی ایئر فورس کے حملے کی زد میں آیا، نوجوان ہو اباز نے د لیری کا مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کو تین مرتبہ پچھاڑا ، آخر وہ بحفاظت لینڈ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی اے ایف کی تاریخ میں پہلا ستارہ جرات، فلائٹ لیفٹننٹ ڈ وگر کے نام کیا گیا۔23 جون 1963 کو ایئر چیف اصغر خان نے اسی اڈے پر سی 130 کی پرواز کا پہلا تجربہ کیا۔1965کی جنگ سے قبل آپریشن جبرالٹر کے آغاز میں پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر میں پہلا دفاعی آپریشن اسی اڈے سے کیا اور اس مشن کے سربراہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ایئر مارشل نور خاں تھے۔
میں ملکی میڈیا اور سول سوسائٹی سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ آیندہ سے چک لالہ ہوائی اڈے کو نورخاں بیس کے نام سے پکاریںکہ یہ ہمارے قومی وقار کی علامت ہے۔
ملالہ کی آڑ میں فوج کو بے نقط سنائی جا رہی ہیں، ملالہ کے سانحے کا ذکر اس انداز میںکیا گیا جیسے اس کی آڑ میں وزیرستان آپریشن ہوا کہ ہوا۔ در اصل اعتراضات کرنے والے چاہتے یہ ہیں کہ فوج سے کہلوالیا جائے کہ وہ اس آپریشن کے قضیے میں نہیں پڑے گی، وزیرستان سے ایسے ڈرایا جاتا ہے جیسے وہاں کہیں پینٹاگان کا ہیڈ کوارٹر ہو،مگر دوسری طرف پینٹاگان سے لڑنے بھڑنے پر اکسانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ملالہ اب برطانوی ڈاکٹروں لیکن مسلمان بہن بھائیوںکی دعائوں کے سپرد ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس معصوم کو اب معاف کر دیا جائے اور جو لوگ ڈرون میں مرنے والوں، لال مسجد میں نشانہ بننے والوں،اور عافیہ کے سانحے کو زیادہ اہمیت دینے کے حق میں ہیں،وہ اپنے دلائل کے انبار میں ملالہ کا ذکر پس منظر میں دھکیلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ زمانہ جاہلیت کے عربوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے، وہ فریاد کرتی رہ جاتیں، ہمارا قصور کیا ہے مگر یہاں ملالہ کا ایک کیا ، ہزار وںقصور گنوائے جا رہے ہیں۔اور اعلان یہ ہے کہ وہ بچ بھی گئی تو پھر گولیوں سے بھون دیا جائے گا، رحم خدایا رحم!
میں اس وقت پاک فوج کا ذکر چھیڑ رہا ہوں اور بجا طور پر چھیڑرہا ہوں کہ فوج کا ہر کام ضروری نہیں کہ ناپسندیدہ ہی ہو۔ پاکستان ایئر فورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ اور یہ ہے بزرگوں کی عزت و تکریم کی روایت۔وہ لوگ جنہوںنے پاکستان ایئر فورس کو ایک جدید لڑاکا اور دفاعی مشین بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ، ان کے کارناموںکو اجاگر کرنے کی روایت کا آغاز کیا گیا ہے۔
مجھے ایئر چیف کے بارے میں ایک ذاتی ذریعے سے خبریں ملتی رہتی ہیں، ان کے ایک خاندانی بزرگ کا رابطہ میرے ساتھ ٹیلی فون پر رہتا ہے، اس لیے میرے دل میں ان کے لیے بے حد قدرو منزلت ہے اور میں ہمیشہ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، چند روز پہلے ایئر چیف نے ایسا اقدام کر ڈالا جس کی مثال سرکاری اداروں میںمشکل سے ملتی ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے کوئی شخص دوسرے کو برداشت کرنے کا روا دار نہیں چہ جائیکہ کسی دوسرے کی عزت کی جائے۔ہمارا صدر یا وزیر اعظم لاہور آ جائے تو یہاں کا وزیر اعلی شہر ہی نہیںملک چھوڑ کر چلا جاتا ہے، مبادا کہیں ہاتھ ملانا پڑ جائے۔
ایسے ماحول میں چند روز پہلے راولپنڈی کے چک لالہ ایئر پورٹ کے ہال میں ایک پر وقار تقریب منعد ہوئی۔شاید ہی اس کی تفصیلات میڈیا پر آئی ہوں یا میری نظر سے نہ گزری ہوں مگر میں نے ایک ای میل میں اس کا تذکرہ پڑھا تو قلم یکبارگی رواں ہو گیا۔ یا اﷲ! کیا یک جہتی ہے، اس ادارے میں کہ ایئر فورس کے تمام ریٹائرڈ سربراہ یہاں ایک چھت تلے موجود تھے اور اس کی صدارت ملک کے پہلے ایئر چیف، جناب اصغر خاں کر رہے تھے اور انتہائی تعظیم کے لائق بیگم فرحت نو ر خان تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔کیا آپ کوئی ایسی سول تقریب کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ملک کے سابق صدور یا وزرائے اعظم ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں ، ہر گز نہیں۔
مگر یہ انہونی فضائیہ کی تقریب میں ہو گئی اور ہر کسی کا دل باغ باغ ہو گیا۔ تقریب کا مقصد یہ تھا کہ چک لالہ ایئر پورٹ کو نور خاں سے موسوم کر دیا جائے کہ وہ آزادی کے بعد ایک اسکواڈرن لیڈر کے طور پر اس اڈے کے پہلے اسٹیشن کمانڈر مقرر ہوئے، انھوں نے اپنا نیا منصب 14 اگست 1947 کو سنبھالا۔آج یہاں اکتالیسویں بیس کمانڈر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں ، اس با کمال تقریب کی میزبانی کا اعزاز انھی ایئر کموڈور طاہر رانجھا کو میسر آیا ۔ایئر مارشل نور خان کی پذیرائی کے لیے پہلے بھی ایک تقریب ہو چکی ہے ۔یہ اس سال 22 فروری کا واقعہ ہے۔فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر میں نورخان کی 89ویں سالگرہ منائی گئی، پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن کے فنی تعاون سے ایئر مارشل پر ایک ڈاکو مینٹری بھی تیار کر کے دکھائی گئی، پی اے ایف ہیڈ کوارٹر کے آڈیٹوریم کو نور خان ہا ل کا نام دیا گیا۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی بیگم فرحت نور خاں تھیں۔ اور مہمانوں میں تمام سابق ایئر چیف اوردفاعی ہیرو شامل تھے۔
ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ نے اپنے مختصر خطاب میں جناب نور خان کو بے پناہ خراج عقیدت پیش کیا۔انھوں نے بتایا کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے، ان کی قائدانہ صلاحیتو ں کا ایک زمانہ معترف ہے اور 1965 کی جنگ میںانھوں نے اپنے سے تین گنا بھارتی ایئر فورس کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان کی بے مثال بہادری کی پیروی میں پاک فضائیہ کے ایک ایک پائلٹ نے جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا کی عملی تعبیر پیش کی اور فضائی برتری قائم کر کے عوام کو تحفظ کا احساس بخشا۔اس جنگ میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے گئے جو نور خان کے نام کو رہتی دنیا تک چار چاند لگائیں گے۔
انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا دشمن سے بھی لوہا منوایا اور بھارتی جرنیل اور ایئر مارشل بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے سامنے ہر مشکل آسان ہو جاتی تھی۔ پی اے ایف ہو ، یا پی آئی اے، ہاکی فیڈریشن ہو،یا کرکٹ بورڈ ، ہر ادارے کو اوج کمال تک پہنچانے میں نور خاں کا اہم حصہ ہے۔وہ محض افسری نہیں جماتے تھے بلکہ ایک شفیق باپ کی طرح رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔جہاں سخت گیری کی ضرورت ہوتی، وہاں وہ اٹل فیصلہ کرتے اور پھر ان کے پائے استقلال میں ہر گز لغزش نہ آتی۔جناب طاہر رفیق بٹ نے بتایا کہ وہ کئی بار ایئر مارشل نور خاں سے ملے، یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے اور یہ ملاقاتیں ان کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں ، انھوں نے اپنے لیڈر سے بہت کچھ سیکھا اورا نہی کی بنیادوں پر پی اے ایف کی عمارت استوار کی گئی ہے۔اس تقریب کا مقصد ان کی عظمتوں کو سلام پیش کرنا ہے، وہ ہمارے سب کے مسلمہ لیڈر تھے ،وہ نور خاں تھے۔وہ مینارہ نورتھے۔
بیس کمانڈر ایئر کموڈور طاہر رانجھا نے اپنے پیش رو اور پی اے ایف کے سابق سربراہ کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ جناب نورخان کی قیادت میں ہر پائلٹ شجاعت کا پیکر ثابت ہوا، آزادی کے بعد صوبہ کے پی کے سے انخلا میں اس اڈے کے ہوابازوںنے دن رات ایک کر دیا ، واپسی پر وہ بھارت سے مسلم مہاجرین کو لے کر پنڈی پہنچاتے رہے، اس وقت یہاںکا رن وے کچا تھا اور مختصر عرصے میں یہاں سے 309 پروازیں اڑیں یاا تریں۔
4 نومبر1948کو اسی اڈے سے پرواز کر کے فلائٹ لیفٹننٹ ڈوگر گلگت کی فضائی حدود میں بھارتی ایئر فورس کے حملے کی زد میں آیا، نوجوان ہو اباز نے د لیری کا مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کو تین مرتبہ پچھاڑا ، آخر وہ بحفاظت لینڈ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی اے ایف کی تاریخ میں پہلا ستارہ جرات، فلائٹ لیفٹننٹ ڈ وگر کے نام کیا گیا۔23 جون 1963 کو ایئر چیف اصغر خان نے اسی اڈے پر سی 130 کی پرواز کا پہلا تجربہ کیا۔1965کی جنگ سے قبل آپریشن جبرالٹر کے آغاز میں پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر میں پہلا دفاعی آپریشن اسی اڈے سے کیا اور اس مشن کے سربراہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ایئر مارشل نور خاں تھے۔
میں ملکی میڈیا اور سول سوسائٹی سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ آیندہ سے چک لالہ ہوائی اڈے کو نورخاں بیس کے نام سے پکاریںکہ یہ ہمارے قومی وقار کی علامت ہے۔