کچھ عناصر افغان امن عمل سبوتاژ کرسکتے ہیں فوجی ترجمان

ملک میں ایک سیاسی فریم ورک ہے اور ایک قومی سوچ ہے،عاصم سلیم باجوہ

ملک میں ایک سیاسی فریم ورک ہے اور ایک قومی سوچ ہے،عاصم سلیم باجوہ۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے مگرکچھ عناصر مری امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

افغان امن عمل پر پاک فوج کے موقف کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ یہ ایک قومی فیصلہ ہے، فوج باقی پاکستان سے مختلف نہیں سوچتی، ملک میں ایک سیاسی فریم ورک ہے اور ایک قومی سوچ ہے، حکومت اور دفتر خارجہ اس کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ فوج بھی اس حوالے سے اپنا کام کرتی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہاکہ پاکستان میں ہرکوئی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو مگر یہ امن عمل افغانستان کی قیادت میں ہونا چاہیے جبکہ دیگر فریق ان کی مدد کریں۔ انھوں نے کہا کہ افغان پالیسی پر سیاسی اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے آنیوالے طالبان رہنما کی ہلاکت یا اغواء کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی باتیں کرنے والے گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والی پیش رفت سے بے خبر ہیں۔


افغان رہنماؤں کے بیان ''پاکستان افغانستان سے غیراعلانیہ حالت جنگ میں ہے'' کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ پاکستان کوئی حالت جنگ میں نہیں ہے بلکہ امن کے لئے ''آؤٹ آف دی وے'' بھی افغانستان کی مدد کی گئی ہے۔ آئی ایس آئی اور افغان خفیہ ایجنسی کے درمیان مفاہمتی یادداشت کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے فوجی اور انٹیلی جنس کی سطح پر تعاون کو بڑھانا ہوگا، ایم او یو ایک مثبت قدم ہے اور دونوں ملکوں نے اس حوالے سے بہت سا ہوم ورک کیا ہے۔ کابل، اسلام آباد کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے سوال پر عاصم باجوہ نے کہا کہ دونوں ملکوں میں تنازع بہت پرانا اور پیچیدہ ہے ، درست سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر اس تنازع کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں بہت سے چیلنچز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور بہت سے چیلنجز اب بھی درپیش ہے مگر ہم افغانستان میں امن کے ایک بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس میں کامیاب ہونگے۔

عاصم باجوہ نے کہا کہ سیاسی، سفارتی اور فوجی سطح پر اعتماد کے فقدان کو کم کرنے کا قدم اٹھایا گیا اور اس حوالے سے بے مثال پیش رفت ہوئی، افغان صدر اشرف غنی نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا، ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔ افغانستان میں داعش کے دو سینئر رہنماؤں حافظ سعید اور شاہداللہ شاہدکی ہلاکت کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا، شمالی وزیرستان میںآپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل افغان حکومت، فوج، ایساف، امریکا سمیت تمام فریقین کو بتادیا گیا تھا تاکہ ٹی ٹی پی رہنماؤں کو سرحد پار جانے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں اور ان درندوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔

این این آئی کے مطابق پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ شمالی وزیرستان کی وادی شوال میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہوچکا، علاقے کو مکمل طور پر کلیئرکرنے کیلیے دوسرا مرحلہ شروع کیا جائیگا اور اس دوران مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جاری آپریشن کے مکمل ہونے کا ٹائم فریم نہیں دے سکتے، اچھی پیش رفت ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ مقاصد بھی حاصل ہو رہے ہیں، فوج اور مقامی لوگ شدت پسندوں کو کسی بھی صورت واپس آنے دیں گے اور نہ ہی ان کیساتھ کسی قسم کا معاہدہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ان علاقوں کی بحالی کیلیے تقریباً80 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور بجٹ میں بھی اس مرتبہ بحالی کے کاموں کیلئے پیسے رکھے گئے ہیں۔
Load Next Story