ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیاں

پاکستان میں اب روس نواز مر کھپ گئے ہیں یعنی امریکا نواز بن گئے ہیں


Abdul Qadir Hassan October 16, 2012
[email protected]

غالباً الیکشن آنے والے ہیں اور امید وار ووٹروں کے پاس جا رہے ہیں، جلسے جلوس شروع ہو چکے ہیں اور نئے حالات اور نئے مسائل کو سامنے رکھ کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔

اس سلسلے میں جو دلچسپ باتیں سامنے آ رہی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو پھر حکومت مل گئی تو آیندہ تین برسوں میں کوئی بے روز گار نہیں رہے گا، اب یہ پوچھنا کس کی مجال ہے کہ آپ نے گزشتہ چار برسوں میں کتنوں سے ملازمتیں چھینی ہیں۔ بجلی نایاب ہو گئی تو کئی شہر کے شہر بے روز گار ہو گئے جیسے فیصل آباد جہاں گھریلو صنعت عروج پر تھی۔ بڑے صنعتکار تو بجلی پیدا کر لیتے ہیں لیکن چھوٹے صرف بے روز گار ہو سکتے ہیں۔

حیران کن کارنامہ یہ کیا گیا کہ ریلوے ختم کر دی گئی اور اب ریلوے کا وزیر کسی کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر لگا کر ہیرو بنا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ملک میں میرا داخلہ بند کر کے مجھے عالمی لیڈر بنا دیا ہے۔ انگریزوں کو غصہ اس بات کا تھا کہ انھوں نے دن رات کی محنت کر کے ہندوستان کے کونے کونے میں ریلوے جاری کی، اس ملک کو سستی ترین سواری دی لیکن اب ضدی قسم کے سیاسی لیڈر نے پاکستان کی حد تک اس پوری ریلوے کو تباہ کر دیا۔ ایسا کیوں کیا ،کہتے ہیں کہ اربوں کا معاملہ تھا، ویسے بھی یہ وزیر جس جماعت سے تعلق رکھتا ہے، وہ پاکستان کی بھی کچھ زیادہ قائل نہیں، اس لیے اگر ریلوے جیسے مرکزی اور ایک ناگزیر شعبے پر ہاتھ پڑ گیا ہے تو سوچا ہوگا کہ کچھ کر کے دکھا جائیں۔ وزیر موصوف نے گستاخ رسولؐ کے سر کی قیمت مقرر کر کے سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی والا مضمون بنا دیا ہے۔

الیکشن اگر ہوا بھی تو اس میں ابھی چند ماہ باقی ہیں، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک چشم کشا خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ بھارت کا دورہ کرنے والے روس کے نائب وزیراعظم دیمتری روگوزن نے دلی میں اعلان کیا ہے کہ ہم بھارت کے دشمنوں کو ہتھیار نہیں دیں گے۔ انھوں نے پاکستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں یہ بات کہی۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کو اسلحہ فراہم کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ ہم آپ کے دشمنوں سے کوئی سودا نہیں کرتے، بھارت بے فکر رہے۔

پاکستانیوں کو روس کا رویہ خوب یاد ہے اور یاد رکھنا چاہیے، حالات کی تبدیلی کے پیش نظر گزشتہ دنوں روسی صدر پیوٹن پاکستان آ رہے تھے لیکن پاکستان کے قدیمی دوست امریکا نے بھارت کے ذریعے روس پر دبائو ڈالا کہ وہ پاکستان کا دورہ نہ کریں چنانچہ یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ البتہ ایک وزیر بھجوایا گیا۔ نائب وزیر اعظم کی بات کا تجزیہ کریں تو روس پاکستان کو بھی دشمن ملک ہی سمجھتا ہے اگرچہ پاکستان میں اب روس نواز مر کھپ گئے ہیں یعنی امریکا نواز بن گئے ہیں لیکن اگر کوئی ان کا ہمنوا زندہ اور باقی ہے تو یہ خبر اس کے لیے افسوسناک ہو گی لیکن سچے اور ایمان دار پاکستانیوں کے لیے یہ خبر ایک خوشی کی خبر ہے کہ روس بھارت کو پاکستان کا دشمن اور پاکستان کو بھارت کا دشمن سمجھتا ہے بلکہ اصل بات شاید یہ ہے کہ افغانستان کا زخم خوردہ اور یہاں لہولہان ہو جانے والا روس پاکستان کو دشمن نہیں تو کیا دوست سمجھے گا۔

اس میں کیا شک کہ روس بلکہ سوویت یونین کے خاتمے میں پاکستان کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ پاکستان نے سوویت یونین ختم کرا کے روس کو بالکل ہی نہتا کر دیا۔ روس تو جو کچھ کہہ رہا ہے اور کر رہا ہے بالکل ٹھیک کر رہا ہے کہ اس کا قومی مفاد اسی میں ہے بلکہ قومی غیرت بھی اس میں ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے بھی اپنی خارجہ پالیسی پر کبھی غور کیا ہے، اب تو یہ تک کہا جانے لگا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کوئی ہے نہیں، صرف ایک وزارت خارجہ ہے اور ایک لڑکی اس کی وزیر ہے جس کے بارے میں الٹ پلٹ سی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔ واقعہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں منفرد اور انتہائی اہم جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے ایک مسلمان ملک جس کے ساتھ اس کے دشمنوں کے مقابلے میں ہر مسلمان محبت کرتاہے۔

آزادی کے وقت تو بھارت کی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہر مسلمان ملک اس کی مخالفت کرتا تھا اور بعض عالمی مسائل پر اس کی حمایت سے ڈرتا تھا۔ بھارت کو اس لیے مسلمان ملکوں کے لیے مسلمان سفیر تلاش کرنے پڑتے تھے اور بار بار بھارت میں آباد مسلمانوں کی تعداد بتائی جاتی تھی لیکن بھارت کو خاموش کرنے کے لیے ایک کشمیر ہی کافی تھا مگر آج ہم ملک کے اندر اور باہر قریب قریب ختم ہو چکے ہیں۔ ہم نے عمر بھر امریکا کا ساتھ دیا لیکن وہ آج بھارت کے ساتھ ہے، شاید اس لیے کہ ہم خود اپنے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکی اداروں سے قرض لے کر زندگی بسر کرتے ہیں اور اب تو حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف اگر قسط نہ دے تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے چنانچہ یہی خارجہ پالسی ہے اور اس پالیسی کی یہی اساسی مجبوریاں ہیں۔ پہلے ہمارے دشمنوں نے ہمارے ملک کی معاشی حالت کو تباہ کیا، کرپٹ لوگوں کو اقتدار دلوایا اور جب ہم معاشی لحاظ سے فقیر ہوگئے تو ہمیں غلام بنا لیا گیا۔ ہم آج ہر ایک کے غلام ہیں، آپ خود غور کریں کہ غلاموں کی کیا خارجہ پالیسی ہو سکتی ہے۔

ہمارے الیکشن ہونے والے ہیں، اگر ہماری قسمت ساتھ دے اور ہماری اسمبلیوں میں پچیس فی صد بھی پاکستان کے درد مند آ جائیں تو ہم دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں۔ آج تو ہر طرف کرپشن ہے اور یہ کرپشن صرف مال میں ہی نہیں پالیسیوں میں بھی ہے اور ملک کا امن و امان تباہ نہیں ختم ہو چکا ہے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں اور ہر روز اربوں کروڑوں کے ڈاکوں کی خبر پڑھتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ اگر کوئی میرے گھر آگیا اور مجھے نادار پا کر ناراض ہو گیا تو کیا بنے گا، صرف ایک خبر بنے گی۔ دعا کریں کہ قوم اچھے لوگوں کو منتخب کرے لیکن ایک بات میں عرض کرتا ہوں کہ جو لوگ اسمبلیوں میں تھے، ان میں سے ایک بھی یہاں دوبارہ جانے کے قابل نہیں۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر میں بحث کر سکتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔