عید اور بچے
امیر ہو یا غریب، ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس دن سارے جہاں کی خوشیاں لا کر اپنے چاند ستاروں کی جھولی میں ڈال دے۔
ISLAMABAD:
عیدالفطر کی آمد آمد ہے، اِس تہوار کا انتظار جس شدت سے بچوں کو ہوتا ہے شاید ہی کسی اور کو ہو، اور آخرکیوں نہ ہو ''عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے''۔ نئے نویلے رنگ برنگے کپڑے پہنے یہ ہنستے کھیلتے ننھے مُنّے فرشتے عید کی خوشیاں دوبالا کر دیتے ہیں اور جب بات ہو بڑوں سے عیدی لینے کی تو اُن کا جوش وخروش کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
امیر ہو یا غریب، ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس دن سارے جہاں کی خوشیاں لا کر اپنے چاند ستاروں کی جھولی میں ڈال دے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے بچوں کوبھی ایسی ہزاروں عیدیں دیکھنا نصیب فرمائے، مگر آپ اپنی خوشیوں میں اُس بیوہ ماں کے درد کو بھی محسوس کرنے کی کوشش کیجیے گا جس کے بچے ہرعید کی طرح اس عید پر بھی نئے کپڑے اور جوتے لینے کی ضد کر رہے ہیں اور وہ بیچاری شوہر کی اچانک وفات کے بعد بالکل بے آسرا ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اپنے معصوم بچوں کو کیسے بتائے کہ نئے کپڑے تو دور کی بات اُس کے پاس تو اُن کے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آپ عید کے دن ٹریفک سگنلز پر کھڑے اُن بچوں کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آیئے گا جو ہر رکنے والی گاڑی کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں، جنہیں پیشہ ور کہہ کر پورا سال دھتکارا جاتا ہے، جو گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے رہ جاتے ہیں اور کوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا بھی نہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں، ہیں تو آخر وہ بھی بچے ہی بالکل آپ کے بچوں کی طرح، عید منانے کی خواہش تو اُن کے دل میں بھی مچلتی ہوگی۔ اُن کے ہاتھ میں صرف ایک چاکلیٹ تھما کر آپ بدلے میں اُن کے چہرے پر وہ مسکراہٹ دیکھ سکتے ہیں جو آپ کا سارا دن خوشگوار بنا دے گی۔
آپ عید کے دن اُس معصوم بچے کو بھی مت نظر انداز کیجیے گا جس کی ماں نے اُس کے شدید احتجاج کے باوجود عید والے دن بھی اُسے غبارے بیچنے صرف اس لیے بھیج دیا ہے کیونکہ آج بھی گھر کا چولہا اس معصوم کی کمائی سے ہی چلنا ہے، اور وہ بیچارہ پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو صرف اس اُمید سے دیکھ رہا ہے کہ شاید اٰس کے گھر میں بہت سارے بچے ہوں اور وہ اُس سے یہ سارے غبارے خرید لے، اور وہ بھی جلدی جلدی گھر پہنچ کر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ عید منائے۔ عید تو بچوں کی ہوتی ہے ناں! آپ اپنی عید کی خوشیوں میں سخت گرمی کے موسم میں ننگے پاؤں کچرا چنتے اُن بچوں کو بھی شریک کر لیجیے گا جو عید کے دن بھی کوڑے کے ڈھیر سے کھانے کی اشیاء تلاش کرکے کھا رہے ہیں۔ جن کے لیے عید کا مبارک دن بھی بس باقی عام دنوں کی طرح ہی ہے، سخت اورتھکان بھرا۔
آپ ان مسرتوں بھرے لمحات میں سے کچھ لمحے ایدھی سینٹر اور دوسرے اداروں میں پلنے والے اُن بے سہارا بچوں کو بھی دے دیجیے گا جو ہر عید صرف اس انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ شاید اس عید پراُن کا کوئی اپنا اُنہیں ڈھونڈھتا ہوا آجائے اورانہیں اپنے ساتھ گھر لے جائے، مگر اُن کا یہ انتظار بس انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ آپ اُن بچوں کے سر پر بھی پیار سے ہاتھ پھیر دیجیے گا جنہیں آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی آج صرف اس اُمید پر اپنے ساتھ لے آئی ہے کہ شاید آپ اپنے بچوں کی خوشیوں میں سے کچھ حصّہ انہیں بھی دے دیں۔ خدارا اس مجبور عورت کا دل مت توڑیے گا۔ آپ اُس بچے سے بھی نرمی سے پیش آئیے گا جس کے ماں باپ میں تو اُسے مہنگے کھلونے خرید کر دینے کی سکت نہیں مگر وہ آپ کے بیٹے کے نئے کھلونوں سے کھیلنے کی لالچ میں آج صبح صبح ہی آپ کے بیٹے کے ساتھ کھیلنے آپ کے گھر آگیا ہے، نہ جانے اس معصوم نے پچھلی رات کیسے گزاری ہوگی جسے آج آپ کے بیٹے نے اپنے نئے کھلونوں سے کھیلنے کی دعوت دے رکھی تھی، بچے تو بچے ہوتے ہیں ناں، وہ دوستی کرتے ہوئے دوست کی حیثیت نہیں دیکھتے۔
آپ کشمیر، فلسطین، عراق، شام، برما اورافغانستان میں بسنے والے اُن لاکھوں بچوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا جو پچھلی کئی عیدوں کی طرح یہ عید بھی ڈر اور خوف کے سائے تلے منا رہے ہیں۔ اور اُن آئی ڈی پیز کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کر لیجیے گا جو صرف سر زمینِ پاک کی سلامتی اور امن کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر پچھلے کئی ماہ سے عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن کے بچے اس عید پر بھی اُن سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ یہ عید بھی اپنے گھروں سے دور اس بے سر و سامانی کی حالت میں منائیں گے؟ اور اُن جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا مت بھولیے گا جنہوں نے اس ارضِ پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، یہ اُن کی قربانیوں کا ہی صلہ ہے جو آج آپ اپنے بچوں کے ساتھ جبکہ اُن کے بچے اُن کی یادوں کے سہارے عید منا رہے ہیں جن پر اُنہیں فخر ہے۔
عید تو بچوں سے ہوتی ہے ناں! ذرا سوچیں کہ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین پراس وقت کیا گزررہی ہوگی جن کے جگر کے ٹکڑے پچھلی عید پر تو اُن کے ساتھ تھے مگر اب نہیں ہیں۔ آئیں مل کر سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے اُن معصوم بچوں کے لواحقین کے لیے اللہ ذوالجلال کے حضور خصوصی دعا کریں کہ اللہ اُنہیں صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اُن کے جگرگوشوں کو اُن کی مغفرت کا ذریعہ بنا دے ۔
(آمین)
[poll id="544"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
عیدالفطر کی آمد آمد ہے، اِس تہوار کا انتظار جس شدت سے بچوں کو ہوتا ہے شاید ہی کسی اور کو ہو، اور آخرکیوں نہ ہو ''عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے''۔ نئے نویلے رنگ برنگے کپڑے پہنے یہ ہنستے کھیلتے ننھے مُنّے فرشتے عید کی خوشیاں دوبالا کر دیتے ہیں اور جب بات ہو بڑوں سے عیدی لینے کی تو اُن کا جوش وخروش کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
امیر ہو یا غریب، ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس دن سارے جہاں کی خوشیاں لا کر اپنے چاند ستاروں کی جھولی میں ڈال دے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے بچوں کوبھی ایسی ہزاروں عیدیں دیکھنا نصیب فرمائے، مگر آپ اپنی خوشیوں میں اُس بیوہ ماں کے درد کو بھی محسوس کرنے کی کوشش کیجیے گا جس کے بچے ہرعید کی طرح اس عید پر بھی نئے کپڑے اور جوتے لینے کی ضد کر رہے ہیں اور وہ بیچاری شوہر کی اچانک وفات کے بعد بالکل بے آسرا ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اپنے معصوم بچوں کو کیسے بتائے کہ نئے کپڑے تو دور کی بات اُس کے پاس تو اُن کے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آپ عید کے دن ٹریفک سگنلز پر کھڑے اُن بچوں کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آیئے گا جو ہر رکنے والی گاڑی کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں، جنہیں پیشہ ور کہہ کر پورا سال دھتکارا جاتا ہے، جو گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے رہ جاتے ہیں اور کوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا بھی نہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں، ہیں تو آخر وہ بھی بچے ہی بالکل آپ کے بچوں کی طرح، عید منانے کی خواہش تو اُن کے دل میں بھی مچلتی ہوگی۔ اُن کے ہاتھ میں صرف ایک چاکلیٹ تھما کر آپ بدلے میں اُن کے چہرے پر وہ مسکراہٹ دیکھ سکتے ہیں جو آپ کا سارا دن خوشگوار بنا دے گی۔
آپ عید کے دن اُس معصوم بچے کو بھی مت نظر انداز کیجیے گا جس کی ماں نے اُس کے شدید احتجاج کے باوجود عید والے دن بھی اُسے غبارے بیچنے صرف اس لیے بھیج دیا ہے کیونکہ آج بھی گھر کا چولہا اس معصوم کی کمائی سے ہی چلنا ہے، اور وہ بیچارہ پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو صرف اس اُمید سے دیکھ رہا ہے کہ شاید اٰس کے گھر میں بہت سارے بچے ہوں اور وہ اُس سے یہ سارے غبارے خرید لے، اور وہ بھی جلدی جلدی گھر پہنچ کر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ عید منائے۔ عید تو بچوں کی ہوتی ہے ناں! آپ اپنی عید کی خوشیوں میں سخت گرمی کے موسم میں ننگے پاؤں کچرا چنتے اُن بچوں کو بھی شریک کر لیجیے گا جو عید کے دن بھی کوڑے کے ڈھیر سے کھانے کی اشیاء تلاش کرکے کھا رہے ہیں۔ جن کے لیے عید کا مبارک دن بھی بس باقی عام دنوں کی طرح ہی ہے، سخت اورتھکان بھرا۔
آپ ان مسرتوں بھرے لمحات میں سے کچھ لمحے ایدھی سینٹر اور دوسرے اداروں میں پلنے والے اُن بے سہارا بچوں کو بھی دے دیجیے گا جو ہر عید صرف اس انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ شاید اس عید پراُن کا کوئی اپنا اُنہیں ڈھونڈھتا ہوا آجائے اورانہیں اپنے ساتھ گھر لے جائے، مگر اُن کا یہ انتظار بس انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ آپ اُن بچوں کے سر پر بھی پیار سے ہاتھ پھیر دیجیے گا جنہیں آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی آج صرف اس اُمید پر اپنے ساتھ لے آئی ہے کہ شاید آپ اپنے بچوں کی خوشیوں میں سے کچھ حصّہ انہیں بھی دے دیں۔ خدارا اس مجبور عورت کا دل مت توڑیے گا۔ آپ اُس بچے سے بھی نرمی سے پیش آئیے گا جس کے ماں باپ میں تو اُسے مہنگے کھلونے خرید کر دینے کی سکت نہیں مگر وہ آپ کے بیٹے کے نئے کھلونوں سے کھیلنے کی لالچ میں آج صبح صبح ہی آپ کے بیٹے کے ساتھ کھیلنے آپ کے گھر آگیا ہے، نہ جانے اس معصوم نے پچھلی رات کیسے گزاری ہوگی جسے آج آپ کے بیٹے نے اپنے نئے کھلونوں سے کھیلنے کی دعوت دے رکھی تھی، بچے تو بچے ہوتے ہیں ناں، وہ دوستی کرتے ہوئے دوست کی حیثیت نہیں دیکھتے۔
آپ کشمیر، فلسطین، عراق، شام، برما اورافغانستان میں بسنے والے اُن لاکھوں بچوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا جو پچھلی کئی عیدوں کی طرح یہ عید بھی ڈر اور خوف کے سائے تلے منا رہے ہیں۔ اور اُن آئی ڈی پیز کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کر لیجیے گا جو صرف سر زمینِ پاک کی سلامتی اور امن کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر پچھلے کئی ماہ سے عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن کے بچے اس عید پر بھی اُن سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ یہ عید بھی اپنے گھروں سے دور اس بے سر و سامانی کی حالت میں منائیں گے؟ اور اُن جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا مت بھولیے گا جنہوں نے اس ارضِ پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، یہ اُن کی قربانیوں کا ہی صلہ ہے جو آج آپ اپنے بچوں کے ساتھ جبکہ اُن کے بچے اُن کی یادوں کے سہارے عید منا رہے ہیں جن پر اُنہیں فخر ہے۔
عید تو بچوں سے ہوتی ہے ناں! ذرا سوچیں کہ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین پراس وقت کیا گزررہی ہوگی جن کے جگر کے ٹکڑے پچھلی عید پر تو اُن کے ساتھ تھے مگر اب نہیں ہیں۔ آئیں مل کر سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے اُن معصوم بچوں کے لواحقین کے لیے اللہ ذوالجلال کے حضور خصوصی دعا کریں کہ اللہ اُنہیں صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اُن کے جگرگوشوں کو اُن کی مغفرت کا ذریعہ بنا دے ۔
(آمین)
[poll id="544"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس