کیا پھر بھی
اگر ملالہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتی کیا تب بھی اسے ایوارڈ سے نوازا جاتا؟
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی سب نے مذمت کی۔ میڈیا کوریج ریکارڈ توڑ تھی۔ صدر، وزیراعظم اور نواز شریف نے گل دستے بھجوائے۔
آرمی چیف اور عمران خان خود عیادت کو گئے۔ امریکی صدر و وزیر خارجہ نے طالبان کے حملے کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 14 سالہ معصوم بچّی کے لیے ہمدردی کا بیان جاری کیا۔ عافیہ صدیقی کے معاملے پر خاموش رہنے والی این جی اوز میدان میں نکل آئیں۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ چار چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھیے تو سب سمجھ میں آجائے گا، جس طرح بچّوں کے صفحات پر کوئی تصویر بنانے کے لیے نکتے پر کرنے ہوتے ہیں۔ بچّے جوں جوں ایک سے چالیس تک آگے بڑھتے جاتے ہیں، تصویر بنتی جاتی ہے۔ جب آپ یہ واقعات پڑھ لیں گے تو ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔
''اشفاق احمد کے ڈرامے کے ایک، کردار کی تین بیٹیاں ہوتی ہیں۔ باپ کو چاہنے والیاں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہمدرد۔ والد کو آئیڈیل کہہ کر اپنی سہیلیوں سے متعارف کروانے والیاں۔ اچانک ایک بوڑھا آدمی ایک بچّے کو لے کر ان کے گھر آتا ہے۔ وہ انکشاف کرتا ہے کہ یہ بچّہ انیس صاحب کا ہے۔ وہ چاروں خواتین ہنگامہ کھڑا کردیتی ہیں۔ خاتون کہتی ہے کہ میں ان کی بیوی ہوں اور یہ تینوں ان کی بیٹیاں ہیں۔ تم بکواس کرتے ہو۔ تھوڑی دیر بعد صاحب خانہ آتے ہیں تو بچّہ ان سے ابو ابو کہہ کر لپٹ جاتا ہے۔ بوڑھا کہتا ہے کہ میری بیٹی تو مر گئی ہے، اب آپ اپنی اولاد کو سنبھالیے۔ میں تو آج ہوں اور کل نہیں۔
بچّہ کہتا ہے ''ابو مجھے بھوک لگی ہے۔'' باپ اپنی لاڈلی بچیوں سے درخواست کرتا ہے کہ اپنے بھائی کو کھانا دو۔ چاروں عورتیں غصّے سے کمرے سے نکل جاتی ہیں۔ دوسری شادی خفیہ طور پر رچانے والا اپنے گھر میں اجنبی بن جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے بچّے کے نام کچھ جائیداد لکھ کر اسے یتیم خانے میں داخل کروادیتا ہے۔ چند ماہ بعد وہ فوت ہوجاتا ہے۔ انیس صاحب کی ایک بیٹی کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنے آپ سے سوال کرتی ہے۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ ہمیں اپنے باپ سے محبت تھی؟ کیا باپ ہم سے محبت کرتا تھا؟ کیا ہم سب اپنی اپنی ضرورتوں کے غلام نہ تھے؟ کیا یہ سب کچھ ڈھونگ نہ تھا؟'' یہ سوالات اشفاق احمد کے تھے۔ ہماری پہلی کہانی اختتام کو پہنچی۔ آئیے ایسے ہی سوالات ملالہ سے محبت کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔ ایک چینل نے بہت سی بچیوں سے انٹرویو لیا۔ ملالہ یوسف زئی بھی ان میں شامل تھی۔ سوات میں ان دنوں امن و امان کا مسئلہ چل رہا تھا۔ کچھ نکتے پر ہوگئے ہیں۔ آئیے دوسرے واقعے کی جانب آگے بڑھتے ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ نکتے لگا کر کہانی مکمل کریں گے۔
''وہ نوجوان اور کنوارا تھا۔ اس کے ماں باپ حج کو گئے تھے۔ وہ کبھی اپنے چچا کے گھر رکتا تو کبھی ماموں کے ہاں ٹھہرتا۔ ایک وقت بہن کے گھر کھانا کھاتا تو دو دن بھائی کے ہاں قیام کرتا۔ اسے اپنی والدہ کی بہت یاد آتی تھی۔ مجھے کسی نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کے لیے بہت روتا ہے۔ اشفاق احمد کے ڈرامے کے کردار انیس صاحب کی کہانی ذہن میں تھی۔ میں نے کہا کہ اگر اس کے بیوی بچّے ہوں، گھر ہو، کاروبار ہو پھر بھی یہ شخص اپنی والدہ کی جدائی میں روئے گا۔ اب اس کے کھانے، کپڑوں اور صفائی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔
ماں کے جانے سے وہ زندگی کی سہولتوں سے محروم ہوگیا ہے۔ شاید خلوص سے چاہنے والی اسی لیے یاد آرہی ہے۔'' دوسری کہانی مکمل ہوئی۔ آئیے دیکھیں کہ ملالہ نے سوات میں اسکولوں کی تباہی پر کیا کہا تھا۔ چھوٹی سی معصوم اور ذہین بچّی نے کہا کہ ہمارے علاقے کے تعلیمی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ وہ پڑھنا چاہتی ہے۔ آئیے اب تیسری کہانی پڑھیے۔ یوں آہستہ آہستہ ہم تصویر کی تکمیل کی جانب بڑھیں گے۔ اس طرح ہمیں اس سوال کا جواب ملے گا کہ کیا پھر بھی؟
ایک فقیرنی اندھے شوہر کے ساتھ بھیک مانگتی ہے۔ وہ آنکھوں والی تھی، اس لیے اندھے کا ہاتھ پکڑ کر خیرات کی طلب گار ہوتی ہے۔ ایک دن فقیرنی نے اپنے اندھے شوہر سے کہا کہ تیری آنکھیں نہیں ہیں۔ تو کیا جانے میں کتنی حسین ہوں۔ تو میری خوبصورتی سے ناواقف ہے۔ نابینا فقیر نے کہا کہ ''میری جسمانی آنکھیں نہیں ہیں لیکن میں دل کی آنکھیں رکھتا ہوں۔ یوں کہہ لیں کہ اس نے کہا کہ میں بصارت نہیں رکھتا لیکن بصیرت ضرور رکھتا ہوں۔ تیری آنکھیں اتنی ہی خوبصورت، بال اتنے ہی حسین اور رنگ و روپ اتنا ہی اچھا ہوتا تو ایک اندھے فقیر کی بیوی نہ ہوتی۔
مجھے پتہ ہے کہ تو کالی کلوٹی، بدصورت اور چیچک زدہ چہرے والی ہے۔'' تیسری کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔ آئیے دیکھیے کہ ملالہ یوسف زئی نے کسے اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ ذہانت بھری آنکھوں والی بچّی نے کہا کہ میں اپنا آئیڈیل امریکی صدر اوباما کو سمجھتی ہوں۔ نکتے پر کیے جارہے ہیں۔ تصویر نکھر کر سامنے آیا چاہتی ہے۔ اب آئیے آخری کہانی کی جانب۔
''فرخ صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی کی شادی ہونے والی تھی۔ لڑکے والے بہت امیر تھے۔ فرخ صاحب بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر انتظامات کررہے تھے۔ جب وہ تھکے ہارے گھر آئے تو بیٹی نے فوراً ان کے لیے گرم گرم روٹیاں پکائیں۔ یہ اچھی بات تھی کہ فرماں بردار بیٹیوں کو یہی کرنا چاہیے۔ اشفاق احمد والی پہلی کہانی پر توجہ دیجیے۔ سوچیے کہ اگر فرخ صاحب بچیوں سے غافل ہوتے تو ان کی محبت اور توجہ کا یہی عالم ہوتا؟ اگر باپ اپنی بچیوں کے مستقبل سے زیادہ اپنے حال میں مگن ہو تو بیٹیاں اسی طرح باپ سے محبت کریں گی۔
اگر فرخ صاحب اپنے لباس اور تفریحات پر پیسہ لٹاتے تب بھی وہی کیفیت ہوتی جو ہمیں نظر آئی ہے؟ اگر وہ شراب و جوئے پر رقم پھونکتے کیا تب بھی بیٹی اسی طرح دوڑ کر باپ کی خدمت کرتی؟ اس سوال پر آخری کہانی ختم ہورہی ہے۔'' اب ملالہ پر آتے ہیں کہ یہی ہمارے کالم کا موضوع ہے۔ ملالہ نے سوات میں اپنے اسکولوں کی تباہی کی ذمے داری طالبان پر عاید کی۔ اگر ملالہ کی باتیں وہ نہ ہوتیں جو اس نے کیں بلکہ کچھ اور ہوتیں تو کیا ہوتا؟ معصوم بچّی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کالم اپنے اختتامی مراحل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ چار کہانیوں کے بعد چار سوالات۔
اگر ملالہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتی کیا تب بھی اسے ایوارڈ سے نوازا جاتا؟ اگر وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتی تب بھی امریکی انتظامیہ اس کی پذیرائی کرتی؟ اگر وہ ایرانی صدر کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی پھر بھی لبرل طبقہ اس کی حمایت کرتا؟ اگر وہ وزیرستان میں تعلیم سے محروم رہ جانے والی بچیوں کے حق میں آواز بلند کرتی پھر بھی سیکولر طبقہ ملالہ کی حمایت کرتا؟ کیا پھر بھی؟ بڑا اہم، نازک اور منطقی سوال ہے کہ کیا پھر بھی؟
آرمی چیف اور عمران خان خود عیادت کو گئے۔ امریکی صدر و وزیر خارجہ نے طالبان کے حملے کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 14 سالہ معصوم بچّی کے لیے ہمدردی کا بیان جاری کیا۔ عافیہ صدیقی کے معاملے پر خاموش رہنے والی این جی اوز میدان میں نکل آئیں۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ چار چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھیے تو سب سمجھ میں آجائے گا، جس طرح بچّوں کے صفحات پر کوئی تصویر بنانے کے لیے نکتے پر کرنے ہوتے ہیں۔ بچّے جوں جوں ایک سے چالیس تک آگے بڑھتے جاتے ہیں، تصویر بنتی جاتی ہے۔ جب آپ یہ واقعات پڑھ لیں گے تو ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔
''اشفاق احمد کے ڈرامے کے ایک، کردار کی تین بیٹیاں ہوتی ہیں۔ باپ کو چاہنے والیاں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہمدرد۔ والد کو آئیڈیل کہہ کر اپنی سہیلیوں سے متعارف کروانے والیاں۔ اچانک ایک بوڑھا آدمی ایک بچّے کو لے کر ان کے گھر آتا ہے۔ وہ انکشاف کرتا ہے کہ یہ بچّہ انیس صاحب کا ہے۔ وہ چاروں خواتین ہنگامہ کھڑا کردیتی ہیں۔ خاتون کہتی ہے کہ میں ان کی بیوی ہوں اور یہ تینوں ان کی بیٹیاں ہیں۔ تم بکواس کرتے ہو۔ تھوڑی دیر بعد صاحب خانہ آتے ہیں تو بچّہ ان سے ابو ابو کہہ کر لپٹ جاتا ہے۔ بوڑھا کہتا ہے کہ میری بیٹی تو مر گئی ہے، اب آپ اپنی اولاد کو سنبھالیے۔ میں تو آج ہوں اور کل نہیں۔
بچّہ کہتا ہے ''ابو مجھے بھوک لگی ہے۔'' باپ اپنی لاڈلی بچیوں سے درخواست کرتا ہے کہ اپنے بھائی کو کھانا دو۔ چاروں عورتیں غصّے سے کمرے سے نکل جاتی ہیں۔ دوسری شادی خفیہ طور پر رچانے والا اپنے گھر میں اجنبی بن جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے بچّے کے نام کچھ جائیداد لکھ کر اسے یتیم خانے میں داخل کروادیتا ہے۔ چند ماہ بعد وہ فوت ہوجاتا ہے۔ انیس صاحب کی ایک بیٹی کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنے آپ سے سوال کرتی ہے۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ ہمیں اپنے باپ سے محبت تھی؟ کیا باپ ہم سے محبت کرتا تھا؟ کیا ہم سب اپنی اپنی ضرورتوں کے غلام نہ تھے؟ کیا یہ سب کچھ ڈھونگ نہ تھا؟'' یہ سوالات اشفاق احمد کے تھے۔ ہماری پہلی کہانی اختتام کو پہنچی۔ آئیے ایسے ہی سوالات ملالہ سے محبت کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔ ایک چینل نے بہت سی بچیوں سے انٹرویو لیا۔ ملالہ یوسف زئی بھی ان میں شامل تھی۔ سوات میں ان دنوں امن و امان کا مسئلہ چل رہا تھا۔ کچھ نکتے پر ہوگئے ہیں۔ آئیے دوسرے واقعے کی جانب آگے بڑھتے ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ نکتے لگا کر کہانی مکمل کریں گے۔
''وہ نوجوان اور کنوارا تھا۔ اس کے ماں باپ حج کو گئے تھے۔ وہ کبھی اپنے چچا کے گھر رکتا تو کبھی ماموں کے ہاں ٹھہرتا۔ ایک وقت بہن کے گھر کھانا کھاتا تو دو دن بھائی کے ہاں قیام کرتا۔ اسے اپنی والدہ کی بہت یاد آتی تھی۔ مجھے کسی نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کے لیے بہت روتا ہے۔ اشفاق احمد کے ڈرامے کے کردار انیس صاحب کی کہانی ذہن میں تھی۔ میں نے کہا کہ اگر اس کے بیوی بچّے ہوں، گھر ہو، کاروبار ہو پھر بھی یہ شخص اپنی والدہ کی جدائی میں روئے گا۔ اب اس کے کھانے، کپڑوں اور صفائی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔
ماں کے جانے سے وہ زندگی کی سہولتوں سے محروم ہوگیا ہے۔ شاید خلوص سے چاہنے والی اسی لیے یاد آرہی ہے۔'' دوسری کہانی مکمل ہوئی۔ آئیے دیکھیں کہ ملالہ نے سوات میں اسکولوں کی تباہی پر کیا کہا تھا۔ چھوٹی سی معصوم اور ذہین بچّی نے کہا کہ ہمارے علاقے کے تعلیمی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ وہ پڑھنا چاہتی ہے۔ آئیے اب تیسری کہانی پڑھیے۔ یوں آہستہ آہستہ ہم تصویر کی تکمیل کی جانب بڑھیں گے۔ اس طرح ہمیں اس سوال کا جواب ملے گا کہ کیا پھر بھی؟
ایک فقیرنی اندھے شوہر کے ساتھ بھیک مانگتی ہے۔ وہ آنکھوں والی تھی، اس لیے اندھے کا ہاتھ پکڑ کر خیرات کی طلب گار ہوتی ہے۔ ایک دن فقیرنی نے اپنے اندھے شوہر سے کہا کہ تیری آنکھیں نہیں ہیں۔ تو کیا جانے میں کتنی حسین ہوں۔ تو میری خوبصورتی سے ناواقف ہے۔ نابینا فقیر نے کہا کہ ''میری جسمانی آنکھیں نہیں ہیں لیکن میں دل کی آنکھیں رکھتا ہوں۔ یوں کہہ لیں کہ اس نے کہا کہ میں بصارت نہیں رکھتا لیکن بصیرت ضرور رکھتا ہوں۔ تیری آنکھیں اتنی ہی خوبصورت، بال اتنے ہی حسین اور رنگ و روپ اتنا ہی اچھا ہوتا تو ایک اندھے فقیر کی بیوی نہ ہوتی۔
مجھے پتہ ہے کہ تو کالی کلوٹی، بدصورت اور چیچک زدہ چہرے والی ہے۔'' تیسری کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔ آئیے دیکھیے کہ ملالہ یوسف زئی نے کسے اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ ذہانت بھری آنکھوں والی بچّی نے کہا کہ میں اپنا آئیڈیل امریکی صدر اوباما کو سمجھتی ہوں۔ نکتے پر کیے جارہے ہیں۔ تصویر نکھر کر سامنے آیا چاہتی ہے۔ اب آئیے آخری کہانی کی جانب۔
''فرخ صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی کی شادی ہونے والی تھی۔ لڑکے والے بہت امیر تھے۔ فرخ صاحب بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر انتظامات کررہے تھے۔ جب وہ تھکے ہارے گھر آئے تو بیٹی نے فوراً ان کے لیے گرم گرم روٹیاں پکائیں۔ یہ اچھی بات تھی کہ فرماں بردار بیٹیوں کو یہی کرنا چاہیے۔ اشفاق احمد والی پہلی کہانی پر توجہ دیجیے۔ سوچیے کہ اگر فرخ صاحب بچیوں سے غافل ہوتے تو ان کی محبت اور توجہ کا یہی عالم ہوتا؟ اگر باپ اپنی بچیوں کے مستقبل سے زیادہ اپنے حال میں مگن ہو تو بیٹیاں اسی طرح باپ سے محبت کریں گی۔
اگر فرخ صاحب اپنے لباس اور تفریحات پر پیسہ لٹاتے تب بھی وہی کیفیت ہوتی جو ہمیں نظر آئی ہے؟ اگر وہ شراب و جوئے پر رقم پھونکتے کیا تب بھی بیٹی اسی طرح دوڑ کر باپ کی خدمت کرتی؟ اس سوال پر آخری کہانی ختم ہورہی ہے۔'' اب ملالہ پر آتے ہیں کہ یہی ہمارے کالم کا موضوع ہے۔ ملالہ نے سوات میں اپنے اسکولوں کی تباہی کی ذمے داری طالبان پر عاید کی۔ اگر ملالہ کی باتیں وہ نہ ہوتیں جو اس نے کیں بلکہ کچھ اور ہوتیں تو کیا ہوتا؟ معصوم بچّی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کالم اپنے اختتامی مراحل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ چار کہانیوں کے بعد چار سوالات۔
اگر ملالہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتی کیا تب بھی اسے ایوارڈ سے نوازا جاتا؟ اگر وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتی تب بھی امریکی انتظامیہ اس کی پذیرائی کرتی؟ اگر وہ ایرانی صدر کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی پھر بھی لبرل طبقہ اس کی حمایت کرتا؟ اگر وہ وزیرستان میں تعلیم سے محروم رہ جانے والی بچیوں کے حق میں آواز بلند کرتی پھر بھی سیکولر طبقہ ملالہ کی حمایت کرتا؟ کیا پھر بھی؟ بڑا اہم، نازک اور منطقی سوال ہے کہ کیا پھر بھی؟