فیس بک کی طاقت
سینیٹر مارکو روبیو کے مطابق فیس بک سے ہم آج اپنی آواز ان جگہوں تک پہنچا سکتے ہیں جہاں امریکا کے آفیشلز کا جانا Ban ہے
کچھ دن پہلے فیس بک دنیا کی سب سے بڑی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ بن گئی۔ تھی تو وہ پہلے بھی سب سے بڑی لیکن اب فیس بک نے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے، فیس بک پر اِس وقت ہر مہینے ایک بلین Active users ہیں یعنی دنیا کے ہر سات میں سے ایک انسان ''فیس بک یوزر'' ہے۔
پچھلے ہفتے فیس بک کے مالک مارک زوکر برگ نے اپنے فیس بک پیج پر اعلان کیا کہ اب ان کی سائٹ ایک بلین یوزرز کو سروس فراہم کررہی ہے، نہ صرف یہ بلکہ ایک فیکٹ شیٹ بھی انھوں نے میڈیا اور عام لوگوں کے لیے ریلیز کی جس کے مطابق فیس بک پر اِس وقت دو سو انیس بلین تصاویر موجود ہیں۔ فیس بک کو چھ سو ملین لوگ موبائل فونز کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، 141 بلین فرینڈز کنکشن ہیں، سترہ بلین بار لوگ اپنی لوکیشن چیک اِن کرچکے ہیں، تریسٹھ ملین گانے اور فلمیں لوگ اپ لوڈ کرچکے ہیں اور اِن گانوں اور ویڈیوز کو 22 بلین بار پلے کیا جاچکا ہے۔
پچھلے سال ایک اوسط USER کی عمر 23 سال تھی لیکن اِس سال یہ عمر گھٹ کر 22 سال ہوگئی ہے، پچھلے ایک سال میں جن ملکوں میں نہایت تیزی سے فیس بک یوزرز بڑھے ان میں یو ایس، انڈیا، برازیل، میکسیکو اور انڈونیشیا ہیں۔ فیس بک کے اعداد و شمار دیکھ کر یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے اور یہ بات نہ صرف امریکن کوآپریٹس جانتی ہیں بلکہ امریکن سیاست داں بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
یو ایس ہائوس اسپیکر جان بوہینر کے مطابق فیس بک کے ایک بلین یوزرز کا مطلب ہے کہ اب ہمارے پاس بے حساب Potential ہے، ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرنے کا، جو معلومات ہمیں پہلے کافی مشکل سے اور بہت زیادہ ریسرچ کے ساتھ، بہت سے وسائل کا استعمال کرکے ملتی تھیں اب وہ کچھ منٹوں میں فیس بک سے مل سکتی ہیں۔ اِس طرح سینیٹر ہیری رائیڈ کے مطابق ایک بلین لوگ دنیا کے کتنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں اور عالمی امن اور بہتر معاشی حالات کے لیے بھی کام کرسکتے ہیں، اِسی طرح اقلیتی لیڈر نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ ہم دنیا کو بدل سکتے ہیں، اِن ایک بلین ''یوزرز'' سے...ایک عام آدمی اپنے فیس بک کنکشن سے وہ کرسکتا ہے جس کا پانچ چھ سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
سینیٹر مارکو روبیو کے مطابق فیس بک سے ہم آج اپنی آواز ان جگہوں تک پہنچا سکتے ہیں جہاں امریکا کے آفیشلز کا جانا Ban ہے، ہم لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے اور ان تک اپنی بات پہنچانے کے لیے فیس بک کا استعمال کریں گے۔ لاس اینجلس کے میئر انٹونیو کے مطابق ایک بلین لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطے میں ہونے کا مطلب ہے کہ ہم دنیا کے ''مرکز'' کو قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، وہ سینٹرل پوائنٹ جہاں سے ہم لوگوں کی آئیڈیالوجی کو فروغ دے سکتے ہیں اور دنیا کو بہتر کرنے کے خواب کو اِن لوگوں کی مدد سے تکمیل کو پہنچاسکتے ہیں۔
یہ فیس بک کی طاقت ہے جس کی وجہ سے ایک عام لڑکا صرف ایک Status اپ ڈیٹ کرکے دنیا بھر کی خبروں میں آگیا۔ 6 مارچ 2012 کو چھ برٹش سولجرز افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ایک دھماکے میں مارے گئے۔ 2001 سے اب تک کا یہ سب سے بڑا حملہ تھا جس میں اِتنے زیادہ برٹش سپاہی مارے گئے۔ حملے کے ٹھیک دو دن بعد یعنی آٹھ مارچ کو انگلینڈ میں رہنے والے بیس سالہ اظہر احمد نے اپنے Status پر لکھا کہ ''ان سب سولجرز کو مرجانا چاہیے اور مر کر جہنم میں جانا چاہیے جو افغانستان کے معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں کیوں کہ میڈیا صرف ان سولجرز سے ہمدردی کرتا ہے۔ کیوں ان غریبوں کی بات نہیں کرتا، جنھیں یہ لوگ روز مار رہے ہیں'' اظہر کی یہ پوسٹ اس کے چھ سو دوست دیکھ سکتے تھے۔ پوسٹ فیس بک پر ڈالتے ہی اس پر گرما گرمی شروع ہوگئی۔ مرنے والے سولجر کی ماں نے وہ کمنٹ پڑھ لیا اور پولیس کو فون کردیا۔
اظہر نے پوسٹ فیس بک سے ہٹادی لیکن پھر بھی اظہر پر صرف ایک فیس بک اسٹیٹس لکھنے پر کیس ہوگیا، پچھلے ہفتے اظہر احمد کی ہیوڈرس فیلڈ مجسٹریٹ کورٹ میں شنوائی ہوئی، جج نے انھیں کوئی جیل ٹائم نہیں دیا لیکن ان کی اِس غلطی پر تین سو پائونڈز جرمانہ اور 240 گھنٹے کمیونٹی ورک کی سزا سنائی۔
اگلے کچھ دن تک میڈیا میں اظہر کے کیس کو لے کر باتیں ہوتی رہیں، ''کہاں ہے فریڈم آف اسپیچ اگر ایک شخص فیس بک پر اپنے احساسات نہیں لکھ سکتا؟'' ''اظہر نے غلط کیا'' یا پھر ''اظہر نے بالکل صحیح کیا'' جیسی لمبی لمبی بحثیں۔ ایک بات یہ بھی اٹھائی جارہی تھی کہ اظہر کیونکہ مسلمان ہے اس لیے یہ بات اتنی اچھلی اگر کوئی گورا ایسی بات کرتا تو یہ درگزر ہوجاتی۔
اظہر احمد نے صحیح کہا یا غلط ہم اِس بحث میں نہیں پڑیں گے لیکن ایک بات جو ہم اِس سارے واقعے سے سمجھے وہ یہ کہ فیس بک آج ایک بہت بڑی طاقت ہے جس پر لکھی بات دور تک سفر کرسکتی ہے، پچھلے کچھ برسوں کی ترقی کی وجہ سے انسان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس کے پاس ایک پلیٹ فارم ایسا ہے جہاں سب برابر ہیں اور سب کو ایک جیسی سروسز مفت ملتی ہیں۔ اگر امریکا کی آرگنائزیشن، کمپنیز، فیس بک کی طاقت سمجھ کر اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ مانا پاکستان، انگلینڈ امریکا جیسی طاقتوں سے بہت پیچھے ہے لیکن فیس بک آج ہر عام پاکستانی کو یہ طاقت دیتا ہے کہ وہ اپنی آواز دنیا کے ایک بلین لوگوں تک پہنچاسکتا ہے۔ اپنے کچھ آسان Clicks سے پاکستان اور پاکستانیوں کی سوچ اور صحیح نقطۂ نظر دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ فیس بک بچوں کے لیے کھیل کا ذریعہ اور محض وقت کی بربادی ہے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اوباما کیمپین اپنی جیت کے لیے ٹوئیٹر، فیس بک جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر انحصار کررہی ہے۔ پاکستان کے ہر انسان کو سوچنا چاہیے کہ کیسے وہ اِن ایک بلین لوگوں کو اپنا بہتر امیج بنانے کے لیے کام میں لاسکتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک ایکسپرٹ آئی ٹی پروفیشنل سے ہماری پاکستان بات ہورہی تھی، انھوں نے بتایا کہ 70 فیصد پاکستانی انٹرنیٹ کو کھیل سمجھتے ہیں، یعنی وہ کوئی ویڈیو گیم کھیلیں یا انٹرنیٹ استعمال کریں، دونوں ان کے لیے ''کھیل'' ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انٹرنیٹ کی طاقت کو سمجھ کر اِس کھیل کود کو بند کریں اور فیس بک کو اپنے ملک اور معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے کے مشن میں لائیں۔