سو سال سے جاری جنگ قسط ششم
ترک وزارتِ خزانہ و خارجہ میں یہودی ماہرین و اکابرین کو اہم ذمے داریاں تفویض کی جاتی رہیں
KARACHI:
سن چودہ سو بیالیس میں شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے اسپین سے آخری مسلمان اور آخری یہودی ایک ساتھ نکالے گئے۔( یہ یہودی سفارڈک ( سفاری ) کے نام سے جانے جاتے ہیں اور یورپ میں بسنے والے اشکنازی یہودیوں کے مقابلے میں قدرے سانولے ہوتے ہیں )۔
بے دخل مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی منزل بحیرہ روم کے اس پار مراکش تھا۔بعد ازاں جب سلطنتِ عثمانیہ نے دم پکڑا تو یہودیوں کو مملکت کے مختلف علاقوں بشمول شام ، فلسطین اور استنبول میں بسنے اور کاروبار کی اجازت مل گئی۔سلطنت کی نگاہ میں ان کے اور مسلمان اکثریت کے حقوق میں کوئی فرق نہ تھا۔چنانچہ نہ صرف سفاری یہودی بلکہ یورپ کے مختلف علاقوں میں اکثریت کے ستم رسیدہ اشنکنازی بھی سلطنتِ عثمانیہ کا رخ کرنے لگے۔
ترک وزارتِ خزانہ و خارجہ میں یہودی ماہرین و اکابرین کو اہم ذمے داریاں تفویض کی جاتی رہیں۔وجہ یہ تھی کہ یورپ کے مالیاتی نیٹ ورک میں یہودی بینکاروں کا اثرونفوذ تھا اور اس ناتے وہ یورپی بادشاہتوں کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عثمانی حکمرانوں کے میڈیکل پینلز میں بھی یہودی ماہرینِ طب شامل تھے کیونکہ صحت کے شعبے میں یہودی طبیبوں کی شہرت دور دور تک تھی۔چنانچہ جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو سلطنتِ عثمانیہ میں آباد یہودی اقلیت کی ہمدردیاں اور وفاداریاں لامحالہ اپنی مملکت کے ساتھ تھیں۔
عثمانی فلسطین میں بیسویں صدی کے آغاز میں پچپن ہزار کے لگ بھگ یہودی بس رہے تھے، ان میں سے تقریباً چالیس ہزار روس اور مشرقی یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگ کر پچھلے بیس پچیس برس میں یہاں آباد تھے۔ان ھی مہاجروں میں ڈیوڈ گرن کا پولش خاندان بھی تھا جو انیس سو چھ میں یروشلم میں بسا۔ڈیوڈ گرن انیس سو گیارہ میں ترک زبان سیکھنے کے لیے سالونیکا پہنچا ( سالونیکا کمال اتاترک کی جنم بھومی ہے ) کیونکہ سالونیکا میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد مطمئن زندگی بسر کررہی تھی۔اگلے برس ڈیوڈ گرن کو استنبول یونیورسٹی کے شعبہِ قانون میں داخلہ مل گیا اور ایتزاک بن لیوی کی شکل میں ایک ذہین ہم جماعت اور دوست بھی۔ڈیوڈ گرن استنبول میں جزوقتی صحافت بھی کرتا رہا۔دورانِ تعلیم وہ ازمنہ وسطی کے ایک یہودی مورخ جوزف بن گوریان کے کام سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنا نام ڈیوڈ گرن سے بدل کے ڈیوڈ بن گوریان رکھ لیا۔
جب جنگ شروع ہوئی تو ڈیوڈ بن گوریان اور اس کا ہم جماعت بن زیوی یروشلم میں تھے۔دونوں نے مل کے حکومت کی جنگی مدد کے لیے چالیس یہودی نوجوانوں پر مشتمل دستہ تیار کیا۔تاہم بلادِ شام کے سخت گیر ترک گورنر جمال پاشا کا عرب گیر کریک ڈاؤن شروع ہوا تو بن گوریان اور بن زیوی بھی یروشلم چھوڑ کے قاہرہ منتقل ہوگئے۔مگر دونوں کی وفاداریاں بدستور عثمانیوں کے ساتھ رہیں۔قاہرہ سے دونوں امریکا چلے گئے اور پینتیس امریکی شہروں میں چندہ مہم شروع کردی تاکہ دس ہزار یہودی جوانوں کی ایک ملیشیا بنائی جا سکے جو ترکوں کے شانہ بشانہ لڑے۔
لیکن نومبر انیس سو سترہ میں جب برطانیہ نے اعلان نامہ بالفور جاری کیا جس میں جنگ کے بعد یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک قومی وطن کا وعدہ کیا گیا تو بن گوریان اور بن زیوی نے بھی بدلتے ہوئے زمینی حقائق بھانپتے ہوئے خائم ویزمین کی صیہونی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر دونوں دوست برٹش آرمی کے جیوش لیجن میں بھرتی ہوگئے۔جب دسمبر انیس سو سترہ میں فلسطین میں برطانوی فوج داخل ہوئی تو جیوش لیجن بھی اس کا حصہ تھی۔ (اکتیس برس بعد یہی خائم ویزمین اسرائیل کا پہلا صدر ، ڈیوڈ بن گوریان پہلا وزیرِ اعظم اور اس کا کلاس فیلو بن زیوی اسرائیل کا دوسرا صدر بنا )۔
گذشتہ قسط میں تذکرہ ہوچکا ہے کہ جب شریف حسین اور اس کے بیٹے فیصل کی قیادت میں عربوں کو ترکوں سے بھڑوا کر فرانس کے جارج پیکو اور برطانیہ کے سر مارک سائکس مشرقِ وسطی کی بندر بانٹ کے نقشے میں سرخ اور نیلی پنسل سے رنگ بھر رہے تھے تو فلسطین پر بھورا رنگ پھیرا گیا یعنی ابھی طے ہونا باقی ہے کہ یہ علاقہ بالاخر کسے ملے گا۔
روسی نژاد ہائم ویزمین صیہونی تحریک کا رہنما تو تھا ہی مگر اس کا اصل تعارف کیمسٹری ہے۔مانچسٹر میں مقیم اس سرکردہ سائنسداں کا شمار برطانیہ کی اشرافیہ میں تھا۔ صیہونی تحریک کے پیچھے روتھ چائلڈ خاندان کے مالی وسائل تھے جس کی بینکاری ہمیشہ یورپی بادشاہتوں کی آڑے وقت میں مدد کرتی آئی تھی۔ہائم ویزمین کی روتھ چائلڈ خاندان کے وارث والٹر سے گاڑھی چھنتی تھی اور والٹر روتھ چائلڈ کی وزیرِ اعظم ایکسوئتھ اور ان کے بعد بننے والے وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج اور وزیر خارجہ بالفور سے دانت کاٹے کی دوستی تھی۔
کیمسٹری میں ایک ایلیمنٹ ہوتا ہے ایسی ٹون جو قدرتی شکل میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے بیکٹیریل فرمنٹیشن کے ذریعے بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ایسی ٹون بے شمار کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔خائم ویزمین نے بس اتنا کیا کہ ایسی ٹون ، بوٹانول ، ایتھی نول ( یعنی اے بی ای ) کے ذریعے کورڈائٹ کی بڑی مقدار تیار کرنے کا انڈسٹریل فارمولا بنا دیا تاکہ گولیوں اور گولوں میں دھواں پیدا کرنے والے روائیتی گن پاؤڈر کے بجائے اسموک لیس کورڈائٹ کو استعمال کرکے بندوق کی گولی کو زیادہ موثر اور طویل المیعاد بنایا جاسکے۔اس پیش رفت نے جرمنوں کے مقابلے میں برطانیہ کی عسکری صلاحیت کو مزید موثر بنا دیا۔ہوسکتا ہے آج کی جنگی ٹیکنولوجی میں اس بات کی کوئی اہمیت نہ ہو لیکن سو برس پہلے یہ ایک انقلابی پیش رفت تھی۔ظاہر ہے اس احسان کے بعد اب برطانوی حکومت کی باری تھی کہ وہ خائم ویزمین سے پوچھے مانگ کیا مانگتا ہے۔
جون انیس سو سترہ میں خائم ویز مین اور والٹر روتھ چائلڈ برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور سے ملاقات کرتے ہیں تاکہ یہودیوں کی ایک قومی ریاست کے لیے برطانوی حمائیت کا رسمی اعلان ہو سکے۔اس ملاقات کے پانچ ماہ بعد دو نومبر انیس سو سترہ کو اعلان نامہ بالفور جاری ہوا۔ فلسطین ہنوز سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ ہیمگر لندن میں ایک فریق نے ( برطانیہ ) دوسرے فریق کو ( صیہونی ) تیسرے فریق کا ( عثمانی ) علاقہ ( فلسطین ) دینے کا وعدہ کرلیا۔اعلان نامہ بالفور کا مسودہ برطانوی دفترِ خارجہ کے کسی کلرک نے نہیں بلکہ مستقبل کے پہلے اسرائیلی صدر خائم ویزمین نے خود لکھا اور پھر یہ مسودہ لارڈ بالفور کے دستخطوں سے جاری ہوگیا۔لیکن واقعی ایسا ہی تھا کہ برطانیہ نے کیمسٹری کے ایک فارمولے کی قیمت میں فلسطین کو اسرائیل بنانے کا وعدہ کرلیا ؟ وہ برطانیہ ہی کیا جو ایک تیر سے تین شکار نہ کرے۔
بحر اوقیانوس کے اس پار امریکا تھا جس پر اپنی دنیا میں مست وڈرو ولسن کی حکومت تھی۔ولسن حکومت کا خیال تھا کہ جنگ یورپ کا اندرونی معاملہ ہے ہمارا کیا لینا دینا۔ امریکا میں بسنے والے آئرش اور جرمن نژاد امریکی اس تصور کے ہی خلاف تھے کہ امریکا غیر جانبداری ترک کر کے کسی ایک فریق کی حمائیت کرے اور وہ بھی برطانیہ کی۔
مگر جنگ کے دوسرے ہی برس انیس سو پندرہ میں جرمن یو بوٹس نے ایک برطانوی مسافر بردار جہاز لوسٹیانا کو ڈبو دیا۔اس پر ایک سو اٹھائیس امریکی بھی سوار تھے۔ چنانچہ امریکا بھی جنگ میں کود پڑا۔تاہم چند ماہ بعد امریکی رائے عامہ جنگی نقصانات اور معاشی دباؤ سے تنگ آنے لگی اور برطانیہ کو خدشہ ہوا کہ اگر ولسن جنگ سے نکل جاتے ہیں تو برطانیہ کی پوزیشن خاصی کمزور ہوجائے گی۔لہذا برطانیہ واشنگٹن میں ایسا اثرو رسوخ چاہتا تھا جو صدر وڈرو ولسن کو گائیڈ کرتا رہے۔
وڈرو ولسن قومی سلامتی کے معاملات میں اپنے دو مشیروں جیمز گیل ون اور لوئی برینڈائس پر خصوصی اعتماد کرتے تھے۔اور ان دونوں مشیروں کا والٹر روتھ چائلڈ سے دوستانہ تھا۔ان تینوں نے آخری دم تک کوشش کی کہ امریکا جنگ میں آخر تک شامل رہے۔یہ کوشش کامیاب رہی اور برطانیہ و فرانس نے ایک لاکھ دس ہزار امریکی فوجیوں کی قربانی اور مالی مدد سے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔
روس میں اگرچہ بالشویک انقلاب آچکا تھا مگر برطانیہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ روس جنگ سے نکلے۔برطانیہ کا خیال تھا کہ ٹراٹسکی سمیت کئی بالشویکی چونکہ یہودی نژاد ہیں لہذا انھیں ذرا سا بھی کھرچا جائے تو اندر سے اصل برآمد ہوجائے گا۔تاہم یہ تجزیہ غلط ثابت ہوا اور بالشویکوں نے انقلاب کے ایک ماہ بعد ہی نہ صرف جنگ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا بلکہ مشرقِ وسطی کی تقسیم کے سائکس پیکو معاہدے کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے میں پھوڑ ڈالا۔لیکن خوش قسمتی سے امریکا کے جنگ میں بدستور شامل رہنے کے سبب برطانیہ اور فرانس یہ روسی دھچکہ برداشت کر گئے۔
برطانوی وزیرِ اعظم لائڈ جارج اور وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور کو یہودیوں سے قومی وطن کا وعدہ کرنے میں اس لیے بھی کوئی اخلاقی پریشانی نہ تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بعد از جنگ ہندوستان سے برطانیہ تک براستہ میسو پوٹامیا و فلسطین جو راہداری بنے گی اس کے ایک سرے پر ایسی ریاست کا قیام ازحد مفید ہو گا جو نہ صرف وفادار ہو بلکہ احسان مند بھی رہے۔ ( داستان جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگرکالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پرکلک کیجیے )