حالیہ مری مذاکرات
دنیا بھرکے امن پسندوں کی جانب سے افغان حکام اور طالبان کے درمیان ملاقات کو امید بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے
PESHAWAR:
حالیہ مری مذاکرات کے حوالے سے انگریزی کے مشہورڈرامہ نگارجان گالز وردی کے شاہکار ڈرامہ ''اسٹرائف''کی یاد تازہ ہوگئی ہے، جس میں سرمایہ دار اور مزدور کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں بڑا بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بالآخر فریقوں کو معاملات طے کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پرآکر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مری مذاکرات کے لیے انتہائی کوششوں کے بعد پاکستان نے راہ ہموارکی اور تب جاکر یہ بیل منڈھے چڑھی، جس پر درج ذیل شعرصادق آتا ہے۔
لائے اُس بُت کو التجا کرکے
کُفر ٹُو ٹا خدا خدا کرکے
ان امن مذاکرات کا بنیادی مقصد افغانستان کے جنگی حالات کا خاتمہ کرنا اور پائیدار امن کو یقینی بنانا تھا، حالیہ مذاکرات کا سب سے اہم اور قابل توجہ پہلو یہ تھا کہ چین اور امریکا بھی ان میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے، جس کی وجہ سے ان کی افادیت اور اثرانگیزی دوچند ہوگئی کیوں کہ بین الاقوامی سیاست میں یہ دونوں قوتیں کلیدی کردار ادا کرنے کی حامل ہیں اور جس پلڑے میں ان کا وزن پڑے گا وہی بھاری ہوجائے گا۔
سرکاری ذرایع کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے ان مذاکرات میں صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداﷲ عبداﷲ، افغان امن کونسل کے نمایندے جب کہ افغان طالبان کی جانب سے چار رکنی وفد نے شرکت کی، مذاکرات میں طالبان پر افغانستان میں سیزفائر پر زور دینے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اگر مکمل جنگ بندی پر فی الحال اتفاق نہ بھی ہوسکے توکم از کم شہری علاقوں پر حملوں کا سلسلہ بند کیا جائے، اس کے علاوہ حالیہ مذاکرات میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا پر بھی غورکیا گیا۔
دنیا بھرکے امن پسندوں کی جانب سے افغان حکام اور طالبان کے درمیان ملاقات کو امید بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے اور انھیں ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے، باور کیا جاتا ہے کہ بات چیت کے اس عمل کے آگے بڑھنے کے نتیجے میں اس پورے خطے پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوںگے،آپ کو یاد ہوگا کہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ فروری میں کابل کے اپنے اہم دورے کے موقعے پر افغان حکام اور طالبان کے درمیان روابط کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں جس کے شہر ارومچی میں فریقین کے درمیان پہلا رابطہ قائم ہوا تھا ، اس اعتبار سے حالیہ اسلام آباد (مری) مذاکرات ان ہی مذاکرات کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان ان مذاکرات میں بطور ثالث ایک انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے وہ کم ہے۔
یاد رہے کہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کی تباہی کا ذمے دار القاعدہ کو قرار دیا تھا اور اس بنا پر افغانستان پر چڑھائی کردی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں نہ صرف القاعدہ کی شکست ہوئی بلکہ طالبان حکومت کا خاتمہ بھی ہوگیا، تاہم انھیں تمام تر فوجی قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے بل بوتے کے باوجود امریکا طالبان جنگجوؤں کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں ناکام ہوگیا اور وہ امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرکے انھیں ناکوں چنے چبواتے رہے۔
امریکا کو یہ زعم تھا کہ وہ جلد ہی افغان طالبان کا زور توڑنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن افغان طالبان نے امریکا کے اس گھمنڈ کو خاک میں ملادیا، جس کے نتیجے میں امریکا کو اس حقیقت کا ادراک کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ محض اپنی قوت اور ٹیکنالوجی کے بل پر افغان طالبان کا خاتمہ کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا افغانستان میں مستقل امن کے قیام کے لیے افغان طالبان کو کسی بھی قسم کے امن مذاکرات میں ایک اہم فریق کی حیثیت سے شامل اور شریک کرنا لازمی ہوگیا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے مری ملاقات کو خفیہ (Secret) ملاقات کے بجائے کھلی (Overt) ملاقات قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے حالیہ دورہ ناروے کے دوران اس موضوع پر ناروے کی وزیر کے ساتھ گفت و شنید میں بھی اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ مذاکرات کے اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بعض قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں لیکن ہمیں ان کی کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا، وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ذمے داری محض افغانستان اور پاکستان پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ذمے داری بین الاقوامی برادری کی بھی۔ دوسروں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ اس عمل کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا جائے۔
دنیا بھر کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں حالیہ مری مذاکرات کو قیام امن کے حوالے سے ایک اہم پہلے قدم کے طور پر دیکھا اور سمجھا جارہا ہے اور انھیں مستقبل میں افغانستان میں مستقل قیام امن کے حوالے سے بڑی اہمیت بھی دی جارہی ہے، تاہم ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے تمام تر نیک تمناؤں اور نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ محتاط امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں جس کا لفظی اظہار اس شعر کی صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
پاکستان نے ان مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے ایک سہولت کار کے طور پر ایک انتہائی اہم اور نازک کردار ادا کیا ہے جو کئی ماہ کی بے حد کٹھن اور پرخارکاوشوں پر محیط ہے اس سلسلے میں ہمارے سفارت کاروں اور دفتر خارجہ کے عملے کی روز وشب کی کاوشیں انتہائی لائق تحسین ہے۔
ان مذاکرات کا ایک اہم اور قابل تعریف پہلو یہ تھا کہ دوران گفتگو کسی بھی موقعے پرکوئی تلخی پیدا نہیں ہوئی اور فریقین نے اپنے اپنے موقف دلائل کے ساتھ پیش کیے اور جذباتیت کو کسی بھی موقعے پر آڑے نہیں آنے دیا، اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاتون نمایندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ان مذاکرات کے حوالے سے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ''مفاہمت ایک عمل کا نام ہے یہ کسی واقعے کا نام نہیں ہے۔''
امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے جو بیان جاری کیا گیا ہے تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے اسے مذاکرات کی اہمیت کے اعتراف سے موسوم کیا ہے۔
تاہم کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو اس بنا پر ان مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے بہت زیادہ پر امید دکھائی نہیں دے رہے کہ ان مذاکرات کو طالبان کے تمام دھڑوں کی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن تمام مشکلات اور دشواریوں کے باوجود پاکستانی اور بعض مغربی سفارت کار مری مذاکرات میں سینئر طالبان رہنماؤں کی شرکت کی بنیاد پر ان مذاکرات کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں، ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات سے صدر اشرف غنی کی حکومت کی طالبان پالیسی کو کافی تقویت حاصل ہوگی۔
ان مذاکرات کی کامیابی کے مثبت اثرات پاکستان پر براہ راست مرتب ہوں گے، چنانچہ ایک پڑوسی برادر ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی انتہائی پرخلوص کوشش یہی ہے کہ افغانستان میں ہر صورت مستقل اور پائیدار امن قائم ہو تاکہ نہ صرف وہاں کے پریشان حال عوام سکھ کا سانس لے سکیں بلکہ اس پورے خطے کے لوگ بھی امن و سکون اور ترقی کے ثمرات سے بہر ور ہوسکیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ فریقین دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منفی رویہ ترک کرکے ایسے مطالبات کرنے سے گریزکریں جو راستے کی رکاوٹ ہوں۔
حالیہ مری مذاکرات کے حوالے سے انگریزی کے مشہورڈرامہ نگارجان گالز وردی کے شاہکار ڈرامہ ''اسٹرائف''کی یاد تازہ ہوگئی ہے، جس میں سرمایہ دار اور مزدور کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں بڑا بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بالآخر فریقوں کو معاملات طے کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پرآکر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مری مذاکرات کے لیے انتہائی کوششوں کے بعد پاکستان نے راہ ہموارکی اور تب جاکر یہ بیل منڈھے چڑھی، جس پر درج ذیل شعرصادق آتا ہے۔
لائے اُس بُت کو التجا کرکے
کُفر ٹُو ٹا خدا خدا کرکے
ان امن مذاکرات کا بنیادی مقصد افغانستان کے جنگی حالات کا خاتمہ کرنا اور پائیدار امن کو یقینی بنانا تھا، حالیہ مذاکرات کا سب سے اہم اور قابل توجہ پہلو یہ تھا کہ چین اور امریکا بھی ان میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے، جس کی وجہ سے ان کی افادیت اور اثرانگیزی دوچند ہوگئی کیوں کہ بین الاقوامی سیاست میں یہ دونوں قوتیں کلیدی کردار ادا کرنے کی حامل ہیں اور جس پلڑے میں ان کا وزن پڑے گا وہی بھاری ہوجائے گا۔
سرکاری ذرایع کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے ان مذاکرات میں صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداﷲ عبداﷲ، افغان امن کونسل کے نمایندے جب کہ افغان طالبان کی جانب سے چار رکنی وفد نے شرکت کی، مذاکرات میں طالبان پر افغانستان میں سیزفائر پر زور دینے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اگر مکمل جنگ بندی پر فی الحال اتفاق نہ بھی ہوسکے توکم از کم شہری علاقوں پر حملوں کا سلسلہ بند کیا جائے، اس کے علاوہ حالیہ مذاکرات میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا پر بھی غورکیا گیا۔
دنیا بھرکے امن پسندوں کی جانب سے افغان حکام اور طالبان کے درمیان ملاقات کو امید بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے اور انھیں ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے، باور کیا جاتا ہے کہ بات چیت کے اس عمل کے آگے بڑھنے کے نتیجے میں اس پورے خطے پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوںگے،آپ کو یاد ہوگا کہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ فروری میں کابل کے اپنے اہم دورے کے موقعے پر افغان حکام اور طالبان کے درمیان روابط کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں جس کے شہر ارومچی میں فریقین کے درمیان پہلا رابطہ قائم ہوا تھا ، اس اعتبار سے حالیہ اسلام آباد (مری) مذاکرات ان ہی مذاکرات کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان ان مذاکرات میں بطور ثالث ایک انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے وہ کم ہے۔
یاد رہے کہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کی تباہی کا ذمے دار القاعدہ کو قرار دیا تھا اور اس بنا پر افغانستان پر چڑھائی کردی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں نہ صرف القاعدہ کی شکست ہوئی بلکہ طالبان حکومت کا خاتمہ بھی ہوگیا، تاہم انھیں تمام تر فوجی قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے بل بوتے کے باوجود امریکا طالبان جنگجوؤں کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں ناکام ہوگیا اور وہ امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرکے انھیں ناکوں چنے چبواتے رہے۔
امریکا کو یہ زعم تھا کہ وہ جلد ہی افغان طالبان کا زور توڑنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن افغان طالبان نے امریکا کے اس گھمنڈ کو خاک میں ملادیا، جس کے نتیجے میں امریکا کو اس حقیقت کا ادراک کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ محض اپنی قوت اور ٹیکنالوجی کے بل پر افغان طالبان کا خاتمہ کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا افغانستان میں مستقل امن کے قیام کے لیے افغان طالبان کو کسی بھی قسم کے امن مذاکرات میں ایک اہم فریق کی حیثیت سے شامل اور شریک کرنا لازمی ہوگیا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے مری ملاقات کو خفیہ (Secret) ملاقات کے بجائے کھلی (Overt) ملاقات قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے حالیہ دورہ ناروے کے دوران اس موضوع پر ناروے کی وزیر کے ساتھ گفت و شنید میں بھی اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ مذاکرات کے اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بعض قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں لیکن ہمیں ان کی کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا، وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ذمے داری محض افغانستان اور پاکستان پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ذمے داری بین الاقوامی برادری کی بھی۔ دوسروں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ اس عمل کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا جائے۔
دنیا بھر کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں حالیہ مری مذاکرات کو قیام امن کے حوالے سے ایک اہم پہلے قدم کے طور پر دیکھا اور سمجھا جارہا ہے اور انھیں مستقبل میں افغانستان میں مستقل قیام امن کے حوالے سے بڑی اہمیت بھی دی جارہی ہے، تاہم ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے تمام تر نیک تمناؤں اور نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ محتاط امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں جس کا لفظی اظہار اس شعر کی صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
پاکستان نے ان مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے ایک سہولت کار کے طور پر ایک انتہائی اہم اور نازک کردار ادا کیا ہے جو کئی ماہ کی بے حد کٹھن اور پرخارکاوشوں پر محیط ہے اس سلسلے میں ہمارے سفارت کاروں اور دفتر خارجہ کے عملے کی روز وشب کی کاوشیں انتہائی لائق تحسین ہے۔
ان مذاکرات کا ایک اہم اور قابل تعریف پہلو یہ تھا کہ دوران گفتگو کسی بھی موقعے پرکوئی تلخی پیدا نہیں ہوئی اور فریقین نے اپنے اپنے موقف دلائل کے ساتھ پیش کیے اور جذباتیت کو کسی بھی موقعے پر آڑے نہیں آنے دیا، اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاتون نمایندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ان مذاکرات کے حوالے سے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ''مفاہمت ایک عمل کا نام ہے یہ کسی واقعے کا نام نہیں ہے۔''
امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے جو بیان جاری کیا گیا ہے تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے اسے مذاکرات کی اہمیت کے اعتراف سے موسوم کیا ہے۔
تاہم کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو اس بنا پر ان مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے بہت زیادہ پر امید دکھائی نہیں دے رہے کہ ان مذاکرات کو طالبان کے تمام دھڑوں کی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن تمام مشکلات اور دشواریوں کے باوجود پاکستانی اور بعض مغربی سفارت کار مری مذاکرات میں سینئر طالبان رہنماؤں کی شرکت کی بنیاد پر ان مذاکرات کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں، ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات سے صدر اشرف غنی کی حکومت کی طالبان پالیسی کو کافی تقویت حاصل ہوگی۔
ان مذاکرات کی کامیابی کے مثبت اثرات پاکستان پر براہ راست مرتب ہوں گے، چنانچہ ایک پڑوسی برادر ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی انتہائی پرخلوص کوشش یہی ہے کہ افغانستان میں ہر صورت مستقل اور پائیدار امن قائم ہو تاکہ نہ صرف وہاں کے پریشان حال عوام سکھ کا سانس لے سکیں بلکہ اس پورے خطے کے لوگ بھی امن و سکون اور ترقی کے ثمرات سے بہر ور ہوسکیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ فریقین دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منفی رویہ ترک کرکے ایسے مطالبات کرنے سے گریزکریں جو راستے کی رکاوٹ ہوں۔