برائے فروخت
امریکی سیاست میں یہ ’ڈونرز،ڈونیشنزاور فنڈ ریزنگ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں
KARACHI:
''میں اسرائیل کے لیے اوباما سے بہتر صدر ثابت ہو سکتی ہوں۔''یہ کہنا ہے2016کے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹس کی نامزد صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری کِلنٹن کا۔آپ کا شماراہم امریکی سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔آنے والے صدارتی انتخابات کے لیے آپ ایک اہم امیدوار ہیں۔آپ1993سے2001 تک امریکا کی خاتونِ اول بھی رہی ہیں۔
یہ امریکا میں بِل کِلنٹن کا صدراتی دور تھا۔ موجودہ صدر اوباما کی انتظامیہ میں آپ ''اسٹیٹ سیکریٹری''جیسے اہم منصب پر 2009 سے2013تک فائز رہیں۔ روزنامہ یروشلم پوسٹ اپنی4جولائی کی اشاعت میں ہلیری کِلنٹن کی ایک حالیہ میٹنگ کا احوال بیان کرتا ہے جس میں20 بڑے یہودی ''ڈونرز'' شریک تھے۔
امریکی سیاست میں یہ 'ڈونرز،ڈونیشنزاور فنڈ ریزنگ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ اِن کے بغیر انتخابات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور صرف امریکا ہی پرکیا منحصر کسی بھی جمہوریہ میں بغیر''چمک'' کے کوئی بھی انتخابات میں کامیابی توکُجا شمولیت بھی اختیار نہیں کر سکتا۔عوام کے لیے ،عوام کے ذریعے، عوام کی حکومت ،ایک اچھا آدرش ہوسکتا ہے لیکن اصلاًیہ حقیقت سے کوسوں دورہے۔کسی بھی جمہوریہ کے انتخابی اخراجات بلا مبالغہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو ''سرمائے کے ذریعے، سرمائے کے لیے ''ہوتی ہے۔امریکا میں وہ ہی صدر بن سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ''فنڈ ریز'' کرسکے، سرمایہ جمع کر سکے۔اب ظاہرہے یہ سرمایا کنگلے عوام تو دینے سے رہے ۔بلینئیر سرمایا دار ہی سیاست دانوں کو یہ سرمایا فراہم کرتے ہیں۔
مزید یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کہ وہ کروڑوں ڈالر کی یہ سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں؟عوامی فلاح و بہبود کے لیے یا سرمائے کی بڑھوتری کے لیے؟2016کی صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری بھی سرمایا جمع کرنے کی مہم میں سرگرداں ہیں۔آپ کا اِس برس کا ہدف100ملین ڈالر کا ہے ۔آپ نے اب تک45ملین ڈالر کی ریکارڈ ''فنڈ ریزنگ'' کی ہے۔کسی بھی صدارتی امیدوار کا یہ اب تک کا ریکارڈ ہے۔
سو یہ اِسی طرح کی ایک میٹنگ تھی جس میں امریکا کے 20بڑے یہودی ''ڈونرز'' شریک تھے۔ آپ نے انھیں یقین دلاتے ہوئے اسرائیلی رہنماؤں سے اپنی مسلسل ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا اورکہا کہ''سیاست کاری ذاتی تعلقات کانام ہے اور میرے ذاتی تعلقات بھی ہیں۔''اِسی میٹنگ کے دوران محترمہ نے یہ اعلان کیا کہ''میں اسرائیل کے لیے اوباما سے بہترصدر ثابت ہوسکتی ہوں'' دوسری جانب روزنامہ ''دی یروشلم پوسٹ''نے 50 بااثر یہودیوں کا انٹرویوکیا اُس میں ''ہائم سبان'' بھی شامل ہیں یہ ایک ارب پتی ''میڈیا مغل ''ہیں۔
آپ نے روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ''ہلیری اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے والی ایک ثابت قدم خاتون ہیں۔یہ امریکا کے لیے ایک عمدہ صدر ہوں گی،دنیا کے لیے ایک بے مثل رہنما،وہ جس کی قیادت میں امریکا اسرائیل تعلقات مستحکم ہوں گے۔''
''جب ہم وائٹ ہاؤس سے نکلے تو قریباً قلاش تھے''ہلیری کلنٹن نے 12جون2014کو ''فوکس نیوز'' کو بتایا۔یہ بات درست ہے کیو نکہ جب بِل اور ہلیری کلنٹن قصر صدارت سے باہر آئے تو وہ اصطلاحاً مقروض تھے۔ 2000میں انھوں نے جوگوشوارے جمع کروائے تھے اُن کے مطابق اثاثہ جات781000سے1.8ملین ڈالر کے قریب تھے اور انھیں جو ادائیگیاں کرنی تھیں وہ2.3ملین اور10.6ملین ڈالر کے قریب تھیں ،لیکن یہ حالت حیرت انگیز تیزی سے تبدیل ہوئی۔
اگرچہ ہلیری وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہی سینیٹ میں شامل ہوئیں۔یہاں آپ کی تن خواہ145000ڈالر تھی نیز شوہر کی پنشن150000ڈالر۔ہلیری بتاتی ہیں کہ انھوں نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بِل کلنٹن نے بہتر مالی حالت کے لیے شدید محنت اور جدوجہد کی۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ امریکا میں بیش تر افراد ناںِ جویں کے لیے شدید مشقت جھیل رہے ہوتے ہیں۔
اُن کے حصے میں100ملین ڈالر کے اثاثہ جات کیوں نہیں آجاتے؟ 2009 میں بلَ کلنٹن واشنگٹن میں ''پروگریسیو'' اسٹوڈنٹس کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں''میں نے کبھی پیسے نہیں کمائے۔میں آمدنی کے لحاظ سے گزشتہ 100برس کا غریب ترین صدر تھا۔
صدر باراک اوباما سمیت۔جب میں نے عہدہ صدارت سنبھالا تو ایک غریب فرد تھا۔لیکن عہدِ صدارت چھوڑنے کے بعد میں نے بہت پیسہ بنایا''۔یہ بہت کتنا ہے،ہماری تو خیر بات ہی رہنے دیں اچھے اچھے کھاتے پیتے امریکیوں کے لیے بھی یہ بہت زیادہ ہے۔111ملین ڈالر2000ء سے 2007ء کے مختصر عرصے میں بل اور ہلیری کلنٹن کی آمدن۔اُس پر بھی مادام ہلیری کو شکوہ ہے کہ وہ متمول نہیں ہیں۔ گزشتہ برس ایک انٹرویو میں آپ نے کہا تھا کہ آپ دیگرکئی افراد کی مانند امیر نہیں ہیں۔
29جون 2014کو امریکی الجزیرہ ایک مضمون شایع کرتا ہے اور چند اہم سوالات اُٹھاتا ہے۔ مثلاً1999 میں جب بلِ کلنٹن نے 1933کا ''گلاس اسٹیگل ایکٹ''منسوخ کیا،تو اِس کا سب سے زیادہ فائدہ کہتے ہیں کہ ''سٹی گروپ'' کو ہوا۔ اِس ایکٹ نے کمرشل اور انویسٹمنٹ بینکنگ کو جدا جدا کر دیا تھا۔ ابھی منسوخی کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ کلنٹن کے ٹریژری سیکریٹری رابرٹ رُوبن کو سٹی گروپ ایگزیکٹو کی ملازمت دے دیتا ہے اور یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ مشاہرہ پانے والے ملازمین میں سے ایک بن جاتے ہیں۔
1999سے2008تک کا آپ کا مشاہرہ 115ملین ڈالر بنا۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ وال اسٹریٹ کی ڈی ریگولیشن سے رُوبن امیر ہوا ۔فروری 2001میں جب کہ بِل کلنٹن کواپنے صدارتی عہدے سے سُبکدوش ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا۔بِل کلنٹن اپنی پہلی اُجرتی تقریرکرتے ہیں۔مورگن اسٹینلے کے لیے۔ یہ ادارہ بھی ایکٹ کی منسوخی کے حمایت کنندگان اورفوائد سمیٹنے والوں میں سے ایک تھا اور اب اندازہ کیجیے کہ ایک تقریر کا مشاہرہ کیا دیا گیا ہوگا۔125000ڈالر۔جی ہاں پھر تو یہ سلسلہ چل پڑا۔کلنٹن صاحب کے اکاؤنٹ میں ڈیجٹ بڑھتے چلے گئے۔
عین ایسا ہی ہلیری کِلنٹن صاحبہ کے ساتھ ہوا۔جب وہ بطور اوباما انتظامیہ کی اہم ترین سفیر کے اسٹیٹ سیکریٹری کے فرائض کی چار سالہ ادائیگی کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ساتویں منزل پر اپنا سامان باندھ رہی تھیں تو اکثر نے یہ سمجھا کہ بطور پبلک آفیشل یہ اُن کا آخری کام ہے۔ کسی کو کیا پتا تھا کہ کام تو اب شروع ہوا ہے۔ہلیری بی بی نے بڑے بڑے گروپس،ٹائکنز اور ٹائٹنز کے لیے تقاریر شروع کر دیں۔ فی منٹ ہزاروں ڈالر کمانے لگیں۔ایک ایک لیکچر کا معاوضہ سکس ڈیجٹ سے کم کسی طرح نہ تھا۔کُل ِمل ِملا کر10.2ملین ڈالر تقاریر کا معاوضہ ادا کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ان تقاریر میں ایسا کیا ہوتا ہے جس کا اتنا زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔یہ کون سا علم ہے جو ہزاروں ڈالر فی منٹ کی قیمت سے تقسیم کیا جاتا ہے؟کیا کبھی انسانی تاریخ میں علم کی تقسیم کا یہ طریقہ اختیارکیا گیا؟یہ علم کا معاوضہ ہے یا رشوت؟کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ ہلیری اور کلنٹن جیسے سیاست کاروں سے کہیں زیادہ علم والوںکواِس سے نصف معاوضے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟
سیاست کے ادنیٰ طالب علم بھی اِس امر سے بہ خوبی واقف ہوں گے کہ یہ تمام ادائیگیاں فی سبیل اللہ نہیں ہو رہی ہوتیں۔یہ سرمایا کاری ہے جو ادا کرنے والے سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ہلیری اور بل کلنٹن نے وہی راستہ اختیارکیا جو اُن کے پیش رواختیار کرتے آئے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ سادہ عوام کیوں یہ امید باندھے رہتی ہے کہ یہ سیاست کار اُن کے نمایندے ہیں اور اُن کے لیے کام کریں گے؟
''میں اسرائیل کے لیے اوباما سے بہتر صدر ثابت ہو سکتی ہوں۔''یہ کہنا ہے2016کے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹس کی نامزد صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری کِلنٹن کا۔آپ کا شماراہم امریکی سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔آنے والے صدارتی انتخابات کے لیے آپ ایک اہم امیدوار ہیں۔آپ1993سے2001 تک امریکا کی خاتونِ اول بھی رہی ہیں۔
یہ امریکا میں بِل کِلنٹن کا صدراتی دور تھا۔ موجودہ صدر اوباما کی انتظامیہ میں آپ ''اسٹیٹ سیکریٹری''جیسے اہم منصب پر 2009 سے2013تک فائز رہیں۔ روزنامہ یروشلم پوسٹ اپنی4جولائی کی اشاعت میں ہلیری کِلنٹن کی ایک حالیہ میٹنگ کا احوال بیان کرتا ہے جس میں20 بڑے یہودی ''ڈونرز'' شریک تھے۔
امریکی سیاست میں یہ 'ڈونرز،ڈونیشنزاور فنڈ ریزنگ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ اِن کے بغیر انتخابات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور صرف امریکا ہی پرکیا منحصر کسی بھی جمہوریہ میں بغیر''چمک'' کے کوئی بھی انتخابات میں کامیابی توکُجا شمولیت بھی اختیار نہیں کر سکتا۔عوام کے لیے ،عوام کے ذریعے، عوام کی حکومت ،ایک اچھا آدرش ہوسکتا ہے لیکن اصلاًیہ حقیقت سے کوسوں دورہے۔کسی بھی جمہوریہ کے انتخابی اخراجات بلا مبالغہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو ''سرمائے کے ذریعے، سرمائے کے لیے ''ہوتی ہے۔امریکا میں وہ ہی صدر بن سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ''فنڈ ریز'' کرسکے، سرمایہ جمع کر سکے۔اب ظاہرہے یہ سرمایا کنگلے عوام تو دینے سے رہے ۔بلینئیر سرمایا دار ہی سیاست دانوں کو یہ سرمایا فراہم کرتے ہیں۔
مزید یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کہ وہ کروڑوں ڈالر کی یہ سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں؟عوامی فلاح و بہبود کے لیے یا سرمائے کی بڑھوتری کے لیے؟2016کی صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری بھی سرمایا جمع کرنے کی مہم میں سرگرداں ہیں۔آپ کا اِس برس کا ہدف100ملین ڈالر کا ہے ۔آپ نے اب تک45ملین ڈالر کی ریکارڈ ''فنڈ ریزنگ'' کی ہے۔کسی بھی صدارتی امیدوار کا یہ اب تک کا ریکارڈ ہے۔
سو یہ اِسی طرح کی ایک میٹنگ تھی جس میں امریکا کے 20بڑے یہودی ''ڈونرز'' شریک تھے۔ آپ نے انھیں یقین دلاتے ہوئے اسرائیلی رہنماؤں سے اپنی مسلسل ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا اورکہا کہ''سیاست کاری ذاتی تعلقات کانام ہے اور میرے ذاتی تعلقات بھی ہیں۔''اِسی میٹنگ کے دوران محترمہ نے یہ اعلان کیا کہ''میں اسرائیل کے لیے اوباما سے بہترصدر ثابت ہوسکتی ہوں'' دوسری جانب روزنامہ ''دی یروشلم پوسٹ''نے 50 بااثر یہودیوں کا انٹرویوکیا اُس میں ''ہائم سبان'' بھی شامل ہیں یہ ایک ارب پتی ''میڈیا مغل ''ہیں۔
آپ نے روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ''ہلیری اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے والی ایک ثابت قدم خاتون ہیں۔یہ امریکا کے لیے ایک عمدہ صدر ہوں گی،دنیا کے لیے ایک بے مثل رہنما،وہ جس کی قیادت میں امریکا اسرائیل تعلقات مستحکم ہوں گے۔''
''جب ہم وائٹ ہاؤس سے نکلے تو قریباً قلاش تھے''ہلیری کلنٹن نے 12جون2014کو ''فوکس نیوز'' کو بتایا۔یہ بات درست ہے کیو نکہ جب بِل اور ہلیری کلنٹن قصر صدارت سے باہر آئے تو وہ اصطلاحاً مقروض تھے۔ 2000میں انھوں نے جوگوشوارے جمع کروائے تھے اُن کے مطابق اثاثہ جات781000سے1.8ملین ڈالر کے قریب تھے اور انھیں جو ادائیگیاں کرنی تھیں وہ2.3ملین اور10.6ملین ڈالر کے قریب تھیں ،لیکن یہ حالت حیرت انگیز تیزی سے تبدیل ہوئی۔
اگرچہ ہلیری وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہی سینیٹ میں شامل ہوئیں۔یہاں آپ کی تن خواہ145000ڈالر تھی نیز شوہر کی پنشن150000ڈالر۔ہلیری بتاتی ہیں کہ انھوں نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بِل کلنٹن نے بہتر مالی حالت کے لیے شدید محنت اور جدوجہد کی۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ امریکا میں بیش تر افراد ناںِ جویں کے لیے شدید مشقت جھیل رہے ہوتے ہیں۔
اُن کے حصے میں100ملین ڈالر کے اثاثہ جات کیوں نہیں آجاتے؟ 2009 میں بلَ کلنٹن واشنگٹن میں ''پروگریسیو'' اسٹوڈنٹس کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں''میں نے کبھی پیسے نہیں کمائے۔میں آمدنی کے لحاظ سے گزشتہ 100برس کا غریب ترین صدر تھا۔
صدر باراک اوباما سمیت۔جب میں نے عہدہ صدارت سنبھالا تو ایک غریب فرد تھا۔لیکن عہدِ صدارت چھوڑنے کے بعد میں نے بہت پیسہ بنایا''۔یہ بہت کتنا ہے،ہماری تو خیر بات ہی رہنے دیں اچھے اچھے کھاتے پیتے امریکیوں کے لیے بھی یہ بہت زیادہ ہے۔111ملین ڈالر2000ء سے 2007ء کے مختصر عرصے میں بل اور ہلیری کلنٹن کی آمدن۔اُس پر بھی مادام ہلیری کو شکوہ ہے کہ وہ متمول نہیں ہیں۔ گزشتہ برس ایک انٹرویو میں آپ نے کہا تھا کہ آپ دیگرکئی افراد کی مانند امیر نہیں ہیں۔
29جون 2014کو امریکی الجزیرہ ایک مضمون شایع کرتا ہے اور چند اہم سوالات اُٹھاتا ہے۔ مثلاً1999 میں جب بلِ کلنٹن نے 1933کا ''گلاس اسٹیگل ایکٹ''منسوخ کیا،تو اِس کا سب سے زیادہ فائدہ کہتے ہیں کہ ''سٹی گروپ'' کو ہوا۔ اِس ایکٹ نے کمرشل اور انویسٹمنٹ بینکنگ کو جدا جدا کر دیا تھا۔ ابھی منسوخی کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ کلنٹن کے ٹریژری سیکریٹری رابرٹ رُوبن کو سٹی گروپ ایگزیکٹو کی ملازمت دے دیتا ہے اور یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ مشاہرہ پانے والے ملازمین میں سے ایک بن جاتے ہیں۔
1999سے2008تک کا آپ کا مشاہرہ 115ملین ڈالر بنا۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ وال اسٹریٹ کی ڈی ریگولیشن سے رُوبن امیر ہوا ۔فروری 2001میں جب کہ بِل کلنٹن کواپنے صدارتی عہدے سے سُبکدوش ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا۔بِل کلنٹن اپنی پہلی اُجرتی تقریرکرتے ہیں۔مورگن اسٹینلے کے لیے۔ یہ ادارہ بھی ایکٹ کی منسوخی کے حمایت کنندگان اورفوائد سمیٹنے والوں میں سے ایک تھا اور اب اندازہ کیجیے کہ ایک تقریر کا مشاہرہ کیا دیا گیا ہوگا۔125000ڈالر۔جی ہاں پھر تو یہ سلسلہ چل پڑا۔کلنٹن صاحب کے اکاؤنٹ میں ڈیجٹ بڑھتے چلے گئے۔
عین ایسا ہی ہلیری کِلنٹن صاحبہ کے ساتھ ہوا۔جب وہ بطور اوباما انتظامیہ کی اہم ترین سفیر کے اسٹیٹ سیکریٹری کے فرائض کی چار سالہ ادائیگی کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ساتویں منزل پر اپنا سامان باندھ رہی تھیں تو اکثر نے یہ سمجھا کہ بطور پبلک آفیشل یہ اُن کا آخری کام ہے۔ کسی کو کیا پتا تھا کہ کام تو اب شروع ہوا ہے۔ہلیری بی بی نے بڑے بڑے گروپس،ٹائکنز اور ٹائٹنز کے لیے تقاریر شروع کر دیں۔ فی منٹ ہزاروں ڈالر کمانے لگیں۔ایک ایک لیکچر کا معاوضہ سکس ڈیجٹ سے کم کسی طرح نہ تھا۔کُل ِمل ِملا کر10.2ملین ڈالر تقاریر کا معاوضہ ادا کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ان تقاریر میں ایسا کیا ہوتا ہے جس کا اتنا زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔یہ کون سا علم ہے جو ہزاروں ڈالر فی منٹ کی قیمت سے تقسیم کیا جاتا ہے؟کیا کبھی انسانی تاریخ میں علم کی تقسیم کا یہ طریقہ اختیارکیا گیا؟یہ علم کا معاوضہ ہے یا رشوت؟کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ ہلیری اور کلنٹن جیسے سیاست کاروں سے کہیں زیادہ علم والوںکواِس سے نصف معاوضے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟
سیاست کے ادنیٰ طالب علم بھی اِس امر سے بہ خوبی واقف ہوں گے کہ یہ تمام ادائیگیاں فی سبیل اللہ نہیں ہو رہی ہوتیں۔یہ سرمایا کاری ہے جو ادا کرنے والے سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ہلیری اور بل کلنٹن نے وہی راستہ اختیارکیا جو اُن کے پیش رواختیار کرتے آئے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ سادہ عوام کیوں یہ امید باندھے رہتی ہے کہ یہ سیاست کار اُن کے نمایندے ہیں اور اُن کے لیے کام کریں گے؟