بیمار قوم

پاکستان میں صحت کا شعبہ انتہائی پستی کا شکار ہے۔ خاص طور پر سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے

shabbirarman@yahoo.com

پاکستان میں صحت کا شعبہ انتہائی پستی کا شکار ہے۔ خاص طور پر سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، سرکاری اسپتالوں میں من پسند تعیناتیوں نے انتظامی امور مفلوج کردیے ہیں، علم الادویہ کا شعبہ نظر انداز کردیاگیا ہے، ملک میں غیرملکی مصنوعی اور غیر معیاری ملٹی وٹامن دواؤں کی کھلے عام فروخت جاری ہے، بازاروں میں جان بچانے والی دوائیں ناپید ہوگئی ہیں، بچوں کو امراض سے محفوظ رکھنے والی ویکسیئن کی قلت پائی جاتی ہے، ملک میں انسداد پولیو مہم نتائج حاصل نہ کرسکی۔

ملک میں وائرل بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور متعدی امراض بے قابو ہورہے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولتیں 30فیصد رہ گئی ہیں، نجی اسپتال صنعت کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، سارک ممالک میں سب سے کمزور نظام صحت پاکستان کا ہے، تھر میں بچے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں، عوام صحت کی بنیادی سہولتوں سے دن بہ دن محروم ہوتے جارہے ہیں، 70 فی صد مریض علاج کے لیے نجی اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لیے جدید طبی تعلیم اور تربیت کا انتظام نہیں ہے، قومی بجٹ میں شعبہ صحت کے لیے صرف 2.2 فی صد حصہ مختص ہے۔

پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بچوں میں شرح اموات 95.2 فی ہزار ہے، آبادی کا ایک بڑا حصہ پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولتوں سے محروم ہے، ہر سال 30 ہزار خواتین حمل سے متعلق پیچیدگیوں سے موت کا شکار ہورہی ہیں، منہ کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ٹی بی سے سالانہ ہلاکتوں میں شرح اموات 177 فی لاکھ ہے، ہر سال ملیریا کے 5 لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔

ملک میں دل گردوں اور کینسر کی بیماریوں میں اضافہ ہورہاہے، ہیپا ٹائٹس بی اور سی ہولناک صورت اختیار کررہاہے، ملک میں 80 ہزار افراد ایڈزکا شکار ہیں، آبادی کا 2 فی صد حصہ نابینا ہے، 11 فی صد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کی پالیسی کمزور ہے، 6 لاکھ سے زائد عطائی ڈاکٹر غریبوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں، حکومت کینسر اور جنسی بیماریوں کے لیے کرشماتی دواؤں کی روک تھام کے لیے ڈرگ پالیسی بنانے میں ناکام ہے۔

امراض نسواں کی بیماری فیٹیولا خواتین میں پائے جانے والی بیماری ہے، یہ خواتین کی ایسی بیماری ہے جس سے نہ صرف بچا جاسکتا ہے بلکہ اس کا موثر علاج بھی ممکن ہے، مگر افسوس! پاکستان میں سالانہ ہزاروں خواتین اس بیماری کے باعث معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، فیٹیولا زچگی کا دورانیہ طویل ہونے سے ہوتی ہے، خواتین مرض لاحق ہونے پر الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

بلند فشار خون خاموش قاتل ہے، پاکستان کی نصف آبادی کسی نہ کسی حد تک بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا ہے، رپورٹ کے مطابق 30 سال کی 30 فی صد اور 50 سال عمر کی 50 فی صد آبادی اس مرض میں مبتلا ہورہی ہیں، بچوں کی 5 فی صد آبادی بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا ہورہی ہے اگر اس بیماری کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، ماہر اعصابی امراض کہتے ہیں کہ پاکستان میں 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں، مرگی قابل علاج ہے لیکن مریضوں کی کثیر تعداد علاج سے محروم رہتی ہے پاکستان میں 15200 مرگی کے مریضوں کے لیے صرف ایک نیورولوجسٹ ہے، زیادہ تر اس مرض کے علاج میں مہارت نہیں رکھتے، پاکستان میں 18 کروڑ عوام کے لیے صرف 135 نیورولوجسٹ موجود ہیں۔

ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں ہر سال 40 ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اس بیماری کی منتقلی میں موروثیت کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


طبی ماہرین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ مرد اور خواتین جوڑوں میں درد کے علاوہ دیگر بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں، بڑی عمر کے لوگ کیلشیم کی کمی کے باعث ہڈیوں کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے میں بروقت طبی رہنماؤں اور علاج کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ اور دہی کے استعمال سے ہڈیوں کی بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہڈیوں کے علاج کے لیے کمہار اور پہلوان لوگوں کو معذوری کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ماہرین طب کا کہناہے کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں، حالیہ تحقیق کے مطابق ہر سال 3 ملین ماؤں اور بچوں کی اموات کو تدابیر کی مدد سے روکا جاسکتا ہے، اگر زچگی کے وقت اضافی دیکھ بھال کی جائے تو نہ صرف ماؤں اور بچوں کی زندگی کو تحفظ حاصل ہوگا بلکہ مردہ بچوں کی پیدائش میں بھی کمی واقع ہوگی،کمزور اور بیمار پیدا ہونے والے بچوں کی خصوصی دیکھ بھال اگلا اہم قدم ہے، ماؤں کا غذائی اہمیت سے آگاہ نہ ہونے پر کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوگیا ہے۔

حاملہ خواتین کو اپنی غذا کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ اپنے جسم میں پلنے والے بچے کی غذا کا بھی خیال رکھنا چاہیے اگر اس غذا کی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے تو پیدا ہونے والے بچے خون کی کمی، جسمانی کمزوری، ذہنی معذوری اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادی اور اس سے منسلک ماؤں کی اموات ایک لمحہ فکریہ ہے، خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ان قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے بلکہ کمزور ماؤں میں غذائی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دمے کی مریضوں کی تعداد 30 کروڑ کے قریب ہے جب کہ پاکستان میں 20 لاکھ افراد دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔

جوکہ انتہائی تشویش ناک ہے، دمے کے عوامل میں پر آسائش طرز زندگی، موروثی، لال بیگ کا فضلہ، کتے بلیوں کے بال اور ماحولیاتی آلودگی شامل ہیں جس کے نتیجے میں سینے میں جکڑن، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، مناسب اور صاف ستھری غذا انسانی زندگی کو بیماریوں سے بچانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے دنیا بھر میں ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ لوگ صرف غذا میں بے احتیاطی کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہوتے ہیں، ان میں ایک تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے ''صحت مند غذا کھیت سے پلیٹ تک '' کا مقصد ہم میں سے ہر شخص ، ہر قدم پر اس بات کا خیال رکھے کہ جو کچھ وہ کھایا پی رہا ہے اس میں صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آربو وائرس اور ٹی بی سمیت کئی جراثیمی امراض صحت عامہ کے لیے شدید خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

ملک بھر میں سیکڑوں افراد آر بو وائرس اور ٹی بی سمیت کئی جراثیمی امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں، مچھر، چچڑی اور دیگر حشرات الارض کے کاٹنے سے جسم میں داخل ہونے والے وائرس آربو وائرسز کہلاتے ہیں، ان بیماریوں میں ڈینگی، زرد بخار، چکون گنیا، جاپانی بی این سیفالائٹس اور دیگر شامل ہیں پلاسٹک کے برتنوں سے کھانے میں نقصان دہ کیمیائی اجزا شامل ہوجاتے ہیں اس سے بھی بیماریاں پھیل رہی ہیں علاوہ ازیں اتائی ڈاکٹرز ملک بھر میں کلینکوں اور میٹرنٹی ہومز میں کھلے عام انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں جس سے ہیپاٹائٹس اور ایڈز سمیت موذی امراض پھیل رہے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 6 لاکھ 40 ہزار سے زائد جب کہ سندھ میں 26 ہزار سے زائد اتائی ڈاکٹر ہیں، اتائیت کو بڑھنے سے نہ روکا گیا تو ملک میں ہر طرح کی بیماری میں اضافہ ہوجائے گا جس پر قابو پانا مشکل ہوگا کیوں کہ ملک میں نقلی ڈاکٹر اور حکیم عوام کی مختلف بیماریوں کا علاج غلط طریقے سے کررہے ہیں اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے بغیر نسخے فروخت جاری ہے۔

پاکستان میں عام آدمی کی صحت کو خطرات لاحق ہیں، ایسے میں حکومت، سرکاری طبی مراکز چلانے کے لیے نجی اداروں سے معاہدے کررہی ہے یعنی غریب کے لیے مفت اور سستا علاج ناپید ہونے والا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب عوام جو ایک بیمار قوم ہے علاج کے لیے جائیں تو کہاں جائیں؟
Load Next Story