’نیکی‘ بطورِایک قدر

نیکی اور بدی ایسے تصورات نہیں ہیں کہ جن کی ایک بار قدرمتعین کرلی جائے


[email protected]

LAYYAH: نیکی اور بدی ایسے تصورات نہیں ہیں کہ جن کی ایک بار قدرمتعین کرلی جائے اور پھر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی خود کو اسی قدرکا پابند بھی سمجھاجائے۔ نیکی اور بدی 'اضافی' تصورات ہیں۔ ان کے مفاہیم مخصوص سماجی تناظر میں تشکیل پاتے ہیں اور تناظر کی تبدیلی سے غیر متعلقہ ہوکر اپنے مفاہیم کو کھودیتے ہیں۔

ان تصورات کی قدرکو متعین کرنے کے لیے اس سماج سے رجوع کیا جاتا ہے، جس میں یہ تشکیل پاتے ہیں اور بدلتے سماجی تقاضوں کے ساتھ تضاد میں آکر خود کو تبدیل کرتے ہیں۔ نیکی اور بدی کے ایک مخصوص اور جامد تصور پر ہمہ وقت عمل پیرا رہنا اور ان تصورکی حیثیت کو زمان و مکاں سے ماورا قرار دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس تصور پر کسی نہ کسی مذہبی یا سماجی گروہ کی اجارہ داری ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اس تصور کی تبدیلی سے لوگوں کے اذہان میں تشکیک کا قضیہ جنم لے۔ بعض تصورات کو لوگوں کے اذہان میں مستقل ٹھونسے رکھنے کا مقصد ان کے اذہان کو کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے اور یہ عمل مقتدر طبقات کی آئیڈیالوجی کا حصہ ہوتا ہے۔

مخصوص تصورات کے حوالے سے تشکیک کے جنم لینے سے لوگوں کے اذہان میں یہ تصورات راسخ ہونے لگتے ہیں کہ کوئی ایسا نظریہ اور اس سے منسلک کسی 'سچائی' کی نوعیت ایسی نہیں ہے جسے مستقل بنیادوں پر حتمی تسلیم کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی بھلائی کے علاوہ کوئی بھی تصور مقدس نہیں ہے۔جب کوئی تصور اپنی تشکیل کی بنیاد کو کھو دیتا ہے تو وہ نوعِ انسانی کے اجتماعی مفاد سے ٹکرانے لگتا ہے اور غیر مقدس ہوجاتا ہے۔ تمام مذاہب اور اعلیٰ نظریات کا بنیادی مقصد اجتماعی انسانی مفاد کا شعور بیدار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔تاہم ان تمام باتوں کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ' انصاف' اور 'مساوات' ایسی سماجی و اخلاقی اقدار ہیں جن کی حیثیت آفاقی نوعیت کی ہوتی ہے، جن کی ضرورت ہمہ وقت محسوس کی جاتی ہے۔ انصاف اور مساوات کا معیار بدل سکتا ہے مگر ان اقدار کی اہمیت مسلمہ ہے۔

ان کے حصول کے لیے کی گئی تگ و دوکو اعلیٰ ترین 'نیکی' میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ انصاف اور مساوات ایسی آفاقی اقدار ہیں ، جن کا تقاضا ہی یہ ہے کہ سماج سے ظلم و دہشت، جبر و استحصال، رنگ نسل کے امتیازات، ذات پات کی بنیاد پر قائم تفریق کا خاتمہ کردیا جائے۔ یہ اقدار احترامِ انسانیت کے اعلیٰ ترین تصور پر قائم ہیں۔ان کا فائدہ کسی ایک شخص کو نہیں، بلکہ نوعِ انسانی کو یکساں طور پر پہنچتا ہے۔ مبنی بر انصاف اور مساوات کے اصولوں پر قائم معاشرے کے قیام کے لیے کوشش کرنااعلیٰ ترین 'نیکی'کا عمل ہے، جب کہ ان اقدار کی پاسداری کرناکسی بھی سماجی نظام کی بقا کی ضمانت ہے۔

نیکی کا تصور سماج میں جنم لیتا ہے اور سماج میں ہی قابلِ فہم ہوتا ہے۔ہر قسم کی قدر سماجی تشکیل ہی ہوتی ہے اور سماج خالص انسان کی تخلیق ہے۔ انسان فطرت پر عمل آرا ہوتا ہے اور اس عمل کے دوران فطرت کو سماج میں بدلتا ہے ۔ سماج کی تشکیل کے عمل میں انسان خود کو ایک فرد کی صورت میں تشکیل دیتا ہے۔ لہذا سماج کے اندر فرد کا تصور موجود ہے اور فرد کے اندر سماج کا تصور موجود ہوتا ہے۔ سماج سے انحراف کرکے کوئی بھی شخص انسان تو کہلا سکتا ہے مگر فرد نہیں! سماج کی حقیقی تفہیم اسی صورت ممکن ہے جب سماج کو اس کی تخلیق کے عمل سے لے کر اس کی موجود حالت تک کا سائنسی تجزیہ کیا جائے۔

نیکی کو پرکھنے کا سب سے اعلیٰ پیمانہ ہی یہ ہے کہ اسے اجتماعی انسانی فلاح کے مقابل رکھ کر دیکھا جائے۔نیکی خواہ کتنی ہی ماورائی نوعیت کی کیوں نہ ہو، محض ماورائیت کی بنیاد پر اس کا تجزیہ اس کی سماجی حیثیت کو مشکوک ہی رکھتا ہے۔مثال کے طور پر اگرکوئی شخص شب و روز عبادت میں گزارتا ہے، اور اس کی عبادت نے اس کے باطن کو تبدیلی سے ہمکنار نہیں کیا ہے، اس شخص کا دوسروں کے ساتھ رویہ انتہائی غیر انسانی ہے تو اس کی وہ نیکی جو اس نے عبادت سے کمائی ہے، اسے ایک ماورائی قدر توکہا جاسکتا ہے مگر اسے کبھی ایک سماجی 'قدر' کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ عبادت کرتے ہیں وہ دوسرے انسانوں کو حقیرگرداننے لگتے ہیں۔

وہ ایک باطل احساسِ برتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو عبادت شخصیت پر اس قسم کے اثرات مرتب کرے اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر کرنی ضروری ہوتی ہے۔ عبادت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ وہ انسان کے باطن کو تبدیل کردے۔اس کے اندر خوف نہیں، بلکہ نوعِ انسانی کے لیے حساسیت کو بیدارکردے۔ انسان کے 'سیلف' کی تشکیل کا عمل اسی وقت بامعنی بن سکتا ہے، جب عبادت گزار سماجی فلاح کے حقیقی مفہوم کو سمجھے۔ منافقت ، بداخلاقی اور بددیانتی پر مجبور کرنے والے سماجی نظام کا فہم حاصل کرے، حقیقی ظالم کو پہچانے، خود نمائشی سے دست بردار ہو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان سماجی ساختوں کو توڑنے کے لیے جدوجہد کرے جن کے وسط سے سماجی ناانصافی، ظلم و بربریت اور جبر استحصال کے تصورات جنم لیتے ہیں۔سماجی عمل کی سائنسی تفہیم اعلیٰ ترین نیک عمل ہوتا ہے۔

کسی غریب شخص کو خیرات دے دینا مگر اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش نہ کرنا ،نیکی کو مشکوک بنا دیتا ہے، جو سماج میں بے شمار خیراتیوں کو جنم دیتا ہے ،ان کی افزائش کرتا ہے اور پھر ان سے متعلق خیرات جیسے تصورات کی تشکیل کرکے خود کو نیک انسانوں کے منصب پر فائزکرلیتا ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلحے کے کارخانے لگائے جائیں، اسلحہ لوگوں کو بیچا جائے اور اس کے بعد انھیں اسلحہ نہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا جائے، پہلے لوگوں پر اسلحے کا استعمال کر کے انھیں اپاہج بنایا جائے اور اس کے بعد ان کے اپاہج پن کا علاج کروا کر خود کو نیک کہلوایا جائے، مگر اس کے ساتھ مسلسل اپاہجوں کی پیدائش کے عمل کو بھی جاری رکھا جائے۔ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہ اسی دوغلے پن کا شکار ہے۔

سماج سے مراد محض انسانوں کا مجموعہ نہیں ہے، سماج افراد کے مابین رشتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔سماج کی بنیاد اگر کسی' باطل' نظام پر رکھی جائے گی تو اس بنیاد پر قائم رشتوں کی نوعیت بھی 'باطل' ہی ہوگی۔جس سماج میں ہم رہتے ہیں اس میں انسانوں کے مابین حقیقی رشتوں کی حیثیت اولین نہیں ہوتی ہے، بلکہ' اشیا'کو رشتوں پر مقدم ٹھہرایا جاتا ہے۔حتیٰ کہ ماں باپ کے ساتھ رشتے کی نوعیت بھی ان کے مابین فطری تعلق کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ ان اشیا کی وجہ سے ہوتی ہے جن کی مستقل فراہمی بچے کو ماں باپ کی نظر میں 'نیک' بناتی ہے۔

بددیانتی پر استوار 'نیکی' کے ظاہری مفہوم تک رسائی حاصل کرکے خود کو سماج یا اپنی ہی نظر میں ایک' نیک انسان' کے طور پر دیکھ کر تسلی تو دی جاسکتی ہے،مگر اس قسم کی نیکی محض ایک سراب سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتی ہے۔ نیکی کے متلاشی افراد کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ سماج کی حقیقی منافقانہ بنیاد کو سمجھیں اور اپنی جدوجہد سے اس بنیاد کو منہدم کرنے کی کوشش کریں۔سماجی بنیاد کی تبدیلی اس بنیاد سے منسلک تمام خیالات اور اقدار کا خاتمہ کرتے ہوئے نئی اقدار اور تصورات کی افزائش کے لیے ایک مختلف بنیاد فراہم کرتی ہے۔ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حقیقی نیکی اپنی سرشت میں سماجی ہوتی ہے۔

سماج سے یہاں مراد ایسا سماج نہیں کہ جو 'موجود' ہے، جس نے ہر طرح کی برائی کو جنم دے رکھا ہے، بلکہ ایک ایسا سماج جیسا کہ اسے ہونا 'چاہیے۔' چاہیے سے یہاں مراد ایسے سماج کی تشکیل نہیں ہے جس کی احتیاج کہیں خارج سے سماج کے اندر داخل کی جائے۔ بلکہ اس سماج کے اندر سے ہی اس کی' مثالی' شکل کو سامنے لایا جائے ۔حقیقی نیکی محض اس برائی کے وقتی خاتمے کا نام نہیں ہے، جو سماجی نظام کی برائی کے باعث ہمہ وقت جنم لیتی رہتی ہے، بلکہ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا نام ہے ۔اعلیٰ نیکی کی سچائی کو صرف اور صرف اس' مثالی' سماج کی تشکیل کے تصور کے تحت ہی ثابت کیا جا سکتا ہے جس کی تشکیل کے تقاضے اس سماج کے اندر موجود ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں