چٹکی
پاکستان کے عوام گلا پھاڑ پھاڑ کر آمریت کو کوستے ہیں اور جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں
WASHINGTON:
ایک شہزادہ ایک حسین فقیرنی پر دل وجان سے اس طرح عاشق ہوا کہ فقیرنی کے حسن و جمال کے آگے باپ کی وسیع و عریض سلطنت ہیچ نظر آنے لگی۔
باپ نے اپنے اکلوتے ولی عہد کو ''راہ راست'' پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی، اسے مستقبل کی بھاری ذمے داریوں کا احساس دلایا۔ مگر عشق نہ پوچھے ذات۔ اِدھر بیٹا، سلطنت تو ایک طرف فقیرنی کی خاطر باپ تک کو چھوڑنے پر آمادہ نظر آیا۔ مجبوراً بادشاہ سلامت مخمل میں ٹاٹ کا پیوند قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔آمادہ نہ ہوتے تو ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگ جاتا اور بادشاہ سلامت ٹاٹ قبول نہ کرنے کی صورت میں مخمل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ لہٰذا راتوں رات فقیرنی کا ''اسٹیٹس'' تبدیل ہوا اور وہ جھونپڑی سے ڈولی میں سوار ہو کر شاہی محل میں جا اتری۔ اب وہ شہزادی اور مستقبل کی ہونے والی ''خاتون اوّل'' یعنی ملکہ بن چکی تھی۔
چند دنوں تک تو محل کی شان و شوکت اور خود کو ملنے والے احترام اور پروٹوکول پر بوکھلائی بوکھلائی پھری۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے تو اِترائی اِترائی نظر آنے لگی، پھر یکدم نہ جانے کیا ہوا کہ شدید بیمار ہوکر بستر سے جا لگی۔ شاہی حکیموں کا پینل فوراً ہی علاج کرنے میں جت گیا، مگر شہزادی کو افاقہ نہ ہوا، کھانا پینا چھوٹ گیا، وزن تیزی سے کم ہونے لگا، سخت بے کلی کے عالم میں بستر پر کروٹیں بدلتی رہتی، اس سے بھی زیادہ بے چینی اور دنیا سے بے زاری و بے نیازی کا خوفناک نفسیاتی حملہ شہزادے کے دل و دماغ پر ہوا۔
نتیجتاً بادشاہ سلامت کو سلطنت اور رعایا کا مستقبل سخت خطرے میں نظر آنے لگا۔ کسی پہنچے ہوئے سیانے حکیم کی تلاش میں شاہی ہرکارے ملک کے کونے کونے میں دوڑا دیے گئے۔ بالآخر یہ تلاش بار آور ثابت ہوئی اور ایک سفید ریش، خمیدہ کمر بوڑھا امرا کے جھرمٹ میں مریضہ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ بوڑھے اور تجربہ کار حکیم نے کیس اور مریضہ کی ہسٹری معلوم کی اور مریضہ سے صرف ایک سوال پوچھا ''کیا تمھیں اپنے معدے پر کوئی بوجھ محسوس ہوتا ہے؟'' جواب اثبات میں ملنے پر بزرگ معالج بادشاہ سلامت سے ملنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور نسخہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ فوراً کسی فقیر کو تلاش کروا کر اس کے تھیلے میں سے بھیک میں ملے ہوئے آٹے کی ایک چٹکی منگوا دی جائے۔ حکم ملنے کی دیر تھی کہ سرکاری اہلکار چٹکی کی جگہ آٹے سے بھرے ہوئے تھیلے کے ساتھ ساتھ تھیلے کے مالک کو بھی اٹھا کر محل لے آئے۔
تھیلے میں سے آٹے کی چٹکی بھر مقدار لے کر معالج خصوصی نے شاہی باورچی کو دیتے ہوئے ہدایت کی کہ شہزادی صاحبہ کے لیے جب روٹی تیار کی جائے تو آٹے میں یہ ''بھیک کی چٹکی'' بھی شامل کردی جائے۔ ایسا ہی کیا گیا اور صرف دو وقت کا کھانا کھا کر شہزادی محل میں ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے لگی اور بزرگ معالج ایک ہی جست میں شاہی معالجین کے پینل کے نئے سربراہ کی کرسی پر جاکر براجمان ہوگئے۔ پرانے چیف معالج کو ''جبری حج'' پر مکہ مکرمہ روانہ کر دیا گیا۔
کچھ ایسی ہی نفسیاتی بیماری کا شکار پاکستان کے عوام بھی نظر آتے ہیں۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر آمریت کو کوستے ہیں اور جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں اور جب جمہوریت مل جائے تو یہ نظام ان سے ہضم نہیں ہوتا۔ قوم سخت بے چین ہو کر بوکھلائی بوکھلائی پھرتی ہے اور پھر کوئی تجربہ کار دانشور جب تک اس جمہوریت میں مٹھی بھر آمریت کی ملاوٹ شامل نہ کردے قوم کو چین نصیب نہیں ہوتا ہے۔ صدیوں کی سلطانی اور بادشاہی کے چھپّر تلے، نسل در نسل رہتے رہتے ہماری اجتماعی سائیکی کچھ ایسے سانچے میں ڈھل چکی ہے کہ ہمیں جب تک آمریت کا بگھار لگی جمہوریت کی دال نہ ملے تو ہمیں اپنے معدوں پر ایسا بوجھ محسوس ہوتا ہے جو ہمارے سارے نظام ہضم اور نظامِ زندگی کو سخت انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں ڈیمو کریسی نے اپنی افادیت ثابت کردی ہے۔
صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جمہوریت سے بہتر نظام حکومت اور کوئی نہیں ہے۔ اور جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جو اپنی خامیوں کا علاج خود ہی تلاش کر لیتا ہے۔ لیکن صدیوں سے بادشاہی اور سلطانی کے زیرِ سایہ رہنے کے باعث حکمرانوں کی غلامی کے جو جراثیم ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو کر کسی بھوت کی مانند چمٹ گئے ہیں ان سے ہم کیسے جان چھڑائیں؟ یہ ہے وہ اصل کنفیوژن، وہ ذہنی بیماری، وہ خلجان جس نے ہمیں دنیا بھر میں ایک بے وقار قوم کی صورت میں ایک نئی شناخت عطا کر رکھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جاگیرداروں کی شکل میں چھوٹے چھوٹے بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنے زیرِ سایہ رہنے والی رعایا کے ذہن پر جس طرح اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور ان کو جس طرح یرغمال بنا رکھا ہے، جب تک عوام کی جان اس شکنجے سے نہیں چھوٹ جاتی بحیثیت قوم ہم اسی طرح کنفیوژن کا شکار رہیں گے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے اور جمہوری نظام کے سخت خواہشمند ہونے کے باوجود خالص جمہوریت کے آٹے میں جب تک چٹکی بھر آٹا آمریت کا شامل نہ کریں ہمیں روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ ہماری اجتماعی سائیکی کچھ اِس طرح تشکیل پاچکی ہے کہ ہمیں وہ حکمران اچھے لگتے ہیں جو رعایا کے لیے تو قوانین وضع کریں خواہ وہ قوانین ظالمانہ ہی کیوں نہ ہوں لیکن خود اپنے ہی وضع کردہ قوانین سے بالا بھی ہوں۔
ہمارے پیٹ خالی ہوں اور جسم پر چھیتڑے جھول رہے ہوں لیکن حکمران ہمیں ایسا درکار ہوتا ہے جس کی شان و شوکت سے ہماری آنکھیں چکا چوند ہوجائیں۔ پھر ہمیں اگلا حکمران اسی حکمران کی اولاد میں سے ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ اب یہ رعایا کی قسمت کہ وہ محمد شاہ رنگیلا ثابت ہوتا ہے یا اورنگ زیب عالمگیر۔ ہمیں شیر شاہ سوری کی طرح میرٹ پر آگے آنے والا حکمران قطعی اچھا نہیں لگتا۔ اسی لیے ہم نصیرالدین ہمایوں کو دوبارہ قبول کر لیتے ہیں کہ وہ ظہیر الدین بابر کی اولاد تھا۔ شیر شاہ سوری کی طرح بابر کا تعینات کردہ معمولی صوبیدار نہیں تھا۔ ہمیں اس کنفیوژن کا شکار کرنے کا اصل ذمے دار ہمارا یہ جاگیر دار، حکمران طبقہ ہے جو ہماری صدیوں کی غلامی کے ذہنی اثرات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہم جمہوریت کے شدید خواہشمند ہیں لیکن حکمران طبقے نے ہمیں گومگوں کی ایسی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے جس کا ذکر مرزا غالب نے بڑی شوخی و شگفتگی کے ساتھ چٹکی بھرتے ہوئے کچھ یوں کیا تھا کہ
ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
یاد رکھیے! خرابی ہمیشہ وہاں سے دور ہوگی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ آمریت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ خالص جمہوریت ہی ہمیں اس کنفیوژن سے باہر نکال سکتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خرابی کی اصل جڑ اور آمریت کی آخری نشانی یعنی فیوڈل ازم پر ایک ایسی بھرپور ضرب لگائیں کہ یہ آیندہ کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ یہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب اس ضرب کو لگانے والا موثر ترین ہتھیار یعنی ووٹ کی پرچی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ ہتھیار ہم اس طبقے کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں یا پھر اس مرتبہ اس کے سینے میں پیوست کرکے خود کو اس غلامی سے آزاد کروالیتے ہیں۔
ایک شہزادہ ایک حسین فقیرنی پر دل وجان سے اس طرح عاشق ہوا کہ فقیرنی کے حسن و جمال کے آگے باپ کی وسیع و عریض سلطنت ہیچ نظر آنے لگی۔
باپ نے اپنے اکلوتے ولی عہد کو ''راہ راست'' پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی، اسے مستقبل کی بھاری ذمے داریوں کا احساس دلایا۔ مگر عشق نہ پوچھے ذات۔ اِدھر بیٹا، سلطنت تو ایک طرف فقیرنی کی خاطر باپ تک کو چھوڑنے پر آمادہ نظر آیا۔ مجبوراً بادشاہ سلامت مخمل میں ٹاٹ کا پیوند قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔آمادہ نہ ہوتے تو ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگ جاتا اور بادشاہ سلامت ٹاٹ قبول نہ کرنے کی صورت میں مخمل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ لہٰذا راتوں رات فقیرنی کا ''اسٹیٹس'' تبدیل ہوا اور وہ جھونپڑی سے ڈولی میں سوار ہو کر شاہی محل میں جا اتری۔ اب وہ شہزادی اور مستقبل کی ہونے والی ''خاتون اوّل'' یعنی ملکہ بن چکی تھی۔
چند دنوں تک تو محل کی شان و شوکت اور خود کو ملنے والے احترام اور پروٹوکول پر بوکھلائی بوکھلائی پھری۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے تو اِترائی اِترائی نظر آنے لگی، پھر یکدم نہ جانے کیا ہوا کہ شدید بیمار ہوکر بستر سے جا لگی۔ شاہی حکیموں کا پینل فوراً ہی علاج کرنے میں جت گیا، مگر شہزادی کو افاقہ نہ ہوا، کھانا پینا چھوٹ گیا، وزن تیزی سے کم ہونے لگا، سخت بے کلی کے عالم میں بستر پر کروٹیں بدلتی رہتی، اس سے بھی زیادہ بے چینی اور دنیا سے بے زاری و بے نیازی کا خوفناک نفسیاتی حملہ شہزادے کے دل و دماغ پر ہوا۔
نتیجتاً بادشاہ سلامت کو سلطنت اور رعایا کا مستقبل سخت خطرے میں نظر آنے لگا۔ کسی پہنچے ہوئے سیانے حکیم کی تلاش میں شاہی ہرکارے ملک کے کونے کونے میں دوڑا دیے گئے۔ بالآخر یہ تلاش بار آور ثابت ہوئی اور ایک سفید ریش، خمیدہ کمر بوڑھا امرا کے جھرمٹ میں مریضہ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ بوڑھے اور تجربہ کار حکیم نے کیس اور مریضہ کی ہسٹری معلوم کی اور مریضہ سے صرف ایک سوال پوچھا ''کیا تمھیں اپنے معدے پر کوئی بوجھ محسوس ہوتا ہے؟'' جواب اثبات میں ملنے پر بزرگ معالج بادشاہ سلامت سے ملنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور نسخہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ فوراً کسی فقیر کو تلاش کروا کر اس کے تھیلے میں سے بھیک میں ملے ہوئے آٹے کی ایک چٹکی منگوا دی جائے۔ حکم ملنے کی دیر تھی کہ سرکاری اہلکار چٹکی کی جگہ آٹے سے بھرے ہوئے تھیلے کے ساتھ ساتھ تھیلے کے مالک کو بھی اٹھا کر محل لے آئے۔
تھیلے میں سے آٹے کی چٹکی بھر مقدار لے کر معالج خصوصی نے شاہی باورچی کو دیتے ہوئے ہدایت کی کہ شہزادی صاحبہ کے لیے جب روٹی تیار کی جائے تو آٹے میں یہ ''بھیک کی چٹکی'' بھی شامل کردی جائے۔ ایسا ہی کیا گیا اور صرف دو وقت کا کھانا کھا کر شہزادی محل میں ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے لگی اور بزرگ معالج ایک ہی جست میں شاہی معالجین کے پینل کے نئے سربراہ کی کرسی پر جاکر براجمان ہوگئے۔ پرانے چیف معالج کو ''جبری حج'' پر مکہ مکرمہ روانہ کر دیا گیا۔
کچھ ایسی ہی نفسیاتی بیماری کا شکار پاکستان کے عوام بھی نظر آتے ہیں۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر آمریت کو کوستے ہیں اور جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں اور جب جمہوریت مل جائے تو یہ نظام ان سے ہضم نہیں ہوتا۔ قوم سخت بے چین ہو کر بوکھلائی بوکھلائی پھرتی ہے اور پھر کوئی تجربہ کار دانشور جب تک اس جمہوریت میں مٹھی بھر آمریت کی ملاوٹ شامل نہ کردے قوم کو چین نصیب نہیں ہوتا ہے۔ صدیوں کی سلطانی اور بادشاہی کے چھپّر تلے، نسل در نسل رہتے رہتے ہماری اجتماعی سائیکی کچھ ایسے سانچے میں ڈھل چکی ہے کہ ہمیں جب تک آمریت کا بگھار لگی جمہوریت کی دال نہ ملے تو ہمیں اپنے معدوں پر ایسا بوجھ محسوس ہوتا ہے جو ہمارے سارے نظام ہضم اور نظامِ زندگی کو سخت انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں ڈیمو کریسی نے اپنی افادیت ثابت کردی ہے۔
صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جمہوریت سے بہتر نظام حکومت اور کوئی نہیں ہے۔ اور جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جو اپنی خامیوں کا علاج خود ہی تلاش کر لیتا ہے۔ لیکن صدیوں سے بادشاہی اور سلطانی کے زیرِ سایہ رہنے کے باعث حکمرانوں کی غلامی کے جو جراثیم ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو کر کسی بھوت کی مانند چمٹ گئے ہیں ان سے ہم کیسے جان چھڑائیں؟ یہ ہے وہ اصل کنفیوژن، وہ ذہنی بیماری، وہ خلجان جس نے ہمیں دنیا بھر میں ایک بے وقار قوم کی صورت میں ایک نئی شناخت عطا کر رکھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جاگیرداروں کی شکل میں چھوٹے چھوٹے بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنے زیرِ سایہ رہنے والی رعایا کے ذہن پر جس طرح اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور ان کو جس طرح یرغمال بنا رکھا ہے، جب تک عوام کی جان اس شکنجے سے نہیں چھوٹ جاتی بحیثیت قوم ہم اسی طرح کنفیوژن کا شکار رہیں گے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے اور جمہوری نظام کے سخت خواہشمند ہونے کے باوجود خالص جمہوریت کے آٹے میں جب تک چٹکی بھر آٹا آمریت کا شامل نہ کریں ہمیں روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ ہماری اجتماعی سائیکی کچھ اِس طرح تشکیل پاچکی ہے کہ ہمیں وہ حکمران اچھے لگتے ہیں جو رعایا کے لیے تو قوانین وضع کریں خواہ وہ قوانین ظالمانہ ہی کیوں نہ ہوں لیکن خود اپنے ہی وضع کردہ قوانین سے بالا بھی ہوں۔
ہمارے پیٹ خالی ہوں اور جسم پر چھیتڑے جھول رہے ہوں لیکن حکمران ہمیں ایسا درکار ہوتا ہے جس کی شان و شوکت سے ہماری آنکھیں چکا چوند ہوجائیں۔ پھر ہمیں اگلا حکمران اسی حکمران کی اولاد میں سے ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ اب یہ رعایا کی قسمت کہ وہ محمد شاہ رنگیلا ثابت ہوتا ہے یا اورنگ زیب عالمگیر۔ ہمیں شیر شاہ سوری کی طرح میرٹ پر آگے آنے والا حکمران قطعی اچھا نہیں لگتا۔ اسی لیے ہم نصیرالدین ہمایوں کو دوبارہ قبول کر لیتے ہیں کہ وہ ظہیر الدین بابر کی اولاد تھا۔ شیر شاہ سوری کی طرح بابر کا تعینات کردہ معمولی صوبیدار نہیں تھا۔ ہمیں اس کنفیوژن کا شکار کرنے کا اصل ذمے دار ہمارا یہ جاگیر دار، حکمران طبقہ ہے جو ہماری صدیوں کی غلامی کے ذہنی اثرات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہم جمہوریت کے شدید خواہشمند ہیں لیکن حکمران طبقے نے ہمیں گومگوں کی ایسی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے جس کا ذکر مرزا غالب نے بڑی شوخی و شگفتگی کے ساتھ چٹکی بھرتے ہوئے کچھ یوں کیا تھا کہ
ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
یاد رکھیے! خرابی ہمیشہ وہاں سے دور ہوگی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ آمریت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ خالص جمہوریت ہی ہمیں اس کنفیوژن سے باہر نکال سکتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خرابی کی اصل جڑ اور آمریت کی آخری نشانی یعنی فیوڈل ازم پر ایک ایسی بھرپور ضرب لگائیں کہ یہ آیندہ کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ یہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب اس ضرب کو لگانے والا موثر ترین ہتھیار یعنی ووٹ کی پرچی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ ہتھیار ہم اس طبقے کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں یا پھر اس مرتبہ اس کے سینے میں پیوست کرکے خود کو اس غلامی سے آزاد کروالیتے ہیں۔