کے الیکٹرک اربوں کامنافع کماکربھی بجلی کی فراہمی میں ناکام
گذشتہ ماہ اختتام پذیرہونے والے مالی سال 2014-2015کی پہلی ششماہی میں کمپنی کامنافع12ارب روپے سے زائدتھا
کراچی کوبجلی فراہم کرنیوالی واحد بجلی کمپنی کی نجکاری کو 10سال گزرجانے کے باوجود کراچی کے شہری بجلی کے بدترین بحران سے دوچارہیں جبکہ وفاقی وصوبائی حکومتیں نجی بجلی کمپنی کی ناقص کارکردگی اورشہریوں سے کی جانیوالی لوٹ مارپر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
موجودہ کے الیکٹرک اورسابق کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کی نجکاری 2005میں ہوئی جب سعودی عرب سے تعلق رکھنے والا الجمیع گروپ نے 20ارب روپے کے عوض کراچی کے شہریوں کی قسمت کامالک بن گیا۔ اس وقت بجلی کمپنی کے صارفین پرواجبات 22ارب روپے سے زائدتھے۔
تقریباً 4سال سیمینزپاکستان کی مددسے ادارے کاانتظام چلانے کے بعد 2009میں مبینہ طورپر وفاقی حکومت کے دباؤپر الجمیع گروپ ایک انتہائی دلچسپ معاہدے کے تحت کے ای ایس سی کاانتظام اور50فیصد شیئرزدبئی سے تعلق رکھنے والے ابراج گروپ کومفت میں حوالے کرکے منظرعام سے غائب ہوگیا۔ ابراج گروپ گذشتہ6سال سے بلاشرکت غیرے کے الیکٹرک کے انتظامی معاملات سنبھالے ہوئے ہے اوراس دوران نہ صرف حکومت نے تقریباً 50ارب روپے کے واجبات معاف کیے ہیں بلکہ ہرسال اربوں روپے سبسڈی کی مدمیں کمپنی کودیے جاتے ہیں۔
کمپنی اب تک اربوں روپے سے زائدکا منافع حاصل کرچکی ہے۔ گذشتہ ماہ اختتام پذیرہونے والے مالی سال 2014-2015کی پہلی ششماہی میں کمپنی کامنافع12ارب روپے سے زائدتھا اورامکان ظاہرکیا جارہا ہے کہ پورے سال کامنافع20 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے متنازعہ فیصلوں پرہمیشہ وفاقی اورصوبائی حکومت کومنہ کی کھانی پڑتی ہے۔
ماضی میں بھی کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی اورشہریوں سے اضافی بلوں کی وصولی کے معاملے پرنیپرا اوروفاقی وزارت پانی وبجلی کے فیصلوں پرکے الیکٹرک کی انتظامیہ نے عمل کرنے کے بجائے ہمیشہ ان کی مخالفت کی ہے۔
اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرکے انھیں لاجواب کردیا۔ ماضی میں نیپراکی جانب سے کے الیکٹرک پرجرمانہ، بینک چارجزاور میٹررینٹ کی وصولی روکنے اورشہریوں کووصول کی گئی رقوم واپس کرنے کافیصلہ جاری کیاگیا لیکن کے الیکٹرک نے ایک بھی فیصلے پرعمل درآمدنہیں کیابلکہ نامور وکیلوں کے مددسے ان فیصلوں کے خلاف اعلی عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرلیا اورعدالتی حکم امتناع کی مددسے شہریوں سے مذکورہ مدات میں وصولیابی کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔
موجودہ کے الیکٹرک اورسابق کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کی نجکاری 2005میں ہوئی جب سعودی عرب سے تعلق رکھنے والا الجمیع گروپ نے 20ارب روپے کے عوض کراچی کے شہریوں کی قسمت کامالک بن گیا۔ اس وقت بجلی کمپنی کے صارفین پرواجبات 22ارب روپے سے زائدتھے۔
تقریباً 4سال سیمینزپاکستان کی مددسے ادارے کاانتظام چلانے کے بعد 2009میں مبینہ طورپر وفاقی حکومت کے دباؤپر الجمیع گروپ ایک انتہائی دلچسپ معاہدے کے تحت کے ای ایس سی کاانتظام اور50فیصد شیئرزدبئی سے تعلق رکھنے والے ابراج گروپ کومفت میں حوالے کرکے منظرعام سے غائب ہوگیا۔ ابراج گروپ گذشتہ6سال سے بلاشرکت غیرے کے الیکٹرک کے انتظامی معاملات سنبھالے ہوئے ہے اوراس دوران نہ صرف حکومت نے تقریباً 50ارب روپے کے واجبات معاف کیے ہیں بلکہ ہرسال اربوں روپے سبسڈی کی مدمیں کمپنی کودیے جاتے ہیں۔
کمپنی اب تک اربوں روپے سے زائدکا منافع حاصل کرچکی ہے۔ گذشتہ ماہ اختتام پذیرہونے والے مالی سال 2014-2015کی پہلی ششماہی میں کمپنی کامنافع12ارب روپے سے زائدتھا اورامکان ظاہرکیا جارہا ہے کہ پورے سال کامنافع20 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے متنازعہ فیصلوں پرہمیشہ وفاقی اورصوبائی حکومت کومنہ کی کھانی پڑتی ہے۔
ماضی میں بھی کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی اورشہریوں سے اضافی بلوں کی وصولی کے معاملے پرنیپرا اوروفاقی وزارت پانی وبجلی کے فیصلوں پرکے الیکٹرک کی انتظامیہ نے عمل کرنے کے بجائے ہمیشہ ان کی مخالفت کی ہے۔
اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرکے انھیں لاجواب کردیا۔ ماضی میں نیپراکی جانب سے کے الیکٹرک پرجرمانہ، بینک چارجزاور میٹررینٹ کی وصولی روکنے اورشہریوں کووصول کی گئی رقوم واپس کرنے کافیصلہ جاری کیاگیا لیکن کے الیکٹرک نے ایک بھی فیصلے پرعمل درآمدنہیں کیابلکہ نامور وکیلوں کے مددسے ان فیصلوں کے خلاف اعلی عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرلیا اورعدالتی حکم امتناع کی مددسے شہریوں سے مذکورہ مدات میں وصولیابی کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔