بلاول کا الیکشن لڑنے سے انکار پارٹی کو مقبول بنانے کی جدوجہد کا فیصلہ
بلاول نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشیدشاہ کی جگہ لینے کامشورہ رد کردیا
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑنے کے بجائے پارٹی کو ماضی کی مقبول ترین پوزیشن پرواپس لانے کے لیے جدوجہد کرنے کافیصلہ کیاہے۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ایکسپریس کو بتایاکہ اس حوالے سے بلاول بھٹوزرداری کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کرموجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ کی جگہ لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق انھیں یہ مشورہ اس لیے دیا گیا تاکہ وہ ملکی معاملات پرعبور حاصل کر سکیں تاہم بلاول نے اپنی تمام ترتوجہ پارٹی معاملات کی بہتری، اسے مشکلات سے نکالنے اورملکی سیاست میں دوبارہ کم بیک پرمرکوز رکھنے کافیصلہ کیاہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ پیپلزپارٹی حکومت سے نکلنے کے بعد سے پارٹی چیئرمین کی توجہ کی طلب گارہے جو اپنے والد آصف زرداری سے اختلافات کے باعث پارٹی معاملات سے یکسر دور ہیں۔
بلاول نے اس حوالے سے پارٹی ورکرز اور رہنماؤں سے رابطے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں پوری تیاری سے شرکت اور پارٹی کو مظبوط بنایا جا سکے۔ بلاول بھٹو نے پارٹی کی تباہ ہوتی حالت اور صوبائی لیڈر شپ خصوصاً پنجاب میں سینئرپارٹی لیڈرشپ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے باعث اپنی تمام تر توجہ پارٹی کو دوبارہ میدان میں لانے پر مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کے کئی مزید رہنماؤں کی تحریک انصاف میں شمولیت کی افواہوں کے باعث بھی کیا گیا۔ عام انتخابات میں بد ترین کارکردگی کے بعد سے پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن دوبارہ مضبوط نہیں بنا سکی کیونکہ مختلف عہدوں کے مزے لوٹنے والی اس کی لیڈر شپ اس حوالے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔
ذرائع نے کہا کہ جنوبی پنجاب جسے پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی اب اس کی کارکردگی اور پو زیشن دن بدن خراب ہورہی ہے۔ سینیٹرفرحت اللہ بابرنے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی پنجاب میں بھی اپنی پرانی حیثیت پر واپس آنے کے لیے پارٹی کو بہت زیادہ توجہ درکار ہے۔انھوں نے کہاکہ اسی لیے بلاول بھٹوزرداری پنجاب پرعمومی اورجنوبی پنجاب پرخصوصی توجہ رکھیں گے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ منظور وٹو پنجاب میں کارکردگی دکھانے میں یکسر ناکام رہے ہیں جبکہ پارٹی میں بھی اختلافات مزید بڑھ گئے جس سے کارکن اور رہنما دونوں ہی مایوسی کا شکارہیں۔ گلگت وبلتستان میں بھی پارٹی اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکی اور حالیہ الیکشن میں تقریبا اس کا صفایا ہوگیا جبکہ سابق وزیر اعلیٰ بھی دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی تباہ حالی سے سخت پریشان ہیں اور ملکی سیاست میں اسے دوبارہ سابقہ شاندار پوزیشن پر واپسی کے لیے کوششوں میں سنجیدہ ہیں۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ایکسپریس کو بتایاکہ اس حوالے سے بلاول بھٹوزرداری کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کرموجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ کی جگہ لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق انھیں یہ مشورہ اس لیے دیا گیا تاکہ وہ ملکی معاملات پرعبور حاصل کر سکیں تاہم بلاول نے اپنی تمام ترتوجہ پارٹی معاملات کی بہتری، اسے مشکلات سے نکالنے اورملکی سیاست میں دوبارہ کم بیک پرمرکوز رکھنے کافیصلہ کیاہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ پیپلزپارٹی حکومت سے نکلنے کے بعد سے پارٹی چیئرمین کی توجہ کی طلب گارہے جو اپنے والد آصف زرداری سے اختلافات کے باعث پارٹی معاملات سے یکسر دور ہیں۔
بلاول نے اس حوالے سے پارٹی ورکرز اور رہنماؤں سے رابطے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں پوری تیاری سے شرکت اور پارٹی کو مظبوط بنایا جا سکے۔ بلاول بھٹو نے پارٹی کی تباہ ہوتی حالت اور صوبائی لیڈر شپ خصوصاً پنجاب میں سینئرپارٹی لیڈرشپ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے باعث اپنی تمام تر توجہ پارٹی کو دوبارہ میدان میں لانے پر مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کے کئی مزید رہنماؤں کی تحریک انصاف میں شمولیت کی افواہوں کے باعث بھی کیا گیا۔ عام انتخابات میں بد ترین کارکردگی کے بعد سے پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن دوبارہ مضبوط نہیں بنا سکی کیونکہ مختلف عہدوں کے مزے لوٹنے والی اس کی لیڈر شپ اس حوالے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔
ذرائع نے کہا کہ جنوبی پنجاب جسے پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی اب اس کی کارکردگی اور پو زیشن دن بدن خراب ہورہی ہے۔ سینیٹرفرحت اللہ بابرنے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی پنجاب میں بھی اپنی پرانی حیثیت پر واپس آنے کے لیے پارٹی کو بہت زیادہ توجہ درکار ہے۔انھوں نے کہاکہ اسی لیے بلاول بھٹوزرداری پنجاب پرعمومی اورجنوبی پنجاب پرخصوصی توجہ رکھیں گے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ منظور وٹو پنجاب میں کارکردگی دکھانے میں یکسر ناکام رہے ہیں جبکہ پارٹی میں بھی اختلافات مزید بڑھ گئے جس سے کارکن اور رہنما دونوں ہی مایوسی کا شکارہیں۔ گلگت وبلتستان میں بھی پارٹی اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکی اور حالیہ الیکشن میں تقریبا اس کا صفایا ہوگیا جبکہ سابق وزیر اعلیٰ بھی دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی تباہ حالی سے سخت پریشان ہیں اور ملکی سیاست میں اسے دوبارہ سابقہ شاندار پوزیشن پر واپسی کے لیے کوششوں میں سنجیدہ ہیں۔