یہ عید شہدا کے نام

جب شہداء کی اولادیں دیگر بچوں کو اپنے والدین کیساتھ تیاریاں کرتے دیکھتے ہوںگے تو انہیں اپنے والد کس قدریاد آتے ہوںگے۔

عید کے روز بھی کچھ لوگ گھر والوں کے ساتھ عید منانے کے بجائے میری اور آپ کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

بازار میں چلتے ہوئے میرا ڈھائی سال کا بیٹا میرے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری انگلی پکڑے ہوئے وہ ایک خاص خوشی محسوس کر رہا تھا، کیوںکہ اس کو عید کے لیے نئی سینڈل جو مل گئی تھی۔ اس کو خوش دیکھ کر اس کے والدین بھی خوش تھے کیوںکہ بچوں کی خوشی ہی والدین کی حقیقی خوشی ہوتی ہے۔

بچوں کو ساتھ لے کر بازاروں میں جانا میں نے تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ آئے روز بم دھماکوں، عوامی مقامات پر خودکش حملوں، فائرنگ، فسادات ان سب ہنگامہ آرائیوں اور تخریب کاری نے مجھ سمیت کئی پاکستانیوں کو گھر تک محدود کردیا تھا۔ بے یقینی اور بدامنی کا یہ عالم تھا کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملک کے کس کونے میں اگلے لمحے کوئی حملہ ہوجائے۔ پھر 2014 میں افواج پاکستان نے ضرب عضب شروع کیا۔ کچھ امن ہونا شروع ہوا۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ماہ رمضان میں تخریب کاری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوئے ہیں۔ وگرنہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 2013 میں رمضان المبارک کا آغاز ہی خود کش حملوں سے ہوا تھا۔

اپنے بچے کو گود میں اٹھا کر اس کے گال پر پیار کرتے ہوئے میں نے سوچا صرف ضرب عضب میں 3 سو سے زیادہ افواج پاکستان کے نوجوان شہید ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ شورش زدہ علاقوں میں اور پاکستان بھر میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ عوام کی سیکورٹی کے لیے تعینات پولیس والے جو دہشت گردی کا نشانہ بنے وہ بھی سیکڑوں میں ہیں۔ عام بے گناہ پاکستانی جن کو دہشت گردی کا عفریت نگل گیا وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ یہ تمام شہدا کے بھی اہل خانہ اور بچے ہوں گے۔ جب گلی محلے کے بچوں کو والدین عید کی تیاریاں کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے تو انہیں اپنے بچھڑے ہوئے والد کس قدر شدت سے یاد آتے ہوں گے۔



ہم سب اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے جیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جو لوگ ہماری سلامتی اور ہمارے گھر، شہر اور ملک کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرگئے، جو ملک کی سرحدوں پر اپنی جان، بیوی، بچوں کی پراہ کیے بغیر کھڑے ہیں یا ہماری حفاظت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ہم یہ عید اُن کے لیے خاص کردیں۔


ہم اپنے بچوں کی طرح اُن کے بچوں کے لیے تحائف لیں۔ جس طرح عید پر ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں۔ ہم شہداء کے گھروں پر بھی جائیں۔ ان کے بچوں کو بھی عیدی دیں۔ انہیں گلے لگائیں، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیریں اور اپنے ساتھ چمٹا کر اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ وہ قوم کے سپوت ہیں۔ وہ ان عظیم لوگوں کی اولاد ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے وہ ہمیشہ اپنا سر فخر سے بلند کیے رکھیں گے۔ پھر عید کے بعد ان کو دی گئی اس خوشی کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں کردار کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں اور یتیموں کی پرورش کرکے جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ساتھی بن جائیں۔

یہ تو تھی ورثاء شہداء کے ساتھ عید منانے کی بات، لیکن جب آپ عیدگاہ کی طرف جا رہے ہوں گے تو آپ کو کچھ اور لوگ بھی نظر آئیں گے۔ وہ اپنے جسموں پر نئے لباس سجائے ہوئے نہیں ہوں گے بلکہ باوردی ہوں گے۔ ان کا بھی احساس کرنا ہے۔ ان کے گھر بھی ہیں، بچے بھی ہیں، والدین بھی ہیں۔ مگر یہ اپنی بیوی، بچوں یا والدین کے ساتھ عید نہیں منارہے بلکہ آپ کی حفاظت کے لیے یہاں کھڑے ہیں۔ عید کی خوشیوں میں ان کو بھی یاد رکھیں۔ نماز عید کے بعد ان کو گلے لگائیں۔ باقی احباب کی طرح ان کو بھی عزت دیں۔ اگر انہیں بھی آپ اس معاشرے کا حصہ ہونے کا احساس دلائیں گے تو وہ اپنے ہم وطنوں پر فخر کریں گے۔ پھر ان کو اپنی ڈیوٹی بوجھ نہیں بلکہ ایک اہم فریضہ لگے گی۔

میں اپنی بات کا اختتام تمام مسلمانوں کو دل کی گہرائیوں سے عید کی مبارکباد اور اپنی خصوصی دعاؤں میں پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے امن و سلامتی کی دعاؤں کی گزارش کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔

[poll id="541"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story